بے چین لہر جیسی زندگی
کچھ لوگ خلش جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر یا ان کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھ کر ایک کسک سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
KARACHI:
کچھ لوگ خلش جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر یا ان کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھ کر ایک کسک سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کوئی ادھورا سا احساس لکھا ہوتا ہے ان کے چہروں پر۔ خیرالنساء جعفری کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ سندھ کی معروف نقاد اورکہانی نویس خیرالنساء نے 17 اگست 1947 میں حیدر آباد میں جنم لیا۔ نفسیات میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے لیکچرار کے طور پر وابستہ ہوگئیں۔ 1974 سے افسانے لکھنے کا آغاز کیا۔ تخلیق کی موت کے عنوان سے ان کی کہانیوں کی کتاب 1978 میں شایع ہوئی اور بے تحاشا مقبولیت حاصل کی۔ سندھ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے دوران میں نے انھیں قریب سے دیکھا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب میں ادبی اسٹیج پروگرامز کی کمپیئرنگ کیا کرتی۔ وہ اسٹیج پر نقاد کے روپ میں جب آتیں تو ان کے بے ساختہ جملوں پر بار بار انھیں بے تحاشا داد ملتی۔ یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دینے کے بعد بھی اسٹیج کے ادبی پروگرامز میں تو کبھی ریڈیو و ٹیلی ویژن پر کمپیئرنگ کے دوران ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ انھیں سب پیار سے خیرو اور گڑیا کہتے۔ مجھے خیرالنساء ذات کی سچائی سمیت اچھی لگتی۔ ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو سچ بولتے ہوں گے۔زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے جھوٹ سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ سمجھوتہ بھی خود سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہے اور جھوٹ جینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھنے کا شارٹ کٹ ہے۔ لیکن خیرو بے باک خاتون تھیں۔ وہ کوئی ایسا جملہ بول دیتیں کہ لگتا قریب کوئی ڈائنامائیٹ پھٹ پڑا ہو۔ لوگ بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگتے مگر سچائی کا تیر ان کے وجود کو چھلنی کرجاتا۔ ایک بہت ہی گہری بات مزاح کے پیرائے میں بیان کرنے کا فن فقط خیرالنساء جعفری کو آتا تھا۔
دہرے معیار کے حامل اس معاشرے میں ذہین اور منفرد مزاج رکھنے والی عورتیں ناقابل برداشت لگتی ہیں۔ عورت کو معاشرے سے زیادہ اپنی ذہانت ڈس جاتی ہے جب خیرو نے لکھنا شروع کیا تھا تو اس وقت سندھی سماج ارتقائی دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے معاشرتی تضاد کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ ان کی ہم عصر ادیباؤں میں تنویر جونیجو، ثمیرہ زرین، رشیدہ حجاب اور لیلیٰ بانا کے نام قابل ذکر ہیں۔
اس معاشرے کے غیر انسانی رویوں کے خلاف وہ مستقل لکھتی رہیں۔ وہ ناپسندیدہ رویے جب اس کی اپنی زندگی کا حصہ بنے تو اس نے ان کا نشانہ بننے سے انکار کردیا۔ ایک ہی لمحہ آتا ہے انسان کی زندگی میں کہ وہ یا تو جھوٹ و منافقت کو اپنالے اور اس خوبصورت زندگی کو ناپسندیدہ سمجھوتوں کی نذر کردے یا پھر روایتوں کے زندان کو توڑ ڈالے۔ اپنی ایک کہانی میں خیرو لکھتی ہے ''اکثر چاہا ہے کہ زندگی کے نقشے کو آنکھوں کے سامنے پھیلاکر اس پر گزرے ہوئے موسموں کے اثرات غور سے دیکھوں۔ دیکھوں کہ زندگی کی کون سی رت میں ساون برسا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چلی تھیں، کہاں جھولے ڈلے اور کہاں لو نے جھلسا دیا۔ کہاں زندگی کا پاور بے حد جذباتی حرارت کے باعث فارن ہائیٹ سے اوپر چلا گیا۔
