پاکستانی ارضیاتی واقعہ جس نے عالمی ماحول ڈرامائی طور پر تبدیل کردیا
ایک کروڑ سال قبل سوالِک سلسلے میں لگنے والی مسلسل آگ نے بڑے پیمانے پر گھاس اور چراگاہوں کو جنم دیا!
پاکستان کے بارے میں ایک دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ لگ بھگ ایک کروڑ سال قبل یہاں بڑے پیمانے پر لگنے والی آگ اور دیگر تبدیلیوں نے پہلے پاکستان اور اس سے ملحق بڑے خطےمیں سبزہ زاروں (گراس لینڈ) کو جنم دیا اور پھر اس کے اثرات دیگر دنیا میں بھی دیکھے گئے۔
پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع رپورٹ کے مطابق پینسلوینیا یونیورسٹی اور اسمتھ سونین میوزیم کے ماہرین نے مشترکہ طور پر ایک طویل عرصے تک ارضیاتی اور فاسل تحقیق کے لیے انتہائی مشہور پاکستانی ارضیاتی خطے سوالک میں لگاتار کئی سال تک تحقیق کی ہے۔ یہ علاقہ جہلم، سالٹ رینج سے ہوتا ہوا پہلے آزاد کشمیر تک جاتا ہے اور اس کے بعد بھارت اور نیپال تک پہنچتا ہے۔
پاکستانی علاقے میں ایک مقام پر ایک کروڑ سال قبل کا پہاڑی سلسلہ بہت واضح ہے جو مایوسین عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ عین اسی دور میں دنیا کے غالب حصے میں جنگلات کم ہوئے اور بڑے پیمانے پر سبزے کی افزائش ہوئی جس سے قالین کی طرح گھاس بچھتی چلی گئی۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ایلیسن کارپ اور اسمتھ سونین سے وابستہ سینیئر ماہرِ ارضیات اینا بیرنسمائیر نے مشترکہ طور پر یہ اہم دریافت کی ہے ۔ اینا 1990ء کے عشرے میں کئی بار پاکستان آئیں اور سوالِک سلسلے سے انہوں نے ایسی مٹی کے نمونے اٹھائے جو لاکھوں کروڑوں سال پرانے تھے۔
ماہرین قدیم مٹی کو ' پیلیو سول' کہتے ہیں، ماہرین نے ان نمونوں میں قدیم سبزے اور پودے کی وہ نشانیاں نوٹ کیں جو کاربن آئسوٹوپس سے ظاہر ہورہی تھیں۔
ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان سمیت دیگر کئی خطوں میں بھی آگ لگنے کے بڑے واقعات ہوئے جس سے جنگلات جل گئے اور سبزہ پھیلتا چلا گیا اور یوں سبزے کے بڑے بڑے میدان وجود میں آئے۔
پاکستانی واقعہ اور بارشوں کا سلسلہ
اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ایلیسن کارپ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ پاکستان سمیت کئی علاقوں میں جنگلاتی آگ نے سبزہ زاروں کو فروغ دیا ناکہ صرف ایک واقعے سے ایسا ہوا تھا۔ یہ دھیرے دھیرے پھیلتا چلا گیا تاہم پاکستان واقعے کے عالمی تبدیلی کا ذمے دار تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا تھا تاہم یہ واقعہ ایک حد تک بڑے پیمانے پر ماحول، سبزے اور بارشوں پر بھی اثر انداز ہوا تھا۔
ایلسین کارپ نے بتایا کہ پاکستانی چٹانوں اور پتھروں میں قدیم بایو مارکر، سالمات اور دیگر اجزا ملے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی اور زمینی سطح پر سبزے کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے کرہِ ارض کے قدیم رازوں کو جاننے کے کئی سوالات مل سکتے ہیں۔ ایلیسن کے مطابق زمین کی ساڑھے 6 کروڑ سالہ تاریخ میں اسے بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل ہمیں گراس لینڈ کے آثار نہیں ملتے ۔
اس وقت جو بڑی چراگاہیں ہیں انہیں ارضیاتی زبان میں سی فور گراس لینڈز کہا جاتا ہے جو خشک، حاری (ٹراپیکل) خطوں میں فروغ پاتی ہیں جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہوتی ہے اور یوں وہ ضیائی تالیف کے ایک بالکل نئے طریقے کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی ہیں جن میں مکئی اور گنے کی فصلیں بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی سے ہی ان کی افزائش ہوئی ہے مگر مختلف علاقوں میں اس کی شرح مختلف رہی جس کی وجوہ مختلف ہوسکتی ہیں مثلاً بارشیں یا آتشزدگی وغیرہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں اس کا ارضیاتی ثبوت عین اسی دور ( ایک کروڑ سال قبل) میں ملا ہے جو پہلے سبزے کے عروج کا وقت بتایا جارہا تھا اور ساتھ ہی آگ لگنے کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی دریافت ہے۔
