واکر پر چیزیں بیچنے والی باہمت خاتون مثال بن گئی
70سالہ ادریسہ بھیک مانگنے کے بجائے روزانہ 10سے 12گھنٹے تک محنت کرتی ہیں
مہنگائی، بیروزگاری، غربت و دیگر مسائل کی وجہ سے آج عوام شدید پریشانی سے دوچار ہیں، کئی گھرانے فاقہ کشی سے بچنے کیلیے ''بھیک'' مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں تاہم معاشرے میں آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو شدید مفلسی کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں بلکہ محنت کرکے دو وقت کی روٹی کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیاقت آبادکی ادریسہ خاتون کی عمراس وقت 70سال سے زائد ہوگئی ہے مگر وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کے بجائے روزانہ 10 سے 12گھنٹے تک محنت کرتی ہیں، زندگی کی سب سے قیمتی چیز '' واکر ''ہے جو ان کے روزگار کمانے کاذریعہ بھی ہے ،بچوں کوگھمانے والے واکر میں اردیسہ خاتون گارمنٹ سے متعلق اشیا فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتی ہیں،ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ میرا نام ادریسہ خاتون ہے اورمیرے والد کا آبائی تعلق انڈیا اور والدہ کالاہور سے تھا ہم دو بھائی اور میں اکلوتی بہن ہوں، والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب میں پیدا ہوئی جس کے بعد والد ہم تینوں کو لاہور سے کراچی لے آئے اور سندھی ہوٹل کے قریب لیاقت آباد میں گھر لے رہائش اختیار کر لی۔
والد سرکاری ادارے میں الیکٹریشن تھے یہ ہی ہنر انھوں نے میرے دونوں بھائیوں کو بھی سیکھایا جب میں 16برس کی ہوئی تو والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد سب سے بڑے بھائی مختار احمد نے میری اورچھوٹے بھائی کی پرورش کی اور 18سال کی عمر میں میری شادی کردی مگر شوہر کوئی کام نہیں کرتا تھا جس کے باعث ایک سال میں ہی ہماری علیحدگی ہو گئی۔
ادریسہ خاتون نے مزید بتایا کہ 15سال قبل بڑے بھائی کا انتقال ہواتو ہمارا خاندان تقسیم ہوگیا اوربھائی کے اہلخانہ ہم سے الگ ہوگئے جبکہ میں اور چھوٹابھائی ہم دونوں لیاقت آباد کے علاقے ایف سی ایریا میں شفٹ ہوگئے اور کرایے کے مکان پر رہنے لگےجہاں میں نے اور چھوٹے بھائی نے 1200روپے کا واکر خریدکر اس میں چھوٹے بچوں کے سلے ہوئے سوٹ، مردوں کے ٹراوئزر اور گارمنٹ کا دیگر سامان فروخت کرنا شروع کر دیا، گزشتہ برس فروری کی 11 تاریخ کو چھوٹے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا جس کے کفن دفن کیلیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔
اس لیے بھائی کی میت تدفین کیلیے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دی، محلے والوں کو پتہ لگا تو لوگوں نے بہت کہا کہ ہم کو بتادیا ہوتا ہم تدفین کرادیتے مگر میں نے کہا کہ چندہ کرکے میں تدفین کرنا نہیں چاہتی تھی، بھائی کی وفات کے بعد اب معلوم ہوا کہ زندگی کیا ہوتی ہے، میرا سائبان ہی چلا گیا۔
جب تک ہاتھ پائوں سلامت ہیں، محنت کرتی رہوں گی
ادریسہ خاتون نے بتایا کہ بھائی کے انتقال کے بعد محلے والوں اور دیگر لوگوں نے میری مدد کی کوشش کی لیکن میں نے منع کردیا جب تک ہاتھ پائوں سلامت ہیں میں محنت کرتی رہوں گی ،کسی کے مدد مانگنے کے بجائے اگر انسان محنت کرے تو اللہ اس کو روزی دیتا ہے ، اگر ہاتھ پائوں سلامت ہوں تو بھیک مانگنا بے غیرتی ہے ،آج کئی لوگ محنت کے بجائے بھیک مانگتے ہیں تو مجھے افسوس ہوتا ہے ، بس ایک پیغام ہے لوگوں کے لیے ''وہ محنت اور حلال کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اللہ تعالیٰ خود ان کو ترقی دے گا ،ادریسہ خاتون نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے میری زندگی میں خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کا دیدار کردے ۔
2000 کا سامان فروخت ہو جائےتو 400 روپے مل جاتے ہیں،ادریسہ
