جنگ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیتی
73 برس پہلے جب تین کروڑ روسی،چینی اور38 لاکھ ہندوستانی ہلاک ہوئےپھر ایٹمی ہتھیاروں کی اندھا دھند تیاری کیوں؟
اقوام متحدہ کی جانب سے سال میں کئی عالمی دن منائے جاتے ہیں جو کسی عالمی مسئلے یا واقعے کی اہمیت کو پوری دنیا میں اجاگر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر انسانی شعور کو اس اعتبار سے بیدارکیا جاتا ہے مگر 8 اور9 مئی دودن عالمی سطح پر ایسے ہیں جو دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی جانوں سے جانے والوں کی یاد میں اور ان کی قربانیاں تسلیم کرنے کے لیے منائے جاتے ہیں اور اس کے لیے یہ فیصلہ جنگ عظیم کے خاتمے کے59 سال بعد 22 نومبر 2004 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 59- 26 میں کیا اور کہا گیا کہ آٹھ مئی 1945 کو جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کی نازی فوجوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کو تسلیم کیا تھا، جنگ عظیم دوئم میں پانچ سے سات کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس وقت دنیا کی کل آبادی 2 ارب 30 کروڑ تھی اس آبادی میں سے تقریباً 3% افراد یعنی ہر 33 افراد میں سے ایک انسان جان سے گیا تھا۔
مرنے والوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد تعداد مردوں کی تھی۔ ہلاک ہونے والے ان سات کروڑ انسانوں میں دو کروڑ روسی، ایک کروڑ چینیوں کے علاوہ 38 لاکھ ہندوستانی بھی شامل تھے، جب کہ سابق سوویت یونین کی جانب سے جو دو کروڑ افراد ہلاک ہو ئے تھے ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے تیس فیصد کا تعلق سنٹرل ایشیا کی ریاستوں سے تھا جو 1990 میں آزاد ہوئیں، ان میں آذربائیجان ، ازبکستان،کرغیزستان، ترکمانستان، تاجکستان اور قازقستان شامل ہیں۔ جرمنی کے ہلاک ہونے والے فوجیوں اور سویلین کی مجموعی تعداد 42 لاکھ اور ہلاک ہونے والے کل جاپانی23 لاکھ تھے۔ اسی طرح ہلاک ہونے والے برطانوی اور فرانسیسی بھی تناسب کے لحاظ سے جرمنوں اور جاپا نیوں سے کہیں کم تھے۔
یورپ میں ہلاک ہونے والوں میں کسی ایک قوم اور نسل سے تعلق رکھنے والوں میں سب سے بڑی تعداد یہویوں کی تھی جو 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں نو سال پہلے ایل جے، فورمین نے یوں تبصرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے وقت 1939 میںجب دنیا کی مجموعی آبادی دو ارب 35 کروڑ تھی اس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تھی یوں دوسری جنگ عظیم میں اس وقت دنیا بھر میں کل یہودی آبادی کا 35.3% ایڈ ولف ہٹلر نے ہلاک کردیا۔ 2009 میں دنیا کی کل آبادی چھ ارب 70 کروڑ تھی اور ان 70 برسوں میں اس مجموعی آبادی میں 300 فیصد اضافہ ہوا تھا جب کہ یہودی مجموعی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ تھی۔ فور مین کے مطابق اگر 60 لاکھ یہودی ہلاک نہ کئے جاتے تو 2009 میں دنیا میں ان کی کل تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ ہوتی۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے 59 سال بعد 2004 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو کیوں خیال آیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہلاک ہونے والوں کو یاد رکھا جائے اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد مغربی یورپ ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا اور جاپان اس جنگ کی دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کر چکے تھے بلکہ سرد جنگ میں یہ سب ہی سابق سوویت یونین کے خلاف متحد تھے پھر نائن الیون کے تین برس بعد ہی دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کے اندیشوں میں مبتلا ہوگئی اور 2004 ء سے آج چودہ برس بعد یہ بہت اچھی طرح واضح ہوگیا ہے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کی طرح آئندہ کی کوئی بڑی جنگ یورپ خصوصاً مغربی یورپ کی بجائے ایشیا میں ہو گی اور بدقستمی یہ ہے کہ آج دنیا کے سب سے زیادہ تباہ کن غیر ایٹمی ہتھیار ہمار ے علاقے میں استعمال ہو رہے ہیں۔
