طالبان کا ایجنڈا
ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی سائیکل ریس کا اہتمام کیا ، مذہبی انتہاپسندوں نے واویلا شروع کر دیا۔
خیبر پختون خوا میں طالبان کے سائے اب بھی گہرے ہیں، اگرچہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر حقائق سے محسوس ہوتا ہے کہ ایم ایم اے کی حکومت ہے ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی سائیکل ریس کا اہتمام کیا ، مذہبی انتہاپسندوں نے واویلا شروع کر دیا۔
انھیں خواتین کے سائیکل چلانے میں فحاشی اور عریانی نظر آنے لگی، یوں حکومت خوف کا شکار ہوئی۔ خیبر پختون خوا کے محکمہ کھیل نے خواتین کی سائیکل ریس سے فاصلے بڑھائے اور یہ ریس ملتوی کردی گئی۔گزشتہ عام انتخابات میں ایک پاکستانی سکھ کو اتنی دھمکیاں ملیں کہ وہ پشاور چھوڑ گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سائیکل ریس پر پابندی لگاتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کی پیروی کی تھی۔ پرویز مشرف دور میں جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو لاہور میں خواتین کی میراتھن ریس کے انعقاد پر پابندی لگادی گئی۔
انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں جب خواتین نے میرا تھن ریس میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی تو اسے روکنے کے لیے پولیس کی مدد لی گئی۔ جن لوگوں نے 40 ء اور 50ء کی دھائی کا ہندوستان دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ شہروں میں خواتین سائیکلوں پر سوار ہوتی تھیں ، اپنے تعلیمی اداروں میں جاتی تھیں۔ جو خواتین کام کرتی تھیں وہ سائیکلوں کو بطور سواری استعمال کرتی تھیں۔ ان خواتین میں ہندو اور مسلمان سب شامل ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ صرف دہلی، کلکتہ، بمبئی اور لاہور کا نہیں بلکہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ کا بھی تھا۔
پھر 60ء اور 70ء کی دہائی تک یہ دور جاری رہا۔ بھارت میں خواتین کی برابری کی حیثیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وہاں خواتین کے سائیکلوں کے استعمال کو ان کی اقتصادی اور سماجی آزادی کے تصور سے منسلک کیا گیا۔ جب بھارت میں شہر پھیلنے لگے اور نئی آبادیاں قائم ہوئیں تو پھر ٹرام اور بسوں کے نئے نظام کے قائم ہونے کے باوجود خواتین کی ڈرائیونگ کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اب خواتین چھوٹے اسکوٹر چلاتی نظر آئیں۔
بھارت میں خواتین کے اسکوٹر چلانے کے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے۔ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی۔ تعلیم یافتہ خواتین روزگار کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئیں۔ خود اسکوٹر استعمال کرنے سے وہ بس اسٹاپس پر طویل قطاروں میں وقت ضایع کرنے سے بچ گئیں ۔ بسوں، ٹرام اور ریل گاڑیوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔ خواتین کے اسکوٹر چلانے سے اہل خانہ کو بہت سی آسانیاں حاصل ہوئیں۔ یہ خواتین اپنے رشتے داروں کا سہارا بن گئیں، یوں گھر کے کام کاج کے لیے مردوں پر سے بوجھ کم ہوا۔ جب زیادہ خواتین سڑکوں پر متحرک نظر آئیں تو جنسی ہراسگی کے واقعات میں فرق پڑا ۔
ہمارے ملک میں خواتین کی آزادی کے تصور کو حقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ملک کے بانی محمد علی جناح خواتین کی آزادی کو ضروری جانتے تھے۔ محمد علی جناح نے 20ویں صدی کے آغاز پر کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی تھی، یہ وہ وقت تھا جب تمام ہندو اور مسلمان مذہبی رہنماؤں کے دباؤ پر اس قانون کی مخالفت کررہے تھے۔ پھر انھوں نے خواتین کی پسند کی شادی کی بھرپور حمایت کی۔ بمبئی ہائی کورٹ نے جناح کی رتی سے پسند کی شادی کے مقدمے میں تاریخی فیصلہ دیا جو آج بھی پسند کی شادی کے مقدمات میں نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جناح صاحب پہلے مسلمان رہنما تھے جنہوں نے اپنی اہلیہ رتی کو اپنی سیاسی تحریک میں شامل کیا۔ رتی نے جناح صاحب کے ہمراہ اس وقت کے معروف اخبار بمبئی کرانیکل پر سنسر لگانے اور اس کے انگریز ایڈیٹر کو ہندوستان بدر کرنے کے خلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ رتی جدید لباس پہنتی اور جناح صاحب کے ساتھ تقریبات میں شرکت کرتیں۔ بعض رجعت پسند مسلمان رتی کے لباس پر اعتراضات کرتے مگر محمد علی جناح نے ان اعتراضات کو کبھی اہمیت نہ دی۔
