کراچی میں تھیٹر کی رونقیں لوٹ آئیں تھیٹر کو تباہ کرنے والوں کو اپنا احتساب ضرور کرنا چاہیے

ماضی میں جس قسم کاتھیٹر ہوتارہا، اس سے تھیٹر کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا،اس کی وجہ سےلوگ تھیٹرسےدورہوتےچلےگئے۔۔۔

ماضی میں جس قسم کا تھیٹر ہوتا رہا، اس سے تھیٹر کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ،اس کی وجہ سے لوگ تھیٹر سے دور ہوتے چلے گئے فوٹو : فائل

ماضی میں جس قسم کا تھیٹر ہوتا رہا، اس سے تھیٹر کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ،اس کی وجہ سے لوگ تھیٹر سے دور ہوتے چلے گئے اور پھر وہ وقت آیا کہ عوامی کمرشل تھیٹر تباہی کے کنارے تک پہنچ گیا ۔

1975ء سے1995ء تک کراچی میںتھیٹر کی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔کراچی کے عوام نے تھیٹر کو بہت سپورٹ کیا۔ادکار عمر شریف اور معین اختر(مرحوم ) کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کراچی میں تھیٹر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے قبل کراچی میں ہدایتکار سید فرقان حیدر نے تھیٹر کے لیے سب سے پہلا ادارہ فن راما بنایا تھا جس کے توسط سے نان کمرشل ڈرامے کیے جاتے تھے۔ اس کا مقصد لوگوں کی توجہ تھیٹر کی طرف مبذول کرانا تھی۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور پھر اسی ادارہ کے توسط سے کمرشل ڈراموں کا آغاز ہوا۔

عمر شریف اسی ادارہ کے توسط سے متعارف ہوئے جبکہ معین اختر نے بھی کمرشل ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب تھیٹر کے لیے کراچی میںصرف آدم جی آڈیٹوریم موجود تھا، جو ایک سائنس کالج کی ملکیت تھا۔اس آڈیٹوریم نے کراچی میں تھیٹر کو پہچان دی اور پھر وہ دور بھی آیا جب کراچی میں ہونے والے سٹیج ڈرامے عوام کی بھر پور توجہ کا مرکز بن گئے۔ ڈرامہ شائقین کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ ٹکٹ بلیک سے خرید کر ڈرامہ دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب تھیٹر میں کام کرنے والوں کو شہرت اور پہچان ملی۔

ان ڈراموں کی مقبولیت نے بیرون ملک بھی ڈراموں کو بے حد مقبولیت دی۔ ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ یہ ڈرامے دنیا بھر میں پسند کیے جانے لگے۔ کراچی میں ہونے والے تھیٹر میں فلم انڈسٹری کے نامور اداکاروں نے کام کیا ، انہیں ان ڈراموں کی وجہ سے بھی پہچانا گیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور تھیٹر میںغیر معیاری اسکرپٹ کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔

اداکار شکیل صدیقی،رؤف لالہ، سکندر صنم،سلیم آفریدی،لیاقت سولجر، رزاق راجو، اسماعیل تارا، زیبا شہناز،نعیمہ گرج، سلومی، نائلہ رحمن،شہنی عظیم، ذاکر مستانہ، ولی شیخ ،پرویز صدیقی اور ایسے ہی بے شمار فنکاروں کو تھیٹر کی وجہ سے شہرت ملی ،لیکن جب تھیٹرمیں اچھا کام ہونا بند ہوگیا تو بہت سے فنکار جو تھیٹر سے بے حد لگاؤ رکھتے تھے انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی کیونکہ وہ اس کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ تھیٹر میں رقص کے شامل ہونے سے اس کی اصل شکل ختم ہوگئی اور تھیٹر میوزیکل پروگرام بن گیا، جو اس کے زوال کا سبب بنااور لوگ معیار کی پستی کے باعث تھیٹر سے دور ہوتے چلے گئے۔ ڈرامہ عید اور بقر عید تک محدود ہوگیا ،وہ بھی عمر شریف کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی۔




سید فرقان حیدر بھی تھیٹر سے سنجیدہ رہے، ان کی بھی کوشش رہی کہ کراچی میں تھیٹرہوتا رہے۔خادم حسین اچوی نے بھی تھیٹر کے فروغ میں اہم کردارا کیا، لیکن ان سب کی کوشش کے باوجود لوگ تھیٹر پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوئے،گزشتہ دوسال کے دوران کراچی میں کمرشل تھیٹرتقریباً ختم ہوگیا وہ فنکار جنہیں تھیٹر کی وجہ سے شہرت ملی، انہوں نے اپنے آپ کو کیش کرانے کے لیے بھارتی ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں میں کام کرکے خوب دولت کمائی لیکن اس بات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا کہ کراچی کا تھیٹر جو تباہی کی طرف جارہا ہے اس کی بہتری کے لیے بھی کچھ سوچنا چاہیے ۔ مفاد پرستی کی اس سوچ نے تھیٹر کو تونقصان پہنچایا اس کا نقصان سب سے زیادہ ان لوگوں کو ہوا جو صرف اسی پر انحصار کیے ہوئے تھے ،وہ ان دنوں شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں،تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے جو لوگ کہتے تھے کہ کراچی میں تھیٹر اب کوئی نہیں دیکھنے آئے گا،انہیں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب کراچی میں ''ناپا ''کی کوششوں سے تھیٹر کے فروغ کے لیے کام شروع ہوا۔

