شکست کیلیے نامزدگی رضاربانی کی خدمات کا اعتراف نہیں
احترام کے باوجودن لیگ نے انھیں بڑے مارجن سے ہرانے کیلیے پلان بنالیاہے،تجزیہ.
پیپلزپارٹی کے انتہائی مخلص رہنماسینیٹر رضاربانی کو جنھیں ماضی میں چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے نظرانداز کردیا گیاتھا۔
اب پی پی پی نے اپناصدارتی امیدوارنامزد کردیا ہے۔ تاہم یہ ایسی جنگ ہے جس میں ان کی جیت کاامکان نہیں۔ مرکز اورپنجاب میں واضح اکثریت اوربلوچستان میں بھی اطمینان بخش صورتحال کی حامل مسلم لیگ(ن) سے شکست کھانے کے لیے رضاربانی کی بطورصدارتی امیدوار نامزدگی یقیناً ان کی پارٹی کیلیے خدمات کااعتراف نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت تمام جماعتوں میں اچھی ساکھ رکھنے والے رضاربانی اس وقت سخت مایوس ہوئے تھے جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت فاروق نائیک کوان پرترجیح دی گئی۔
اس کے ردعمل میں انھوں نے صدرزرداری کی طرف سے دیگرتمام پیشکشیں ٹھکرادی تھیں۔ اس وقت وہ پارٹی چھوڑنے والے تھے اورہرجماعت انھیں قبول کرنے کو تیارتھی۔ تحریک انصاف نے جسٹس(ر) وجیہہ الدین کواپنا صدارتی امیدوارنامزد کیاہے۔ اس سے لگتا ہے کہ صدارت کے لیے اپوزیشن کے ایک سے زیادہ امیدوارمیدان میں ہوں گے۔ یہ صورتحال پیپلزپارٹی کے امیدوارکو مزید نقصان پہنچائے گی۔ پی پی امیدوارکو زیادہ حمایت صرف سینیٹ اورسندھ اسمبلی سے مل سکتی ہے جوکہ رضاربانی جیسے شخص کے لیے مایوس کن صورتحال ہے۔
نوازشریف اورمسلم لیگ(ن) کے اہم رہنما رضاربانی کے اہم ایشوزپر غیر جانبدارانہ کردارکی وجہ سے ان کابہت احترام کرتے ہیں تاہم اب انھوں نے انھیں صدارتی الیکشن میںبڑے مارجن سے شکست دینے کے لیے پلان بنالیا ہے۔ رضاربانی اور اعتزازاحسن جیسی شخصیات 2008ء کے الیکشن کے بعدصدارت اور چیئرمین سینٹ کے لیے پیپلزپارٹی کابہترین انتخاب ہوسکتی تھیں تاہم دونوں بھٹوکی پارٹی کے ساتھ ضائع ہوگئے۔ اب وہ صدارتی اورضمنی الیکشن میں ایک اورشکست دیکھنے کو تیارہیں۔ پارٹی کے لیے یہ کیساضیاع ہے؟۔
اب پی پی پی نے اپناصدارتی امیدوارنامزد کردیا ہے۔ تاہم یہ ایسی جنگ ہے جس میں ان کی جیت کاامکان نہیں۔ مرکز اورپنجاب میں واضح اکثریت اوربلوچستان میں بھی اطمینان بخش صورتحال کی حامل مسلم لیگ(ن) سے شکست کھانے کے لیے رضاربانی کی بطورصدارتی امیدوار نامزدگی یقیناً ان کی پارٹی کیلیے خدمات کااعتراف نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت تمام جماعتوں میں اچھی ساکھ رکھنے والے رضاربانی اس وقت سخت مایوس ہوئے تھے جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت فاروق نائیک کوان پرترجیح دی گئی۔
اس کے ردعمل میں انھوں نے صدرزرداری کی طرف سے دیگرتمام پیشکشیں ٹھکرادی تھیں۔ اس وقت وہ پارٹی چھوڑنے والے تھے اورہرجماعت انھیں قبول کرنے کو تیارتھی۔ تحریک انصاف نے جسٹس(ر) وجیہہ الدین کواپنا صدارتی امیدوارنامزد کیاہے۔ اس سے لگتا ہے کہ صدارت کے لیے اپوزیشن کے ایک سے زیادہ امیدوارمیدان میں ہوں گے۔ یہ صورتحال پیپلزپارٹی کے امیدوارکو مزید نقصان پہنچائے گی۔ پی پی امیدوارکو زیادہ حمایت صرف سینیٹ اورسندھ اسمبلی سے مل سکتی ہے جوکہ رضاربانی جیسے شخص کے لیے مایوس کن صورتحال ہے۔
نوازشریف اورمسلم لیگ(ن) کے اہم رہنما رضاربانی کے اہم ایشوزپر غیر جانبدارانہ کردارکی وجہ سے ان کابہت احترام کرتے ہیں تاہم اب انھوں نے انھیں صدارتی الیکشن میںبڑے مارجن سے شکست دینے کے لیے پلان بنالیا ہے۔ رضاربانی اور اعتزازاحسن جیسی شخصیات 2008ء کے الیکشن کے بعدصدارت اور چیئرمین سینٹ کے لیے پیپلزپارٹی کابہترین انتخاب ہوسکتی تھیں تاہم دونوں بھٹوکی پارٹی کے ساتھ ضائع ہوگئے۔ اب وہ صدارتی اورضمنی الیکشن میں ایک اورشکست دیکھنے کو تیارہیں۔ پارٹی کے لیے یہ کیساضیاع ہے؟۔