کیا سائنس فکشن واقعی ’’سائنسی‘‘ ہوتا ہے تیسرا حصہ

اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سائنس فکشن کا انحصار ٹھوس سائنسی تحقیق پر ہوتا ہے تو آپکو یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہیے

اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سائنس فکشن کا انحصار ٹھوس سائنسی تحقیق پر ہوتا ہے تو آپکو یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI:

سائنس فکشن اور کشش ثقل


بے وزنی سے لے کر مصنوعی کشش تک، سائنس فکشن فلموں اور ناولوں میں کشش ثقل کو کئی طرح سے پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ہمیں زبردست کشش ثقل والے بلیک ہولز سے لے کر نہایت معمولی کشش رکھنے والے شہابئے تک ان فلموں میں دکھائی دے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں سائنس فکشن فلموں میں کشش ثقل سے متعلق مناظر و مظاہر پر بات کروں، بہتر ہوگا کہ اپنے قارئین کو قوتِ ثقل کی کچھ چیدہ چیدہ باتوں کے بارے میں بتاتی چلوں۔

کلاسیکی طبیعیات میں (جسے نیوٹونیئن فزکس بھی کہا جاتا ہے) کشش ثقل ایک ایسی قوت ہے جو مادّی اجسام کے درمیان عمل کرتی ہے اور جس کی بدولت یہ اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے (کشش کرتے) ہیں۔ یعنی اگر ہم دو مادّی اجسام کے درمیان کشش ثقل کی بات کریں تو یہ ان دونوں کی انفرادی کمیتوں کے حاصل ضرب کے راست متناسب ہوگی جبکہ ان کے درمیانی فاصلے کے مربعے کے معکوس متناسب ہوگی۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں یہ بات نصابی انداز میں لکھ گئی ہوں، اس لیے تھوڑی سی وضاحت بھی ملاحظہ کرلیجئے۔

اس بلاگ کے پہلے دو حصے یہاں پڑھیے:


کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟


کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟ (دوسرا حصہ)


قدرے آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ جیسے جیسے دو مادّی اجسام کی کمیت (mass) میں اضافہ ہوگا، ویسے ویسے ان کے درمیان کشش ثقل میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسی طرح جب ہم ان دونوں اجسام کا درمیانی فاصلہ بڑھائیں گے، تو ان کے مابین عمل کرنے والی قوتِ ثقل میں جو کمی ہوگی، وہ اس درمیانی فاصلے کے مربعے (square) کے حساب سے ہوگی۔ مثلاً اگر دو مادّی اجسام کا درمیانی فاصلہ ایک میل ہونے پر ان کے مابین جتنی قوتِ ثقل ہوگی؛ وہ قوتِ ثقل ان کا درمیانی فاصلہ دگنا (یعنی دو میل) کرنے پر ایک چوتھائی رہ جائے گی۔



ہمیں زمین پر اپنا وزن بھی اسی قوت کی بناء پر محسوس ہوتا ہے۔ جب کشش ثقل اور بے وزنی کا ذکر نکل ہی آیا ہے توکیوں نہ سائنس فکشن فلموں میں بے وزنی اور خلائی ماحول پر کچھ بات کرلی جائے۔

فلمی بے وزنی


کئی سائنس فکشن فلموں میں بے وزنی کی کیفیت دکھائی گئی ہے۔ مثلاً جارج پال کی کلاسیکی سائنس فکشن فلم ''ڈیسٹی نیشن مون'' (Destination Moon) میں جہاز کا عملہ بے وزنی محسوس کرتا ہے اور مقناطیسی جوتے استعمال کرتا ہے تاکہ جہاز کے فرش سے منسلک رہ سکے۔ عملے کا ایک فرد یہ شکایت بھی کرتا ہوا دکھایا گیا ہے کہ وہ کھانا ٹھیک سے نگل نہیں پارہا ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل بھی درست نہیں۔ کھانا نگلنے کرنے کا عمل، غذائی نالی کے سکڑنے سے انجام پاتا ہے نہ کہ کشش ثقل سے۔ یعنی آپ بڑی آسانی سے بے وزنی کی کیفیت میں بھی کھانا نگل سکتے ہیں۔