ادریسہ خاتون کا کہنا تھاکہ میں اب بولٹن مارکیٹ سے سامان خرید کرلاتی ہوں اور واکر پر رہ کر پیدل ایف سی ایریا سے لیاقت آباد نمبر 4جاتی ہوں، رات 1بجے تک سامان فروخت کرتی ہوں، اگر 1500 سے 2000 کا سامان فروخت ہو جائے تو 400 یا 500 روپے مل جاتے ہیں، کبھی کام زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے، پہلے کمائی میں سے گھر کا کرایہ نکالتی ہوں، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ 5000 روپے ہے، یہ مکان ہی میرا سائبان ہے۔
لیاقت آبادکی ادریسہ خاتون کی عمراس وقت 70سال سے زائد ہوگئی ہے مگر وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کے بجائے روزانہ 10 سے 12گھنٹے تک محنت کرتی ہیں، زندگی کی سب سے قیمتی چیز '' واکر ''ہے جو ان کے روزگار کمانے کاذریعہ بھی ہے ،بچوں کوگھمانے والے واکر میں اردیسہ خاتون گارمنٹ سے متعلق اشیا فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتی ہیں،ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ میرا نام ادریسہ خاتون ہے اورمیرے والد کا آبائی تعلق انڈیا اور والدہ کالاہور سے تھا ہم دو بھائی اور میں اکلوتی بہن ہوں، والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب میں پیدا ہوئی جس کے بعد والد ہم تینوں کو لاہور سے کراچی لے آئے اور سندھی ہوٹل کے قریب لیاقت آباد میں گھر لے رہائش اختیار کر لی۔
والد سرکاری ادارے میں الیکٹریشن تھے یہ ہی ہنر انھوں نے میرے دونوں بھائیوں کو بھی سیکھایا جب میں 16برس کی ہوئی تو والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد سب سے بڑے بھائی مختار احمد نے میری اورچھوٹے بھائی کی پرورش کی اور 18سال کی عمر میں میری شادی کردی مگر شوہر کوئی کام نہیں کرتا تھا جس کے باعث ایک سال میں ہی ہماری علیحدگی ہو گئی۔
ادریسہ خاتون نے مزید بتایا کہ 15سال قبل بڑے بھائی کا انتقال ہواتو ہمارا خاندان تقسیم ہوگیا اوربھائی کے اہلخانہ ہم سے الگ ہوگئے جبکہ میں اور چھوٹابھائی ہم دونوں لیاقت آباد کے علاقے ایف سی ایریا میں شفٹ ہوگئے اور کرایے کے مکان پر رہنے لگےجہاں میں نے اور چھوٹے بھائی نے 1200روپے کا واکر خریدکر اس میں چھوٹے بچوں کے سلے ہوئے سوٹ، مردوں کے ٹراوئزر اور گارمنٹ کا دیگر سامان فروخت کرنا شروع کر دیا، گزشتہ برس فروری کی 11 تاریخ کو چھوٹے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا جس کے کفن دفن کیلیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔
اس لیے بھائی کی میت تدفین کیلیے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دی، محلے والوں کو پتہ لگا تو لوگوں نے بہت کہا کہ ہم کو بتادیا ہوتا ہم تدفین کرادیتے مگر میں نے کہا کہ چندہ کرکے میں تدفین کرنا نہیں چاہتی تھی، بھائی کی وفات کے بعد اب معلوم ہوا کہ زندگی کیا ہوتی ہے، میرا سائبان ہی چلا گیا۔
جب تک ہاتھ پائوں سلامت ہیں، محنت کرتی رہوں گی
ادریسہ خاتون نے بتایا کہ بھائی کے انتقال کے بعد محلے والوں اور دیگر لوگوں نے میری مدد کی کوشش کی لیکن میں نے منع کردیا جب تک ہاتھ پائوں سلامت ہیں میں محنت کرتی رہوں گی ،کسی کے مدد مانگنے کے بجائے اگر انسان محنت کرے تو اللہ اس کو روزی دیتا ہے ، اگر ہاتھ پائوں سلامت ہوں تو بھیک مانگنا بے غیرتی ہے ،آج کئی لوگ محنت کے بجائے بھیک مانگتے ہیں تو مجھے افسوس ہوتا ہے ، بس ایک پیغام ہے لوگوں کے لیے ''وہ محنت اور حلال کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اللہ تعالیٰ خود ان کو ترقی دے گا ،ادریسہ خاتون نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے میری زندگی میں خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کا دیدار کردے ۔
2000 کا سامان فروخت ہو جائےتو 400 روپے مل جاتے ہیں،ادریسہ
ادریسہ خاتون کا کہنا تھاکہ میں اب بولٹن مارکیٹ سے سامان خرید کرلاتی ہوں اور واکر پر رہ کر پیدل ایف سی ایریا سے لیاقت آباد نمبر 4جاتی ہوں، رات 1بجے تک سامان فروخت کرتی ہوں، اگر 1500 سے 2000 کا سامان فروخت ہو جائے تو 400 یا 500 روپے مل جاتے ہیں، کبھی کام زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے، پہلے کمائی میں سے گھر کا کرایہ نکالتی ہوں، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ 5000 روپے ہے، یہ مکان ہی میرا سائبان ہے۔