اپنا مزاج…
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ اس موضوع پر لکھنے کا خیال یوں آیا کہ ’’ایکسپریس‘‘ کی اشاعت میں جاوید چوہدری صاحب کا...
SUKKUR:
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ اس موضوع پر لکھنے کا خیال یوں آیا کہ ''ایکسپریس'' کی اشاعت میں جاوید چوہدری صاحب کا کالم بعنوان ''سوئز مزاج'' پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب نے جس خوبصورتی اور سیربینی کے انداز سے سوئٹزر لینڈ کے باشندوں کا حال رقم کیا ہے۔ پڑھنے کے بعد میرا خیال اسی نقطے کے گرد گھومتا رہا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جاوید چوہدری کا خواب نامہ۔ بہت خوب بہت خوب۔ یہ خواب نہیں سچ ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ملک اور ترقی یافتہ ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے اولین فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں ''تعلیم'' کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور دیگر ممالک میں ''تعلیم'' کو اولیت حاصل ہے اور ظاہر ہے اس کی ذمے داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی اسکول کی سطح سے ہی تعلیم کا بندوبست کرے۔ اپنے سارے دیگر اخراجات کی نسبت ''تعلیم کے شعبے'' کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرے اور صرف رقم ہی نہ مختص کی جائے بلکہ اس کا صحیح استعمال صحیح ہاتھوں کے ذریعے ہو۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹی کی تعمیر اور ضروری سامان سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ جب تک آپ تعلیمی اداروں کو درکار سہولتیں مہیا نہیں کریں گے۔اور ان کی ضروریات کا منظم طریقے سے نظام قائم نہیں کریں گے تو آپ کی ساری کوششیں برباد ہوجائیںگی۔
اسکولز، کالجز کی عمارات، فرنیچر، پانی کے نلکے، پنکھے، کھیل کا سامان، مفت درسی کتب، اور سب سے اہم چیز ''بیت الخلاء'' کا انتظام نہ کریں گے تو آپ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہترین ماحول کیسے مہیا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ لڑکے لڑکیوں کے اسکول قائم کریں گے اور ان کے والدین کو ترغیب نہیں دیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ اسکول، کالج بھجوائیں۔ اچھے اساتذہ بااخلاق عملہ اور اہل انتظامیہ کا انتظام دیکھ کر ہی والدین اور بچے اسکول و کالج میں داخلے کے خواہاں ہوں گے۔ باہر کی حکومتوں کی کارکردگی کو ہم نہیں جانچتے بلکہ ان کے معیار زندگی کو ناپتے ہیں۔ ارے بھائی! یہ معیار کی بلندی آخر کس وجہ سے ہوئی۔ حکومت کی دلچسپی، سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے، صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر عوامی ضروریات زندگی کا تدارک اپنی بہترین منصوبہ بندی، محنت، لگن اور ملی جذبے کے ساتھ ہی تو کیا جب ہی ان کی عوام خوشحال ہے اور عوام کی خوشحالی سے ملک خوشحال ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے خوب سے خوب تر کی تلاش میں ملک و قوم کو بلند معیار تک لے جانے کے لیے دن رات محنت کی۔ اپنے ملک و قوم کی ساکھ کو دنیا میں منوانے کے لیے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔
خالی خولی جمہوریت، جمہوریت کے نعروں سے عوام کا معیار زندگی کہیں بلند ہوا کرتا ہے۔ جان کی بازی لگانا ہوتی ہے۔ سکھ چین سب بالائے طاق رکھ کر۔کام،کام اورکام کو اپنا شعار بنانا ہوتا ہے جب ہی تو قوم اور ملک کا وقار بلند ہوگا۔یہاں تو بس ہوس اقتدار رہتی ہے۔ کسی طریقے سے جائزوناجائز کا خیال کیے بغیر اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل اور اس کے بعد سیاستدانوں کا جو رویہ ہوتا ہے اس سے کون واقف نہیں، لیکن افسوس کہ66 سالہ دور گزر جانے کے بعد بھی نہ حکمرانوں کو نہ ہی عوام کو ہوش نہ آیا۔ اور ملک اس نازک دوراہے پر پہنچ گیا۔اللہ تعالیٰ ہی بہتری پیدا کرسکتا ہے۔ دیکھا آپ نے یہ ہے ہماری قوم، ہمارے حکمرانوں اور ہمارے ملک کا ''مزاج''۔مزاج پرسی تو اسی وقت کی جاتی ہے جب مزاج خراب ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں تو مزاج خراب ہی نہیں ہوا بلکہ بدل گیا ہے۔