ماہ رمضان اور کالم کا حق
گزشتہ کالم میں خرید و فروخت کے حوالے سے حضرت جریر بن عبداﷲ ؓ اور حکیم محمد سعید کا بیان کردہ واقعہ تحریر کیا تھا۔
گزشتہ کالم میں خرید و فروخت کے حوالے سے حضرت جریر بن عبداﷲ ؓ اور حکیم محمد سعید کا بیان کردہ واقعہ تحریر کیا تھا۔ راقم کے ایک قاری نے دو واقعات اور اس سلسلے میں بھیجے ہیں، رمضان کے مقدس مہینے کے حوالے سے ان واقعات کا تذکرہ یہاں ضروری ہے کہ کچھ تو ہماری معاشرتی حالت بدلنے کے اسباب پیدا ہوں۔
کراچی سے انس نے لکھا ہے کہ یونس بن عبیداﷲ، خواجہ حسن بصری کے مرید اور شاگرد تھے اور کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ انھوں نے کسی تاجر سے ریشمی کپڑا خریدا۔ کپڑے کے دام مارکیٹ میں بڑھ چکے تھے مگر تاجر کو بھی اس کا علم نہ تھا چنانچہ کپڑا خریدنے کے کچھ عرصے بعد یونس بن عبیداﷲ کو معلوم ہوا کہ کپڑے کے دام زیادہ ہیں مگر تاجر نے لاعلمی کی وجہ سے کپڑا سستے داموں فروخت کر دیا ہے تو آپ نے تاجر سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ مارکیٹ کی ویلیو (قدر) کے حساب سے کپڑے کے دام میں پانچ ہزار دینار کا فرق آگیا ہے لہٰذا وہ مزید پانچ ہزار دینار دینے آئے ہیں۔ تاجر کو جب یہ حقیقت پتہ چلی تو وہ کہنے لگا کہ یہ معاملہ اس کی غلطی سے پیش آیا لہٰذا وہ مزید پانچ ہزار دینار نہیں لے گا۔ اس جواب کے باوجود یونس بن عبیداﷲ نے یہ کہہ کر کہ غلطی کسی کی بھی ہو بہرحال رقم آپ کا حق ہے، پانچ ہزار دینار ضد کرکے تاجر کو واپس ادا کردیے۔
دوسرا واقعہ جو قاری نے لکھا ہے وہ بھی اخلاق و ایمانداری کی اعلیٰ مثال ہے اور ہم سب کے لیے نہایت قابل غور ہے کہ ہم آج کس مقام پر کھڑے ہیں اور ہمارے اسلاف کا کردار کیا تھا۔
واقعے کے مطابق حضرت محمد بن منکزر تابعی کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے نوکر نے پانچ دینار کا کپڑا دس دینار میں فروخت کردیا اور اپنے اس سودے کا حال بڑے فخر سے آپ کے سامنے بیان کیا۔ آپ یہ سن کر خوش نہیں ہوئے بلکہ ملازم کو کہا کہ اس نے یہ حرکت غلط کی ہے۔ اس کے بعد آپ خود گاہک کا پتہ پوچھتے پوچھتے اس کے گھر گئے، اس سے معذرت کی اور پانچ دینار واپس کردیے۔
زیادہ نفع لینا تو آج ہمارے معاشرے میں ایک عام سی بات ہوچکی ہے مگر ایسا بھی عام ہوچکا ہے کہ کوئی شے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، اس کی فروخت بھی دھڑلے سے اس دلیل کے ساتھ کردی جاتی ہے کہ جناب! ہم تو شے فروخت کر رہے ہیں، اب خریدار اس کا استعمال غلط بھی کرے تو ہمیں کیا، یہ اس کا قصور ہے، گویا ہم اپنی جگہ انتہائی ایماندار اور بے قصور ہوتے ہیں، چاہے ہماری فروخت کا غلط استعمال یقینی ہو۔ اس سلسلے میں علامہ ابن سیرین کا واقعہ رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ علامہ ابن سیرین لاکھوں کاروبار کرتے تھے مگر اجتماعی مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے تھے اور حلال و حرام کو سامنے رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک فصل سے 80 ہزار کا نفع ملا مگر کچھ صورت حال ایسی نظر آئی کہ انھیں لگا کہ یہ نفع سود کا ہے چنانچہ آپ نے سارا نفع شک کی بنیاد پر چھوڑ دیا حالانکہ وہ تجارت کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ انگور فروخت کرنے کے لیے کسی صاحب نے اچھی قیمت دینے کا کہا، آپ نے اس تاجر سے سوالات کیے اور مطمئن نہ ہونے پر انگور فروخت نہ کیے یہاں تک کہ سارے انگور ضائع ہوگئے۔
