والدین کے حقوق
قرآن کریم نے ماں کے حق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ماں کی قربانیاں بھی زیادہ ہیں۔
اسلام نے خاندان کو خاص اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے تمام افراد پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں۔ لیکن والدین کا مرتبہ اور عظمت خاندان اور نسل کی نشو و نما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کریم نے ماں کے حق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ماں کی قربانیاں بھی زیادہ ہیں۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: '' اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔''
سورہ اسرا میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: '' اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔''
اگر کو ئی شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ اور برکت ہو تو وہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ والدین کی طرف ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھنا عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے۔ اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہوں پھر بھی اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اور والدین کے عاق ہونے کا نتیجہ، نماز کا قبول نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے: ''جو کوئی اپنے والدین کی طرف نفرت سے دیکھے جب کہ والدین نے اس پر ظلم بھی کیا ہو تب بھی اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔''
رسولِ کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے: اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ اور سارے گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے سوائے والدین کے ستانے کے کہ اس کی سزا مرنے سے پہلے جلد دنیا میں دے دیتا ہے۔
اگر والدین یا ان میں سے ایک غیر مسلم یا فاسق یا کافر ہو تب بھی قابل احترام ہیں، ان سے اچھے روابط رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جو شخص ماں کو گالی دے یا ان کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرے گا وہ خدا کی رحمت سے دور ہوجائے گا۔ ماں باپ کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے والا سزا کا مستحق ہے اور اس کے لیے بربادی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے رسولِ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے والدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے خدا اس کے لیے ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج لکھ دے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اگر کوئی سو مرتبہ دیکھے تب بھی یہی بات ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: خدا بہت بڑا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔
اور رسولِ کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے سب سے اچھا دروازہ ہے، اب تجھ کو اختیار ہے کہ اس دروازے کی حفاظت کرے یا ضایع کردے۔
بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم:
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری زندگی میں پڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ''اُف'' بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر بات کرنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ کہنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے۔ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کرکے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں۔ اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو ''اُف'' بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہار بھی مت کر نا۔
نبی کریمؐ کے فرمان کا مفہوم ہے : '' کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں۔ لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپؐ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔''
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ''اُف'' سے کم درجہ ہوتا تو اللہ جلَّ شانہْ اسے بھی حرام فرما دیتے۔
اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت کے بعد اطاعت والدین کا درجہ ہے اور گناہ میں شرک کے بعد والدین کی نافرمانی کا درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے ساتھ نافرمانی کی مختلف قسم کی شدید سزائیں وارد ہیں۔ ماں باپ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے یعنی باعث نجات اور سعادت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتی کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہیے۔
قرآن کریم نے ماں کے حق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ماں کی قربانیاں بھی زیادہ ہیں۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: '' اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔''
سورہ اسرا میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: '' اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔''
اگر کو ئی شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ اور برکت ہو تو وہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ والدین کی طرف ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھنا عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے۔ اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہوں پھر بھی اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اور والدین کے عاق ہونے کا نتیجہ، نماز کا قبول نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے: ''جو کوئی اپنے والدین کی طرف نفرت سے دیکھے جب کہ والدین نے اس پر ظلم بھی کیا ہو تب بھی اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔''
رسولِ کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے: اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ اور سارے گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے سوائے والدین کے ستانے کے کہ اس کی سزا مرنے سے پہلے جلد دنیا میں دے دیتا ہے۔
اگر والدین یا ان میں سے ایک غیر مسلم یا فاسق یا کافر ہو تب بھی قابل احترام ہیں، ان سے اچھے روابط رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جو شخص ماں کو گالی دے یا ان کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرے گا وہ خدا کی رحمت سے دور ہوجائے گا۔ ماں باپ کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے والا سزا کا مستحق ہے اور اس کے لیے بربادی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے رسولِ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے والدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے خدا اس کے لیے ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج لکھ دے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اگر کوئی سو مرتبہ دیکھے تب بھی یہی بات ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: خدا بہت بڑا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔
اور رسولِ کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے سب سے اچھا دروازہ ہے، اب تجھ کو اختیار ہے کہ اس دروازے کی حفاظت کرے یا ضایع کردے۔
بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم:
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری زندگی میں پڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ''اُف'' بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر بات کرنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ کہنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے۔ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کرکے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں۔ اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو ''اُف'' بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہار بھی مت کر نا۔
نبی کریمؐ کے فرمان کا مفہوم ہے : '' کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں۔ لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپؐ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔''
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ''اُف'' سے کم درجہ ہوتا تو اللہ جلَّ شانہْ اسے بھی حرام فرما دیتے۔
اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت کے بعد اطاعت والدین کا درجہ ہے اور گناہ میں شرک کے بعد والدین کی نافرمانی کا درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے ساتھ نافرمانی کی مختلف قسم کی شدید سزائیں وارد ہیں۔ ماں باپ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے یعنی باعث نجات اور سعادت ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتی کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہیے۔