عام خیال کے برعکس، کشش ثقل نہ ہونے سے بے وزنی کیفیت پیدا نہیں ہوتی؛ بلکہ خلائی جہاز کے مسافر دراصل، خلائی جہاز سمیت، آزادی سے نیچے گرنے (Freefall) جیسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ بیشتر سائنس فکشن فلموں میں اداکاروں کو بے وزنی کی حالت میں دکھانے کےلیے (فلم بندی کے دوران) انتہائی باریک اور مضبوط تاروں اور چرخیوں سے باندھ کر لٹکایا جاتا ہے۔ بعد ازاں جب فلم کو آخری شکل دی جارہی ہوتی ہے تو خصوصی تکنیکوں کے ذریعے ان باریک تاروں کی مدھم لکیریں بھی مٹادی جاتی ہیں․․․ اور یوں دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ فلم میں دکھایا گیا خلاء نورد، درحقیقت بے وزنی کی حالت میں ہے۔

البتہ، ران ہاورڈ کی مشہور فلم ''اپالو 13'' میں قدرے مختلف حکمت عملی اختیار کی گئی۔ فلم ساز نے بے وزنی کے مناظر فلمانے کےلیے ناسا سے مدد لی اور KC-135 طیارہ حاصل کیا۔ ناسا کا یہ طیارہ، خلاء نوردوں کی تربیت کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی پرواز کے دوران یہ پہلے انتہائی بلندی پر جاتا ہے اور پھر نہایت تیزی سے، ٹھیک اُسی طرح نیچے کی طرف آتا ہے جیسے کوئی چیز زمینی کشش ثقل کے تحت آزادی سے گرنے (فری فال) کی کیفیت میں ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس طیارے کے اندر موجود تمام چیزیں بے وزنی جیسی کیفیت میں آجاتی ہیں۔ بے وزنی کی یہ کیفیت صرف تیس سیکنڈ ہی کےلیے برقرار رہ پاتی ہے۔ تاہم، اگر اس طیارے کے مسافر بہت نازک اندام ہوں تو وہ مصنوعی بے وزنی کی اس کیفیت کے دوران متلی محسوس کرنے لگتے ہیں․․․ اور کچھ بے چارے تو واقعی میں الٹیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے KC-135 کو مذاقاً Vomit Comet (یعنی الٹی والا دمدار ستارہ) بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپالو 13 میں بے وزنی والے مناظر کی فلم بندی بہت مشکل تھی۔ اداکار، ہدایت کار، کیمرہ مین اور دیگر ساز و سامان سمیت، ہر منظر کا ایک چھوٹا سا حصہ فلمانے کےلیے ہر پھیرے میں صرف تیس سیکنڈ ہی مل سکتے تھے۔ یعنی KC-135 نے بے وزنی کے مناظر میں حقیقت کا رُوپ بھرنے کےلیے یقینا سینکڑوں پھیرے لگائے ہوں گے۔



اس ضمن میں اپالو 13 سے وابستہ تمام عملے کی ہمت کو داد دینی چاہیے کیونکہ بے وزنی کے مختصر مدتی اثرات میں (چاہے وہ مصنوعی طور پر ہی کیوں نہ پیدا کی گئی ہو) متلی اور اُلٹی شامل ہیں؛ جبکہ طویل مدتی اثرات میں ہڈیوں کا کمزور پڑ جانا، پٹھوں کا ڈھیلا پن، اور خون اور دیگر جسمانی رطوبتوں میں کمی وغیرہ اہمیت رکھتے ہیں۔

مصنوعی قوتِ ثقل


کئی خلائی جہازوں میں کچھ ایسی مصنوعی ثقل بھی دکھائی جاتی ہے جس کے تحت جہاز پر سوار عملہ یا مسافر (خلاء میں ہوتے ہوئے بھی) معمول کی کشش ثقل (نارمل گریویٹی) محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً اسٹار ٹریک کے خلائی جہاز ''اینٹرپرائز'' میں یا پھر اسٹار وارز کے ''ملینیئم فیلکن'' کے اندر۔ یہ لمبے وقفوں تک بے وزنی کے منفی اثرات کا سدِباب کرنے کےلیے ضروری بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، جہاز کے اندر عملے کو بے وزنی والی کیفیت کی نسبت معمول کی حالت میں دکھانا (فلمانے کے نقطۂ نگاہ سے) کہیں زیادہ آسان بھی رہتا ہے۔



