سو موٹو اور جوڈیشل ایکٹوازم

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان میں گڈگورننس ڈنڈے سے نہیں آسکتی۔ گڈ گورننس معاشرتی شعور کے نتیجے میں آتی ہے۔

msuherwardy@gmail.com

KARACHI:
میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس ہوتے تو اب تک سانحہ ساہیوال پر سو موٹو لے چکے ہوتے۔ انھوں نے آئی جی، سی ٹی ڈی کے ذمے داران اور حکومت پنجاب کے تمام افسران سمیت وزیر اعلیٰ کو عدالت میں کھڑا کیا ہوتا۔ کوئی بعید نہیں تھا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کو بھی ساتھ کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا اور چیف جسٹس ڈرائیونگ سیٹ پر نظر آتے۔

ان کے ریمارکس ہی ہیڈلائنز بنتے ہیں۔ متاثرین کے معاوضہ کا تعین بھی سپریم کورٹ ہی کر رہی ہوتی ۔ ایک ایسا منظر بن جاتا ہے جس میں ایسا نظر آتا ہے کہ ملک میں سپریم کورٹ کے سوا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس کھوسہ نے منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ سانحہ ساہیوال پر اب حکومت بھی متحرک نظر آرہی ہے۔

پارلیمنٹ بھی متحرک نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن بھی متحرک نظر آرہی ہے۔ پاکستان ایک زندہ معاشرہ نظر آرہا ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں۔ حکومت جواب دے رہی ہے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر بات کر رہی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے تمام ادارے متحرک ہیں۔ ساری اکائیاں اپنا کام کر رہی ہیں۔ اب بھی یہی نظر آرہا ہے کہ ذمے داران کو قرار واقعی سزا ملے گی۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب کسی معاملہ پر سپریم کورٹ از خود نوٹس لے لیتی ہے تو ریاست کے تمام ادارے مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ساری اکائیاں مائنس ہوجاتی ہیں۔ پارلیمنٹ بے اثر ہو جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی غیر فعال ہوجاتی ہیں۔ تفتیش کرنے والے ادارے غیر ضروری دباؤ میں آجاتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست ہی بے اثر ہو جاتی ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ ساہیوال سے چیف جسٹس پاکستان کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ سو موٹو صرف ایسی ناگزیر حالت میں لینا چاہیے جب قانون میں کوئی اور ریلیف میسر نہ ہو۔ جب قانون میں راستے موجود ہوں تب سپریم کورٹ کو از خود نوٹس کے اختیارات کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح باقی ادارے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے سانحہ ساہیوال پر سو موٹو نہ لے کر چیف جسٹس پاکستان نے باقی اداروں کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا۔یہی درست آئینی اور قانونی طرز عمل ہے۔


ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان میں گڈگورننس ڈنڈے سے نہیں آسکتی۔ گڈ گورننس معاشرتی شعور کے نتیجے میں آتی ہے۔ گڈ گورننس ایک سوچ کا نام ہے۔ ایک ذمے داری کا احساس ہے۔ یہ معاشرہ کے دباؤ کے نتیجے میں آتی ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہیں۔ وہاں یہ معیار کسی سوموٹو کے بار بار استعمال کے نتیجے میں نہیں قائم ہوئے۔ بلکہ وہاں کے معاشرتی شعور اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں گڈ گورننس آئی ہے۔ اس لیے اگر عوام کی آواز کو سامنے آنے دیا جائے۔ معاشرتی شعور کو بڑھنے دیا جائے تو ملک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سو موٹو اختیارکا بار بار استعمال ایک شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ۔یہ بیماری کا علاج نہیں لیکن کسی ایک موقع پر درد کم کرنے کی دوا تو ہوسکتی ہے، یہ انصاف کا متبادل نہیں ہے۔ جلد از جلد انصاف کی فراہمی کے لیے جیوڈیشل ریفارمز بھی جیوڈشیل ایکٹوزم کی ہی ایک شکل ہیں۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ماضی میں جائیں تو قصور میں معصوم بچی زینب سے زیادتی کے کیس میں عدالت میں سو موٹو لیا تھا۔ لیکن ملزم کسی سو موٹو کے نتیجے میں گرفتار نہیں ہوا تھا بلکہ عوامی اور معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے تفتیشی اداروں نے گرفتار کیا تھا تا ہم اس کی گرفتاری کے بعد جتنا جلد اس مقدمہ کی سماعت مکمل ہوئی اور ملزم کیفر کردار تک پہنچا وہی اس کا سب سے مثبت پہلو تھا۔ میری رائے میں اس طرح کے ہولناک مقدمات سمیت تمام مقدمات میں جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہی عدلیہ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر عدلیہ یہ فیصلہ کرے کہ سانحہ ساہیوال کے مقدمہ کی سماعت زینب کیس کی طرح چند دنوں میں مکمل کی جائے گی۔ اپیلوں کی سماعت بھی چند ہفتوں میں مکمل ہوگی اور ملزمان چند ماہ میں ہی اپنے انجام تک پہنچیں گے۔ تو یہ جیوڈیشل ایکٹوزم کی مثبت شکل ہوگی۔

محترم چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اعلان کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا فوجداری اپیلوں کا فیصلہ اگلے تین ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ بہت ہی خوش آیند ہے۔ زیر التوا مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہی اصل جیوڈیشل ایکٹوزم ہے۔ یہی بہترین سو موٹو ہے۔ میری رائے میں چیف جسٹس پاکستان کو فوری طور پر چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا اجلاس بلانا چاہیے۔ انھیں چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ مل کر کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے کہ کس طرح موجودہ وسائل میں مقدمات کو جلد از جلد نبٹایا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک مزید وسائل کی ضرورت ہے اس ضمن میں بھی عدلیہ کو قابل عمل تجاویز اور ڈیمانڈ سامنے لانی چاہیے تاکہ ان پر بحث ہو سکے۔

آج ملک میں جیوڈیشل ایکٹوزم کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔لیکن جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہی جیوڈیشل ایکٹوزم کی بہترین شکل ہے۔ سوموٹو کی جگہ مقدمات کو نبٹانے کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ عدلیہ کو اپنے اندر احتساب کے عمل کو بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم جیوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ماتحت عدلیہ کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ میں ہڑتالوں کے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے تو ایک نئے چارٹر آف گورنمنٹ کی تو ضرورت ہے لیکن بار اور بنچ کو ایک نئے کوڈ آف کنڈکٹ پر متفق ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سو موٹو کا خاتمہ بھی خوش آیند ہے۔
Load Next Story