وفاقی اور صوبائی کشیدگی
صدر زرداری نے اپنے پسندیدہ اور ہوشیار شخص کو پنجاب کا گورنر بنایا تھا
ملک میں نئی حکومتوں کے قیام کو ابھی پانچ ماہ ہی گزرے ہیں کہ وفاق اور دوسرے بڑے صوبے سندھ میں درمیان پیدا کرائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے مگر کوئی مسئلے کے اہمیت اور حساسیت کو محسوس نہیں کررہا اور خاص طور پر وفاقی حکومت یہ احساس نہیں کر رہی کہ یہ 2008ء نہیں بلکہ 2019ء ہے جس میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبے وفاق کے پہلے کی طرح محتاج اورکمزور نہیں بلکہ اہم معاملات میں آئینی خود مختاری ملنے کے بعد بااختیار ہونے کے ساتھ اب آئینی طور پر مضبوط ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کو پتا چل گیا تھا کہ آیندہ ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہوگی، اس لیے انھوں نے رضا ربانی کے ذریعے آئینی ترمیم باہمی طور پر ایسے منظورکرائیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث کی ضرورت ہی نہ پڑی اور اب یہ باتیں سپریم کورٹ میں بھی سنی گئیں کہ کس طرح لوگوں کو مطمئن کرکے پارلیمنٹ میں انھیں بولنے کا موقع دیے بغیر صوبائی خود مختاری دلائی گئی اور وفاق کے اختیارات کم کرائے گئے تھے۔
2008ء میں بھی ملک میں مخلوط حکومت پیپلز پارٹی کی بنوائی گئی تھی جس میں پہلے دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن بھی شامل تھی جسے پنجاب کی حکومت مجبوری میں دی گئی تھی مگر ججز بحالی اختلافات پر صدر آصف زرداری نے تحریری معاہدے سے بریت کا اظہار کردیا جس پر مسلم لیگ ن وفاقی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور صدر زرداری نے اپنے پسندیدہ اور ہوشیار شخص کو پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔
جس کے مشورے پر چند ماہ بعد ہی پنجاب میں گورنر راج لگا کر ن لیگ کی حکومت ختم کی گئی تھی مگر عدلیہ بحالی کے بعد عدلیہ نے گورنر راج ختم کرکے حکومت بحال کردی تھی جس کے بعد ہی صدر زرداری نے سندھ کو بااختیار بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور 2013ء سے2018ء تک سندھ پیپلزپارٹی نے اپنی دوسری مدت مکمل کرلی تھی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے باہمی مخالفت کے باوجود سندھ حکومت ختم کرنے یا پی پی میں فارورڈ بلاک بنوانے سے گریز کیا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی دوسری مدت بھی کامیابی سے مکمل کر لی تھی۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی جگہ اب پی ٹی آئی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے اور ایم کیو ایم دوسری اور جی ڈی اے تیسری بڑی پارٹی ہے جو وفاق میں حکومت میں شامل ہیں مگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں ہے جس کی وجہ سے اس نے سندھ حکومت کی تبدیلی کے متعلق ابھی اپنا فیصلہ ظاہر نہیں کیا۔ جی ڈی اے اور پی ٹی آئی نے سندھ میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش شروع کی ہوئی ہے ۔ وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کراچی کے رہنما وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنا ٹارگٹ بناکر ان سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے حالیہ کراچی کے دورے میں مراد علی شاہ پر الزامات لگاتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مستعفی نہ ہوئے تو وفاقی حکومت کچھ ضرور کرے گی۔
وفاق سندھ میں گورنر راج براہ راست خود لگا سکتا ہے یا پی ٹی آئی اور جی ڈی اے اندرون سندھ کوشش کرکے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنواسکتے ہیں مگر ان میں جام صادق جیسا رہنما موجود نہیں جنہوں نے پی پی میں رہ کر کام دکھایا تھا اور نگراں وزیراعلیٰ رہنے کے بعد سندھ میں مخلوط حکومت بنوائی تھی۔ اس وقت سندھ میں مرحوم پیر پگاڑا جیسی قد آور قومی سیاسی شخصیت موجود تھی جو اب جی ڈی اے میں موجود نہیں اور موجودہ قیادت سندھ میں کچھ زیادہ موثر نہیں جو اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں امتیاز شیخ ، اسماعیل راہو اور جام مدد علی تک کو اپنے ساتھ شامل نہیں رکھ سکی تو وہ پیپلزپارٹی میں گروپ کیسے بنوا سکے گی۔
پی ٹی آئی گھوٹکی اور شکار پور کے مہروں اور نوشہرو فیروز کے جتوئیوں پر انحصار کررہی ہے جب کہ آصف زرداری کے راز دار اور پرانے ساتھی ذوالفقار مرزا اپنی بیگم کو وفاقی وزیر بنوا کر کیوں چپ اور خاموش ہیں۔ سندھ میں ہم جی ڈی اے اور پیپلزپارٹی میں تقسیم ہیں جب کہ اندرون سندھ کوئی بھی اہم رہنما پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوا تھا اور پی ٹی آئی کراچی ہی میں اکثریت لے سکتی تھی۔ سندھ حکومت سے بے شمار شکایات کے باوجود سندھ میں پی پی میں بظاہر کوئی دراڑ نہیں ہے مگر خفیہ طور رابطے ضرور ہورہے ہیں اور آصف زرداری بھی اب سندھ میں پارٹی رہنماؤں سے ملنے کے لیے دورے کررہے ہیں اور وفاق کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لگانے سے اب عدلیہ کی وجہ سے خوفزدہ ہے ۔ سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت پر سندھ کے فنڈز نہ دیے جانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں مگر وفاق کو نہ جانے کیوں سندھ میں تبدیلی کی جلدی ہے جس سے وفاق اور سندھ میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، سندھ میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سندھ ایوان سے باہر ہیں اور ایم کیو ایم تماشا دیکھ رہی ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس کے بغیر سندھ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کو پتا چل گیا تھا کہ آیندہ ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہوگی، اس لیے انھوں نے رضا ربانی کے ذریعے آئینی ترمیم باہمی طور پر ایسے منظورکرائیں جن پر پارلیمنٹ میں بحث کی ضرورت ہی نہ پڑی اور اب یہ باتیں سپریم کورٹ میں بھی سنی گئیں کہ کس طرح لوگوں کو مطمئن کرکے پارلیمنٹ میں انھیں بولنے کا موقع دیے بغیر صوبائی خود مختاری دلائی گئی اور وفاق کے اختیارات کم کرائے گئے تھے۔
2008ء میں بھی ملک میں مخلوط حکومت پیپلز پارٹی کی بنوائی گئی تھی جس میں پہلے دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن بھی شامل تھی جسے پنجاب کی حکومت مجبوری میں دی گئی تھی مگر ججز بحالی اختلافات پر صدر آصف زرداری نے تحریری معاہدے سے بریت کا اظہار کردیا جس پر مسلم لیگ ن وفاقی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور صدر زرداری نے اپنے پسندیدہ اور ہوشیار شخص کو پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔
جس کے مشورے پر چند ماہ بعد ہی پنجاب میں گورنر راج لگا کر ن لیگ کی حکومت ختم کی گئی تھی مگر عدلیہ بحالی کے بعد عدلیہ نے گورنر راج ختم کرکے حکومت بحال کردی تھی جس کے بعد ہی صدر زرداری نے سندھ کو بااختیار بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور 2013ء سے2018ء تک سندھ پیپلزپارٹی نے اپنی دوسری مدت مکمل کرلی تھی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے باہمی مخالفت کے باوجود سندھ حکومت ختم کرنے یا پی پی میں فارورڈ بلاک بنوانے سے گریز کیا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی دوسری مدت بھی کامیابی سے مکمل کر لی تھی۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی جگہ اب پی ٹی آئی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے اور ایم کیو ایم دوسری اور جی ڈی اے تیسری بڑی پارٹی ہے جو وفاق میں حکومت میں شامل ہیں مگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں ہے جس کی وجہ سے اس نے سندھ حکومت کی تبدیلی کے متعلق ابھی اپنا فیصلہ ظاہر نہیں کیا۔ جی ڈی اے اور پی ٹی آئی نے سندھ میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش شروع کی ہوئی ہے ۔ وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کراچی کے رہنما وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنا ٹارگٹ بناکر ان سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے حالیہ کراچی کے دورے میں مراد علی شاہ پر الزامات لگاتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مستعفی نہ ہوئے تو وفاقی حکومت کچھ ضرور کرے گی۔
وفاق سندھ میں گورنر راج براہ راست خود لگا سکتا ہے یا پی ٹی آئی اور جی ڈی اے اندرون سندھ کوشش کرکے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنواسکتے ہیں مگر ان میں جام صادق جیسا رہنما موجود نہیں جنہوں نے پی پی میں رہ کر کام دکھایا تھا اور نگراں وزیراعلیٰ رہنے کے بعد سندھ میں مخلوط حکومت بنوائی تھی۔ اس وقت سندھ میں مرحوم پیر پگاڑا جیسی قد آور قومی سیاسی شخصیت موجود تھی جو اب جی ڈی اے میں موجود نہیں اور موجودہ قیادت سندھ میں کچھ زیادہ موثر نہیں جو اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں امتیاز شیخ ، اسماعیل راہو اور جام مدد علی تک کو اپنے ساتھ شامل نہیں رکھ سکی تو وہ پیپلزپارٹی میں گروپ کیسے بنوا سکے گی۔
پی ٹی آئی گھوٹکی اور شکار پور کے مہروں اور نوشہرو فیروز کے جتوئیوں پر انحصار کررہی ہے جب کہ آصف زرداری کے راز دار اور پرانے ساتھی ذوالفقار مرزا اپنی بیگم کو وفاقی وزیر بنوا کر کیوں چپ اور خاموش ہیں۔ سندھ میں ہم جی ڈی اے اور پیپلزپارٹی میں تقسیم ہیں جب کہ اندرون سندھ کوئی بھی اہم رہنما پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوا تھا اور پی ٹی آئی کراچی ہی میں اکثریت لے سکتی تھی۔ سندھ حکومت سے بے شمار شکایات کے باوجود سندھ میں پی پی میں بظاہر کوئی دراڑ نہیں ہے مگر خفیہ طور رابطے ضرور ہورہے ہیں اور آصف زرداری بھی اب سندھ میں پارٹی رہنماؤں سے ملنے کے لیے دورے کررہے ہیں اور وفاق کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لگانے سے اب عدلیہ کی وجہ سے خوفزدہ ہے ۔ سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت پر سندھ کے فنڈز نہ دیے جانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں مگر وفاق کو نہ جانے کیوں سندھ میں تبدیلی کی جلدی ہے جس سے وفاق اور سندھ میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، سندھ میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سندھ ایوان سے باہر ہیں اور ایم کیو ایم تماشا دیکھ رہی ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس کے بغیر سندھ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