چیف جسٹس صاحب کا مشورہ اور ماقبل

صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی مسئلے کو تو وقتی طور پر اہمیت مل جاتی ہے

احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

ہمارے عام کلچر میں مرحوم یا ریٹائرڈ فرد کے بارے میں کچھ لکھنا خاص کر برائی اور تنقید کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔مردہ اور ریٹائرڈ فرد کی عزت ہمارے اوپر لازم ہوتی ہے 'حالانکہ بعض افراد پر ان کی زندگی میں تنقید کرنا مشکل ہوتا ہے اور بعض افراد کے خلاف اختیار کے حامل ہونے کے دوران تنقید کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ان میں جنرلز'ججزاور کہیں کہیں جرنلسٹ بھی شامل ہوتے ہیں'آج میراسابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے' کیونکہ ان کے دور کے بارے میں لکھنا شاید ذاتی مسئلہ نہ ہو بلکہ پورے نظام کا سوال ہے،کوشش کروں گا کہ راستے کے خطرات اور محترم لطیف چوہدری کی خطرناک سنسر سے بچ کر منزل تک پہنچ جاؤں ۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقعے پر ان کے اعزاز میں ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اس موقعہ پر نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ بھی ''ڈیم بنائیں گے اور قرض ادا کرنے کی کوشش کریں گے''۔اس اعلان کی تفصیل بعد میں 'پہلے سابق چیف جسٹس کے عہد میںعدلیہ کے کردار کا ایک جائزہ۔ مسئلہ ہے کہ چیف جسٹس (ر)ثاقب نثار کا دور صرف عدلیہ تک محدود نہیں تھا 'ان کا کردار پورے ملک کے نظام پربغیرکسی دباؤ اور رکاوٹ کے چھایا رہا۔ مستقبل کے نظام کے لیے ان کے دور کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ان کے دور کے دور رس اثرات ملک کے ہر شعبے اور ہر فرد پر چھائے رہیں گے۔ ان کی طاقت کا انحصار آئین کے آرٹیکل 184-(3)کے تحت حاصل از خود نوٹس یا suo-motu کے اختیار پر تھا۔

اصل اور اہم سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس آرٹیکل کے استعمال کا فائدہ کیا ہوا؟۔کیا اس کے استعمال سے عدلیہ کی آزادی اور معاشرے کو فائدہ ہوا کہ نقصان؟۔کیا ان کے اقدامات سے عدلیہ کا قانون کے ایک غیر جانبدارادارے کا تصور ابھرا کہ نہیں؟۔کیا ان کے اقدامات سے آئین کے تقسیم اختیارات کے اصول کو تقویت ملی کہ نقصان ہوا؟۔کیا ان کا عمومی رویہ عزت دینے والا تھا یا توہین آمیز تھا ۔ کیا ان کا رویہ ایک جج کا تھا ۔کیا انھوں نے اپنے بعد ملک اور اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے بہترین حالت میں چھوڑا ہے کہ خراب حالت میں۔اعلیٰ عدلیہ کے جج کی حیثیت سے ثاقب نثار کا امیج ایک ایسے جج کا تھا جو قانون کو جاننے والا سنجیدہ مزاج کا جج ہے۔جو ہر مسئلہ قانون کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے suo motto اختیارات اور قانون کے بے تحاشا استعمال کی مخالفت کی تھی ۔ جب انھوں نے چارج سنبھالاتو عام امید یہی تھی کہ وہ عدلیہ میں اصلاحات'عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کرنے والے اقدامات کے علاوہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے جن سے اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا لیکن ان کے آخری دس مہینوں نے عجیب ماحول پیدا کردیا۔پاناما کیس کے بعد ان کے اقدامات اور ریمارکس سے یہ تاثر پیدا ہوتا رہے کہ مسلم لیگ کی حکومت ہر معاملے میں نا اہل تھی۔انھوں نے اعلان کیا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کی حدود کا تعین ان کے دور میں ہی ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔امریکی سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا ہے کہ ''ایک جج کی کسی مقدمے میں کوئی ترجیح نہیں ہوتی ان کی ترجیح بلکہ واحد ترجیح صرف قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ''ایک دوسرے جج چارلس ہیو گز نے مزاح کے طور پر کہا تھا کہ '' ہم ایک آئین کے تحت ہیں لیکن آئین وہی ہوتا ہے جو جج کہتا ہے''۔لیکن قانون کے میدان میں اس رویے کو انتہائی خودغرضانہ اور ناپسندیدہ کہا جاتا ہے۔