امریکی ماہرین نے پاکستانی مٹی کے نمونوں میں پولی سائیکلِک ایرومیٹک ہائیڈروکاربنز ( پی اے ایچ) کی بڑی مقدار دریافت کی ہے۔ ایک کروڑ سال پرانی اس مٹی میں پی اے ایچ کی بڑی مقدار ہے جو درختوں اور پودوں کے جلنے کو ظاہر کرتی ہے اورعین اسی دور میں صنوبر کے درخت ختم ہوتے دیکھے گئے یعنی جنگل تباہ ہوئے اور سبزہ پھیلا تھا۔
پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع رپورٹ کے مطابق پینسلوینیا یونیورسٹی اور اسمتھ سونین میوزیم کے ماہرین نے مشترکہ طور پر ایک طویل عرصے تک ارضیاتی اور فاسل تحقیق کے لیے انتہائی مشہور پاکستانی ارضیاتی خطے سوالک میں لگاتار کئی سال تک تحقیق کی ہے۔ یہ علاقہ جہلم، سالٹ رینج سے ہوتا ہوا پہلے آزاد کشمیر تک جاتا ہے اور اس کے بعد بھارت اور نیپال تک پہنچتا ہے۔
پاکستانی علاقے میں ایک مقام پر ایک کروڑ سال قبل کا پہاڑی سلسلہ بہت واضح ہے جو مایوسین عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ عین اسی دور میں دنیا کے غالب حصے میں جنگلات کم ہوئے اور بڑے پیمانے پر سبزے کی افزائش ہوئی جس سے قالین کی طرح گھاس بچھتی چلی گئی۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ایلیسن کارپ اور اسمتھ سونین سے وابستہ سینیئر ماہرِ ارضیات اینا بیرنسمائیر نے مشترکہ طور پر یہ اہم دریافت کی ہے ۔ اینا 1990ء کے عشرے میں کئی بار پاکستان آئیں اور سوالِک سلسلے سے انہوں نے ایسی مٹی کے نمونے اٹھائے جو لاکھوں کروڑوں سال پرانے تھے۔
ماہرین قدیم مٹی کو ' پیلیو سول' کہتے ہیں، ماہرین نے ان نمونوں میں قدیم سبزے اور پودے کی وہ نشانیاں نوٹ کیں جو کاربن آئسوٹوپس سے ظاہر ہورہی تھیں۔
ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان سمیت دیگر کئی خطوں میں بھی آگ لگنے کے بڑے واقعات ہوئے جس سے جنگلات جل گئے اور سبزہ پھیلتا چلا گیا اور یوں سبزے کے بڑے بڑے میدان وجود میں آئے۔
پاکستانی واقعہ اور بارشوں کا سلسلہ
اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ایلیسن کارپ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ پاکستان سمیت کئی علاقوں میں جنگلاتی آگ نے سبزہ زاروں کو فروغ دیا ناکہ صرف ایک واقعے سے ایسا ہوا تھا۔ یہ دھیرے دھیرے پھیلتا چلا گیا تاہم پاکستان واقعے کے عالمی تبدیلی کا ذمے دار تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا تھا تاہم یہ واقعہ ایک حد تک بڑے پیمانے پر ماحول، سبزے اور بارشوں پر بھی اثر انداز ہوا تھا۔
ایلسین کارپ نے بتایا کہ پاکستانی چٹانوں اور پتھروں میں قدیم بایو مارکر، سالمات اور دیگر اجزا ملے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی اور زمینی سطح پر سبزے کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے کرہِ ارض کے قدیم رازوں کو جاننے کے کئی سوالات مل سکتے ہیں۔ ایلیسن کے مطابق زمین کی ساڑھے 6 کروڑ سالہ تاریخ میں اسے بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل ہمیں گراس لینڈ کے آثار نہیں ملتے ۔
اس وقت جو بڑی چراگاہیں ہیں انہیں ارضیاتی زبان میں سی فور گراس لینڈز کہا جاتا ہے جو خشک، حاری (ٹراپیکل) خطوں میں فروغ پاتی ہیں جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہوتی ہے اور یوں وہ ضیائی تالیف کے ایک بالکل نئے طریقے کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی ہیں جن میں مکئی اور گنے کی فصلیں بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی سے ہی ان کی افزائش ہوئی ہے مگر مختلف علاقوں میں اس کی شرح مختلف رہی جس کی وجوہ مختلف ہوسکتی ہیں مثلاً بارشیں یا آتشزدگی وغیرہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں اس کا ارضیاتی ثبوت عین اسی دور ( ایک کروڑ سال قبل) میں ملا ہے جو پہلے سبزے کے عروج کا وقت بتایا جارہا تھا اور ساتھ ہی آگ لگنے کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی دریافت ہے۔
امریکی ماہرین نے پاکستانی مٹی کے نمونوں میں پولی سائیکلِک ایرومیٹک ہائیڈروکاربنز ( پی اے ایچ) کی بڑی مقدار دریافت کی ہے۔ ایک کروڑ سال پرانی اس مٹی میں پی اے ایچ کی بڑی مقدار ہے جو درختوں اور پودوں کے جلنے کو ظاہر کرتی ہے اورعین اسی دور میں صنوبر کے درخت ختم ہوتے دیکھے گئے یعنی جنگل تباہ ہوئے اور سبزہ پھیلا تھا۔