’’جب تحقیقی مشقت سے دَم لینا مقصود ہو تو شاعری کر کے تھکن اتارتا ہوں‘‘ ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر

نویں جماعت تک کئی بار فیل ہوا، اسکول تبدیل کیا تو کارکردگی اچھی ہوگئی۔

میری افسانہ نگاری پر تنقید ہوئی کہ اس میں خطابت آجاتی ہے، ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر سے ایک بیٹھک۔ فوٹو: فائل

1965ء کے صدارتی انتخابات میں کراچی کے ایک گھر کے مرکزی دروازے پر محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان 'لالٹین' آویزاں تھا، جب کہ اسی گھر کے اندرونی دروازے پر جنرل ایوب خان کا انتخابی نشان 'پھول' ٹنگا ہوا تھا۔۔۔

سیاسی اختلاف سے ہم آہنگ اس مسکن کے صدر دروازے پر بیٹے، جب کہ اندرونی 'دَر' پر والد کی رائے کا اظہار تھا۔۔۔ اس گھر کے بیٹے کو آج ہم سب خواجہ رضی حیدر کے طور پر جانتے ہیں، جو 'سوشل ازم' کے مخالف ہونے کی بنا پر 'جماعت اسلامی' سے قریب ہوئے، جب کہ ان کے والد 'جمعیت علمائے پاکستان' سے منسلک تھے، جو عورت کی حکم رانی کے خلاف تھی۔۔۔ لیکن والد نے اپنے بیٹے کو سیاسی اختلاف کا حق دیا۔جب خواجہ رضی نے سوشل ازم کا مخالفت ہونے کے لیے 'تھا' کہا تو ہم نے پوچھا کہ کیا اب کوئی گنجائش نکل آئی؟ تو انہوں نے نفی کی، ہماری اس بھرپور بیٹھک کے دوران بہت سی جگہ وہ روک بھی دیتے ہیں کہ بات متنازع نہ ہو جائے، تب ہی کچھ باتیں 'آف دی ریکارڈ' کی اسیر بھی ہوئیں۔۔۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1946ء میں پیلی بھیت (یوپی) کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، پانچ بہنیں اور تین بھائی ہیں، بہن کے بعد وہ سب سے بڑے ہیں۔ اُن کے پردادا کی 17 اور دادا کی کی پانچ، چھے تصانیف ہیں، والد طبیب تھے، انہوں نے بھی 27 کتب لکھیں، یہ ساری تصانیف فقہ اور اسلامی موضوعات پر تھیں۔ والد مولویوں سے مطمئن نہ تھے، اس لیے انہیں استاد یا کسی لکھنے پڑھنے کے پیشے کی طرف بھیجنا چاہا۔

ایک بھائی وسیع حیدر آرٹسٹ، جب کہ ایک بھائی ولی حیدر ذاکر 'آرٹ کریٹک' ہیں۔ خواجہ رضی کے بقول وہ نویں جماعت تک کئی بار فیل ہوئے، تاہم اسکول بدلا تو پھر کارکردگی اچھی ہو گئی۔ 1961ء میں شفیع عقیل نے بچوں کے صفحے پر میری پہلی تحریر شایع کی۔ 'حریت ' اخبار میں طلبہ کے صفحے کے لیے لکھتا رہا، بی اے کے امتحانات کے بعد ایک دن مضمون لے کر گیا، تو اے آر ممتاز نے بتایا کہ یہاں جگہ خالی ہے۔ ان کا انٹرویو ہوا اور ترجمہ کرایا، جو ان کے خیال میں کافی ناقص تھا، لیکن قبول کیا گیا، یوں وہ 1966ء میں 'جونیئر سب ایڈیٹر' کے طور پر 'حریت' سے وابستہ ہو گئے، وہاں 'شعبۂ میگزین' سے خبروں کی سمت آئے، اسٹنٹ ایڈیٹر اور پھر ادارتی صفحے کے نگراں ہوگئے۔ قبل ازیں وہ بچوں کے لیے لکھنے کے بعد وہ افسانہ نگاری پر بھی متوجہ رہے، اس پر تنقید ہوئی کہ اس میں خطابت کا رنگ آنے لگتا ہے۔

خواجہ رضی کہتے ہیں کہ '1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد مدیر 'حریت' فرہاد زیدی کی ہدایت پر سید مطلوب الحسن اور سید ہاشم رضا وغیرہ سمیت 20 سے زائد تحریک پاکستان کی شخصیات سے قرارداد پاکستان کی حیثیت پر انٹرویو کئے، جن میں سے کچھ انٹرویو کتاب 'تاریخ وتجزیہ' میں شامل ہیں۔ 1966ء میں ان کی کتاب 'قائد اعظم کے 72 سال' آئی، جسے طلائی تمغا ملا۔ استاد شریف المجاہد نے انہیں شعبۂ تحقیق میں جانے کو کہا، لیکن وہ اخبار کی کھلی ڈلی ملازمت سے مطمئن تھے۔ جب انہوں نے 'تذکرہ محدث صوفی' لکھی تو شریف المجاہد نے دوبارہ زور دیا کہ 'یہ کیا اخبار میں کام کر رہے ہو؟ قائد اعظم اکادمی آجاؤ!' یوں 1981ء میں 'ریسرچ فیلو' کے طور پر 'قائداعظم اکادمی' کا حصہ بنے، جہاں تقریباً 27 برس رہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر سے ڈائریکٹر ہو کر جولائی 2007ء میں ریٹائر ہوئے، پھر کچھ وقت بیٹی کے پاس امریکا میں رہے، پھر 'علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن' کے صدر ذاکر علی خان نے سرسید یونیورسٹی، کراچی میں بطور لیٹریری فورم کنسلٹنٹ تعینات کر دیا، نو برس یہاں رہے۔ جولائی 2016ء میں 'قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن'' نے رابطہ کیا اور یوں وہ دوبارہ قائداعظم اکادمی آگئے۔ کہتے ہیں کہ میری عدم موجودگی میں کوئی محقق نہیں آیا، بلکہ جتنے معاون تھے، وہ بھی ریٹائر ہوتے گئے۔ اس لیے اکادمی کی حالت بہت خراب تھی، اسے بہتر کیا۔ ہم نے کتب خانے کی ضروریات پوری کیں، اس کے دیوان خانے کو آراستہ کر کے 'جناح ہال' کا نام دیا، اور یہاں لیکچر کرائے، جس کے لیے ڈاکٹر جعفر احمد، زاہدہ حنا، غازی صلاح الدین، محمود شام وغیرہ آچکے۔'

ہمارا دھیان لامحالہ ڈاکٹر مبارک علی کی طرف گیا، پوچھا کبھی انہیں بلایا، تو انہوں نے نفی کی، ہم نے کہا کہ آپ کا ادارہ اپنے موضوع کے ایک بڑے محقق کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟ کہنے لگے کہ 'ہمارا ان سے کبھی رابطہ نہیں ہوا۔۔۔ اور میں ان کے تحقیقی طریقہ کار سے بھی مطمئن نہیں۔ مجھے چونکا دینے والی چیزوں کے بہ جائے اپنی دستاویزی تحقیق عزیز ہے۔'

اگر کوئی تحقیقی انکشاف چونکنے پر مجبور کر دے، تو حرج ہی کیا ہے؟ اسی خیال سے ہم نے پوچھا ''چونکا دینے والی؟'' وہ بولے کہ 'جیسے پچھلے دنوں انہوں نے اس طرح کی بات کی کہ قرارداد پاکستان کا ڈرافٹ دراصل وائسرائے نے لکھا۔۔۔!''

ہم نے پوچھا ''وہ کس بات کو بنیاد بنا کر کہہ رہے تھے؟'' وہ بولے کہ کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، وہ محض قائد کی وائسرائے سے ملاقاتوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکال رہے ہیِں، جب کہ یہ قرارداد 1939ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں بنائی گئی کمیٹی نے تیار کی، ہم نے اس قرارداد کے ٹائپ شدہ مسودے کا عکس بھی شایع کیا ہے۔

خواجہ رضی حیدر کا خیال ہے کہ 'لوگ تاریخ کو اپنے نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قائداعظم نے کبھی لفظ 'سیکولر' استعمال نہیں کیا، ان کی 50 سے زائد تقاریر میں اسلام کی بات ہے، انہوں نے واضح طور پر قرآن وسنت کو آئین کہا، پھر مسلم لیگ کے اجلاسوں میں نعرہ تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگتے، علما بھی مسلم لیگ میں تھے۔'

ہم نے کہا بہت سے علما مخالف بھی تو رہے؟ اس پر خواجہ رضی نے انکشاف کیا کہ 1936ء کے چناؤ سے قبل پارلیمنٹری بورڈ میں 'جمعیت علمائے ہند' کے علما مولانا مدنی، مولانا حفظ الرحمن، مولانا کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید وغیرہ شریک تھے، انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دینے پر اخراجات دینے کا مطالبہ کیا، اس وقت مسلم لیگ خود مفلوک الحال تھی، قائداعظم نے منع کر دیا۔ دوسری طرف کانگریس نے ان کا یہ مطالبہ پورا کیا، تو یہ اُن کے ہم نوا ہو گئے! قائداعظم سے زاہد القادری کا ایک انٹرویو 'انقلاب' لاہور میں شایع ہوا، جس میں سارا ماجرا نقل ہے۔ ابو الحسن اصفہانی کی کتاب 'جناح ایز ائی نیو ہِم' میں بھی یہ سب درج ہے۔

ہم نے کہا اگر یہی بات آپ کے لیے کہی جائے کہ آپ نے بھی تاریخ کو اپنے نظریات سے دیکھا؟ تو وہ بولے ''نہیں!'' 'تحقیق میں بہت سی چیزیں نکلتی ہیں، تو کبھی اپنی فکر سے متصادم چیز کو کیسے قبول کیا؟' اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ 'جب ایک 'سیٹ آف مائنڈ' کے تحت تحقیق کی جائے تو بیش تر چیزیں اپنے موقف کے حوالے سے آتی ہیں، تو میں نے جتنا پڑھا، وہ اپنے موقف کے حوالے سے قائداعظم کو ویسا ہی پایا۔'

خواجہ رضی حیدر نے قائداعظم کی کسی بھی غلطی کی نفی کی تو ہم نے بیرسٹر صبغت اللہ قادری سے اپنے انٹرویو (اشاعت 13جنوری 2019ء) کے حوالے سے استفسار کیا کہ قائد نے تو کانگریس میں رہنا غلطی کہا تھا؟ تو خواجہ صاحب نے کہا کہ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ ہم نے پوچھا انسان تو خطا کا پتلا ہے، بطور محقق کوئی ایسی چیز نہیں ملی، کہ جسے آپ غلط سمجھتے ہوں؟ وہ بولے کہ معروضی مطالعے میں قائداعظم کی کوئی غلطی نہیں دیکھی۔ البتہ شریف المجاہد نے 1946ء میں 'یوم راست اقدام' کے اعلان کو قائد کی غلطی کہا، لیکن میرے خیال میں اس کے نتائج نے اسے درست حکمت عملی ثابت کیا۔ قائداعظم میرے لیے باپ کی طرح ہیں، ایک بیٹا باپ کی غلطی کیا بتائے گا؟' ہم نے کہا ''اگر باپ کے بارے میں بھی تحقیق کریں، تو بطور محقق اس کا تقاضا ہے کہ غلطیوں کا بھی اعتراف کریں۔''

خواجہ رضی کے خیال میں قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں اقلیتوں کے تحفظ کی وہی بات ہے جو 'میثاق مدینہ' میں تھی۔ ہم نے بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کے انٹرویو (اشاعت، 11 نومبر 2018ء) کی بات دُہرائی کہ مسلمانوں کو عبادات کی آزادی تو وہاں بھی تھی، تو انہوں نے اختلاف کیا اور کہا کہ مساجد میں سور کاٹے جاتے، مسجد کے سامنے سے دسہرے کے جلوس نکلتے، جس میں باجے تاشے ہوتے! 1888ء میں ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے لکھا کہ میں نے کلرک اور قاصد جیسی ملازمتوں پر تو مسلمان دیکھے، لیکن کوئی مسلمان افسر نظر نہ آیا۔' کیوں کہ ہندو، مسلمانوں سے کئی عشرے پہلے جدید تعلیم سے آراستہ ہو چکے تھے۔ راجا موہن رائے، بنارس میں 'ہندو کالج' بنا چکے تھے، علی گڑھ کالج کافی بعد میں بنا۔ سرسید نے ہی کہا تھا کہ ہندو اور مسلم ساتھ نہیں رہ سکیں گے اور جو زندہ رہے گا، وہ دیکھے گا۔

خواجہ رضی حیدر مسلمانان ہند کے لیے تقسیم کے سوا کسی اور حل کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''بس، یہی ممکن تھا! سرحدوں کے تعین کرنے والے 'ریڈ کلف ایوارڈ' کا سلسلہ بعد میں ہوا، جس میں گورداس پور ودیگر علاقے ہندوستان کو دے دیے گئے۔''


''علی گڑھ بھی وہیں رہ گیا؟'' ہم نے پوچھا تو وہ بولے لیکن اس کے تربیت یافتہ لوگ تو اسلامیہ کالج پشاور سے سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی تک پھیلے ہوئے تھے۔ بلوچستان کے الحاق کا ذکر ہوا تو خواجہ رضی بولے کہ ''بدقسمتی سے تھڑے پر بیٹھے ہوئے لوگ جبری الحاق کی بے بنیاد باتیں کرتے ہیں، جب کہ خان آف قلات نے اپنی کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔''

''اگر بٹوار اس وقت نہ ہوتا تو کب ہوتا۔۔۔؟'' اس مفروضے پر وہ کہتے ہیں ''پھر کبھی نہ ہوتا!'' ہم نے 1948ء میں طے شدہ تقسیم ہند، 1947ء میں کرنے کا معاملہ چھیڑا، تو انہوں نے اس کا دوش وائسراے ماؤنٹ بیٹن کو دیا اور کہا کہ اس نے تو لکھا کہ مجھے پتا ہوتا کہ جناح صاحب کی زندگی اتنی کم ہے، تو میں بٹوارا ٹال دیتا، تاہم قائد نے اپنی خراب صحت کی وجہ سے تقدیم کو قبول کیا!'

خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں کہ ''حکومت میں غلام محمد کی شمولیت سے یہاں انگریز کے تربیت یافتہ لوگ آگے آگئے، جو قائداعظم کے وضع کردہ تصور پاکستان کے آگے مزاحم رہے، امریکی دستاویز میں تو آیا ہے کہ لیاقت علی کو اس کے بنائے ہوئے لوگوں نے راستے سے ہٹایا۔''

خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ رتی جناح پر کتاب لکھنے والے پہلے محقق ہیں، وہ موہن داس گاندھی کو برصغیر میں تشدد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا 'مرن برت' (تادم مرگ بھوک ہڑتال) صرف ہندوستان میں قتل وغارت روکنے کے لیے تھی، پاکستان کو اثاثے دلوانے کے لیے نہیں!

تحقیق سے شہرت کمانے والے خواجہ رضی حیدر کے مضامینِ سخن وَری بھی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، ہم نے استفسار کیا ''کہاں مستقل مزاجی کا تقاضا کرتی ہوئی تحقیقی موشگافیاں اور کہاں تادیر طاری رہنے والی شاعرانہ کیفیت۔۔۔؟'' تو وہ بولے کہ 'جب مشقت طلب تحقیق سے دَم لینا ہوتا ہے، تو پھر شاعری کر کے تھکن اتارتا ہوں، اور تازہ دم ہو جاتا ہوں۔' ان کے الفاظ میں زمانہ طالب علمی سے اس سمت راغب ہیں، 1973-74ء میں رؤف عروج سے اصلاح لی۔ 1979-80ء میں ایک مشاعرے میں کلام پڑھا تو صہبا اختر نے ٹوکا کہ کس کی غزل پڑھ رہے ہو، تو بتایا کہ اپنی ہے۔ 1995ء میں پہلا مجموعہ 'بے دیار شام'، 2005ء میں 'گماں گشت' اور 2018ء میں 'لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے' منظرعام پر آیا۔

''مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے قائداعظم بننا چاہتے تھے!''

خواجہ رضی کا خیال ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانوں کے اتحاد اور کانگریس کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مراعات کا حصول چاہتے تھے، مگر اس دوران کسی ہندو مسلم فساد کی انہوں نے ایک بار بھی مذمت نہیں کی! وہ مسلمانان ہند کی قیادت کرنا چاہتے تھے، جو انہیں 1916ء میں اس وقت نکلتی ہوئی محسوس ہوئی جب 'میثاق لکھنؤ' ہوا اور جناح کو 'ہندو مسلم اتحاد کا سفیر' کہا گیا۔ اس سے نہ صرف دو قومی نظریہ تسلیم ہوا، بلکہ گاندھی کو بھی لگا کہ عوام کی قیادت جناح لے جائیں گے، جب کہ 1914ء میں موہن داس گاندھی جنوبی افریقا سے ہندوستان لوٹے تو کانگریس کی جانب سے انہیں جو استقبالیہ دیا گیا اس کی صدارت قائداعظم نے کی تھی۔

خواجہ رضی حیدر انکشاف کرتے ہیں کہ 1922ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک کتاب کے اشتہار میں انہیں 'ہندوستان کا قائداعظم' کہا گیا، لہٰذا جب 1936-37ء میں محمد علی جناح کو 'قائد اعظم' کہا جانے لگا، تو انہیں اچھا نہیں لگا، یہ ان کا دکھ تھا کہ وہ ہندوستان کے قائداعظم نہ بن سکے! محمد علی جناح سے پہلے یہ ایک عام لقب تھا، کبھی موہن داس گاندھی اور کبھی علامہ اقبال کو بھی 'قائداعظم' کہا گیا، یہاں تک کے مولانا محمد علی جوہر کی رحلت پر 'بجنور' کے اخبار 'مدینہ' نے سرخی جمائی کہ ''قائد اعظم محمد علی جوہر انتقال کر گئے!''

خواجہ رضی حیدر کا دعویٰ ہے کہ چند برس قبل ایک نجی ٹی وی کے پروگرام 'آج کامران خان کے ساتھ' میں نشر ہونے والی مولانا ابو الکلام آزاد کی صوتی تقریر دراصل ان کی مختلف تقاریر جوڑ کر بنائی گئی اور قاری سعید نے اسے مولانا آزاد کی نقل کرتے ہوئے ریکارڈ کرایا۔ کہتے ہیں کہ یہ بات معروف محقق ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے سہ ماہی 'سیپ' میں دیے گئے، اپنے ایک انٹرویو میں بھی کہی کہ انہوں نے اس عمل سے منع بھی کیا تھا کہ 'یہ جعل سازی ہے۔'

قائداعظم پر تمام تصانیف کی 'کتابیات' تیار ہونے کو ہے!

'قائداعظم اکادمی' کے حوالے سے خواجہ رضی کہتے ہیں کہ ایک چھت کے نیچے قائداعظم اور پاکستان کے موضوع پر اس قدر وسیع پیمانے پر ذخیرہ کہیں اور موجود نہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ قائداعظم پر ڈاکٹریٹ نہیں کیا جا سکتا، کہتے ہیں کہ قائداعظم پر تحقیقی مقالے کتابی صور ت میں موجود ہیں، ڈاکٹر ریاض پہلے محقق ہیں، جنہوں نے 1982ء میں قائداعظم کے ابتدائی 20 سال پر ڈاکٹریٹ کیا، اس کے علاوہ ڈاکٹر سکندر حیات نے بھی قائد پر پی ایچ ڈی کیا۔ خواجہ رضی کی کتاب 'قائد اعظم اور دینا واڈیا' شایع ہونے کو ہے۔ ان دنوں وہ قائداعظم پر کتابوں کی اشاعت کے 100 سال مکمل ہونے کے حوالے سے اُن پر لکھی گئی کتابوں کی کتابیات (Bibliography) ترتیب دے رہے ہیں، جو ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گی، اُن کا اندازہ ہے کہ قائد پر اردو کی 272 کتب سمیت کل تصانیف کی تعداد 600 تک ہے!

اقبال کے 'تصور پاکستان' میں بنگال کا ذکر کیوں نہیں؟

ہم نے علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد 1930)ء( میں بنگال کا ذکر نہ ہونے کا پوچھا تو وہ بولے کہ بنگال میں الگ تحریک تھی، ہم نے کہا کہ جب ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں کی بات کی جا رہی ہے، تو اس کلیے کا اطلاق بنگال پر بھی تو کرنا چاہیے تھا، وہ بنگال جس میں خود مسلم لیگ نے جنم لیا، جس کے اجلاس سے ہی وہ خطاب کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی وجہ سے اُن کے ذہن میں نہیں آیا، اس طرح چوہدری رحمت علی نے بھی بنگال کا ذکر نہیں کیا۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان کی قانونی حیثیت پر استفسار کیا تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ قرارداد تحریک میں سنگ میل ضرور تھی، لیکن کسی جلسے میں منظور کردہ قرارداد کی بنیاد پر تو پاکستان نہیں ملا، یہ دراصل 1946ء کے انتخابات میں کام یابی کی صورت میں ممکن ہو سکا، جس میں ہندوستان بھر کی 30 مسلم نشستوں پر مسلم لیگ نے کلین سوئپ کیا۔

'والد پر کتاب لکھی تو ذہنی سکون ملا

ہماری گفتگو میں خواجہ رضی حیدر کے 'پی ایچ ڈی' کا ذکر بھی نکل آیا۔۔۔ پتا چلا کہ وہ 1988ء میں '1857ء تا 1947ء کی تاریخ' پر ڈاکٹریٹ کر رہے تھے، جو بوجوہ نامکمل رہا، کہتے ہیں کہ 1969ء میں اردو میں ایم اے اس نیت سے کیا تھا کہ کہیں لیکچرر ہوکر یافت کا ذریعہ ہو، کیوں کہ والد کے بڑے بیٹے ہونے کے ناتے ذمے داری ان پر تھی، پھر وہ کچھ عرصے گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں لیکچرر بھی رہے۔ 2013ء میں بیٹے کے کاروباری نقصان کے سبب بہت پریشان تھے، اس دوران والد پر کتاب لکھنے کا خیال آیا، سو لکھ ڈالی، جس سے ذہنی اطمینان ملا۔ کہتے ہیں کہ والد ہندوستان میں مسلم لیگ کے علاقائی صدر رہے اور 1939ء میں 'یوم نجات' پر گرفتار بھی ہوئے۔ یہاں وہ 'جمعیت علمائے پاکستان' کے رکن رہے۔ ہمیں 2017ء کے ایک انٹرویو میں آزاد بن حیدر نے 'جمعیت علمائے پاکستان' کو ابتدائی طور پر مسلم لیگ کا 'علما ونگ' کہا تھا، اس حوالے سے خواجہ رضی نے استدلال کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو مولانا احتشام الحق تھانوی اور دیگر مسلم لیگی علما بھی اس میں ہوتے۔

ذاتی کتب کے سوال پر خواجہ رضی حیدر گویا ہوئے کہ اہلیہ کی شکایت پر اپنی ہزاروں کتب عزیز آباد، کراچی میں قائم نشرح فاؤنڈیشن کو دے کر وہاں اپنے پر دادا کے نام پر 'ایوان محدث سورتی' قائم کرا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کو دو، ڈھائی بجے تک لکھنے پڑھنے کے سبب وہ ساڑھے 10 بجے کے بعد دفتر جاتے ہیں۔ وہ 1977ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات ماہر نباتیات رہیں، اب ریٹائر ہوگئیں، تینوں بچے شادی شدہ ہیں، بڑی صاحب زادی حیاتیات میں ڈاکٹریٹ اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں، دوسری بیٹی ایم اے انگریزی اور امریکا میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ صاحب زادے کا سری لنکا میں کاروبار رہا، اب وہ لوٹ آئے ہیں۔
Load Next Story