2018 چوتھا گرم ترین سال ثابت ہوا
درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ تو ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے چوبیس گھنٹے چلنے والے بڑے بڑے کارخانے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کا بہت چرچہ ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے پہاڑوں کے گلیشیئر اور سمندروں میں تیرنے والے آئس برگ پگھل جائیں گے جن کے نتیجے میں بہت سے ملکوں کے ساحلی علاقے اور سمندر کے کنارے بسنے والے شہر غرقاب ہو جائیں گے اس لیے عالمی درجہ حرارت میں کمی کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ تو ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے چوبیس گھنٹے چلنے والے بڑے بڑے کارخانے ہیں جو ایک طرف ان ممالک کے لیے مہلک اسلحہ کے انبار لگاتے ہیں، دوسری طرف دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتے ہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ برس پیرس میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ عالمی حدت میں کم ازکم 2 فیصد کمی لازماً کی جانی چاہیے تاہم امریکا نے اس کانفرنس کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اتنے اہم مسئلے پر ہونے والی کانفرنس ناکام ہو گئی۔ جب سے عالمی درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھا جانا شروع کیا گیا ہے اس کے مطابق 2018 مسلسل چوتھا سال ہے جو بے حد گرم ثابت ہوا ہے۔ یہ اعداد وشمار امریکا کے ایک تحقیقی ادارے برکلے ارتھ نامی گروپ نے فراہم کیے ہیں۔
2018میں درجہ حرارت کی اوسط 1.16 سینٹی گریڈ یا 2.09 درجہ فارن ہائیٹ رہی جو کہ گزشتہ صدی یعنی 1850 سے 1900تک کے درجہ حرارت کی نسبت بہت زیادہ تھی کیونکہ اس دور میں صنعتی ترقی اس نہج پر نہیں پہنچی تھی۔ 2018ء کے سال کا اوسط درجہ حرارت 2015، 16ء اور 17ء سے کافی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاریخی طور پر 2016 کو سب سے زیادہ درجہ حرارت والا سال قرار دیا گیا ہے۔
2018 میں 2016کی نسبت درجہ حرارت میں تھوڑی کمی آئی ہے مگر یہ عارضی کمی بتائی گئی ہے جو بعدازاں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین بھی اپنے طور پر عالمی درجہ حرارت کی مانیٹرنگ کرتی ہے جس کے رزلٹ امریکی اعداد وشمار سے چنداں مختلف نہیں ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ تو ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے چوبیس گھنٹے چلنے والے بڑے بڑے کارخانے ہیں جو ایک طرف ان ممالک کے لیے مہلک اسلحہ کے انبار لگاتے ہیں، دوسری طرف دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتے ہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ برس پیرس میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ عالمی حدت میں کم ازکم 2 فیصد کمی لازماً کی جانی چاہیے تاہم امریکا نے اس کانفرنس کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اتنے اہم مسئلے پر ہونے والی کانفرنس ناکام ہو گئی۔ جب سے عالمی درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھا جانا شروع کیا گیا ہے اس کے مطابق 2018 مسلسل چوتھا سال ہے جو بے حد گرم ثابت ہوا ہے۔ یہ اعداد وشمار امریکا کے ایک تحقیقی ادارے برکلے ارتھ نامی گروپ نے فراہم کیے ہیں۔
2018میں درجہ حرارت کی اوسط 1.16 سینٹی گریڈ یا 2.09 درجہ فارن ہائیٹ رہی جو کہ گزشتہ صدی یعنی 1850 سے 1900تک کے درجہ حرارت کی نسبت بہت زیادہ تھی کیونکہ اس دور میں صنعتی ترقی اس نہج پر نہیں پہنچی تھی۔ 2018ء کے سال کا اوسط درجہ حرارت 2015، 16ء اور 17ء سے کافی زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاریخی طور پر 2016 کو سب سے زیادہ درجہ حرارت والا سال قرار دیا گیا ہے۔
2018 میں 2016کی نسبت درجہ حرارت میں تھوڑی کمی آئی ہے مگر یہ عارضی کمی بتائی گئی ہے جو بعدازاں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین بھی اپنے طور پر عالمی درجہ حرارت کی مانیٹرنگ کرتی ہے جس کے رزلٹ امریکی اعداد وشمار سے چنداں مختلف نہیں ہیں۔