تعلیم کو سہارا دیں۔۔۔

فلاحی اداروں میں زیرتعلیم بچے آپ کی توجہ کے مستحق ہیں

فلاحی اداروں میں زیرتعلیم بچے آپ کی توجہ کے مستحق ہیں۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ علاج معالجے، تعلیم و صحت اور روزگار سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہماری حکومتوں نے اپنی ذمہ داریوں کے احساس کی بجائے ہمیشہ ان سے راہ فرار اختیار کی۔

اگرچہ ماضی قریب میں ''پڑھا لکھا پنجاب، اپنے بچوں کو بھی سکول بھجوائیں، تعلیم ہر بچے کے لئے اور شرح خواندگی میں اضافے کے لئے یونیورسل پرائمری انرولمنٹ مہم '' جیسے منصوبے متعارف کروا کر حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری ادا کرنے کے اقدامات کئے، مگر افسوس کہ یہ پروگرام محض سرخ فیتے یا فیصلہ سازی کے اجلاسوں تک محدود رہے اور حکومتوں کے جانے کے ساتھ ہی دفن ہوگئے۔ حقیقت کا عملی روپ دھارنے سے پہلے ہی یہ مہمات تعلیم چوروں ، بیوروکریسی اور پالیسی سازوں کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود آج بھی وطنِ عزیز میں پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر اور کتنے ہی گلی، چوراہوں پر بھیک مانگتے، بوٹ پالش کی آواز بلند کرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ٹریفک اشاروں پر اخبارات بیچتے، چائے خانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے، کپڑوں پر ذری کا کام اور قالین بافی یا ورکشاپوں، مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ کالے کرتے اور فیکٹریوں میں محنت مزدوری کرکے زندگی کی گاڑی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں جہاں ایک ہنر مند بچے کو 200 روپے دیہاڑی بھی نہیں دی جاتی۔

ہمارے ارد گرد موجود یہ معصوم بچے معاشرے کی بے بسی و بے کسی کی عکاسی کررہے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے پوچھنے پر وہ خالی خالی نظروں سے یوں دیکھتے ہیں جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیوں ہماری غربت و بے بسی کا مذاق اڑاتے اور ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہو ... آج کے دور میں تعلیم حاصل کرنا ہم جیسوں کے بس میں کہاں ... ؟؟؟

زندہ رہنے کے سب اسباب مٹا کر ہم کو


کس قدر پیار سے جینے کی دعا دیتے ہیں

پاکستان میں شعبہ تعلیم ماضی کی حکومتوںکی کبھی اولین ترجیح ہی نہیں رہا جس کی وجہ سے یہ ملک تعلیمی انحطاط کا شکار ہوا۔ لیکن ابھی بھی کچھ لوگ اور ادارے ایسے موجود ہیں جن کے خلوص کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی ترقی کی دوڑ جاری رہے گی۔ چند روز قبل غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ذمہ داران نے ادارے کے تعلیمی پراجیکٹس سے آگاہی کیلئے ڈاکومنٹری دکھائی۔ نشست میں بیٹھ کر جب ہمیں معلوم ہوا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ صوبہ پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے پسماندہ دیہی اضلاع میں 325 سکولوں کے ذریعے تعلیمی پسماندگی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے تعلیم کو 48 ہزار سے زائد دیہی بچوں کی دہلیز تک پہنچا رہا ہے جبکہ کسی حکومتی سپورٹ کے بغیر 24 ہزار سے زائد بچوں کی تعلیمی کفالت کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اتنا بڑا نیٹ ورک کسی سرپرستی کے بغیر کیسے چل رہا ہے ۔



یہی سوال جب اپنے میزبان سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے مخیر حضرات کے تعاون سے وہ یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسری جانب پرائیوٹ تعلیمی ادارے تعلیم کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں جبکہ دیہات پر کسی کی توجہ نہیں گئی ۔ ان حالات میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ یقیناً امید کی کرن ہے جس نے اہلِ دل اور مخیر حضرات کے ساتھ مل کر شہروں کی بجائے دیہاتوں کی تعلیمی آبیاری کا بیڑہ اٹھایا۔ یوں دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات سے محروم بچے جن کی آنکھوں میں سوائے دکھوں اور محرومیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کی بدولت اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سہولیات مہیاہونے کے بعد اب ان کی زندگیوں میں تبدیلی آئی اور ان کی آنکھیں اپنے روشن مستقبل کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنے لگیں ہیں۔

آج تعلیم سہارے کی منتظر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیمی کاوشوں کی قدر نہیں کی جاتی اور ہمارے ہاں سب سے کم بجٹ بھی تعلیم کے شعبے کے لئے ہی مختص کیا جاتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں فقدان کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے اور اس خلا کو کم کرنے کی ضرورت ہے لیکن عملی طور پر اس کی منصوبہ بندی تو حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ حکومتوں کو ایسے تعلیمی سلسلوں کو سراہتے ہوئے اس پرعزم جدوجہد میں ان اداروں کی سرپرستی کرنی چاہئے۔ مختلف اضلاع کے دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام کی صورت میں مختلف نجی ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں تو ادا کررہے ہیں لیکن جس طرح کوئی جنگ تنہا نہیں لڑی جاتی اور ہر فرد کو اس میں حصہ لینا پڑتا ہے ، اسی طرح ہمارے معاشرے کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ارد گرد پھیلے ہوئے ان معصوم پھولوں کے لئے تعلیم کا بندوبست کریں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم ان اداروں کو سپورٹ کریں جو ایسے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھائے اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے کوشاں ہیں ۔

جس طرح ہم اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند رہتے ہیں وہیں یہ بچے بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں ۔ ان کی تعلیم کا جاری رہنا ... ان کا مستقبل سنوارنا ... اور پاکستان کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے ان داروں کا ہاتھ بٹانا یقیناً ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ تعلیم کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی ہے ۔ معاشرے کا ہر فرد ان سے تعاون کرکے اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتا ہے ۔ ایسے پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے چونکہ کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لہذا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کون ہے جو ان کا دست و بازو بنے ... ؟؟؟ اگرچہ اچھائی کے بے شمار عنوان اور نیکی کے نوع بہ نوع راستے ہیں لیکن ان میں سب سے اہم کسی فرد کو تعلیم دلانا ہے ۔ یہ قومی منصوبہ ہے جس کی ترقی کا باعث ہم سب کو بننا ہے ۔ یہ اللہ کے فضل ، عنایت اور مہربانی کا صدقہ بھی ہے اور وطن عزیزکی تعمیر میں ہمارا صدقہ جاریہ بھی ہے۔ سرکاری سطح پر بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ تعلیمی پالیسیوں کی اصلاح احوال میں کچھ ایسی قابل ذکر پیش رفت کی جائے، جو اشتہارات، نعروں، میٹنگز اور بیان بازیوں تک ہی محدود نہ ہو بلکہ عملاً کچھ کر کے دکھایا جائے۔
Load Next Story