رمضان کا مہینہ بڑا بابرکت ہے، یہ اور بات ہے کہ اس مہینے میں نیکیاں کمانے کے بجائے کھلے عام نوٹ کمانے کے لیے اپنی آخرت بھی خراب کی جارہی ہوتی ہے۔ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کا بھی بڑا چرچہ رہتا ہے مگر اس میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دکھاوا زیادہ ہے، صورت حال کچھ یوں ہے کہ ہم خیرات دینا چاہتے ہیں مگر لوگوں کو ان کا حق دینا نہیں چاہتے۔ راقم کے ایک دوست نے جو ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتے ہیں، اپنی بہن کی شادی کے لیے مالک سے لون (قرضہ) لینا چاہا تو اسے کچھ رقم تو لون دے دی گئی مگر 50 ہزار روپے لون دینے کے بجائے گفٹ یا شادی میں امداد کے طور پر دینے کی پیشکش کی گئی۔ ہمارے دوست اس بات پر بضد ہیں کہ مالک انھیں اتنی بڑی رقم لون کے طور پر کیوں نہیں دے رہا؟ ان کی عزت نفس یہ گفٹ لینے سے منع کر رہی ہے اور مالک شاید اس عزت نفس کو ہی ختم کرنا چاہتا ہے یا پھر خودداری ختم کرنا چاہتا ہے اور اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتا ہے۔
کتنی افسوسناک صورت حال ہے کہ صدقے اور خیرات میں ہم آگے بڑھ بڑھ کر اعلان کرکر کے غریبوں کو نواز رہے ہیں اور اس طرح بازار لگا کر غریبوں کے آپس میں جھپٹنے، لڑنے اور لوٹنے کا نظارہ بھی حاصل رہتا ہے۔ ہم آخر کسی کو حق دینے کے لیے مستعدی کیوں نہیں دکھاتے؟ عید قریب آرہی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ تمام ادارے، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے یا محض چار پانچ ملازموں کو رکھ کر کاروبار کر رہے ہوں، اس عید پر ان ملازموں کو ایک ایک تنخواہ یا کم ازکم آدھی تنخواہ ہی انھیں باعزت طریقے سے بونس، عیدی یا کسی اور نام پر دے دیں۔ اس معاشرے میں ایسے بھی خوددار اور باعزت گھرانے ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ تو پھیلانا دور کی بات، عید کے اخراجات کے لیے قرض مانگتے ہوئے بھی شرماتے ہیں، جو کئی کئی دن کا فاقہ تو کرسکتے ہیں لیکن فٹ پاتھ پر ملنے والی مفت کی، خیرات کی روٹی کا ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتار سکتے۔
حق دار کو حق دینا آج کے دور میں مشکل ترین کام بن چکا ہے، ہم میں آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سوشل ازم، مزدوروں کے حقوق اور اسلام میں مزدوروں کی کم سے کم اجرت کے معیار کے لیے مزدوروں کے حقوق کے نعرے نہ لگاتے ہوں۔ کیا ایسے نظریات کے حامل کاروبار کرنے والے جن کے ماتحت درجنوں لوگ کام کرتے ہیں انھیں ان ہی نعروں کے مطابق ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے؟ آئیے! غور کریں، اگر جواب نفی میں ہے تو کم ازکم عید جیسے مواقعوں پر ہی ان ماتحت ملازموں کو ان کا حق اس طرح ادا کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو، صدقہ، خیرات اور فطرہ وغیرہ کے علاوہ عیدی اور بونس جیسے باوقار اور عزت دار لفظوں کے ساتھ ان کو بھی عید کی خوشیاں منانے کے لیے ان کا حق دیا جائے۔
