اصلاح احوال کیسے
گزشتہ بدھ کو سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ جمعرات کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کی حتمی تاریخ بتائیں...
گزشتہ بدھ کو سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ جمعرات کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کی حتمی تاریخ بتائیں،بصورت دیگر عدلیہ خود تاریخ دینے پر مجبور ہوگی۔اگلے روز یعنی جمعرات کو کوئی بھی صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کے انتخابات کی حتمی تاریخ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔جس کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ تمام صوبے اس سال ستمبر تک مقامی حکومتوں کے انتخابات مکمل کرائیں۔
اس فیصلے کے بعد ہوسکتا ہے کہ ملک پر مسلط فیوڈل ذہنیت کی حامل سیاسی جماعتیں مختلف حیلوں بہانوں سے ان انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کریں یا پھر سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لیے اوندھے سیدھے انداز میں بلدیاتی انتخابات کرادیں،جو جلدناکام ہوجائے۔یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح سندھ کی صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے قیام کے بجائے جنرل ضیاء کے دورکا1979ء کا بلدیاتی نظام بحال کرکے نچلی سطح پر اقتدار واختیارات کی منتقلی کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے، دیگر صوبے بھی یہی راستہ اختیارکریں۔اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہر صوبے میںالگ الگ بلدیاتی نظام نافذ ہو جائے۔ یوں ملک میں ایک ایسی مضحکہ خیزصورتحال پیدا ہوسکتی ہے،جو جمہوری اداروں کے عدم استحکام کے علاوہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے انھیں پیچیدہ بنانے کا سبب بن جائے۔
پاکستان میں بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے علاوہ اچھی حکمرانی کے بارے میں بھی خاصاکنفیوژن پایاجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں اور اس کے بعد بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کا تقابلی جائزہ لیں تاکہ بعض سیاسی جماعتیں اس حوالے سے جوکنفیوژن پھیلا رہی ہیں اس کا سدباب ہوسکے۔آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی کی چھ بنیادی خصوصیات تصور کی جاتی ہیں۔اول،شراکتی (Participatory)ہو۔دوئم،شفاف (Transparent)ہو۔سوئم، موثرومستعد(Effective & Efficient)ہو۔چہارم،جوابدہ اور فوری ردعمل ظاہر کرنے والی یعنی (Accountable & Responsive)ہو۔پنجم،مبنی بہ اتفاق رائے (Consensus Oriented)ہو۔ششم،مبنی بہ عدل(Equitable)ہو۔
ان خصوصیات کی حامل حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے، جب کسی ریاست میں اقتدار واختیارکی مرکزیت کا خاتمہ ہواورسیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل ہوں۔اس کے علاوہ بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے فرق کو سمجھنے کے لیے اختیارات کی عدم مرکزیت کوسمجھناضروری ہے۔عدم مرکزیت (Decentralization) سے مراد چند ہاتھوں یا کسی مخصوص سطح پر اختیار کے ارتکاز (Concentration)کا خاتمہ۔اختیارات کی عدم مرکزیت کے دو طریقے ہوتے ہیں۔اول،اختیارات کی تفویض(Delegation of Power)۔ دوئم،اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی (Devolution of Power)۔اول الذکر طریقہ کار میں مجاز اتھارٹی اپنے کچھ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر اہلکار یا ادارے کو تفویض کردیتی ہے، لیکن اصل اختیارات مجاز اتھارٹی کی دسترس ہی میں رہتے ہیں۔ جب کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یعنیDevolution of Powerسے مراد سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی حقیقی معنی میں نچلی تک منتقلی اور نچلی سطح کے اداروں کی ان امور کو چلانے میں مکمل بااختیاریت ہے۔
اس تناظرمیںبلدیاتی اورمقامی حکومتی نظام کا تقابل جائزہ لیا جائے تو فرق واضح ہوکر سامنے آجاتاہے۔ بلدیاتی نظام در اصل کچھ اختیارات کی نچلی سطح پر تفویض (Delegation of Power) ہے۔برصغیر میں مروج بلدیاتی نظام ایسٹ انڈیاکمپنی نے 1650ء میں اپنے زیراثرمدراس(چنائے)اور اطراف کے تامل علاقوں کو رائج کیاتھا۔ جس کا مقصد مقامی آبادی کو نچلی سطح پر ہونے والے ترقیاتی کاموں میں شریک کرناتھا۔ 1880ء سے یہ نظام برطانوی حکومت نے پورے ہندوستان میں نافذکیا اور اسے انڈیاایکٹ1935ء میں قانونی تحفظ فراہم کیا۔تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان نے اس نظام کومن وعن اسی شکل میں قبول کیا تھا، جس میں یہ نوآبادیاتی دور میں نافذ کیا گیا تھا۔
البتہ بھارت نے پہلے1980ء میںاور پھر1990ء میں بلدیاتی نظام سے متعلق آئینی شقوں میںترامیم کے ذریعے اسے بلدیاتی سے مقامی حکومتی نظام بنانے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی ہے اور اس نظام کو تیسرے انتظامی درجہ کامقام حاصل ہورہاہے۔ساتھ ہی وہاں قومی اور ریاستی سطح کے انتخابات کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی مسلسل ہوتے رہے۔اس کے برعکس پاکستان میں1947ء سے1958ء کے درمیان بلدیاتی اداروں کے لیے کوئی انتخابات نہیں ہوئے۔ 1959 ء میں فوجی آمرایوب خان نے پورے ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کرکے یونین کونسل کے کونسلر کومختلف نوعیت کے اختیارات تفویض کرنے کی کوشش کی۔ان کے دور حکومت میں دومرتبہ اس نظام کے انتخابات ہوئے اور ان کے اقتدار سے ہٹتے ہی یہ نظام ختم ہوگیا۔
1973ء کے آئین میں بلدیاتی نظام کے بارے میں شقیں شامل کی گئیں، مگر بھٹومرحوم کے پانچ سالہ دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔جب کہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1979ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی نظام نافذ کیا۔اس نظام کے تحت پورے ملک میں تین جب کہ پنجاب اور KPK میںچار انتخابات ہوئے۔مگر یہ نظام بھی جلد ہی دم توڑگیا،کیونکہ منتخب حکومتوں نے اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل نہیں کیا۔یہ تمام بلدیاتی ادارے جو فوجی آمروں نے قائم کیے اختیارات کی تفویض (Delegation of Power)کامظہرتھے ۔
1970ء کے بعد سے دنیا میں اختیارات کی معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کا تصور تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔اس نئے نظام کے تحت معاشرے کے نچلے ترین یونٹ کوسیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار کرنے کارجحان تیزی کے ساتھ مقبول ہونے لگا۔ جن ممالک اور معاشروں نے اس نئے نظام سے استفادہ کیا، وہاں اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔یعنی ہرسطح پرحکمرانی میں عوامی شرکت کے باعث مالیاتی امور میں شفافیت آئی اورانتظامی ڈھانچہ مستحکم ہونے کے باعث امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ پاکستان میں اس نظام کے بارے میں بحث ومباحثے کا آغاز سب سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی میں ہوا۔ جس نے اس نظام کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے 1993ء میںاس نظام کو اپنے انتخابی منشورکا حصہ بنایااور ضلع کی سطح پر اقتدار واختیار کی منتقلی کا وعدہ کیا۔ مگر ا نہیں اس منصوبے پر عمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور ان کی حکومت نومبر1996ء میں ختم کردی گئی۔
ستمبر1997ء میںملک کے ترقی پسند، جمہوریت نواز اور متوشش دانشوروں، قلمکاروں اور سرگرم سیاسی وسماجی کارکنوںنے سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ (SDM) قائم کی۔ یہ ایک قسم کا تھنک ٹینک تھا، جس کا مقصد مختلف قومی مسائل پر تحقیق اور پبلک ڈائیلاگ کرکے انھیں دستاویزی شکل دیناتھا۔SDM نے مقامی حکومتی نظام کاخاکہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے طویل بحث ومباحثے کے بعد مقامی حکومتی نظام کا ایک بلیوپرنٹ تیار کیا،جس کا اردو ترجمہ راقم نے کیا تھا۔ اکتوبر1999ء میںجب جنرل پرویز مشرف نے اقتدارپر قبضہ کیا،تو انھوں نے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا جس میں نچلی سطح پر اقتدار واختیار کی منتقلی بھی شامل تھی۔ یہ ان کے ذہن کی اخترع نہیں تھی، بلکہ عمر اصغر خان مرحوم (جو ان کی ابتدائی کابینہ میں وزیر محنت تھے)کے ذریعے انھوں نےSDM کے مقامی حکومتی نظام کا مسودہ حاصل کیاتھااور جنرل تنویرنقوی کی ز یرقیادت قائم قومی تعمیرنوبیورو(NRB)کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس مسودے کی روشنی میں نئے مقامی حکومتی نظام کا خاکہ تیار کریں۔یہی سبب ہے کہ اپنی تمام تر خامیوںاور نقائص کے باوجود NRBکاضلعی حکومتوں کا نظام Devolution of Powerکی عکاسی کرتاتھا۔جب کہ جنرل ضیاء الحق کا1979ء کا بلدیاتی آرڈیننس نوآبادیاتی نظام کا تسلسل تھا۔
لہٰذا اس وقت چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اول،ملک میں نوآبادیاتی دور کے بلدیاتی نظام کی جگہ مقامی حکومتی نظام قائم کیاجائے،یعنی ملک کا انتظامی ڈھانچہ دو درجاتی (Two tier)کے بجائے تین درجاتی(Three tier)بنایاجائے۔دوئم،ایک ایسا نظام جس میں ضلع کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی حقیقی معنی میں منتقلی ہواور جس طرح بعض شعبہ جات وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں،اسی طرح نچلی سطح کے شعبہ جات ضلع کو منتقل ہوں۔سوئم،ضلع کی اپنی اسمبلی ہو،جووزیراعلیٰ کی طرز پر اپنے ناظم یا لارڈ مئیر کا انتخاب کرے۔ کمشنر صوبے کانمایندہ ہوجس طرح صوبے میںگورنروفاق کا نمایندہ ہوتا ہے۔ضلع سے اختیارات مزید نچلی سطح تک منتقل ہوں اور یونین کونسل تک جائیں۔اس طرح صحیح معنی میں مقامی حکومتی نظام قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مشق کو وفاق اپنی نگرانی میں کرائے، تاکہ تمام صوبوں میں یکساں نظام قائم ہوسکے اور یہ چوں چوں کا مربہ نہ بن جائے۔ اس لیے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور قومی مفاد میں دنیا میں رئج مختلف ماڈلز کا تقابلی جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس فیصلے کے بعد ہوسکتا ہے کہ ملک پر مسلط فیوڈل ذہنیت کی حامل سیاسی جماعتیں مختلف حیلوں بہانوں سے ان انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کریں یا پھر سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لیے اوندھے سیدھے انداز میں بلدیاتی انتخابات کرادیں،جو جلدناکام ہوجائے۔یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح سندھ کی صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے قیام کے بجائے جنرل ضیاء کے دورکا1979ء کا بلدیاتی نظام بحال کرکے نچلی سطح پر اقتدار واختیارات کی منتقلی کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے، دیگر صوبے بھی یہی راستہ اختیارکریں۔اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہر صوبے میںالگ الگ بلدیاتی نظام نافذ ہو جائے۔ یوں ملک میں ایک ایسی مضحکہ خیزصورتحال پیدا ہوسکتی ہے،جو جمہوری اداروں کے عدم استحکام کے علاوہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے انھیں پیچیدہ بنانے کا سبب بن جائے۔
پاکستان میں بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے علاوہ اچھی حکمرانی کے بارے میں بھی خاصاکنفیوژن پایاجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں اور اس کے بعد بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کا تقابلی جائزہ لیں تاکہ بعض سیاسی جماعتیں اس حوالے سے جوکنفیوژن پھیلا رہی ہیں اس کا سدباب ہوسکے۔آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی کی چھ بنیادی خصوصیات تصور کی جاتی ہیں۔اول،شراکتی (Participatory)ہو۔دوئم،شفاف (Transparent)ہو۔سوئم، موثرومستعد(Effective & Efficient)ہو۔چہارم،جوابدہ اور فوری ردعمل ظاہر کرنے والی یعنی (Accountable & Responsive)ہو۔پنجم،مبنی بہ اتفاق رائے (Consensus Oriented)ہو۔ششم،مبنی بہ عدل(Equitable)ہو۔
ان خصوصیات کی حامل حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے، جب کسی ریاست میں اقتدار واختیارکی مرکزیت کا خاتمہ ہواورسیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل ہوں۔اس کے علاوہ بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے فرق کو سمجھنے کے لیے اختیارات کی عدم مرکزیت کوسمجھناضروری ہے۔عدم مرکزیت (Decentralization) سے مراد چند ہاتھوں یا کسی مخصوص سطح پر اختیار کے ارتکاز (Concentration)کا خاتمہ۔اختیارات کی عدم مرکزیت کے دو طریقے ہوتے ہیں۔اول،اختیارات کی تفویض(Delegation of Power)۔ دوئم،اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی (Devolution of Power)۔اول الذکر طریقہ کار میں مجاز اتھارٹی اپنے کچھ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر اہلکار یا ادارے کو تفویض کردیتی ہے، لیکن اصل اختیارات مجاز اتھارٹی کی دسترس ہی میں رہتے ہیں۔ جب کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یعنیDevolution of Powerسے مراد سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی حقیقی معنی میں نچلی تک منتقلی اور نچلی سطح کے اداروں کی ان امور کو چلانے میں مکمل بااختیاریت ہے۔
اس تناظرمیںبلدیاتی اورمقامی حکومتی نظام کا تقابل جائزہ لیا جائے تو فرق واضح ہوکر سامنے آجاتاہے۔ بلدیاتی نظام در اصل کچھ اختیارات کی نچلی سطح پر تفویض (Delegation of Power) ہے۔برصغیر میں مروج بلدیاتی نظام ایسٹ انڈیاکمپنی نے 1650ء میں اپنے زیراثرمدراس(چنائے)اور اطراف کے تامل علاقوں کو رائج کیاتھا۔ جس کا مقصد مقامی آبادی کو نچلی سطح پر ہونے والے ترقیاتی کاموں میں شریک کرناتھا۔ 1880ء سے یہ نظام برطانوی حکومت نے پورے ہندوستان میں نافذکیا اور اسے انڈیاایکٹ1935ء میں قانونی تحفظ فراہم کیا۔تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان نے اس نظام کومن وعن اسی شکل میں قبول کیا تھا، جس میں یہ نوآبادیاتی دور میں نافذ کیا گیا تھا۔
البتہ بھارت نے پہلے1980ء میںاور پھر1990ء میں بلدیاتی نظام سے متعلق آئینی شقوں میںترامیم کے ذریعے اسے بلدیاتی سے مقامی حکومتی نظام بنانے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی ہے اور اس نظام کو تیسرے انتظامی درجہ کامقام حاصل ہورہاہے۔ساتھ ہی وہاں قومی اور ریاستی سطح کے انتخابات کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی مسلسل ہوتے رہے۔اس کے برعکس پاکستان میں1947ء سے1958ء کے درمیان بلدیاتی اداروں کے لیے کوئی انتخابات نہیں ہوئے۔ 1959 ء میں فوجی آمرایوب خان نے پورے ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کرکے یونین کونسل کے کونسلر کومختلف نوعیت کے اختیارات تفویض کرنے کی کوشش کی۔ان کے دور حکومت میں دومرتبہ اس نظام کے انتخابات ہوئے اور ان کے اقتدار سے ہٹتے ہی یہ نظام ختم ہوگیا۔
1973ء کے آئین میں بلدیاتی نظام کے بارے میں شقیں شامل کی گئیں، مگر بھٹومرحوم کے پانچ سالہ دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔جب کہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1979ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی نظام نافذ کیا۔اس نظام کے تحت پورے ملک میں تین جب کہ پنجاب اور KPK میںچار انتخابات ہوئے۔مگر یہ نظام بھی جلد ہی دم توڑگیا،کیونکہ منتخب حکومتوں نے اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل نہیں کیا۔یہ تمام بلدیاتی ادارے جو فوجی آمروں نے قائم کیے اختیارات کی تفویض (Delegation of Power)کامظہرتھے ۔
1970ء کے بعد سے دنیا میں اختیارات کی معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کا تصور تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔اس نئے نظام کے تحت معاشرے کے نچلے ترین یونٹ کوسیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار کرنے کارجحان تیزی کے ساتھ مقبول ہونے لگا۔ جن ممالک اور معاشروں نے اس نئے نظام سے استفادہ کیا، وہاں اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔یعنی ہرسطح پرحکمرانی میں عوامی شرکت کے باعث مالیاتی امور میں شفافیت آئی اورانتظامی ڈھانچہ مستحکم ہونے کے باعث امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ پاکستان میں اس نظام کے بارے میں بحث ومباحثے کا آغاز سب سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی میں ہوا۔ جس نے اس نظام کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے 1993ء میںاس نظام کو اپنے انتخابی منشورکا حصہ بنایااور ضلع کی سطح پر اقتدار واختیار کی منتقلی کا وعدہ کیا۔ مگر ا نہیں اس منصوبے پر عمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور ان کی حکومت نومبر1996ء میں ختم کردی گئی۔
ستمبر1997ء میںملک کے ترقی پسند، جمہوریت نواز اور متوشش دانشوروں، قلمکاروں اور سرگرم سیاسی وسماجی کارکنوںنے سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ (SDM) قائم کی۔ یہ ایک قسم کا تھنک ٹینک تھا، جس کا مقصد مختلف قومی مسائل پر تحقیق اور پبلک ڈائیلاگ کرکے انھیں دستاویزی شکل دیناتھا۔SDM نے مقامی حکومتی نظام کاخاکہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے طویل بحث ومباحثے کے بعد مقامی حکومتی نظام کا ایک بلیوپرنٹ تیار کیا،جس کا اردو ترجمہ راقم نے کیا تھا۔ اکتوبر1999ء میںجب جنرل پرویز مشرف نے اقتدارپر قبضہ کیا،تو انھوں نے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا جس میں نچلی سطح پر اقتدار واختیار کی منتقلی بھی شامل تھی۔ یہ ان کے ذہن کی اخترع نہیں تھی، بلکہ عمر اصغر خان مرحوم (جو ان کی ابتدائی کابینہ میں وزیر محنت تھے)کے ذریعے انھوں نےSDM کے مقامی حکومتی نظام کا مسودہ حاصل کیاتھااور جنرل تنویرنقوی کی ز یرقیادت قائم قومی تعمیرنوبیورو(NRB)کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس مسودے کی روشنی میں نئے مقامی حکومتی نظام کا خاکہ تیار کریں۔یہی سبب ہے کہ اپنی تمام تر خامیوںاور نقائص کے باوجود NRBکاضلعی حکومتوں کا نظام Devolution of Powerکی عکاسی کرتاتھا۔جب کہ جنرل ضیاء الحق کا1979ء کا بلدیاتی آرڈیننس نوآبادیاتی نظام کا تسلسل تھا۔
لہٰذا اس وقت چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اول،ملک میں نوآبادیاتی دور کے بلدیاتی نظام کی جگہ مقامی حکومتی نظام قائم کیاجائے،یعنی ملک کا انتظامی ڈھانچہ دو درجاتی (Two tier)کے بجائے تین درجاتی(Three tier)بنایاجائے۔دوئم،ایک ایسا نظام جس میں ضلع کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی حقیقی معنی میں منتقلی ہواور جس طرح بعض شعبہ جات وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں،اسی طرح نچلی سطح کے شعبہ جات ضلع کو منتقل ہوں۔سوئم،ضلع کی اپنی اسمبلی ہو،جووزیراعلیٰ کی طرز پر اپنے ناظم یا لارڈ مئیر کا انتخاب کرے۔ کمشنر صوبے کانمایندہ ہوجس طرح صوبے میںگورنروفاق کا نمایندہ ہوتا ہے۔ضلع سے اختیارات مزید نچلی سطح تک منتقل ہوں اور یونین کونسل تک جائیں۔اس طرح صحیح معنی میں مقامی حکومتی نظام قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مشق کو وفاق اپنی نگرانی میں کرائے، تاکہ تمام صوبوں میں یکساں نظام قائم ہوسکے اور یہ چوں چوں کا مربہ نہ بن جائے۔ اس لیے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور قومی مفاد میں دنیا میں رئج مختلف ماڈلز کا تقابلی جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