کراچی کی کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی سپریم کورٹ

کارساز، شاہراہ فیصل، راشد منہاس پر قائم تمام شادی ہالز اور کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سینما گھروں کو گرانے کا حکم

کراچی کی صورتحال پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، جسٹس گلزار احمد۔ فوٹو: فائل

غیر قانونی تجاوزات کیس میں جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس شہر کی کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی، شہر کی تباہی میں سب اداروں کی ملی بھگت شامل ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی رپورٹ مسترد کردی جب کہ عدالت نے کراچی کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شہر کی تباہی پر سندھ حکومت کو فوری کابینہ کا اجلاس بلانے کا حکم دیا۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب، ہمیں لوریوں سے سلانے کی کوشش مت کریں، آپ لوگ کٹھ پتلیاں ہیں کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، کراچی کی صورتحال پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہمیں 1950 کے بعد والا اصل ماسٹر پلان لا کردیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اس شہر کی کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی، شہر کی تباہی میں سب اداروں کی ملی بھگت شامل ہے، بتایا جائے شہر کی بے ہنگم اور غیر قانونی عمارتوں کو کیسے گرایا جا سکتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، بیرون ملک سے ٹاؤن پلانرز بلائیں اور مشورہ کریں، شہر ایسے ہوتے ہیں، جائیں انگریزوں سے ہی پوچھ لیں۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا آپ بجا فرما رہے ہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں، جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہرکوئی امریکا، کینیڈا میں جائیداد بنانا چاہتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، آپ سب جانتے ہیں یہاں ہو کیا رہا ہے، یہ بیوروکریٹس عوام کے پیسے پر پلتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے، سندھ حکومت 2 ہفتوں میں رپورٹ دے کہ شہر کا کرنا کیا ہے۔


عدالت حکم دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت شہر کی تباہی پر ماہرین سے مشاورت کرے، مئیر لندن صادق پاکستانی نژاد ہیں، انہی سے پوچھیں شہر کیسے بسائے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں کارساز، شاہراہ فیصل، راشد منہاس پر قائم تمام شادی ہالز اور کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سینما گھروں، کمرشل پلازے اور مارکیٹس گرانے کا بھی حکم دیا۔

جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کیا فوجیوں کا کام شادیاں کرانا ہے۔ فوج کو کیا ہو گیا ہے, کن کاموں میں پڑ گئے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریماکس میں کہا کہ کیا ڈی ایچ اے والے سمندر کو امریکہ سے ملانا چاہتے ہیں۔ وفاقی نہ صوبائی یہاں حکومت ڈی ایچ اے والے کر رہے ہیں۔ لاہور میں تو ڈی ایچ اے نے اتنی عمارتیں بنا ڈالیں بھارت تک جا پہنچے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ان کا کام یہی رہ گیا ہے۔ ڈی ایچ اے والے سمندر کو بھی بیچ رہے ہیں۔ان کا بس چلے تو یہ سڑکوں پر بھی شادی ہالز بنا ڈالیں۔ نیوی اور ائیرفورس کے اسلحہ ڈیپو کے قریب شادی ہالز بن رہے ہیں مہران بیس جہاں حملہ ہوا وہاں بھی شادی ہالز چل رہے ہیں۔ اسلحہ ڈپو کے قریب کس طرح شادی ہالز بن سکتے ہیں، یہ کر کیا رہے ہیں۔

سماعت کے دوران عسکری پارک سے متعلق معاملہ آیا۔ جس پر سپریم کورٹ کا عسکری پارک سے متعلق بڑا فیصلہ سامنے آگیا۔ جسٹس گلزار احمد نے عسکری پارک فوری طور پر سول ادارے کے ماتحت کرنے اور عوام الناس کے لیے کھولنے کا حکم دیدیا۔
Load Next Story