بات سُنی نہیں گئی
قدرت بھی کبھی کبھی کتنی ناانصافی کرتی ہے، جس کیفیت کی ضرورت ہر مرد کو ہے وہ ایک خاتون کو عطا کردی۔
ایسے تو بہت سے ہیں جو سُنی ان سُنی کردیتے ہیں، سُن کر نہیں دیتے اور ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں، لیکن ان کا یہ عمل کسی امتیاز کے بغیر ہوتا ہے، اس کے برعکس چین کی ایک خاتون کے ساتھ عجیب مسئلہ ہوا ہے کہ وہ خواتین کی آواز تو سُن پارہی ہیں لیکن مَردوں کی آواز سُننے سے محروم ہوگئی ہیں۔ ان کے ساتھ یہ مسئلہ پیدائشی نہیں، وہ ایک صبح سوکر اُٹھیں تو اس کیفیت کا شکار تھیں۔
ہم تحریک نسواں (feminism) کی علم برداروں کو مشورہ دیں گے کہ ان چینی خاتون کو فوری طور پر اپنی تحریک کی علامت بنالیں اور انھیں عورتوں کی ''قومی ہیروئن'' قرار دے دیں۔ بھئی ایسی خاتون پوری دنیائے نسوانیت اور تاریخ خواتین میں کہاں ملے گی جو مردوں کی ذرا نہ سُنتی ہو۔
تحریک نسواں کی بی بیاں ڈاکٹروں سے اس کیفیت کے اسباب معلوم کرکے اسے عورتوں میں چھوت کی بیماری کی طرح پھیلا بھی سکتی ہیں، جس کے بعد بیویاں شوہروں کی سُننے سے یکسر بے خوف وبے پروا ہوکر انھیں کھری کھری سُنایا کریں گی اور شوہر بے چارے بے بسی سے سُنا کریں گے۔ یوں شوہر حضرات کے سارے حکم، ہدایات اور فرمائشیں خودکلامی بن کر رہ جائیں گی۔ آزادیٔ نسواں کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
قدرت بھی کبھی کبھی کتنی ناانصافی کرتی ہے، جس کیفیت کی ضرورت ہر مرد کو ہے وہ ایک خاتون کو عطا کردی۔ اگر یہ کیفیت مردوں پر طاری ہوجائے تو ان کی زندگی آسان ہوجائے، جینے کا سامان ہوجائے، ہلکا پھلکا کان ہوجائے۔ بیویاں سُناتی رہیں اور شوہر بیٹھے مسکراتے رہیں، ''کہاں جا رہے ہیں''،''کہاں سے آرہے ہیں''، ''کیوں''، ''کیا''، ''کیسے''، ''کون''۔۔۔۔جیسے سارے ''کاف'' کان سے دور رہیں، تو اس ''کان کَنی'' سے نجات پاکر کان بہت کچھ سُننے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ ہوگیا تو ''سُنیے'' اور ''اجی سُنتے ہو'' جیسے حکم ناموں کے ابتدائیے تاریخ کا حصہ اور ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔ یہی نہیں اندرون خانہ کے ساتھ مرد بیرون خانہ ہونے والی بے عزتی سے بھی بچ جائیں گے، یعنی بے عزتی ہوگی تو مگر وہ سُن نہیں پائیں گے، گویا اپنے مُنہ پر بھی پیٹھ پیچھے بُرائی ہوگی۔
جب بھی نسوانی آواز کی سماعت سے محروم ہوجانے والی کوئی صاحب کسی خاتون کو بڑی محبت سے دیکھ کر ان کی تعریف اور اپنے جذبات کا اظہار کریں گے، اور جواب میں وہ ارشاد فرمائیں گی''آپ کتنے چھچھورے ہیں''،''شرم نہیں آتی''،''گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں''،''اُتاروں جوتی؟'' وغیرہ وغیرہ تو یہ گالی گفتار کانوں سے نہیں گزرے گی اس لیے طبیعت پر گراں بھی نہیں گزرے گی۔ چناں چہ خواتین کی آواز سُننے سے محروم ہونے کی ''صلاحیت'' بے خوفی، ڈھٹائی اور بے غیرتی میں روزافزوں اضافے کا سبب بنے گی۔ البتہ کسی دھول دھپے کی عادی بی بی نے عین کان کے پاس ہاتھ بجادیا تو عورتیں اور مرد کیا مُردوں کی آوازیں بھی سُنائی دینے لگیں گی۔