سال میں چھ ڈرامے کرنے کا جو وعدہ ''ناپا'' نے کیا تھا اس پر عمل درآمد ہونے کے بعد کراچی میں تھیٹر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ کراچی میں اچھا اور معیاری تھیٹر دیکھنے کے خواہش مند لوگوں نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا گو کہ ابتداء میںکچھ مشکلات ضرور آئیں، لیکن دوسال کی کوشش کے بعد کراچی میں ایک بہت بڑے حلقے نے کراچی میں تھیٹر کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، بہت سے نئے اور باصلاحیت اداکار، ڈائریکٹر اس ادارے کے توسط سے متعارف ہوئے، انہوں نے بہترین کام کرکے ثابت کردیا کہ اگر مواقع ملیں تو ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

کسی بھی ادارے کی سرپرستی بلاشبہ تربیت حاصل کرنے والوں کو بھر پور کام کرنے کے موقع فراہم کرتی ہے،اس ادارہ کی کاوشوں سے کراچی میں دیگر اداروں کو بھی سرگرم کردیا۔ شیما کرمانی، ثانیہ سعید، انور مقصوداور دیگر شخصیات نے کراچی میںسنجیدہ اور معیاری تھیٹر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انورمقصود کو بہر حال اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ جن کے ڈرامے ''پونے14 اگست'' نے کراچی کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ اس ڈرامے نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک پیش کیے جانے والے اس کھیل نے عوام کو تھیٹر آنے پر مجبور کردیا۔ اس ڈرامے کی ٹکٹ مہنگے ہونے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہ کرسکے۔ لوگوں نے اپنی فیملی کے ساتھ اسے دیکھاا ور کہا کہ پاکستان میں اچھے اور معیاری ڈرامے بن سکتے ہیں لیکن کسی نے کبھی کوشش نہیںکی۔ انور مقصود نے ثابت کردیا کہ ایک نئی ٹیم اور نئے فنکاروں کے ساتھ بہترین اور اچھا ڈرامہ پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس ڈرامے میں تھیٹر کی ساکھ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انور مقصود نے اس ڈرامے کی ملک بھر میں کامیابی کے بعد تھیٹر کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اپنا مشہور ٹی وی ڈرامہ ''آنگن ٹیڑھا'' سٹیج پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ڈرامے نے ''پونے14 اگست'' سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی اور یہ کھیل کراچی میں تین ماہ تک نہایت کامیابی سے پیش کیا جاتا رہا جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس ڈرامے کی کامیابی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کراچی کے لوگ اچھا اور معیاری تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انور مقصود کے بعد اداکار ساجد حسن نے کراچی کے پوش علاقہ میں دو سٹیج ڈرامے کیے جو بے حد کامیاب رہے۔ ساجد حسن کا کہنا تھا کہ کراچی کے عوام کی جانب سے تھیٹر کو اس قدرسراہا جانا مجھ سمیت ان تمام افراد کے لیے جو تھیٹر سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں بے حد حوصلہ افزائی کی بات ہے۔

کراچی میں تھیٹر کے فروغ میں آرٹس کونسل کراچی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آرٹس کونسل کراچی کے تھیٹر آڈیٹوریم نے تھیٹر کے فروغ میں سب سے اہم کردار کیا اور آج اگر کراچی میں تھیٹر ہورہا ہے تو آرٹس کونسل کی اس میں بے حد اہمیت ہے۔کراچی میں کمرشل ڈرامے کی ناکامی کی وجہ جو بھی ہوں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ کراچی کے عوام اچھاا ور معیاری تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس بات کا ثبوت انہوں نے دے دیا جو لوگ تھیٹر کی ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں انھیں اپنا احتساب ضرور کرنا چاہیے کہ وہ اس ناکامی میں کس حد تک ذمہ دار ہیں اور جو لوگ اس وقت تھیٹر کی کامیابی اور اسے فروغ دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں انھیں سراہا جانا چاہیے اور ان کی کوششوں میں بھر پور ساتھ دینا چاہیے ۔
Load Next Story