اور کہاں بے حد حساس سردی کی وجہ سے نقطہ انجماد سے گرگیا! کاش مرنے سے چند گھڑیاں پہلے اور قبر میں جانے سے چند لمحے پہلے مڑ کر ایک سرسری نظر اپنی زندگی پر ڈال سکوں۔'' اس کے الفاظ پڑھ کر مجھے زندگی ایک ٹھنڈی آہ جیسی مختصر لگنے لگتی ہے۔وہ اکثر مجھے اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں ہشاش بشاش دکھائی دیتی تھی مگر اس کی آنکھوں کی تنہائی میں تشنہ لمحے سلگتے تھے۔ روسو نے صحیح کہا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ جابجا زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک تخلیقی ذہن بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے۔ وہ بہائو روایتوں کے بند کو توڑتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ۔ قید، تخلیقی عمل کے لیے موت ہے۔ ۔ اسی لیے وہ اپنے وجود کی بقا کی جنگ تن تنہا لڑتی رہی۔ ایک بیٹی اس کی کل کائنات تھی۔ اس کی زندگی خوشی کے ایک ہی محور کے گرد گھومتی تھی۔
خیرالنساء نے اپنی کہانی حویلی سے ہاسٹل تک میں روایتی ماحول کی گرفت میں قید نوخیز جذبوں کا ذکر عورت کی نفسیات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے کہ جس میں جسم کی خواہشیں سماجی ضابطوں کی تحویل میں یرغمال نظر آتی ہیں۔ یہ کہانی ہم جنس پرستی کے موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ جسم کی ناتمام خواہشوں کی ترجمان۔ جہاں محبتیں لاشعوری طور پر ندامتوں کے جہنم میں جلتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اور کہانی قربتیں اور فاصلے میں لکھتی ہے ''کبھی کبھی قربتیں فاصلے بڑھا دیتی ہیں۔ تاروں کا حسن تو انھیں دور سے دیکھنے میں ہے۔''
ایک دن ملی تو بہت اداس تھی۔ خزاں کے زرد پھول کی طرح چہرہ کمہلایا سا تھا۔ پرانی یادوں کی باتیں کرنے لگی۔ ''ماں باپ کے جانے کے بعد اب دنیا میں دل نہیں لگتا۔ گھر کا وہ جھولا بہت اداس لگتا ہے جس میں جھولتے ہوئے چائے پیتے ہوئے والدین سے باتیں کیا کرتی۔ اب چائے پینے کو بھی دل نہیں کرتا۔''یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بادل اتر آئے۔ والدین کی محبتوں کی ٹھنڈی چھاؤں کھودینے کے بعد زندگی دھوپ کا نہ ختم ہونے والا سفر بن جاتی ہے۔ حساس لوگوں کے دکھ مشترکہ ہوتے ہیں۔ وہ ہجوم میں بھی تنہا دکھائی دیں گے۔
خیرالنساء خوش قسمت تھی کہ اسے دوست بہت اچھے ملے تھے۔ سچے دوست زندگی کے کڑوے دکھ بانٹ لیتے ہیں۔ جن سے اس کی ناراضگیاں اور بچوں کی طرح لڑائیاں بھی خوب چلتی تھیں۔ وہ مجھے نہ جانے کیوں سمندر کی بے چین لہر جیسی لگتی تھی۔ دکھ اس کی تحریروں سے جھلکتے تھے، اتنی ہی شگفتہ اس کی گفتگو تھی۔ مجھے یاد ہے وہ جب کسی بھی موضوع پراظہار خیال کرنے ڈائس پر آتی تو اس کے جملوں پر حاضرین قہقہوں کی بازگشت میں لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ مجھے بھی ایک حسرت سی ہے کہ کاش خیرالنساء کی طرح سچ بول سکوں۔ سچ بولنے کے بھی بہت سے طریقے ہیں۔ اس کا بولا ہوا سچ تیر کی طرح دل میں چبھ جاتا تھا۔ کوئی ناراض ہو تو ہوتا رہے۔ وگرنہ یہاں تو مصلحت پسندی اور خوشامد اصلاح کے بجائے معاملات کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیرو کو دکھ بے حساب ملے۔ اپنی کہانی دکھ کی بازگشت میں وہ لکھتی ہے ''میں نے خود کو ہمیشہ دریا کے بھنور میں ڈوبتے پایا، جو خاموشی سے دور ہمیشہ پرشور چکروں میں گول گھومتا ہے۔ سنگین سے سنگین حقائق انسان خود میں چھپا ڈالے اورکچھ بھی ظاہر نا ہونے دے۔ میں نے جیون کے دکھوں کو ایک دوسرے میں اس طرح مدغم کردیا ہے کہ گرداب میں غموں کا غرق ہوجانا زندگی کی فطرت بن چکی ہے۔ اب من کی مرادیں اس طرح ہوکر رہ گئی ہیں کہ اگر میرے سامنے دکھ اور سکھ کو لے آؤ تو میں دکھوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤں گی۔ مجھے اب دکھوں میں مزا ملتا ہے۔ کیوں؟ اس کے شعوری سبب کا مجھے بھی علم نہیں ہے''۔
ان لفظوں کے پس منظر میں زندگی کا المیہ مضمر نظر آتا ہے۔ جہاں دکھ ایک دائمی کیفیت بن جاتے ہیں اور خوشی تتلیوں کے رنگین پروں کی سی ہے جس نے اڑ جانا ہے۔ یہ دکھ اور سکھ کی آنکھ مچولی تکلیف دہ عمل ہے۔
جامشورو کی حسین شاموں میں ہم ملا کرتے تھے۔ جہاں کی تیز ہوائیں احساس سے کھیلتی ہیں۔ وقت اسے ادھوری کہانی کے طور پر ہر سال چار مارچ کو دہراتا ہے کہ وہ زندگی و موت کی آنکھ مچولی سے تنگ آکر 4 مارچ 1998 کو وفات پاگئی۔ طبعی طور پر دنیا میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی جامشورو کی فضاؤں میں اس کے آنسوؤں کی نمی اور قہقہوں کا سنگیت آج بھی محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ 17 اگست کو اس کی سالگرہ کے دن جب وہ 66 سال کی ہوجائے گی تو دوست، عزیز ومداح محبت کی روشن کرنوں کے درمیان اسے ضرور وش کریں گے۔ کیونکہ خوبصورت احساس کو فضا کے ہاتھ نہیں چھو سکتے۔
یاستدان پیدا کیا ہے جو ان بٹے ہوئے مظلوموں کو ایک مرکز پر کھڑا کردے؟
کچھ لوگ خلش جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر یا ان کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھ کر ایک کسک سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کوئی ادھورا سا احساس لکھا ہوتا ہے ان کے چہروں پر۔ خیرالنساء جعفری کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ سندھ کی معروف نقاد اورکہانی نویس خیرالنساء نے 17 اگست 1947 میں حیدر آباد میں جنم لیا۔ نفسیات میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے لیکچرار کے طور پر وابستہ ہوگئیں۔ 1974 سے افسانے لکھنے کا آغاز کیا۔ تخلیق کی موت کے عنوان سے ان کی کہانیوں کی کتاب 1978 میں شایع ہوئی اور بے تحاشا مقبولیت حاصل کی۔ سندھ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے دوران میں نے انھیں قریب سے دیکھا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب میں ادبی اسٹیج پروگرامز کی کمپیئرنگ کیا کرتی۔ وہ اسٹیج پر نقاد کے روپ میں جب آتیں تو ان کے بے ساختہ جملوں پر بار بار انھیں بے تحاشا داد ملتی۔ یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دینے کے بعد بھی اسٹیج کے ادبی پروگرامز میں تو کبھی ریڈیو و ٹیلی ویژن پر کمپیئرنگ کے دوران ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ انھیں سب پیار سے خیرو اور گڑیا کہتے۔ مجھے خیرالنساء ذات کی سچائی سمیت اچھی لگتی۔ ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو سچ بولتے ہوں گے۔زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے جھوٹ سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ سمجھوتہ بھی خود سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہے اور جھوٹ جینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھنے کا شارٹ کٹ ہے۔ لیکن خیرو بے باک خاتون تھیں۔ وہ کوئی ایسا جملہ بول دیتیں کہ لگتا قریب کوئی ڈائنامائیٹ پھٹ پڑا ہو۔ لوگ بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگتے مگر سچائی کا تیر ان کے وجود کو چھلنی کرجاتا۔ ایک بہت ہی گہری بات مزاح کے پیرائے میں بیان کرنے کا فن فقط خیرالنساء جعفری کو آتا تھا۔
دہرے معیار کے حامل اس معاشرے میں ذہین اور منفرد مزاج رکھنے والی عورتیں ناقابل برداشت لگتی ہیں۔ عورت کو معاشرے سے زیادہ اپنی ذہانت ڈس جاتی ہے جب خیرو نے لکھنا شروع کیا تھا تو اس وقت سندھی سماج ارتقائی دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے معاشرتی تضاد کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ ان کی ہم عصر ادیباؤں میں تنویر جونیجو، ثمیرہ زرین، رشیدہ حجاب اور لیلیٰ بانا کے نام قابل ذکر ہیں۔
اس معاشرے کے غیر انسانی رویوں کے خلاف وہ مستقل لکھتی رہیں۔ وہ ناپسندیدہ رویے جب اس کی اپنی زندگی کا حصہ بنے تو اس نے ان کا نشانہ بننے سے انکار کردیا۔ ایک ہی لمحہ آتا ہے انسان کی زندگی میں کہ وہ یا تو جھوٹ و منافقت کو اپنالے اور اس خوبصورت زندگی کو ناپسندیدہ سمجھوتوں کی نذر کردے یا پھر روایتوں کے زندان کو توڑ ڈالے۔ اپنی ایک کہانی میں خیرو لکھتی ہے ''اکثر چاہا ہے کہ زندگی کے نقشے کو آنکھوں کے سامنے پھیلاکر اس پر گزرے ہوئے موسموں کے اثرات غور سے دیکھوں۔ دیکھوں کہ زندگی کی کون سی رت میں ساون برسا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چلی تھیں، کہاں جھولے ڈلے اور کہاں لو نے جھلسا دیا۔ کہاں زندگی کا پاور بے حد جذباتی حرارت کے باعث فارن ہائیٹ سے اوپر چلا گیا۔
اور کہاں بے حد حساس سردی کی وجہ سے نقطہ انجماد سے گرگیا! کاش مرنے سے چند گھڑیاں پہلے اور قبر میں جانے سے چند لمحے پہلے مڑ کر ایک سرسری نظر اپنی زندگی پر ڈال سکوں۔'' اس کے الفاظ پڑھ کر مجھے زندگی ایک ٹھنڈی آہ جیسی مختصر لگنے لگتی ہے۔وہ اکثر مجھے اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں ہشاش بشاش دکھائی دیتی تھی مگر اس کی آنکھوں کی تنہائی میں تشنہ لمحے سلگتے تھے۔ روسو نے صحیح کہا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ جابجا زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک تخلیقی ذہن بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے۔ وہ بہائو روایتوں کے بند کو توڑتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ۔ قید، تخلیقی عمل کے لیے موت ہے۔ ۔ اسی لیے وہ اپنے وجود کی بقا کی جنگ تن تنہا لڑتی رہی۔ ایک بیٹی اس کی کل کائنات تھی۔ اس کی زندگی خوشی کے ایک ہی محور کے گرد گھومتی تھی۔
خیرالنساء نے اپنی کہانی حویلی سے ہاسٹل تک میں روایتی ماحول کی گرفت میں قید نوخیز جذبوں کا ذکر عورت کی نفسیات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے کہ جس میں جسم کی خواہشیں سماجی ضابطوں کی تحویل میں یرغمال نظر آتی ہیں۔ یہ کہانی ہم جنس پرستی کے موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ جسم کی ناتمام خواہشوں کی ترجمان۔ جہاں محبتیں لاشعوری طور پر ندامتوں کے جہنم میں جلتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اور کہانی قربتیں اور فاصلے میں لکھتی ہے ''کبھی کبھی قربتیں فاصلے بڑھا دیتی ہیں۔ تاروں کا حسن تو انھیں دور سے دیکھنے میں ہے۔''
