پولیس اصلاحات اور پی ٹی آئی کی حکومت
جعلی پولیس اصلاحات وہ ہیں جو آج تک پولیس اصلاحات کے نام پر کی جاتی رہی ہیں۔
پولیس اصلاحات تحریک انصاف کا ایک انتخابی نعرہ ہے۔ یہ نعرہ ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف پولیس اصلاحات کے ضمن میں کوئی کام نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مخصوص سیاسی وجوہات کی بنا پر پولیس اصلاحات کے کام کو بند کر دیا گیا۔
سیاسی مجبوریوں نے تحریک انصاف کو ایسا جکڑ لیا ہے کہ اب تحریک انصاف پولیس اصلاحات سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔پنجاب اور سندھ کا سیاسی کلچر ان پولیس اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور شاید تحریک انصاف کی کمزور سیاسی حکومت کے اندر اس سیاسی کلچر کی مضبوط بنیادوں سے ٹکرانے کی طاقت نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نے اپنی پہلی تقریر میں پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا تھا اور اپنے اسٹار ناصر درانی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے۔ ویسے تو عمران خان گزشتہ پانچ سال سے ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے تا ہم انھیں پنجاب میں پولیس اصلاحات کے لیے لانچ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے سیاسی کلچر اور پولیس میں بہت فرق ہے۔ اس لیے کے پی میں کامیاب سمجھی جانے والی اصلاحات پنجاب میں قابل عمل ہوںگی اور نہ ہی حکومت اصلاحات کر سکے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ میری یہ بھی رائے رہی ہے کہ کے پی میں بھی کوئی خاص پولیس اصلاحات نہیں ہو سکیں، بس عمران خان نے اپنی سیاسی ضروریات کے تحت ان کا ڈھنڈورا زیادہ پیٹا تھا۔ اسی لیے ان کی پنجاب میں نا کامی طے تھی ۔ بہر حال ناصر درانی ایک ذہین سمجھ دار ثابت ہوئے ا ور پتلی گلی سے نکل گئے ۔
سانحہ ساہیوال کے بعد پولیس اصلاحات کا شور ایک مرتبہ پھر کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سرد خانہ میں پڑی پولیس اصلاحات دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے پاس ان اصلاحات سے انکار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بس ان کو سرد خانہ میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ عرصہ سرد خانہ میں رکھنا بھی نقصان دہ ہے۔ اس لیے کبھی کبھی زندہ کرنا بھی ایک سیاسی مجبوری ہے۔
اسی تناظر میں پولیس اصلاحات کے ایشو کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ورنہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ عمران خان سے لے کر پوری تحریک انصاف حقیقی پولیس اصلاحات میں ایک لمحے کے لیے بھی سنجیدہ ہے اور نہ ہی کبھی تھی۔ بس سیاست اور اقتدار حاصل کرنے کی مجبوری ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ حقیقی اور جعلی پولیس اصلاحات میں کیا فرق ہے۔
جعلی پولیس اصلاحات وہ ہیں جو آج تک پولیس اصلاحات کے نام پر کی جاتی رہی ہیں۔ جن میں مراعات میں اضافہ کرنا، پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا اور اب سانحہ ساہیوال کے بعد سو نئے ماڈل تھانے قائم کرنے کا اعلان جیسی نام نہاد اصلاحا ت شامل ہیں۔ یہ تمام ''اصلاحات'' دراصل پولیس اصلاحات نہ کرنے کا اعلان اور اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔ یہ تمام اصلاحات پولیس کو مضبوط کرنے کا باعث تو ہو سکتی ہیں۔
پولیس کے رعب دبدبہ میں اضافے کا باعث تو ہو سکتی ہیں لیکن ان کا نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی یہ حقیقی پولیس اصلاحات ہیں۔ ہمیں پولیس اصلاحات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو پولیس سے کیا شکایات ہیں۔ کیوں پاکستان کو ایک پولیس اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ کیوں پولیس کوہر حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کیوں عام آدمی پولیس سے ناراض ہے۔
آج پولیس کو معاشرہ میں ایک ولن کی حیثیت حاصل ہے۔ عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ نہ تو پولیس کی دوستی ا چھی نہ دشمنی۔ لوگ پولیس سے محبت کرنے کے بجائے نفرت کرتے ہیں۔ پولیس سے دور رہنے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لیے پولیس اصلاحات کرنے کے لیے عوامی شکایات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ پتہ نہیں کس نے وزیر اعظم کو بتا دیا ہے کہ ماڈل تھانے سے عوام پولیس سے خوش ہو جائیں گے۔ پولیس سے سب سے بڑی شکایت جھوٹے مقدمات کا اندراج ہے۔ سیاسی وڈیرے بھی جھوٹے مقدمات کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگرپولیس اصلاحات کرنی ہیں تو جھوٹے مقدمات کے اندراج کا راستہ بند کرنا ہوگا۔Criminal Procedure Code کے سیکشن 154کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