اب یہ مصنوعی کشش ثقل کیونکر پیدا کی جاتی ہے؟ یہ ناقابل فہم ہے۔ یاد رہے کہ سائنس فکشن فلموں کے مصنّفین کا تخیل نئی جہتوں میں پرواز کےلیے ہمیشہ آزاد رہتا ہے۔ اب تک ایسی مصنوعی کشش ثقل ایسی صورت ہی میں ممکن ہے کہ خلاء نوردوں کو پہیے کی شکل والے کسی بہت بڑے خلائی جہاز میں مسلسل گردش دیا جاتا رہے۔


اس گردش سے پیدا ہونے والی مرکز گریز قوت، اس دیوقامت پہیے کے (کھوکھلے) بیرونی کناروں کے اندر موجود خلاء نوردوں پر ویسی ہی قوت لگائے گی جیسے اصلی قوتِ ثقل میں ہوتا ہے۔ (کئی بڑی تفریح گاہوں میں ایسے جھولے بھی بنائے گئے ہیں۔) مثلاً مشہور سائنس فکشن فلم ''2001: اے اسپیس اوڈیسی'' میں، ''2010: دی ایئر وی میک کونٹیکٹ'' میں اور ''مشن ٹو مارس'' میں مصنوعی کشش ثقل کی اسی طرح سے درست انداز میں دکھایا گیا ہے۔



جب ہم کسی چیز پر قوت لگاتے ہیں تو اس میں اسراع پیدا ہوتا ہے۔ البتہ، اس چیز (جسم) کی کمیت، اسراع کے خلاف مزاحمت کرتی ہے جسے فزکس کی زبان میں ''جمود'' (انرشیا) کہا جاتا ہے۔ کمیت جتنی زیادہ ہوگی، جمود بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ پھر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے جو اس کے مساوی لیکن مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم کسی چیز پر قوت لگائیں گے تو اسراع کے مخالف (جمود کی) قوت بھی اتنی ہی مقدار میں عمل کرے گی۔ اب اگر آپ نے اسٹار ٹریک سلسلے کی فلمیں دیکھی ہوں، تو ان میں خلائی جہاز کو صرف چند سیکنڈوں میں حالتِ سکون سے انتہائی تیز رفتار حرکت میں آتے دکھایا جاتا ہے۔ خلائی جہاز کی رفتار کبھی تو روشنی کی رفتار سے تھوڑی ہی کم، تو کبھی روشنی کی رفتار جتنی ہوجاتی ہے․․․ یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ!

لیکن اگر طبیعیات کے اصول مدنظر رکھتے ہوئے اس کیفیت کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف خلائی جہاز بلکہ اس میں سوار تمام کے تمام افراد کو بھی جمود کی قوت کا سامنا کرنا چاہیے۔ اسراع کے مخالف سمت میں عمل کرنے والی یہ قوت بھی بہت زیادہ ہوگی، اتنی زیادہ کہ جیٹ لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں پر پڑنے والی زبردست قوت (جی فورس) سے بھی کہیں زیادہ۔ یہ قوت اس خلائی جہاز اور اس میں سوار تمام لوگوں کو چشمِ زدن میں کچل کر رکھ دے گی۔



اس نکتے کے پیش نظر، اسٹار ٹریک کے مصنّفین نے ''انرشیل ڈیمپر'' (جمود ختم کرنے والے آلے) کا تصور پیش کیا ہے جو اس ممکنہ حقیقت کا ازالہ کرتا ہے․․․ یعنی اسراع کے ردِعمل میں پیدا ہونے والے جمود کا خاتمہ کرتا ہے۔ ''دی فزکس آف اسٹار ٹریک'' میں مصنف لارنس کراس نے ایسے کچھ تصوراتی آلات کی عملی توجیح پر بھی روشنی ڈالی ہے، لیکن ایسا کوئی بھی آلہ فی الحال حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا․․․ جمود پر قابو پانا، ابھی تک ہمارے لیے ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

سائنس فکشن فلموں میں بلیک ہول


بے وزنی کے برعکس، ان فلموں میں ایک اور چیز بھی روایت بن چکی ہے جہاں کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور وہ ہے بلیک ہول۔ ''گیلکسی کویسٹ'' (کہکشاں کی تلاش) نامی فلم کے اختتام سے کچھ پہلے ایک کردار ٹامی لاریڈو، خلائی جہاز کے کپتان جیسن نیسمتھ سے کہتا ہے کہ ان کے خلائی جہاز کو زمین تک پہنچنے کےلیے ایک بلیک ہول میں سے گزرنا ہوگا۔ اسی طرح ڈزنی کی فلم ''دی بلیک ہول'' میں بھی خلائی جہاز کا عملہ ایک بلیک ہول میں سے گزرتا ہے اور پھر کسی دور دراز جگہ پر جاپہنچتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ہم کسی بلیک ہول میں سے گزر نہیں سکتے!