بظاہر راقم کا یہ کالم پھیکا پھیکا ہوگا مگر اس میں کہی گئی بات ہی کالم کا حق ادا کر رہی ہے، آئیے! غور کریں۔
کراچی سے انس نے لکھا ہے کہ یونس بن عبیداﷲ، خواجہ حسن بصری کے مرید اور شاگرد تھے اور کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ انھوں نے کسی تاجر سے ریشمی کپڑا خریدا۔ کپڑے کے دام مارکیٹ میں بڑھ چکے تھے مگر تاجر کو بھی اس کا علم نہ تھا چنانچہ کپڑا خریدنے کے کچھ عرصے بعد یونس بن عبیداﷲ کو معلوم ہوا کہ کپڑے کے دام زیادہ ہیں مگر تاجر نے لاعلمی کی وجہ سے کپڑا سستے داموں فروخت کر دیا ہے تو آپ نے تاجر سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ مارکیٹ کی ویلیو (قدر) کے حساب سے کپڑے کے دام میں پانچ ہزار دینار کا فرق آگیا ہے لہٰذا وہ مزید پانچ ہزار دینار دینے آئے ہیں۔ تاجر کو جب یہ حقیقت پتہ چلی تو وہ کہنے لگا کہ یہ معاملہ اس کی غلطی سے پیش آیا لہٰذا وہ مزید پانچ ہزار دینار نہیں لے گا۔ اس جواب کے باوجود یونس بن عبیداﷲ نے یہ کہہ کر کہ غلطی کسی کی بھی ہو بہرحال رقم آپ کا حق ہے، پانچ ہزار دینار ضد کرکے تاجر کو واپس ادا کردیے۔
دوسرا واقعہ جو قاری نے لکھا ہے وہ بھی اخلاق و ایمانداری کی اعلیٰ مثال ہے اور ہم سب کے لیے نہایت قابل غور ہے کہ ہم آج کس مقام پر کھڑے ہیں اور ہمارے اسلاف کا کردار کیا تھا۔
واقعے کے مطابق حضرت محمد بن منکزر تابعی کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے نوکر نے پانچ دینار کا کپڑا دس دینار میں فروخت کردیا اور اپنے اس سودے کا حال بڑے فخر سے آپ کے سامنے بیان کیا۔ آپ یہ سن کر خوش نہیں ہوئے بلکہ ملازم کو کہا کہ اس نے یہ حرکت غلط کی ہے۔ اس کے بعد آپ خود گاہک کا پتہ پوچھتے پوچھتے اس کے گھر گئے، اس سے معذرت کی اور پانچ دینار واپس کردیے۔
زیادہ نفع لینا تو آج ہمارے معاشرے میں ایک عام سی بات ہوچکی ہے مگر ایسا بھی عام ہوچکا ہے کہ کوئی شے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، اس کی فروخت بھی دھڑلے سے اس دلیل کے ساتھ کردی جاتی ہے کہ جناب! ہم تو شے فروخت کر رہے ہیں، اب خریدار اس کا استعمال غلط بھی کرے تو ہمیں کیا، یہ اس کا قصور ہے، گویا ہم اپنی جگہ انتہائی ایماندار اور بے قصور ہوتے ہیں، چاہے ہماری فروخت کا غلط استعمال یقینی ہو۔ اس سلسلے میں علامہ ابن سیرین کا واقعہ رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ علامہ ابن سیرین لاکھوں کاروبار کرتے تھے مگر اجتماعی مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے تھے اور حلال و حرام کو سامنے رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک فصل سے 80 ہزار کا نفع ملا مگر کچھ صورت حال ایسی نظر آئی کہ انھیں لگا کہ یہ نفع سود کا ہے چنانچہ آپ نے سارا نفع شک کی بنیاد پر چھوڑ دیا حالانکہ وہ تجارت کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ انگور فروخت کرنے کے لیے کسی صاحب نے اچھی قیمت دینے کا کہا، آپ نے اس تاجر سے سوالات کیے اور مطمئن نہ ہونے پر انگور فروخت نہ کیے یہاں تک کہ سارے انگور ضائع ہوگئے۔