گذشتہ سال افغانستان میں مدر آف آل بمبز کے استعمال پر پوپ فارنسس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ ماں محبت اور امن کی علامت ہے ایسے مقدس لفظ کو ایسے بھیانک ہتھیارکے لیے استعمال کرنا درست نہیں ۔ ایک جانب تو یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب ہمارے علاقے میں امن کی فضا تیزی سے جنگ کے بادلوں میں تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستا ن ، ایران ، افغانستان، بھارت جیسے آپس کے ہمسایہ ممالک جو سارک ،ایکو،کے علاوہ شنگھائی ،اور بریکس جیسی علاقائی تنظیموں کے رکن بھی ہیں ان کے تعلقات تنازعات کی حدت کے سبب اس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں اور یہ صورت اس وقت رونما ہو رہی ہے، جیسے کہ کسی بہتر زرعی فصل کے پکنے کے بعد کھلیان کو چند دنوں کے لیے دھوپ میں رکھا جائے اور اس کے قریب چنگاریاں اٹھنے لگیں، اگرچہ ابھی یہ ماحول کی بہتری ہے کہ ہوا تیز نہیں ہے لیکن یہ مہلت ہے بہتر ہے کہ پہلے ہی قریب کی چنگاریوں کو بجھا دیا جا ئے تو پھر ہوا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
8 اور9 مئی کو جب اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہو نے والوں کو یاد کیا جا رہا تھا تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت غیر منقسم ہندوستان کے 38 لاکھ افراد جنگ کی بھینٹ چڑھے تھے۔ سنٹرل ایشیا سمیت روس کے دو کروڑ اور چین کے ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس جنگ سے مغربی یورپ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور جاپان سب نے سبق سیکھا مگر ہم جو اب ماضی کے مقابلے میں ترقی بھی کرچکے ہیں، اب چین ، روس ، بھارت اور پاکستان جو نہ صرف ایٹمی قوتیں ہیں بلکہ اب اقتصادی اعتبار سے ایران ، افغانستان ، سنٹرل ایشیا، سمیت دنیا کی آدھی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہاں دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں ، جنگ کے بارے میں غفلت کا شکار ہیں۔ یہی ممالک اور ان کے عوام اب دنیا کی تقدیر بننے والے ہیں لیکن اگر ہم نے غلطیوں کا ارتکاب کیا تو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ہمارے اندازوں کی حدوں سے بالا ہیں اس لیے ہمیں سات سمندر پار کے ثالثوں کی بجائے آپس میں ہی معاملات طے کرنے چاہئیں اور اس موقع پر پاکستان،ایران اور افغانستان کو پہلے مرحلے میں اور دوسرے مرحلے میں ان تینوں ملکوں سمیت سنٹرل ایشیا کے ملکوں کے ساتھ چین ، بھا رت اور روس کی شمولیت کے ساتھ وسیع اور پائیدار بنیادوں پر معاملات طے کر لینے چاہئیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے کے ملکوں میں پراکسی وار جاری ہے، الزامات اور پروپیگنڈا اس طرح کی جنگ کے وہ ہتھیار ہیں جن کو روکنے کے لیے بہت ہی خلوص اور جذبہ امن کے ساتھ باہمی اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ماہرانہ ڈپلومیسی کی ضروت ہوتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان ممالک کو آپس میں دھونس اور دھمکیوں سے اجتناب کرنا ہوگا، یہاں ان ملکوں اور ان کی لیڈر شپ کو یہ بنیادی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ تو درست ہے کہ جنگ کوئی ایک ملک یا ایک فر یق شروع کرتا ہے مگر بعد میں جنگ کو روکنا یا ختم کرنا پھر ایک فریق یا ایک ملک کے اختیار میں نہیں ہوتا اور یہاں اس تلخ حقیقت کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگیں اگرچہ ہماری نہیں تھیں لیکن مرنے والوں میں اکثریت ہماری تھی اور اب اگر خدانخوستہ ہم خود جنگ چھیڑتے ہیں تو ۔۔ اس سے آگے کے سوالات ان ملکوں کے رہنماؤں کے سوچنے کے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کو بھی 1990 میں ختم کردیا گیا اور اگر خاتمہ کو ہم تسلیم نہ بھی کریں تو کم ازکم یہ تو مانیں گے کہ اب دیوار برلن نہیں رہی اور مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ملک ہو گئے، سابق سوویت یونین کی بجائے اب روس ہے اور روس کی بھی بہت سی ریاستیں نہ صرف اب آزاد ملکوں کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ مشرقی یورپ سے اشراکیت کے خاتمے کے بعد اور یورپی یونین میں توسیع کے ساتھ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک یورپی یونین میں شامل ہو چکے ہیں جس کی ایک کرنسی ہے، اب ویزہ اور پاسپورٹ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ ہمارے ہاں بشمول تین جنگوں کے 71 برس گزر نے کے بعد اب بھی ہم دو ہمسائے ایٹمی قوت بننے کے باوجود ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان 71 برسوں سے اپنے جنگی اخرجات میں اضا فہ کرتے رہے ہیں، حالانکہ جب کشمیر پر پہلی جنگ شروع ہوئی تھی تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود اقوام متحد ہ کی سکیورٹی کونسل میں کشمیر کے مسئلے کو لے گئے تھے اور اس بات پر پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔
بھارتی وزراء اعظم اب تک اس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ ہم نے بھارت اور پاکستان کی صورت میں سیاسی آزادی حاصل کی مگر جنگوں اور اسلحہ کی خریداری اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے ہم اقتصادی نوآبادیات کے شکنجے میں دبتے ہی جا رہے ہیں۔11 نومبر 2018 ء کو پہلی جنگ عظیم میں شریک ممالک نے اس کے سو سال بعد اس کی یاد کو منایا، اور اس پر ایک بار پھر یہ تجزیہ کیا کہ جنگ عظیم کے بعد فرانس کے محل وارسائی میں ہونے والے معاہدے میں بڑی غلطیاں تھیں، لیکن افسوس کہیں یہ نہیں کیا گیا کہ 1990 میں سرد جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ ، روس، بھارت اور دنیا کی دیگر قوتوں اور ملکوںسے کتنی غلطیاں ہوئیں اور اب 28 سال گزرنے کے بعد ان غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرنے کی کو ئی کوشش کی گئی؟
مرنے والوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد تعداد مردوں کی تھی۔ ہلاک ہونے والے ان سات کروڑ انسانوں میں دو کروڑ روسی، ایک کروڑ چینیوں کے علاوہ 38 لاکھ ہندوستانی بھی شامل تھے، جب کہ سابق سوویت یونین کی جانب سے جو دو کروڑ افراد ہلاک ہو ئے تھے ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے تیس فیصد کا تعلق سنٹرل ایشیا کی ریاستوں سے تھا جو 1990 میں آزاد ہوئیں، ان میں آذربائیجان ، ازبکستان،کرغیزستان، ترکمانستان، تاجکستان اور قازقستان شامل ہیں۔ جرمنی کے ہلاک ہونے والے فوجیوں اور سویلین کی مجموعی تعداد 42 لاکھ اور ہلاک ہونے والے کل جاپانی23 لاکھ تھے۔ اسی طرح ہلاک ہونے والے برطانوی اور فرانسیسی بھی تناسب کے لحاظ سے جرمنوں اور جاپا نیوں سے کہیں کم تھے۔