جھوٹے مقدمات نے نہ صرف پولیس کے چہرے کو مسخ کیا ہوا ہے بلکہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے راستے میں بھی جھوٹے مقدمات کے اندراج کی سیاست ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے جس دن جھوٹے مقدمات کے اندراج کا راستہ روک دیا جائے گا۔ پولیس اصلاحات کا آدھے سے زیادہ سفر طے ہو جائے گا۔ لیکن اس کے لیے جس سیاسی قوت کی ضرورت ہے وہ شاید عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب، اینٹی کرپشن اور ایف ا ٓئی اے سمیت سب اداروں میں جہاں مقدمات کا اندراج ہوتا ہے وہاں جھوٹے مقدمات کا اندراج روکنے کے لیے مقدمات کے اندراج سے پہلے تفتیش کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن پولیس میں ایسا نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ پولیس میں مقدمات کی تفتیش کا نظام بھی بہت ناقص ہے۔ بے گناہ کو گناہ گار بنا دیا جاتا ہے اور گناہ گار کو بے گناہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ پولیس کی ناقص تفتیش کا ہی کمال ہے کہ لوگ سالہاسال بعد عدالتوں سے بے گناہ ہوتے ہیں۔ پولیس کی تفتیش میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہے۔ ہمیں ایسی سخت اصلاحات کرنی ہوںگی جس میں تفتیشی افسر کو اپنی تفتیش کے حوالے سے قانون اور عام شہری کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔ جب کوئی بری ہو تو تفتیشی افسر کو قانون کے سامنے اپنی جھوٹی تفتیش کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ کئی سال بعد صرف باعزت بری کرنا کوئی انصاف نہیں۔
جب پولیس کو کسی کے خلاف کوئی شکایت موصول ہو اور وہ شخص خود کو تفتیش میں شامل کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو پھر گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو خود ضمانت لینے کا قانون بنانا چاہیے۔ تفتیش کے لیے گرفتاری کا رواج ایک فرسودہ رواج ہے۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اصلاحات میں دنیا سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں گرفتاری کے بغیر لوگوں کو شامل تفتیش بھی کیا جاتا ہے اور تفتیش مکمل بھی کی جاتی ہے۔
پولیس اصلاحات پولیس کے لیے نہیں عوام کے لیے کرنی ہوںگی۔ پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کی روشنی میں اصلاحات کرنی ہوںگی۔ یہ ماڈل تھانے۔ نئی گاڑیاں۔ شاندار دفاتر سب دھوکا اور جعلی اصلاحات ہیں۔
سیاسی مجبوریوں نے تحریک انصاف کو ایسا جکڑ لیا ہے کہ اب تحریک انصاف پولیس اصلاحات سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔پنجاب اور سندھ کا سیاسی کلچر ان پولیس اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور شاید تحریک انصاف کی کمزور سیاسی حکومت کے اندر اس سیاسی کلچر کی مضبوط بنیادوں سے ٹکرانے کی طاقت نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نے اپنی پہلی تقریر میں پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا تھا اور اپنے اسٹار ناصر درانی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے۔ ویسے تو عمران خان گزشتہ پانچ سال سے ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے تا ہم انھیں پنجاب میں پولیس اصلاحات کے لیے لانچ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے سیاسی کلچر اور پولیس میں بہت فرق ہے۔ اس لیے کے پی میں کامیاب سمجھی جانے والی اصلاحات پنجاب میں قابل عمل ہوںگی اور نہ ہی حکومت اصلاحات کر سکے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ میری یہ بھی رائے رہی ہے کہ کے پی میں بھی کوئی خاص پولیس اصلاحات نہیں ہو سکیں، بس عمران خان نے اپنی سیاسی ضروریات کے تحت ان کا ڈھنڈورا زیادہ پیٹا تھا۔ اسی لیے ان کی پنجاب میں نا کامی طے تھی ۔ بہر حال ناصر درانی ایک ذہین سمجھ دار ثابت ہوئے ا ور پتلی گلی سے نکل گئے ۔
سانحہ ساہیوال کے بعد پولیس اصلاحات کا شور ایک مرتبہ پھر کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سرد خانہ میں پڑی پولیس اصلاحات دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے پاس ان اصلاحات سے انکار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بس ان کو سرد خانہ میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ عرصہ سرد خانہ میں رکھنا بھی نقصان دہ ہے۔ اس لیے کبھی کبھی زندہ کرنا بھی ایک سیاسی مجبوری ہے۔
اسی تناظر میں پولیس اصلاحات کے ایشو کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ورنہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ عمران خان سے لے کر پوری تحریک انصاف حقیقی پولیس اصلاحات میں ایک لمحے کے لیے بھی سنجیدہ ہے اور نہ ہی کبھی تھی۔ بس سیاست اور اقتدار حاصل کرنے کی مجبوری ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ حقیقی اور جعلی پولیس اصلاحات میں کیا فرق ہے۔
جعلی پولیس اصلاحات وہ ہیں جو آج تک پولیس اصلاحات کے نام پر کی جاتی رہی ہیں۔ جن میں مراعات میں اضافہ کرنا، پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا اور اب سانحہ ساہیوال کے بعد سو نئے ماڈل تھانے قائم کرنے کا اعلان جیسی نام نہاد اصلاحا ت شامل ہیں۔ یہ تمام ''اصلاحات'' دراصل پولیس اصلاحات نہ کرنے کا اعلان اور اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔ یہ تمام اصلاحات پولیس کو مضبوط کرنے کا باعث تو ہو سکتی ہیں۔
پولیس کے رعب دبدبہ میں اضافے کا باعث تو ہو سکتی ہیں لیکن ان کا نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی یہ حقیقی پولیس اصلاحات ہیں۔ ہمیں پولیس اصلاحات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو پولیس سے کیا شکایات ہیں۔ کیوں پاکستان کو ایک پولیس اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ کیوں پولیس کوہر حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کیوں عام آدمی پولیس سے ناراض ہے۔
آج پولیس کو معاشرہ میں ایک ولن کی حیثیت حاصل ہے۔ عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ نہ تو پولیس کی دوستی ا چھی نہ دشمنی۔ لوگ پولیس سے محبت کرنے کے بجائے نفرت کرتے ہیں۔ پولیس سے دور رہنے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لیے پولیس اصلاحات کرنے کے لیے عوامی شکایات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ پتہ نہیں کس نے وزیر اعظم کو بتا دیا ہے کہ ماڈل تھانے سے عوام پولیس سے خوش ہو جائیں گے۔ پولیس سے سب سے بڑی شکایت جھوٹے مقدمات کا اندراج ہے۔ سیاسی وڈیرے بھی جھوٹے مقدمات کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگرپولیس اصلاحات کرنی ہیں تو جھوٹے مقدمات کے اندراج کا راستہ بند کرنا ہوگا۔Criminal Procedure Code کے سیکشن 154کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
جھوٹے مقدمات نے نہ صرف پولیس کے چہرے کو مسخ کیا ہوا ہے بلکہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے راستے میں بھی جھوٹے مقدمات کے اندراج کی سیاست ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے جس دن جھوٹے مقدمات کے اندراج کا راستہ روک دیا جائے گا۔ پولیس اصلاحات کا آدھے سے زیادہ سفر طے ہو جائے گا۔ لیکن اس کے لیے جس سیاسی قوت کی ضرورت ہے وہ شاید عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب، اینٹی کرپشن اور ایف ا ٓئی اے سمیت سب اداروں میں جہاں مقدمات کا اندراج ہوتا ہے وہاں جھوٹے مقدمات کا اندراج روکنے کے لیے مقدمات کے اندراج سے پہلے تفتیش کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن پولیس میں ایسا نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ پولیس میں مقدمات کی تفتیش کا نظام بھی بہت ناقص ہے۔ بے گناہ کو گناہ گار بنا دیا جاتا ہے اور گناہ گار کو بے گناہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ پولیس کی ناقص تفتیش کا ہی کمال ہے کہ لوگ سالہاسال بعد عدالتوں سے بے گناہ ہوتے ہیں۔ پولیس کی تفتیش میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہے۔ ہمیں ایسی سخت اصلاحات کرنی ہوںگی جس میں تفتیشی افسر کو اپنی تفتیش کے حوالے سے قانون اور عام شہری کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔ جب کوئی بری ہو تو تفتیشی افسر کو قانون کے سامنے اپنی جھوٹی تفتیش کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ کئی سال بعد صرف باعزت بری کرنا کوئی انصاف نہیں۔
جب پولیس کو کسی کے خلاف کوئی شکایت موصول ہو اور وہ شخص خود کو تفتیش میں شامل کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو پھر گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کو خود ضمانت لینے کا قانون بنانا چاہیے۔ تفتیش کے لیے گرفتاری کا رواج ایک فرسودہ رواج ہے۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اصلاحات میں دنیا سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں گرفتاری کے بغیر لوگوں کو شامل تفتیش بھی کیا جاتا ہے اور تفتیش مکمل بھی کی جاتی ہے۔
پولیس اصلاحات پولیس کے لیے نہیں عوام کے لیے کرنی ہوںگی۔ پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کی روشنی میں اصلاحات کرنی ہوںگی۔ یہ ماڈل تھانے۔ نئی گاڑیاں۔ شاندار دفاتر سب دھوکا اور جعلی اصلاحات ہیں۔