ایک دن ملی تو بہت اداس تھی۔ خزاں کے زرد پھول کی طرح چہرہ کمہلایا سا تھا۔ پرانی یادوں کی باتیں کرنے لگی۔ ''ماں باپ کے جانے کے بعد اب دنیا میں دل نہیں لگتا۔ گھر کا وہ جھولا بہت اداس لگتا ہے جس میں جھولتے ہوئے چائے پیتے ہوئے والدین سے باتیں کیا کرتی۔ اب چائے پینے کو بھی دل نہیں کرتا۔''یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بادل اتر آئے۔ والدین کی محبتوں کی ٹھنڈی چھاؤں کھودینے کے بعد زندگی دھوپ کا نہ ختم ہونے والا سفر بن جاتی ہے۔ حساس لوگوں کے دکھ مشترکہ ہوتے ہیں۔ وہ ہجوم میں بھی تنہا دکھائی دیں گے۔
خیرالنساء خوش قسمت تھی کہ اسے دوست بہت اچھے ملے تھے۔ سچے دوست زندگی کے کڑوے دکھ بانٹ لیتے ہیں۔ جن سے اس کی ناراضگیاں اور بچوں کی طرح لڑائیاں بھی خوب چلتی تھیں۔ وہ مجھے نہ جانے کیوں سمندر کی بے چین لہر جیسی لگتی تھی۔ دکھ اس کی تحریروں سے جھلکتے تھے، اتنی ہی شگفتہ اس کی گفتگو تھی۔ مجھے یاد ہے وہ جب کسی بھی موضوع پراظہار خیال کرنے ڈائس پر آتی تو اس کے جملوں پر حاضرین قہقہوں کی بازگشت میں لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ مجھے بھی ایک حسرت سی ہے کہ کاش خیرالنساء کی طرح سچ بول سکوں۔ سچ بولنے کے بھی بہت سے طریقے ہیں۔ اس کا بولا ہوا سچ تیر کی طرح دل میں چبھ جاتا تھا۔ کوئی ناراض ہو تو ہوتا رہے۔ وگرنہ یہاں تو مصلحت پسندی اور خوشامد اصلاح کے بجائے معاملات کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیرو کو دکھ بے حساب ملے۔ اپنی کہانی دکھ کی بازگشت میں وہ لکھتی ہے ''میں نے خود کو ہمیشہ دریا کے بھنور میں ڈوبتے پایا، جو خاموشی سے دور ہمیشہ پرشور چکروں میں گول گھومتا ہے۔ سنگین سے سنگین حقائق انسان خود میں چھپا ڈالے اورکچھ بھی ظاہر نا ہونے دے۔ میں نے جیون کے دکھوں کو ایک دوسرے میں اس طرح مدغم کردیا ہے کہ گرداب میں غموں کا غرق ہوجانا زندگی کی فطرت بن چکی ہے۔ اب من کی مرادیں اس طرح ہوکر رہ گئی ہیں کہ اگر میرے سامنے دکھ اور سکھ کو لے آؤ تو میں دکھوں کی طرف ہاتھ بڑھاؤں گی۔ مجھے اب دکھوں میں مزا ملتا ہے۔ کیوں؟ اس کے شعوری سبب کا مجھے بھی علم نہیں ہے''۔
ان لفظوں کے پس منظر میں زندگی کا المیہ مضمر نظر آتا ہے۔ جہاں دکھ ایک دائمی کیفیت بن جاتے ہیں اور خوشی تتلیوں کے رنگین پروں کی سی ہے جس نے اڑ جانا ہے۔ یہ دکھ اور سکھ کی آنکھ مچولی تکلیف دہ عمل ہے۔
جامشورو کی حسین شاموں میں ہم ملا کرتے تھے۔ جہاں کی تیز ہوائیں احساس سے کھیلتی ہیں۔ وقت اسے ادھوری کہانی کے طور پر ہر سال چار مارچ کو دہراتا ہے کہ وہ زندگی و موت کی آنکھ مچولی سے تنگ آکر 4 مارچ 1998 کو وفات پاگئی۔ طبعی طور پر دنیا میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی جامشورو کی فضاؤں میں اس کے آنسوؤں کی نمی اور قہقہوں کا سنگیت آج بھی محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ 17 اگست کو اس کی سالگرہ کے دن جب وہ 66 سال کی ہوجائے گی تو دوست، عزیز ومداح محبت کی روشن کرنوں کے درمیان اسے ضرور وش کریں گے۔ کیونکہ خوبصورت احساس کو فضا کے ہاتھ نہیں چھو سکتے۔
یاستدان پیدا کیا ہے جو ان بٹے ہوئے مظلوموں کو ایک مرکز پر کھڑا کردے؟