اگرچہ ڈاکٹروں میں مذکورہ چینی خاتون کی بیماری شاذ کے زمرے میں آتی ہے اور پوری دنیا میں صرف تین ہزار افراد اس کا شکار ہوئے ہیں، لیکن ہم اس رائے سے متفق نہیں۔ اس نوعیت کی بیماری لاتعداد لوگوں کو لاحق ہے، تاہم ضروری نہیں کہ وہ مرد یا عورت میں سے کسی کی آواز نہ سُن پائیں۔ ہر ایک کی کیفیت کی اپنی اپنی نوعیت ہے، طاقت ور کم زور کی نہیں سُن پاتے، حکم راں عوام کی نہیں سُنتے، کم علم اہل علم کی نہیں سُنتے، اہل علم ایک دوسرے کی نہیں سُنتے۔۔۔۔۔اسی عام عارضے کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی
ہم تحریک نسواں (feminism) کی علم برداروں کو مشورہ دیں گے کہ ان چینی خاتون کو فوری طور پر اپنی تحریک کی علامت بنالیں اور انھیں عورتوں کی ''قومی ہیروئن'' قرار دے دیں۔ بھئی ایسی خاتون پوری دنیائے نسوانیت اور تاریخ خواتین میں کہاں ملے گی جو مردوں کی ذرا نہ سُنتی ہو۔
تحریک نسواں کی بی بیاں ڈاکٹروں سے اس کیفیت کے اسباب معلوم کرکے اسے عورتوں میں چھوت کی بیماری کی طرح پھیلا بھی سکتی ہیں، جس کے بعد بیویاں شوہروں کی سُننے سے یکسر بے خوف وبے پروا ہوکر انھیں کھری کھری سُنایا کریں گی اور شوہر بے چارے بے بسی سے سُنا کریں گے۔ یوں شوہر حضرات کے سارے حکم، ہدایات اور فرمائشیں خودکلامی بن کر رہ جائیں گی۔ آزادیٔ نسواں کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
قدرت بھی کبھی کبھی کتنی ناانصافی کرتی ہے، جس کیفیت کی ضرورت ہر مرد کو ہے وہ ایک خاتون کو عطا کردی۔ اگر یہ کیفیت مردوں پر طاری ہوجائے تو ان کی زندگی آسان ہوجائے، جینے کا سامان ہوجائے، ہلکا پھلکا کان ہوجائے۔ بیویاں سُناتی رہیں اور شوہر بیٹھے مسکراتے رہیں، ''کہاں جا رہے ہیں''،''کہاں سے آرہے ہیں''، ''کیوں''، ''کیا''، ''کیسے''، ''کون''۔۔۔۔جیسے سارے ''کاف'' کان سے دور رہیں، تو اس ''کان کَنی'' سے نجات پاکر کان بہت کچھ سُننے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ ہوگیا تو ''سُنیے'' اور ''اجی سُنتے ہو'' جیسے حکم ناموں کے ابتدائیے تاریخ کا حصہ اور ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔ یہی نہیں اندرون خانہ کے ساتھ مرد بیرون خانہ ہونے والی بے عزتی سے بھی بچ جائیں گے، یعنی بے عزتی ہوگی تو مگر وہ سُن نہیں پائیں گے، گویا اپنے مُنہ پر بھی پیٹھ پیچھے بُرائی ہوگی۔
جب بھی نسوانی آواز کی سماعت سے محروم ہوجانے والی کوئی صاحب کسی خاتون کو بڑی محبت سے دیکھ کر ان کی تعریف اور اپنے جذبات کا اظہار کریں گے، اور جواب میں وہ ارشاد فرمائیں گی''آپ کتنے چھچھورے ہیں''،''شرم نہیں آتی''،''گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں''،''اُتاروں جوتی؟'' وغیرہ وغیرہ تو یہ گالی گفتار کانوں سے نہیں گزرے گی اس لیے طبیعت پر گراں بھی نہیں گزرے گی۔ چناں چہ خواتین کی آواز سُننے سے محروم ہونے کی ''صلاحیت'' بے خوفی، ڈھٹائی اور بے غیرتی میں روزافزوں اضافے کا سبب بنے گی۔ البتہ کسی دھول دھپے کی عادی بی بی نے عین کان کے پاس ہاتھ بجادیا تو عورتیں اور مرد کیا مُردوں کی آوازیں بھی سُنائی دینے لگیں گی۔
اگرچہ ڈاکٹروں میں مذکورہ چینی خاتون کی بیماری شاذ کے زمرے میں آتی ہے اور پوری دنیا میں صرف تین ہزار افراد اس کا شکار ہوئے ہیں، لیکن ہم اس رائے سے متفق نہیں۔ اس نوعیت کی بیماری لاتعداد لوگوں کو لاحق ہے، تاہم ضروری نہیں کہ وہ مرد یا عورت میں سے کسی کی آواز نہ سُن پائیں۔ ہر ایک کی کیفیت کی اپنی اپنی نوعیت ہے، طاقت ور کم زور کی نہیں سُن پاتے، حکم راں عوام کی نہیں سُنتے، کم علم اہل علم کی نہیں سُنتے، اہل علم ایک دوسرے کی نہیں سُنتے۔۔۔۔۔اسی عام عارضے کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی