ہمیں تم سے پیار ہے عمر شریف
یہ ماں کا لاڈلہ تھا ماں اس کی ہر ضد پوری کرتی تھی یہ شہر میں ہونے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کا شوقین ہو گیا تھا۔
کسی انسان کا صاحب اولاد ہونا اس کی خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ صاحب کتاب بھی ہوجائے تو اس کی قدر دانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ کتابیں انسان کو اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ ''ہمیں تم سے پیار ہے'' یہ گزشتہ دنوں نیو جرسی کے مقامی ہوٹل میں اس کتاب کی رونمائی کی تقریب منعقد کی گئی تھی یہ کتاب معروف صحافی و رائٹر عارف افضال عثمانی کی کاوشوں کا نچوڑ ہے، ان کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ انھوں نے ملک کے لیجنڈ ڈرامہ، ٹی وی اور فلم کے فنکار عمر شریف کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی اور عمر شریف سے اس محبت کا اظہار کیا جس کا وہ بجا طور پر حقدار ہے۔
اس کتاب میں پاکستان اور ہندوستان سے متعلق فلم، ٹی وی اور اسٹیج اور ادب کی تقریباً سو مشہور شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں عمر شریف کی شخصیت اور فن کو سراہا ہے اور سب نے ہی اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمر شریف ایک عظیم فنکار ہے، ایک انمول شخصیت کا حامل ہے جس نے خاص طور پر اسٹیج ڈرامے کو ایک نئی زندگی دی بلکہ ڈرامے کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ وہ فنکار ہے جس کے ڈرامے برصغیر میں پہلی بار ویڈیو کی صورت میں منظر عام پر آئے ہیں اور اس کے ڈراموں نے ہر جگہ اپنی بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔اس کے ڈراموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے شایقین کو بھی اپنے سحر میں جکڑ کے رکھ دیا ہے ۔
عمر شریف کے بارے میں ایک عوامی رائے یہ بھی ہے کہ عمر شریف اسٹیج ڈراموں کا بے تاج بادشاہ ہے، عمر شریف کی کہانی محمد عمرکے نام سے شروع ہوتی ہے جب یہ کراچی کے گنجان علاقے لیاقت آباد میں 1955ء میں پیدا ہوا تھا ۔ ابھی یہ پانچ سال کی عمر تک پہنچا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا پھر والدہ نے نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے محمد عمر کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا اور اسے کسی قسم کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا اسے بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔
یہ ماں کا لاڈلہ تھا ماں اس کی ہر ضد پوری کرتی تھی یہ شہر میں ہونے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کا شوقین ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا تھا کہ ماں نے اسے کچھ پیسے دیے کہ وہ بازار جاکر گوشت اور سبزی وغیرہ لے کر آ جائے عمر شریف وہ پیسے لے کر گھر سے جاتا اور پھر کوئی نہ کوئی فلم دیکھنے چلا جاتا تھا۔ اور پھر وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ ایک دن عمر شریف مصری نژاد امریکن ایکٹر عمر شریف کی فلم ''چنگیز خان'' دیکھ کر آیا اس فلم نے اس کے دل ودماغ پر بڑا اثر کیا اس نے وہ فلم کئی بار دیکھی پھر عمر شریف کی فلم '' لارنس آف عریبیہ'' دیکھی اور اس نے اس دن اپنا نام محمد عمر سے عمر شریف رکھ لیا تھا۔ اور اس دن سے ایک نئے عمر شریف نے جنم لیا، پھر یہ مختلف ڈراموں اور فنکشنوں میں جانے لگا اور بعض فنکشنوں میں بیک گراؤنڈ میوزیشن کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دینے لگا۔ اسے بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا بڑے بڑے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو پڑھتا تھا پھر اس نے شاعری بھی شروع کر دی۔ نظمیں لکھیں کئی ڈرامے لکھے ۔
ایک دن اس نے اسٹیج آرٹسٹ معین اخترکو اپنا لکھا ہوا ڈرامہ ''بائیونک سروینٹ'' باقاعدہ اداکاری کر کے سنایا۔ معین اختر نے وہ ڈرامہ بڑا پسند کیا اورکہا ''یار! یہ تو زبردست آئیڈیا تمہارے دماغ میں آیا ہے، میں اسے ضرور اسٹیج پر لاؤں گا۔ میں خود یہ ڈرامہ کروں گا۔'' عمر شریف نے منہ لٹکاتے ہوئے کہا ''مگر معین بھائی! یہ ڈرامہ تو میں خود کرنا چاہتا ہوں۔'' معین اختر نے سمجھایا ''تم ابھی نئے ہو، تم یہ ڈرامہ اگر اکیلے کرو گے تو ناکام بھی ہو سکتے ہو۔ میرے ساتھ مل کر کرو، تمہارا بھی نام ہو گا اور ڈرامہ بہت کامیاب ہو گا۔'' اور اس طرح عمر شریف معین اختر کی گڈ بک میں آگیا۔
پھر کئی ڈرامے عمر شریف نے لکھے اور معین اختر کے ساتھ اور فرقان حیدر کے ساتھ مل کر کیے۔ معین اختر اسٹیج سے پھر ٹیلی ویژن کی طرف چلا گیا اور فرقان حیدر کے ساتھ عمر شریف کراچی کے اسٹیج پر چھاتا چلا گیا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ معین اختر نے عمر شریف کے بارے میں کہا ''اب اسٹیج کو عمر شریف کی ضرورت ہے، میری نہیں ہے۔''
اور عمر شریف اسٹیج کی دنیا کا بلند قامت اداکار ہے عمر شریف کے ڈراموں نے شائقین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا تھا عمر شریف کا نام بکنے لگا تھا اور اس کی شہرت کے ڈنکے سارے پاکستان میں بجنے لگے تھے پھر اس کے ڈراموں کو پہلی بار ویڈیو کے روپ میں مارکیٹ میں لایا گیا۔ یہ ڈرامے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بے تحاشا پسند کیے جانے لگے اور وہ وقت آگیا تھا جب عمر شریف اپنی ماں کی دعاؤں سے ملک کا سب سے عظیم اسٹیج اداکار کا ٹائٹل حاصل کر چکا تھا اس کے ڈراموں نے فلموں کی مقبولیت کو بھی مات کر دیا تھا۔ پھر یہ لاہور کی فلم انڈسٹری پہنچا اور اس نے اس فلم انڈسٹری کو بھی فتح کر لیا۔
اس کی ایک دیرینہ آرزو تھی کہ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ خاموش فلموں کے زمانے کے اداکار چارلی چپلن کا کردار ادا کرے، اس نے لاہور میں ''چارلی'' کے نام سے فلم پروڈیوس کی اور چارلی کا مرکزی کردار بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا۔ اس فلم کی ہیروئن اداکارہ شکیلہ تھی، جب عمر شریف فلم ''چارلی'' کی ریلیز کے بعد کراچی آیا تو اس کے اعزاز میں کئی تقریبات ہوئیں ان میں سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد میں نے بھی اس کے اعزاز میں کیا تھا۔
عمر شریف نے آدم جی کے اسٹیج پر میرا لکھا ہوا اور پروڈیوس کیا ہوا ڈرامہ ''مقدر کا سکندر'' بھی کیا تھا جو سال میں دو بار ااسٹیج کیا گیا تھا اور بڑا پسند کیا گیا تھا۔ عمر شریف کے جن ڈراموں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ان میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، ماموں مذاق نہ کر، منی بد نام ہوئی، ولیمہ تیار ہے نے عوام میں بڑی پذیرائی حاصل کی۔
عمر شریف کے ڈراموں کے ویڈیوز نے امریکا، یورپ، کینیڈا اور ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی ہے، انڈیا کی بعض مشہور فلموں کو بھی مقبولیت کے حساب سے عمر شریف کے ڈراموں نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ عمر شریف کو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھی ستارہ امتیاز دیا گیا ہے۔ آج عمر شریف کی پیاری ماں کا لاڈلہ آج سارے پاکستان کا لاڈلہ فنکار ہے۔ عمر شریف نے صدقہ جاریہ کے طور پر اپنی ماں کی محبت میں ''ماں اسپتال'' بنایا ہے جہاں غریب مریضوں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں۔
پچھلے دنوں نیو جرسی میں کتاب ''ہمیں تم سے پیار ہے'' کی تقریب رونمائی میں امریکا کی کئی ریاستوں سے عمر شریف کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی نیو جرسی کے پرل بینکوئٹ ہال میں عمر شریف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے متعدد ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں اور کئی سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے بھی شرکت کی جس میں خاص طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں عارف افضال عثمانی، آفتاب قمر زیدی، بشیر قمر، احتشام رضا کاظمی، ڈیلس سے خاص طور پر آئے ہوئے اسٹیج پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فرقان حیدر، اویس نصیر، پاکستان سے آئے ہوئے علی رضا، اے آر وائی کے آصف جمال اور راقم نے بھی عمر شریف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عمر شریف کو اس تقریب میں آنا تھا مگر وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے نہیں آسکے تھے۔ عمر شریف ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، ہمارے ملک کا فخر ہے۔ عمر شریف! ہمیں تم سے پیار بھی ہے ہمیں تم پر ناز بھی ہے جگ جگ جیو!
اس کتاب میں پاکستان اور ہندوستان سے متعلق فلم، ٹی وی اور اسٹیج اور ادب کی تقریباً سو مشہور شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں عمر شریف کی شخصیت اور فن کو سراہا ہے اور سب نے ہی اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمر شریف ایک عظیم فنکار ہے، ایک انمول شخصیت کا حامل ہے جس نے خاص طور پر اسٹیج ڈرامے کو ایک نئی زندگی دی بلکہ ڈرامے کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ وہ فنکار ہے جس کے ڈرامے برصغیر میں پہلی بار ویڈیو کی صورت میں منظر عام پر آئے ہیں اور اس کے ڈراموں نے ہر جگہ اپنی بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔اس کے ڈراموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے شایقین کو بھی اپنے سحر میں جکڑ کے رکھ دیا ہے ۔
عمر شریف کے بارے میں ایک عوامی رائے یہ بھی ہے کہ عمر شریف اسٹیج ڈراموں کا بے تاج بادشاہ ہے، عمر شریف کی کہانی محمد عمرکے نام سے شروع ہوتی ہے جب یہ کراچی کے گنجان علاقے لیاقت آباد میں 1955ء میں پیدا ہوا تھا ۔ ابھی یہ پانچ سال کی عمر تک پہنچا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا پھر والدہ نے نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے محمد عمر کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا اور اسے کسی قسم کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا اسے بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔
یہ ماں کا لاڈلہ تھا ماں اس کی ہر ضد پوری کرتی تھی یہ شہر میں ہونے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کا شوقین ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا تھا کہ ماں نے اسے کچھ پیسے دیے کہ وہ بازار جاکر گوشت اور سبزی وغیرہ لے کر آ جائے عمر شریف وہ پیسے لے کر گھر سے جاتا اور پھر کوئی نہ کوئی فلم دیکھنے چلا جاتا تھا۔ اور پھر وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ ایک دن عمر شریف مصری نژاد امریکن ایکٹر عمر شریف کی فلم ''چنگیز خان'' دیکھ کر آیا اس فلم نے اس کے دل ودماغ پر بڑا اثر کیا اس نے وہ فلم کئی بار دیکھی پھر عمر شریف کی فلم '' لارنس آف عریبیہ'' دیکھی اور اس نے اس دن اپنا نام محمد عمر سے عمر شریف رکھ لیا تھا۔ اور اس دن سے ایک نئے عمر شریف نے جنم لیا، پھر یہ مختلف ڈراموں اور فنکشنوں میں جانے لگا اور بعض فنکشنوں میں بیک گراؤنڈ میوزیشن کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دینے لگا۔ اسے بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا بڑے بڑے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو پڑھتا تھا پھر اس نے شاعری بھی شروع کر دی۔ نظمیں لکھیں کئی ڈرامے لکھے ۔
ایک دن اس نے اسٹیج آرٹسٹ معین اخترکو اپنا لکھا ہوا ڈرامہ ''بائیونک سروینٹ'' باقاعدہ اداکاری کر کے سنایا۔ معین اختر نے وہ ڈرامہ بڑا پسند کیا اورکہا ''یار! یہ تو زبردست آئیڈیا تمہارے دماغ میں آیا ہے، میں اسے ضرور اسٹیج پر لاؤں گا۔ میں خود یہ ڈرامہ کروں گا۔'' عمر شریف نے منہ لٹکاتے ہوئے کہا ''مگر معین بھائی! یہ ڈرامہ تو میں خود کرنا چاہتا ہوں۔'' معین اختر نے سمجھایا ''تم ابھی نئے ہو، تم یہ ڈرامہ اگر اکیلے کرو گے تو ناکام بھی ہو سکتے ہو۔ میرے ساتھ مل کر کرو، تمہارا بھی نام ہو گا اور ڈرامہ بہت کامیاب ہو گا۔'' اور اس طرح عمر شریف معین اختر کی گڈ بک میں آگیا۔
پھر کئی ڈرامے عمر شریف نے لکھے اور معین اختر کے ساتھ اور فرقان حیدر کے ساتھ مل کر کیے۔ معین اختر اسٹیج سے پھر ٹیلی ویژن کی طرف چلا گیا اور فرقان حیدر کے ساتھ عمر شریف کراچی کے اسٹیج پر چھاتا چلا گیا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ معین اختر نے عمر شریف کے بارے میں کہا ''اب اسٹیج کو عمر شریف کی ضرورت ہے، میری نہیں ہے۔''
اور عمر شریف اسٹیج کی دنیا کا بلند قامت اداکار ہے عمر شریف کے ڈراموں نے شائقین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا تھا عمر شریف کا نام بکنے لگا تھا اور اس کی شہرت کے ڈنکے سارے پاکستان میں بجنے لگے تھے پھر اس کے ڈراموں کو پہلی بار ویڈیو کے روپ میں مارکیٹ میں لایا گیا۔ یہ ڈرامے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بے تحاشا پسند کیے جانے لگے اور وہ وقت آگیا تھا جب عمر شریف اپنی ماں کی دعاؤں سے ملک کا سب سے عظیم اسٹیج اداکار کا ٹائٹل حاصل کر چکا تھا اس کے ڈراموں نے فلموں کی مقبولیت کو بھی مات کر دیا تھا۔ پھر یہ لاہور کی فلم انڈسٹری پہنچا اور اس نے اس فلم انڈسٹری کو بھی فتح کر لیا۔
اس کی ایک دیرینہ آرزو تھی کہ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ خاموش فلموں کے زمانے کے اداکار چارلی چپلن کا کردار ادا کرے، اس نے لاہور میں ''چارلی'' کے نام سے فلم پروڈیوس کی اور چارلی کا مرکزی کردار بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا۔ اس فلم کی ہیروئن اداکارہ شکیلہ تھی، جب عمر شریف فلم ''چارلی'' کی ریلیز کے بعد کراچی آیا تو اس کے اعزاز میں کئی تقریبات ہوئیں ان میں سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد میں نے بھی اس کے اعزاز میں کیا تھا۔
عمر شریف نے آدم جی کے اسٹیج پر میرا لکھا ہوا اور پروڈیوس کیا ہوا ڈرامہ ''مقدر کا سکندر'' بھی کیا تھا جو سال میں دو بار ااسٹیج کیا گیا تھا اور بڑا پسند کیا گیا تھا۔ عمر شریف کے جن ڈراموں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ان میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، ماموں مذاق نہ کر، منی بد نام ہوئی، ولیمہ تیار ہے نے عوام میں بڑی پذیرائی حاصل کی۔
عمر شریف کے ڈراموں کے ویڈیوز نے امریکا، یورپ، کینیڈا اور ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی ہے، انڈیا کی بعض مشہور فلموں کو بھی مقبولیت کے حساب سے عمر شریف کے ڈراموں نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ عمر شریف کو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھی ستارہ امتیاز دیا گیا ہے۔ آج عمر شریف کی پیاری ماں کا لاڈلہ آج سارے پاکستان کا لاڈلہ فنکار ہے۔ عمر شریف نے صدقہ جاریہ کے طور پر اپنی ماں کی محبت میں ''ماں اسپتال'' بنایا ہے جہاں غریب مریضوں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں۔
پچھلے دنوں نیو جرسی میں کتاب ''ہمیں تم سے پیار ہے'' کی تقریب رونمائی میں امریکا کی کئی ریاستوں سے عمر شریف کے چاہنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی نیو جرسی کے پرل بینکوئٹ ہال میں عمر شریف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے متعدد ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں اور کئی سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے بھی شرکت کی جس میں خاص طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں میں عارف افضال عثمانی، آفتاب قمر زیدی، بشیر قمر، احتشام رضا کاظمی، ڈیلس سے خاص طور پر آئے ہوئے اسٹیج پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فرقان حیدر، اویس نصیر، پاکستان سے آئے ہوئے علی رضا، اے آر وائی کے آصف جمال اور راقم نے بھی عمر شریف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عمر شریف کو اس تقریب میں آنا تھا مگر وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے نہیں آسکے تھے۔ عمر شریف ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، ہمارے ملک کا فخر ہے۔ عمر شریف! ہمیں تم سے پیار بھی ہے ہمیں تم پر ناز بھی ہے جگ جگ جیو!