مرکزیت سے محروم تحریکیں

ایکسپریس میں بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں غربت اورکرپشن کے خلاف نکالی گئی ایک تصویر چھپی ہے جس میں تاحد...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

KARACHI:
ایکسپریس میں بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں غربت اورکرپشن کے خلاف نکالی گئی ایک تصویر چھپی ہے جس میں تاحد نظر انسان ہی انسان نظر آرہے ہیں یہ بلغاریہ کے وہ محنت کش عوام ہیں جو اپنے ملک کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں،کپڑا تیار کرتے ہیں،کارخانے چلاتے ہیں، ان کارخانوں میں اشیائے صرف سے لے کر اشیائے تعیش تک ہر قسم کی اشیاء بناتے ہیں، پوش بستیوں میں اپنے طبقاتی دشمنوں کے لیے ہزاروں گز پر محل اورکوٹھیاں بناتے ہیں، کاریں بنانے والے کارخانوں میں نئے نئے ماڈل کی کاریں بناتے ہیں، خود اپنے خلاف استعمال ہونے والا اسلحہ بناتے ہیں، بینک اور مالیاتی ادارے تعمیرکرتے ہیں، اسٹاک ایکسچینج کی خوبصورت عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، امریکا کی سب سے طویل عمارت اور دبئی کی 163 منزلہ دنیا کی سب سے بلند عمارت بناتے ہیں، مسجد بناتے ہیں، مندر بناتے ہیں،گرجا بناتے ہیں، ٹمپل بناتے ہیں، بدھوں کے پگوڑے بناتے ہیں اور پھر بھوک غربت اور کرپشن کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور مایوس ہوکر اپنی بنائی ہوئی مسجدوں، مندروں، گرجاؤں، ٹمپلوں، گوردواروں، پگوڑوں میں جاکر خدا سے گڑگڑا کر التجا کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ انھیں بھوک، افلاس، غربت، بے کاری، بیماری سے نجات دلائے۔

یہ تصویر، یہ منظر نامہ اگرچہ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کا ہے لیکن یہ منظر نامہ امریکا کے واشنگٹن، برطانیہ کے لندن، فرانس کے پیرس، جرمنی کے برلن، روس کے ماسکو، چین کے بیجنگ، انڈونیشیا کے جکارتہ، ملائیشیا کے کوالالمپور، بھارت کے دلی، نیپال کے کھٹمنڈو، سری لنکا کے کولمبو، پاکستان کے اسلام آباد، سعودی عرب کے ریاض، شام کے دمشق، لیبیا کے طرابلس، مصر کے قاہرہ، ترکی کے استنبول، تھائی لینڈ کے بنکاک، افریقہ کے ہر ملک کے دارالحکومت کا ہے۔ ہر ملک میں بھوکوں، ننگوں، بے گھروں کے ہجوم سڑکوں پر غربت کے خلاف کرپشن کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان کے نام الگ الگ ہیں، ان کے رنگ الگ الگ ہیں، ان کی زبانیں الگ الگ ہیں، ان کا کلچر الگ الگ ہے، ان کے مذاہب الگ الگ ہیں لیکن ان کی غربت، ان کی بھوک، ان کی بیماری، ان کی بیکاری ایک اور صرف ایک ہے۔

بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کی اس تصویر کے بالکل اوپر ایک ساڑھے پانچ کالمی خبر چھپی ہے جس میں ای او آئی بی میں ہونے والی 34 ارب کی کرپشن کی تفصیلات ہیں۔ کرپشن کی یہ تفصیلات پانچ کالموں پر پھیلی ہوئی ہیں اور آدھے کالم پر ایک چھوٹی سی تصویر اس ملزم کی چھپی ہے جو اس 34 ارب کی کرپشن میں ملوث ہے ابھی کل کی بات ہے 82 ارب کی کرپشن کے مرکزی ملزم توقیرصادق کو ابوظہبی سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا تھا چینلوں پر توقیر صادق کی دو تصویریں آرہی ہیں ایک تصویر میں تنومند چمکتے چہرے والا توقیر صادق ہے یہ تصویر کرپشن کے موسم کی ہے دوسری تصویر ابوظہبی سے گرفتارکرکے پاکستان لانے کے بعد کی ہے اس تصویر میں توقیر صادق ڈھیلا ڈھالا بیمار اور مضمحل سا نظر آرہا ہے۔


یہ دونوں تصویریں شادی سے پہلے کے بعد جیسی دواؤں کی اشتہاری تصویریں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ پاکستان میں صرف ای او آئی بی اوگرا ہی دو کرپٹ ادارے نہیں بلکہ سیکڑوں ادارے ہیں جو کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں سیکڑوں افراد ہیں، سیکڑوں خاندان ہیں جو کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں حکمران طبقات ہیں، اپوزیشن ہے، جو سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، ملک میں آئین ہے، قانون ہے، انصاف ہے، فوج ہے، پولیس ہے، رینجرز ہے، اینٹی کرپشن کے بڑے بڑے ادارے ہیں، جن پر کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ای او آئی بی، اوگرا، اوجی ڈی سی، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ صرف پاکستان میں نہیں قانون، انصاف، فوج ، پولیس صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ہے بلغاریہ میں بھی ای او آئی بی، اوگرا، ریلوے، پی آئی اے ہیں اور بلغاریہ کے غریب عوام غربت اور کرپشن کے خلاف صوفیہ کی سڑکوں پر کھڑے اس ظلم کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بھوک، غربت، مہنگائی، بیکاری، کرپشن کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں امریکا کی وال اسٹریٹ قبضہ مہم بھی بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ ہی کا ایک انلارج منظرنامہ ہے پاکستان کے شہر فیصل آباد، لاہور، کراچی میں بھی غربت، افلاس، کرپشن کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں انا ہزارے کے گرد اس وقت لاکھوں غریب جمع ہوجاتے ہیں جب وہ غربت کی ذمے دار کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔

غربت اور امارت آقا اور غلام، محتاج اور سخی کا نظام انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے بلکہ دنیا میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب غریب انسانوں کو بازاروں میں بیچا اور خریدا جاتا تھا اس دور کو انسانی تاریخ میں غلامی کا دور کہا جاتا ہے۔یہ کوئی ہزاروں سال پرانی بات نہیں بلکہ ماضی قریب کی بات ہے جب افریقہ سے بے زبان انسانوں کو جہازوں میں بھر کر لایا جاتا تھا اور امریکا جیسے آج کے سب سے مہذب ملک میں ان بے زبان انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں جہاں انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح بیچا اور خریدا جاتا تھا۔ انسانوں پر انسانوں کا یہ ظلم ہزاروں سال تک بادشاہ اور رعایا کی شکل میں جاری رہا۔ یونان نے بڑے بڑے فلسفی اور دانشور پیدا کیے لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان فلسفیوں نے بھی انسانوں کی اس تقسیم کو فطری اور معاشرے کی ضرورت کہا۔خود اسلامی تاریخ میں غلاموں، کنیزوں، لونڈیوں کا رواج رہا اسی طرح ہندو سماج ہندو میتھالوجی میں ذات پات کا بدترین رواج آزادی کے بعد تک جاری رہا، لیکن علم اور شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس بے ہودہ غیر اخلاقی تقسیم کے خلاف آوازیں اٹھتی گئیں اور یہ ننگ انسانیت اور ظالمانہ نظام ختم ہوتے گئے۔

نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد جو نیا نوآبادیاتی نظام دنیا پر مسلط کیا گیا اس میں براہ راست کے بجائے باالواسطہ طور پر قوموں کو غلام بنانے کی سبیل کی گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام نے غلام داری، جاگیرداری اور بادشاہتوں کا نظام ختم کرکے جس نئے ترقی یافتہ نظام کی بنیاد ڈالی اس کا نام جمہوریت رکھا گیا۔ اس نظام کے نظریہ سازوں نے اس نظام کو ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے'' کہہ کر اس نظام کو مقدس، متبرک اور انسانی ضرورتوں کے مطابق قرار دینے کی کوشش کی لیکن یہ نظام بھی غلامی کی ایک ترقی یافتہ شکل میں بدل گیا۔ روز اول انسانی تاریخ کے ابتدائی دور سے انسان جس طرح دو طبقوں میں بٹے رہے اسی طرح اس ترقی یافتہ جمہوریت نے بھی انھیں دو نہیں کئی طبقوں میں بانٹ دیا لیکن اس کی بنیادی تقسیم غریب اور امیر ہی رہی۔

جس طرح جمہوریت کے نام پر ایک کرپٹ طبقے کو حکمرانی کا حق دیا گیا اس کا المیہ یہ ہے کہ اس نظام میں غریب عوام خود اپنے ووٹوں سے اپنے معاشی قاتلوں کو منتخب کرتے ہیں اور اپنے منتخب کردہ معاشی قاتلوں کے ظلم سہتے رہتے ہیں۔آج کا انسان اب اس طبقاتی ظلم کے خلاف آواز تو اٹھا رہا ہے لیکن یہ آواز اس لیے کمزور ہے کہ اس میں مرکزیت پیدا نہیں ہورہی ہے۔ بلغاریہ کے ہزاروں غریب بلغاریہ میں غربت اور کرپشن کے خلاف سڑکوں پر کھڑے ہیں، برطانیہ کے غریب برطانیہ میں غربت اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، جرمنی، فرانس، چین، جاپان، روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، ترکی، ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال کے عوام اپنے اپنے ملکوں میں بھوک، افلاس، بیماری، بیکاری کے خلاف سڑکوں پر ہجوم کر رہے ہیں ان سب کے درمیان کوئی رابطہ، کوئی بامعنی تعلق، کوئی نظریاتی رشتہ ابھی تک استوار نہیں ہوسکا، ان بکھرے ہوئے لوگوں میں ابھی تک مرکزیت پیدا نہ ہوسکی۔ یہی وہ کمزوری ہے جو 98 فیصد غریب عوام کو بے بس بنا رہی ہے اور وہ اس بے بسی سے گھبراکر مسجدوں، مندروں، گرجاؤں، ٹمپلوں، پگوڑوں کی طرف بھاگتا ہے اور خدا سے اپنے مسائل کے حل کی دعا کرتا ہے وہ یہاں بھی بٹا ہوا ہے اور اپنی اس اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر رہا ہے جو متحرک ہوجائے تو اس طبقاتی استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتی ہے۔ کیا دنیا نے کوئی ایسا فلسفی، کوئی ایسا دانشور، کوئی ایسا سیاستدان پیدا کیا ہے جو ان بٹے ہوئے مظلوموں کو ایک مرکز پر کھڑا کردے؟
Load Next Story