ان الفاظ کے معنی ایک خاص حد سے زیادہ نہیں پھیلائے جا سکتے ہیںاور وہ بھی اس حد تک جہاں تک قانون کی تشریح اجازت دیتی ہے۔ایک مقدمے میں انھوں نے قرار دیا تھا کہ حکومت کا مطلب وزیر اعظم نہیں بلکہ پوری کابینہ ہوتی ہے 'صرف وزیر اعظم کے حکم کو حکومتی حکم نہیں سمجھا جا سکتا 'وزیر اعظم حکومت کے نام پر کوئی اقدام اکیلے نہیں کر سکتا۔ ان کے اس طرح کے حکم سے تو سپریم کورٹ کے اندر چیف جسٹس اور ججوں کی حیثیت کا تعین بھی ہوگیا تھا'ان کو بھی پوری سپریم کورٹ کو فیصلوں میں شریک کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود وہ اکیلے ہی فیصلے کرتے رہے۔

اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے صوابدیدی اختیارات کا بے دھڑک اور مسلسل استعمال نہ صرف آئین کے آرٹیکل 10اے۔(Due process) کی رو سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ یہ عمل ماتحت عدالتوں کے دائرہ کار کو محدود کردینے کا باعث بنتا ہے 'اس کی وجہ سے کئی مرتبہ متاثرہ افراد اپیل کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں'یہ عجیب قانونی پوزیشن ہے کہ ایک ڈاکو'چوراور دہشت گرد کو تین اپیلوں کا حق ہوتا ہے جب کہ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کو اپیل کا حق نہیں مل سکا ۔جناب ثاقب نثار ٹی وی پر چھائے رہے 'ایسا لگتا تھا جیسے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں'ساری حکومت ان کے حکم کے مطابق چل رہی تھی 'لیکن مسائل اپنی جگہ موجود رہے 'آج بھی اسپتال بری حالت میں ہیں حالانکہ ان کے اچانک دورے کیے گئے تھے۔

صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی مسئلے کو تو وقتی طور پر اہمیت مل جاتی ہے لیکن یہ عمل مستقل طور پر حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا 'بلکہ بعض اوقات تو صورت حال مزید خراب ہوجاتی ہے ۔ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں آئین تحریری طور پر موجود ہے، وہاں عدلیہ کا اختیار ہے کہ وہ قوانین کی تشریح و تعبیر ایک مستحکم اور قابل گمان انداز میں کرے لیکن یہ بات نا مناسب ہوگی کہ وہ عملًا قانون سازی کرنے لگ جائے یا ایسا لگنے لگے کہ عدلیہ اپنے متعین اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔اس عمل سے آئین کی تقسیم اختیارات کی اسکیم ناکام ہو کر ایک شخصیت میں انتظامی'قانونی اور تشریح کے تمام اختیارات مرتکز ہوجاتے ہیں اور جمہوری روح کے بجائے آمرانہ روح بروئے کار آجاتی ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں سینئر سرکاری افسران کو عدالت میں توہین آمیز رویے کی شکایت رہتی تھی کیونکہ وہ اکثر اوقات میڈیا کی موجودگی میں کیس سنتے' جس سے بعض اوقات افسران اور دوسرے سیاستدانوں کو محسوس ہوتا کہ شاید ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے ،اسی طرح محترم ثاقب نثار بھی خبروں کی سرخیوں میں رہتے 'شاید یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کو ملنے والی کوریج پاکستان کے ہر حکمران اور سیاستدان سے بھی زیادہ تھی ۔جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار دونوں عام سائلین کے مسائل کے حل کے لیے بامقصد جوڈیشل اصلاحات لانے میںکامیاب نہیں ہو سکے۔

اب سب سے بہترین 'دانشمندانہ اور سلجھاؤ کی باتیں نئے چیف جسٹس محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی ہیں' ایسی ٹھوس باتیںکبھی کبھار سننے میں آتی ہے ' شکر ہے کہ انھوں نے ریاستی اداروں کے درمیان دھینگا مشتی'کے پس منظر میں جس دانائی کے ساتھ پاکستان کے اہم اور بنیادی مسائل کا تجزیہ کیا ہے 'اس پروہ بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں'ان کی تجاویز اور مشوروں کے بارے میں آیندہ کالم میں تجزیہ کریں گے۔
Load Next Story