رمضان کا مہینہ بڑا بابرکت ہے، یہ اور بات ہے کہ اس مہینے میں نیکیاں کمانے کے بجائے کھلے عام نوٹ کمانے کے لیے اپنی آخرت بھی خراب کی جارہی ہوتی ہے۔ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کا بھی بڑا چرچہ رہتا ہے مگر اس میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دکھاوا زیادہ ہے، صورت حال کچھ یوں ہے کہ ہم خیرات دینا چاہتے ہیں مگر لوگوں کو ان کا حق دینا نہیں چاہتے۔ راقم کے ایک دوست نے جو ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتے ہیں، اپنی بہن کی شادی کے لیے مالک سے لون (قرضہ) لینا چاہا تو اسے کچھ رقم تو لون دے دی گئی مگر 50 ہزار روپے لون دینے کے بجائے گفٹ یا شادی میں امداد کے طور پر دینے کی پیشکش کی گئی۔ ہمارے دوست اس بات پر بضد ہیں کہ مالک انھیں اتنی بڑی رقم لون کے طور پر کیوں نہیں دے رہا؟ ان کی عزت نفس یہ گفٹ لینے سے منع کر رہی ہے اور مالک شاید اس عزت نفس کو ہی ختم کرنا چاہتا ہے یا پھر خودداری ختم کرنا چاہتا ہے اور اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتا ہے۔
کتنی افسوسناک صورت حال ہے کہ صدقے اور خیرات میں ہم آگے بڑھ بڑھ کر اعلان کرکر کے غریبوں کو نواز رہے ہیں اور اس طرح بازار لگا کر غریبوں کے آپس میں جھپٹنے، لڑنے اور لوٹنے کا نظارہ بھی حاصل رہتا ہے۔ ہم آخر کسی کو حق دینے کے لیے مستعدی کیوں نہیں دکھاتے؟ عید قریب آرہی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ تمام ادارے، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے یا محض چار پانچ ملازموں کو رکھ کر کاروبار کر رہے ہوں، اس عید پر ان ملازموں کو ایک ایک تنخواہ یا کم ازکم آدھی تنخواہ ہی انھیں باعزت طریقے سے بونس، عیدی یا کسی اور نام پر دے دیں۔ اس معاشرے میں ایسے بھی خوددار اور باعزت گھرانے ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ تو پھیلانا دور کی بات، عید کے اخراجات کے لیے قرض مانگتے ہوئے بھی شرماتے ہیں، جو کئی کئی دن کا فاقہ تو کرسکتے ہیں لیکن فٹ پاتھ پر ملنے والی مفت کی، خیرات کی روٹی کا ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتار سکتے۔
حق دار کو حق دینا آج کے دور میں مشکل ترین کام بن چکا ہے، ہم میں آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سوشل ازم، مزدوروں کے حقوق اور اسلام میں مزدوروں کی کم سے کم اجرت کے معیار کے لیے مزدوروں کے حقوق کے نعرے نہ لگاتے ہوں۔ کیا ایسے نظریات کے حامل کاروبار کرنے والے جن کے ماتحت درجنوں لوگ کام کرتے ہیں انھیں ان ہی نعروں کے مطابق ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے؟ آئیے! غور کریں، اگر جواب نفی میں ہے تو کم ازکم عید جیسے مواقعوں پر ہی ان ماتحت ملازموں کو ان کا حق اس طرح ادا کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو، صدقہ، خیرات اور فطرہ وغیرہ کے علاوہ عیدی اور بونس جیسے باوقار اور عزت دار لفظوں کے ساتھ ان کو بھی عید کی خوشیاں منانے کے لیے ان کا حق دیا جائے۔
بظاہر راقم کا یہ کالم پھیکا پھیکا ہوگا مگر اس میں کہی گئی بات ہی کالم کا حق ادا کر رہی ہے، آئیے! غور کریں۔