ملی یکجہتی، ذہنی ہم آہنگی اور انسانی بھائی چارے کا فقدان ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انسان، انسان کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے۔ اشیائے خورونوش تو ارزاں قیمت پر دستیاب نہیں ہے لیکن انسانی زندگی نہایت آسان ہوگئی ہے جب چاہو ہتھیار اٹھاؤ بلاکسی امتیاز بلا کسی جھجھک کے انسان کی جان لے لو۔ عجب تماشا ہے کہ نہ مارنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے اور نہ مرنے والے کو معلوم کے اسے کیوں مارا گیا۔
یہ ہے ہماری قوم کا ''مزاج''۔ چوہدری صاحب نے عنوان دیا ہے ''سوئز مزاج'' لیکن میری طبیعت یا غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ عنوان ''پاکستانی مزاج'' دے سکوں۔ بھائی فطرت سے مجبور ہے انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تو تنکا بھی نظر آجاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا۔ دوسروں کی خوبیاں بہت قابل الذکر ہوتی ہیں لیکن اپنی بدیوں پر کوئی زباں نہیں کھلتی۔ جب کہ ان کی پردہ پوشی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہی بدیوں کا جال پھیل جاتا ہے۔ نیکی اور بدی کا فرق محسوس نہیں ہوتا۔ قوم کا مزاج بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ تعلیمی معیار کی شرح بلند رکھنے کے لیے۔ تعلیمی اخراجات کی شرح میں بھی اضافہ ضروری ہے۔
مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی قومی بجٹ بنائے جاتے ہیں تو تعلیم کے شعبے کو کم اہمیت دی جاتی ہے اور تعلیم کے لیے مختص فنڈز کی شرح 3 سے 2 فیصد سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس طرح ملک کے ہونہاروں کو تعلیم کے زیور سے کس طرح آراستہ کیا جاسکتا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے اور اس کی زندگی کا معیار بدلنے کے لیے پہلے عدل و انصاف کا نظام اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کا نظام فوقیت کا حامل ہوتا۔ جس ملک اور قوم کے باشندوں میں تعلیم نہیں ہوگی تو وہ کیسے دوسروں کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے۔ چوہدری صاحب نے جو سوئٹزرلینڈ کے باشندوں اور حکومت کا احوال بیان کیا ہے (بلکہ منظرکشی کی ہے) وہ ہماری قوم اور حکمرانوں کے لیے سبق ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کی نظر سے ایسے معلوماتی اور سبق سیکھنے والے مضامین نہیں گزرتے ہوں گے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ملک و قوم کا مزاج بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔
یہاں پر ایک غیر ملکی مبصر کا وہ تبصرہ دہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہوا یوں کہ 76-77 کے دوران ایک غیر ملکی تجارتی وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا ان میں سے ایک مبصر نے یہ تاثر دیا کہ ''سنا تھا کہ پاکستان بہت غریب ملک ہے۔ لیکن میں یہ سبھی دیکھ رہا ہوں کہ جو ملک قرضوں پر چل رہا ہے تو اس ملک کا یہ حال ہے کہ دنیا کے موٹر گاڑیوں کے نئے نئے ماڈل تیار ہونے کے بعد اس ماڈل کی گاڑی سب سے پہلے پاکستان میں آتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں میں قیمتی قیمتی اور نئی ماڈل کی گاڑیوں کی ریل پیل دیکھ رہا ہوں''۔ ایک غیرملکی مبصر کی زبان سے ایسے تاثرات سن کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ''ہمارا مزاج'' کس نوعیت کا ہے۔ کیا یہ سوئز مزاج کے برعکس نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنادیں گے۔ ہم اسے پیرس بنادیں گے۔ کیا یہ سارے خواب ہمارے مزاج میں تبدیلی کے بغیر حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ بالکل نہیں! ہمیں اپنا ''مزاج عاشقانہ'' تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ خواب خواب ہی رہیں گے۔