بانی پاکستان نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ کو اپنا ساتھی بنایا۔ فاطمہ پاکستان کی تحریک میں اپنے بھائی کی ہم رکاب رہیں۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ فاطمہ نے تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان میں ہونے والے بڑے جلسے جلوسوں میں شرکت کی۔ فاطمہ جناح 1964ء میں جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے صدارتی انتخاب میں مقابلہ پر آئیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین کے ذریعے خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو دور میں خواتین کی بہبود کے لیے قانون سازی ہوئی۔
خواتین کو اہم عہدے دیے گئے مگر جنرل ضیاء الحق کا دور خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے بدترین دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے امتناعی قوانین کے ذریعے خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کم ترکرنے کی کوشش کی۔ خواتین کو گھروں میں مقید ہونے اور خواتین کوگھریلو کام کاج تک محدود ہونے کا درس دیا جانے لگا۔ مذہبی جنونیت کو سوویت یونین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔
افغانستان میں سوویت یونین کو تو شکست ہوئی مگر مذہبی انتہاپسندی نے افغانستان اور پاکستان کے معاشروں کی ساخت کو تباہ کردیا۔ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کا ایک بدترین دور شروع ہوا اور طالبان اقتدار میں آئے۔ طالبان کا دور انسانیت کی بربادی کا دور تھا۔ اس دور میں خواتین سے تعلیم اور روزگارکا حق چھین لیا گیا۔ طالبان کی رجعت پسند پالیسیوں کے اثرات پاکستان پر پڑے۔ نائن الیون کے بعد جب القاعدہ اور طالبان کے جنگجو قبائلی علاقوں میں متحرک ہوئے تو انھوں نے خواتین کے اسکولوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
جب ملا فضل اﷲ نے سوات میں شریعت نافذ کی تو خواتین کوگھروں میں بند کر دیا گیا ۔ ملالہ یوسفزئی کا صرف ایک ہی جرم ہے کہ اس نے طالبان کے دور میں سوات میں خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے فلسفی نام سے منتقل کیا، یوں ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتیں ملالہ کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں ملوث رہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف ان رجعت پسند قوتوں کی ہم نوا رہی۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان برطانیہ کے نظام کو آئیڈیالائزکرتے ہیں۔
وہ خواتین کی برابری کے تصورکے بھی حامی ہیں اور ان کی جماعت میں خواتین بھاری تعداد میں شامل رہیں مگر ان کی جماعت نے مذہبی رجعت پسندانہ بیانیہ کی نفی کبھی نہیں کی۔ تحریک انصاف کی خیبر پختون خواہ کی قیادت میں ایک مذہبی جماعت سے علیحدہ ہونے والے کئی رہنما شامل ہیں۔ یہ رہنما اسی سوچ کو تحریک انصاف میں ساتھ لائے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس رجعت پسندانہ سوچ کی نفی کی کوشش نہیں کی۔ وہ شہباز شریف پر خوب حملے کرتے ہیں مگر پنجاب میں شہباز شریف حکومت نے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف جامع قانون نافذ کیا اور موٹر سائیکل سوار خواتین کی پولیس میں ایک نئی فورس تشکیل دی گئی۔ سابقہ حکومت میں پنجاب کے مختلف شہروں میں خواتین پولیس اہلکاروں کو موٹرسائیکل دستہ میںشامل کیا گیا۔ پنجاب حکومت کی اس وقت یہ پالیسی تھی کہ خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے لیے انھیں موٹرسائیکل فراہم کرنی چاہیے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی تبدیلی لانے کے نعرے کو سن کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ حکومت خواتین کو اسکوٹر چلانے کے لیے قرضوں کی جامع اسکیم تیار کرے گی مگر پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی سے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایم ایم اے کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنفی ناہمواری کے لیے کوئی جامع اسکیم ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔ اب پختون خوا میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی لگا کر طالبان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان کی حکومت اور مذہبی رہنماؤں کی ایک جیسی پالیسیاں خواتین اور ترقی کے لیے خطرناک ہیں۔
