جھوٹ کی سواری

ہمارے معاشرے میں کتنی ہی بے بنیاد باتیں ’لوگ کہتے ہیں‘ کا سہارا لے کر تناور درخت بن چکی ہیں

بعض حضرات نے جھوٹ کو اس کی سواری فراہم کرتے ہوئے دین کے کاموں میں بھی کچھ تجاوزات کی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہر دور میں اپنے حضر کو سفر میں بدلنے کےلیے کسی سواری کا انتخاب کرتا رہا ہے۔ پھر دیکھا جائے تو اسلام میں سواری کے اعتبار سے گھوڑے اور اونٹ کا بہت بڑا مقام ہے کہ انہیں جہاں سفر کےلیے استعمال کیا جاتا رہا، وہیں ان سے جنگ میں بھی بہت سے فوائد حاصل کیے گئے۔ عرب شعراء کی شاعری پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں بہت سے ایسے شعراء ملیں گے کہ جنہوں نے صرف اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی اعلی صفات بیان کرنے کےلیے ہی کئی اشعار کہہ ڈالے۔ اب اگر دور جدید کی بات کی جائے تو اس میں بہت سی آرام دہ اور تیز رفتار سواریاں ایجاد ہوچکی ہیں جبکہ آنے والا زمانہ نہ جانے اور کیا کچھ سامنے لائے گا، اب اس کا انتظار ہے۔

یہ تو بات تھی انسانی سواری کی، لیکن انسان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں سواری کا استعمال کرتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جھوٹ بھی ہے؛ کہ یہ بھی بہت بڑے بڑے سفر کرتا ہے اور کبھی اس سے واسطہ پڑجائے تو یہ لوگوں کو بھی سفر کراتا ہے... اور کبھی کبھی تو ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ انسان اس پر اعتماد کرکے سفر بھی ترک کردیتا ہے۔

یہ روپ دھارنے میں بھی بہت ماہر ہے۔ کبھی انتہائی بڑا ہوکر بھی چھوٹا سا لگتا ہے جبکہ اس کا متکلم کوئی غیر سنجیدہ انسان ہو؛ اور کبھی بہت چھوٹا ہو کر بھی بہت بڑا بن جاتا ہے جب اس کا متکلم معتمد انسان ہو۔ لیکن یاد رہے کہ ہوتا یہ بہرحال جھوٹ ہی ہے۔ البتہ اس کے کچھ درجے بنا لیے جاتے ہیں۔ کبھی یہ موجود ہوتا ہے لیکن اس کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا؛ اور یہ تب ہوتا ہے جب عام بات چیت میں بچوں کو بہلانے کےلیے کچھ لے کر دینے کا کہا جاتا ہے لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا جاتا۔ کبھی بڑوں سے بات کرتے ہوئے بھی اس کی موجودگی معلوم نہیں ہوتی اور ایسا تب دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی انسان عام طور پر کسی کام کے ہونے یا کرنے کے پانچ یا دس منٹ بتائے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ کبھی یہ موجود نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس کی موجودگی کا ایک خوف سر پر مسلط رہتا ہے؛ اور یہ معاملہ تب ہوتا ہے جب کوئی دھوکے باز، کوئی سچ بات بتا رہا ہو۔

اصل بات تو اس کی سواری کی ہو رہی تھی لیکن درمیان میں اس کے کچھ روپ بھی ذکر ہوگئے۔ اس کی سواری گھوڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی سواری اونٹ ہوتا ہے۔ نہ اس کے پاس اتنی رقم ہوتی ہے کہ یہ جہاز پر سفر کرے، نہ یہ اتنا غریب ہے کہ بس میں (اگرچہ میٹرو ہی کیوں نہ ہو)سفر کرسکے؛ اور نہ ہی یہ متوسط درجے کا ہوتا ہے کہ گرین لائن پر سفر کرپائے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ جہاز میں بھی ملے گا اور بس میں بھی، ٹیکسی میں بھی اور ٹرک میں بھی۔ اس کی سواری ہماری زبان سے نکلنے والا ایک چھوٹا سا جملہ ہوتا ہے (اور اگر میں کہوں کہ چھوٹا سا اور اکثر بے تکا اور جھوٹا جملہ ہوتا ہے تو شاید یہ غلط نہ ہوگا): ''کسی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا۔'' یہ جملہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح اکثر لوگ دوسروں کے کندھوں پر اپنی زبان کی بندوق رکھتے ہیں اور چلاتے ہی جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کس کے دامن کو پاک اور کس کو داغدار کیا اور کس کو محب وطن اور کس کو غدار بنایا۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا ایسا جملہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے کندھوں پر جھوٹ کی بندوق، یا اس سے بھی ایک قدم آگے، توپ رکھ کر چلائی جاتی؟ تو وہ جملہ امام غزالیؒ نے ''احیاء العلوم'' میں آپﷺ سے اس طرح نقل کیا ہے: ''بئس مطیَۃ الکذبِ زعموا'' یعنی جھوٹ کی سب سے بری سواری یہ جملہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں۔ اب اس جملے کو ذہن میں رکھ کر آپ لوگوں کی روزمرہ کی گفتگو پر توجہ دیں تو آپ کو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹ کی یہ سواری کتنی عام ہوچکی ہے؛ اور اس سے کتنے ہی فسادی فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے کسی بھی مخالف کے خلاف کوئی من گھڑت بات کہہ دیتے ہیں۔


ذرا تصور کیجیے کہ کسی کے خلاف کوئی من گھڑت بات کہی جائے اور خود کو بدنامی سے بچانے کےلیے اس بات کے شروع یا آخر میں اس جملے کا اضافہ کر دیا جائے، ''لوگ کہتے ہیں'' تو کیا اہل علم و دانش آپ کی اس بات پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں!

ہمارے معاشرے میں کتنی ہی بے بنیاد باتیں اس جملے کا سہارا لے کر ایک تناور درخت کی طرح مضبوط ہوچکی ہیں۔ اگر ان باتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت سے لوگ آپ کو مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں سے جو فتنے و فساد پیدا ہوتے ہیں، وہ الگ ہیں۔ بعض حضرات نے جھوٹ کو اس کی سواری فراہم کرتے ہوئے دین کے کاموں میں بھی کچھ تجاوزات کی ہیں۔

اس کی ایک مثال آپ یہ لے لیجیے کہ صفر کے مہینے کو نحوست کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اور کچھ اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی اس مہینے میں آپ کو کسی اہم کام کی ابتداء سے منع کریں گے۔ ان کی دلیل یہی ہے کہ لوگ کہتے ہیں۔ جب آپ اس کی تحقیق کریں گے کہ ایسا کیوں ہے، اس کی وجہ کیا ہے، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا؛ اور وہ بھی مرا ہوا! کیونکہ حقیقت میں یہ صرف لوگ ہی کہتے ہیں۔ باقی آپ کو اسلامی تعلیمات کا اس قسم کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ملے گا۔ یہ بات صرف اور صرف جھوٹ کی سواری پر سوار ہوکر اتنی مشہور و معروف ہو چکی ہے۔

لہذا ہرفرد کی اپنی ذات تک یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلاتحقیق کسی بات کو آگے نہ پھیلائے۔ اسی طرح اس کی ذات ایک معتمد شخصیت بن جائے گی اور معاشرے میں اس کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہ ہوگی۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں بے بنیاد باتوں کے پھیلاؤ کا سبب بننے سے بچائے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story