یورپ میں ہلاک ہونے والوں میں کسی ایک قوم اور نسل سے تعلق رکھنے والوں میں سب سے بڑی تعداد یہویوں کی تھی جو 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں نو سال پہلے ایل جے، فورمین نے یوں تبصرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے وقت 1939 میںجب دنیا کی مجموعی آبادی دو ارب 35 کروڑ تھی اس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تھی یوں دوسری جنگ عظیم میں اس وقت دنیا بھر میں کل یہودی آبادی کا 35.3% ایڈ ولف ہٹلر نے ہلاک کردیا۔ 2009 میں دنیا کی کل آبادی چھ ارب 70 کروڑ تھی اور ان 70 برسوں میں اس مجموعی آبادی میں 300 فیصد اضافہ ہوا تھا جب کہ یہودی مجموعی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ تھی۔ فور مین کے مطابق اگر 60 لاکھ یہودی ہلاک نہ کئے جاتے تو 2009 میں دنیا میں ان کی کل تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ ہوتی۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے 59 سال بعد 2004 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو کیوں خیال آیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہلاک ہونے والوں کو یاد رکھا جائے اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد مغربی یورپ ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا اور جاپان اس جنگ کی دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کر چکے تھے بلکہ سرد جنگ میں یہ سب ہی سابق سوویت یونین کے خلاف متحد تھے پھر نائن الیون کے تین برس بعد ہی دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کے اندیشوں میں مبتلا ہوگئی اور 2004 ء سے آج چودہ برس بعد یہ بہت اچھی طرح واضح ہوگیا ہے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کی طرح آئندہ کی کوئی بڑی جنگ یورپ خصوصاً مغربی یورپ کی بجائے ایشیا میں ہو گی اور بدقستمی یہ ہے کہ آج دنیا کے سب سے زیادہ تباہ کن غیر ایٹمی ہتھیار ہمار ے علاقے میں استعمال ہو رہے ہیں۔
گذشتہ سال افغانستان میں مدر آف آل بمبز کے استعمال پر پوپ فارنسس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ ماں محبت اور امن کی علامت ہے ایسے مقدس لفظ کو ایسے بھیانک ہتھیارکے لیے استعمال کرنا درست نہیں ۔ ایک جانب تو یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب ہمارے علاقے میں امن کی فضا تیزی سے جنگ کے بادلوں میں تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستا ن ، ایران ، افغانستان، بھارت جیسے آپس کے ہمسایہ ممالک جو سارک ،ایکو،کے علاوہ شنگھائی ،اور بریکس جیسی علاقائی تنظیموں کے رکن بھی ہیں ان کے تعلقات تنازعات کی حدت کے سبب اس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں اور یہ صورت اس وقت رونما ہو رہی ہے، جیسے کہ کسی بہتر زرعی فصل کے پکنے کے بعد کھلیان کو چند دنوں کے لیے دھوپ میں رکھا جائے اور اس کے قریب چنگاریاں اٹھنے لگیں، اگرچہ ابھی یہ ماحول کی بہتری ہے کہ ہوا تیز نہیں ہے لیکن یہ مہلت ہے بہتر ہے کہ پہلے ہی قریب کی چنگاریوں کو بجھا دیا جا ئے تو پھر ہوا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
8 اور9 مئی کو جب اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہو نے والوں کو یاد کیا جا رہا تھا تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت غیر منقسم ہندوستان کے 38 لاکھ افراد جنگ کی بھینٹ چڑھے تھے۔ سنٹرل ایشیا سمیت روس کے دو کروڑ اور چین کے ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس جنگ سے مغربی یورپ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور جاپان سب نے سبق سیکھا مگر ہم جو اب ماضی کے مقابلے میں ترقی بھی کرچکے ہیں، اب چین ، روس ، بھارت اور پاکستان جو نہ صرف ایٹمی قوتیں ہیں بلکہ اب اقتصادی اعتبار سے ایران ، افغانستان ، سنٹرل ایشیا، سمیت دنیا کی آدھی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہاں دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں ، جنگ کے بارے میں غفلت کا شکار ہیں۔ یہی ممالک اور ان کے عوام اب دنیا کی تقدیر بننے والے ہیں لیکن اگر ہم نے غلطیوں کا ارتکاب کیا تو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ہمارے اندازوں کی حدوں سے بالا ہیں اس لیے ہمیں سات سمندر پار کے ثالثوں کی بجائے آپس میں ہی معاملات طے کرنے چاہئیں اور اس موقع پر پاکستان،ایران اور افغانستان کو پہلے مرحلے میں اور دوسرے مرحلے میں ان تینوں ملکوں سمیت سنٹرل ایشیا کے ملکوں کے ساتھ چین ، بھا رت اور روس کی شمولیت کے ساتھ وسیع اور پائیدار بنیادوں پر معاملات طے کر لینے چاہئیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے کے ملکوں میں پراکسی وار جاری ہے، الزامات اور پروپیگنڈا اس طرح کی جنگ کے وہ ہتھیار ہیں جن کو روکنے کے لیے بہت ہی خلوص اور جذبہ امن کے ساتھ باہمی اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ماہرانہ ڈپلومیسی کی ضروت ہوتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان ممالک کو آپس میں دھونس اور دھمکیوں سے اجتناب کرنا ہوگا، یہاں ان ملکوں اور ان کی لیڈر شپ کو یہ بنیادی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ تو درست ہے کہ جنگ کوئی ایک ملک یا ایک فر یق شروع کرتا ہے مگر بعد میں جنگ کو روکنا یا ختم کرنا پھر ایک فریق یا ایک ملک کے اختیار میں نہیں ہوتا اور یہاں اس تلخ حقیقت کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگیں اگرچہ ہماری نہیں تھیں لیکن مرنے والوں میں اکثریت ہماری تھی اور اب اگر خدانخوستہ ہم خود جنگ چھیڑتے ہیں تو ۔۔ اس سے آگے کے سوالات ان ملکوں کے رہنماؤں کے سوچنے کے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کو بھی 1990 میں ختم کردیا گیا اور اگر خاتمہ کو ہم تسلیم نہ بھی کریں تو کم ازکم یہ تو مانیں گے کہ اب دیوار برلن نہیں رہی اور مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ملک ہو گئے، سابق سوویت یونین کی بجائے اب روس ہے اور روس کی بھی بہت سی ریاستیں نہ صرف اب آزاد ملکوں کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ مشرقی یورپ سے اشراکیت کے خاتمے کے بعد اور یورپی یونین میں توسیع کے ساتھ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک یورپی یونین میں شامل ہو چکے ہیں جس کی ایک کرنسی ہے، اب ویزہ اور پاسپورٹ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ ہمارے ہاں بشمول تین جنگوں کے 71 برس گزر نے کے بعد اب بھی ہم دو ہمسائے ایٹمی قوت بننے کے باوجود ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان 71 برسوں سے اپنے جنگی اخرجات میں اضا فہ کرتے رہے ہیں، حالانکہ جب کشمیر پر پہلی جنگ شروع ہوئی تھی تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود اقوام متحد ہ کی سکیورٹی کونسل میں کشمیر کے مسئلے کو لے گئے تھے اور اس بات پر پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔
بھارتی وزراء اعظم اب تک اس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ ہم نے بھارت اور پاکستان کی صورت میں سیاسی آزادی حاصل کی مگر جنگوں اور اسلحہ کی خریداری اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے ہم اقتصادی نوآبادیات کے شکنجے میں دبتے ہی جا رہے ہیں۔11 نومبر 2018 ء کو پہلی جنگ عظیم میں شریک ممالک نے اس کے سو سال بعد اس کی یاد کو منایا، اور اس پر ایک بار پھر یہ تجزیہ کیا کہ جنگ عظیم کے بعد فرانس کے محل وارسائی میں ہونے والے معاہدے میں بڑی غلطیاں تھیں، لیکن افسوس کہیں یہ نہیں کیا گیا کہ 1990 میں سرد جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ ، روس، بھارت اور دنیا کی دیگر قوتوں اور ملکوںسے کتنی غلطیاں ہوئیں اور اب 28 سال گزرنے کے بعد ان غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرنے کی کو ئی کوشش کی گئی؟