انھیں خواتین کے سائیکل چلانے میں فحاشی اور عریانی نظر آنے لگی، یوں حکومت خوف کا شکار ہوئی۔ خیبر پختون خوا کے محکمہ کھیل نے خواتین کی سائیکل ریس سے فاصلے بڑھائے اور یہ ریس ملتوی کردی گئی۔گزشتہ عام انتخابات میں ایک پاکستانی سکھ کو اتنی دھمکیاں ملیں کہ وہ پشاور چھوڑ گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سائیکل ریس پر پابندی لگاتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کی پیروی کی تھی۔ پرویز مشرف دور میں جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو لاہور میں خواتین کی میراتھن ریس کے انعقاد پر پابندی لگادی گئی۔
انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں جب خواتین نے میرا تھن ریس میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی تو اسے روکنے کے لیے پولیس کی مدد لی گئی۔ جن لوگوں نے 40 ء اور 50ء کی دھائی کا ہندوستان دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ شہروں میں خواتین سائیکلوں پر سوار ہوتی تھیں ، اپنے تعلیمی اداروں میں جاتی تھیں۔ جو خواتین کام کرتی تھیں وہ سائیکلوں کو بطور سواری استعمال کرتی تھیں۔ ان خواتین میں ہندو اور مسلمان سب شامل ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ صرف دہلی، کلکتہ، بمبئی اور لاہور کا نہیں بلکہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ کا بھی تھا۔
پھر 60ء اور 70ء کی دہائی تک یہ دور جاری رہا۔ بھارت میں خواتین کی برابری کی حیثیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وہاں خواتین کے سائیکلوں کے استعمال کو ان کی اقتصادی اور سماجی آزادی کے تصور سے منسلک کیا گیا۔ جب بھارت میں شہر پھیلنے لگے اور نئی آبادیاں قائم ہوئیں تو پھر ٹرام اور بسوں کے نئے نظام کے قائم ہونے کے باوجود خواتین کی ڈرائیونگ کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اب خواتین چھوٹے اسکوٹر چلاتی نظر آئیں۔
بھارت میں خواتین کے اسکوٹر چلانے کے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے۔ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی۔ تعلیم یافتہ خواتین روزگار کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئیں۔ خود اسکوٹر استعمال کرنے سے وہ بس اسٹاپس پر طویل قطاروں میں وقت ضایع کرنے سے بچ گئیں ۔ بسوں، ٹرام اور ریل گاڑیوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔ خواتین کے اسکوٹر چلانے سے اہل خانہ کو بہت سی آسانیاں حاصل ہوئیں۔ یہ خواتین اپنے رشتے داروں کا سہارا بن گئیں، یوں گھر کے کام کاج کے لیے مردوں پر سے بوجھ کم ہوا۔ جب زیادہ خواتین سڑکوں پر متحرک نظر آئیں تو جنسی ہراسگی کے واقعات میں فرق پڑا ۔
ہمارے ملک میں خواتین کی آزادی کے تصور کو حقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ملک کے بانی محمد علی جناح خواتین کی آزادی کو ضروری جانتے تھے۔ محمد علی جناح نے 20ویں صدی کے آغاز پر کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی تھی، یہ وہ وقت تھا جب تمام ہندو اور مسلمان مذہبی رہنماؤں کے دباؤ پر اس قانون کی مخالفت کررہے تھے۔ پھر انھوں نے خواتین کی پسند کی شادی کی بھرپور حمایت کی۔ بمبئی ہائی کورٹ نے جناح کی رتی سے پسند کی شادی کے مقدمے میں تاریخی فیصلہ دیا جو آج بھی پسند کی شادی کے مقدمات میں نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جناح صاحب پہلے مسلمان رہنما تھے جنہوں نے اپنی اہلیہ رتی کو اپنی سیاسی تحریک میں شامل کیا۔ رتی نے جناح صاحب کے ہمراہ اس وقت کے معروف اخبار بمبئی کرانیکل پر سنسر لگانے اور اس کے انگریز ایڈیٹر کو ہندوستان بدر کرنے کے خلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ رتی جدید لباس پہنتی اور جناح صاحب کے ساتھ تقریبات میں شرکت کرتیں۔ بعض رجعت پسند مسلمان رتی کے لباس پر اعتراضات کرتے مگر محمد علی جناح نے ان اعتراضات کو کبھی اہمیت نہ دی۔