بلیک ہول دراصل کسی ستارے کی زندگی کے اختتام پر بنتا ہے۔ (اس ستارے کےلیے ہمارے سورج سے کم از کم تین گنا زیادہ کمیت والا ہونا ضروری ہے۔) مرتے ہوئے ستارے کا قلب اس قدر کثیف ہوتا ہے، اور اس کی کشش ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے، کہ کوئی بھی چیز وہاں سے باہر نہیں نکل سکتی․․․ چاہے وہ روشنی کی کرنیں ہی کیوں نہ ہو۔



بلیک ہول کوئی سرنگ بھی نہیں ہوتا۔ کوئی بھی چیز اگر بلیک ہول کے کناروں یعنی واقعاتی اُفق (ایونٹ ہورائزن) کے اندر داخل ہوجائے تو وہ اس کے اندر گرتی ہی چلی جاتی ہے؛ اور بلیک ہول کی اندرونی کشش ثقل اس کے چیتھڑے اڑادیتی ہے۔

بلیک ہول کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ جیسے وہ کوئی ویکیوم کلینر ہو جو پاس آنے والی ہر شئے کو چوس لیتا ہے۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں، بلکہ صرف وہی اشیاء جو واقعاتی اُفق کے اندر داخل ہوں، وہی بلیک ہول میں جاتی ہیں۔ کوئی بھی بلیک ہول کسی بھی چیز کو اپنی کمیت اور کشش ثقل کی مدد سے بالکل اسی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے جیسے کہ وہ ستارہ کیا کرتا تھا کہ جس سے وہ بلیک ہول وجود میں آیا ہے۔ یاد رہے کہ کسی ضخیم ستارے سے جنم لینے والے بلیک ہول کی کمیت، اسی ستارے کی کمیت کے تقریباً برابر ہی ہوتی ہے۔ البتہ، وہ اپنی کثافت کے اعتبار سے اس کے مقابلے میں بہت زیادہ کثیف اور مختصر ہوتا ہے․․․ بلیک ہول میں بہت ہی زیادہ مادّہ، انتہائی کم جگہ میں سمایا ہوتا ہے۔

ویسے فلکی طبیعیات کے نقطۂ نگاہ سے ایسا ممکن تو نہیں، لیکن فرض کیجئے کہ اگر ہمارا سورج اچانک بلیک ہول بن جائے تو عام طور پر لوگ یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری زمین کو اپنے اندر جذب کرلے گا۔ لیکن اگر ہم نیوٹن کے قانون برائے کشش ثقل کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سورج اور زمین کی کمیتوں اور ان کے درمیان فاصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ لہٰذا زمین اس صورت میں بھی اتنی ہی کشش ثقل محسوس کرے گی جو سورج کے متصورہ طور پر بلیک ہول بننے سے پہلے کرتی رہی تھی۔ چنانچہ وہ بلیک ہول کے مدار میں بھی اسی طرح گردش کرتی رہے گی جیسا کہ سورج کے گرد مدار میں گردش کر رہی ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ سورج کی روشنی اور شمسی توانائی کے حصول میں کمی یا اس کے نہ ہونے سے دوسرے بہت سے پیچیدہ مسائل ضرور جنم لیں گے۔



ایک بات اور۔ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ بلیک ہول کے اندر واقعی میں کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا سائنس فکشن فلموں میں بلیک ہول کے اندرونی ماحول سے متعلق جو کچھ بھی دکھایا جاتا ہے، وہ صرف مفروضات اور اندازوں پر مبنی ہوتا ہے․․․ حقیقت پر نہیں۔

اگلی قسط میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ سائنس فکشن میں لیزر، آواز اور خلائی مخلوق کو کس طرح برتا جاتا رہا ہے۔

جاری ہے


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story