بانی پاکستان نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ کو اپنا ساتھی بنایا۔ فاطمہ پاکستان کی تحریک میں اپنے بھائی کی ہم رکاب رہیں۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ فاطمہ نے تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان میں ہونے والے بڑے جلسے جلوسوں میں شرکت کی۔ فاطمہ جناح 1964ء میں جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے صدارتی انتخاب میں مقابلہ پر آئیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین کے ذریعے خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو دور میں خواتین کی بہبود کے لیے قانون سازی ہوئی۔
خواتین کو اہم عہدے دیے گئے مگر جنرل ضیاء الحق کا دور خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے بدترین دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے امتناعی قوانین کے ذریعے خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کم ترکرنے کی کوشش کی۔ خواتین کو گھروں میں مقید ہونے اور خواتین کوگھریلو کام کاج تک محدود ہونے کا درس دیا جانے لگا۔ مذہبی جنونیت کو سوویت یونین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔
افغانستان میں سوویت یونین کو تو شکست ہوئی مگر مذہبی انتہاپسندی نے افغانستان اور پاکستان کے معاشروں کی ساخت کو تباہ کردیا۔ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کا ایک بدترین دور شروع ہوا اور طالبان اقتدار میں آئے۔ طالبان کا دور انسانیت کی بربادی کا دور تھا۔ اس دور میں خواتین سے تعلیم اور روزگارکا حق چھین لیا گیا۔ طالبان کی رجعت پسند پالیسیوں کے اثرات پاکستان پر پڑے۔ نائن الیون کے بعد جب القاعدہ اور طالبان کے جنگجو قبائلی علاقوں میں متحرک ہوئے تو انھوں نے خواتین کے اسکولوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
جب ملا فضل اﷲ نے سوات میں شریعت نافذ کی تو خواتین کوگھروں میں بند کر دیا گیا ۔ ملالہ یوسفزئی کا صرف ایک ہی جرم ہے کہ اس نے طالبان کے دور میں سوات میں خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے فلسفی نام سے منتقل کیا، یوں ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتیں ملالہ کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں ملوث رہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف ان رجعت پسند قوتوں کی ہم نوا رہی۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان برطانیہ کے نظام کو آئیڈیالائزکرتے ہیں۔
وہ خواتین کی برابری کے تصورکے بھی حامی ہیں اور ان کی جماعت میں خواتین بھاری تعداد میں شامل رہیں مگر ان کی جماعت نے مذہبی رجعت پسندانہ بیانیہ کی نفی کبھی نہیں کی۔ تحریک انصاف کی خیبر پختون خواہ کی قیادت میں ایک مذہبی جماعت سے علیحدہ ہونے والے کئی رہنما شامل ہیں۔ یہ رہنما اسی سوچ کو تحریک انصاف میں ساتھ لائے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس رجعت پسندانہ سوچ کی نفی کی کوشش نہیں کی۔ وہ شہباز شریف پر خوب حملے کرتے ہیں مگر پنجاب میں شہباز شریف حکومت نے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف جامع قانون نافذ کیا اور موٹر سائیکل سوار خواتین کی پولیس میں ایک نئی فورس تشکیل دی گئی۔ سابقہ حکومت میں پنجاب کے مختلف شہروں میں خواتین پولیس اہلکاروں کو موٹرسائیکل دستہ میںشامل کیا گیا۔ پنجاب حکومت کی اس وقت یہ پالیسی تھی کہ خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے لیے انھیں موٹرسائیکل فراہم کرنی چاہیے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی تبدیلی لانے کے نعرے کو سن کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ حکومت خواتین کو اسکوٹر چلانے کے لیے قرضوں کی جامع اسکیم تیار کرے گی مگر پشاور میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی سے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایم ایم اے کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنفی ناہمواری کے لیے کوئی جامع اسکیم ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔ اب پختون خوا میں خواتین کی سائیکل ریس پر پابندی لگا کر طالبان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان کی حکومت اور مذہبی رہنماؤں کی ایک جیسی پالیسیاں خواتین اور ترقی کے لیے خطرناک ہیں۔