کہنے کو تو ہم ایک ایٹمی طاقت والے ملک کے باشندے ہیں لیکن کیا غربت، مہنگائی، بیروزگاری، مخدوش بلکہ گرتی ہوئی معیشت کے حامل ملک نے اپنے ایٹمی پروگرام سے کوئی فائدہ اٹھایا ہے۔ کیا ایٹمی اہمیت کے حامل ممالک اسی طرح کے عوامی مسائل سے دوچار ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو توانائی حاصل کرنے اور دیگر انرجی پاور منصوبوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ماشاء اللہ بہترین دماغ ہیں جو ملک کی ترقی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے غیرملکی ماہرین پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ حالات اتنے دگرگوں ہوجاتے ہیں کہ ہمارے تجارتی طبقے کو اپنی برآمدات میں تناسب برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ہماری کرنسی کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے۔ دیکھا نہیں آپ نے آج ہمارے روپے کی قیمت ایک ڈالر کے مقابلے میں 101 روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔ جس کا اثر ہماری تجارت پر ہی نہیں بلکہ دیگر طبقات پر بھی اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی ، پانی، کھاد، زراعتی آلات، مشنری ہی نہیں یہاں تک کہ روزمرہ کی اشیائے خوردونوش بھی اس صورت حال سے متاثر ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو ملک میں بدامنی کا راج نہیں ہوگا تو کیا یہاں کا مزاج سوئز مزاج جیسا ہوگا۔
محض سوئز مزاج پر نظریں نہ ڈالو بلکہ اس سوئز مزاج کے نتائج پر نظر ڈالو اور اسی کی روشنی میں اپنا مزاج بدل لو۔ یہی ایک راستہ ہے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا۔اس لیے اٹھو جاگو! اور اپنا مزاج بدلو، ورنہ اور کوئی نہ بدلنے آجائے۔
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ اس موضوع پر لکھنے کا خیال یوں آیا کہ ''ایکسپریس'' کی اشاعت میں جاوید چوہدری صاحب کا کالم بعنوان ''سوئز مزاج'' پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب نے جس خوبصورتی اور سیربینی کے انداز سے سوئٹزر لینڈ کے باشندوں کا حال رقم کیا ہے۔ پڑھنے کے بعد میرا خیال اسی نقطے کے گرد گھومتا رہا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جاوید چوہدری کا خواب نامہ۔ بہت خوب بہت خوب۔ یہ خواب نہیں سچ ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ملک اور ترقی یافتہ ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے اولین فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں ''تعلیم'' کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور دیگر ممالک میں ''تعلیم'' کو اولیت حاصل ہے اور ظاہر ہے اس کی ذمے داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی اسکول کی سطح سے ہی تعلیم کا بندوبست کرے۔ اپنے سارے دیگر اخراجات کی نسبت ''تعلیم کے شعبے'' کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرے اور صرف رقم ہی نہ مختص کی جائے بلکہ اس کا صحیح استعمال صحیح ہاتھوں کے ذریعے ہو۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹی کی تعمیر اور ضروری سامان سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ جب تک آپ تعلیمی اداروں کو درکار سہولتیں مہیا نہیں کریں گے۔اور ان کی ضروریات کا منظم طریقے سے نظام قائم نہیں کریں گے تو آپ کی ساری کوششیں برباد ہوجائیںگی۔
اسکولز، کالجز کی عمارات، فرنیچر، پانی کے نلکے، پنکھے، کھیل کا سامان، مفت درسی کتب، اور سب سے اہم چیز ''بیت الخلاء'' کا انتظام نہ کریں گے تو آپ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہترین ماحول کیسے مہیا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ لڑکے لڑکیوں کے اسکول قائم کریں گے اور ان کے والدین کو ترغیب نہیں دیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ اسکول، کالج بھجوائیں۔ اچھے اساتذہ بااخلاق عملہ اور اہل انتظامیہ کا انتظام دیکھ کر ہی والدین اور بچے اسکول و کالج میں داخلے کے خواہاں ہوں گے۔ باہر کی حکومتوں کی کارکردگی کو ہم نہیں جانچتے بلکہ ان کے معیار زندگی کو ناپتے ہیں۔ ارے بھائی! یہ معیار کی بلندی آخر کس وجہ سے ہوئی۔ حکومت کی دلچسپی، سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے، صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر عوامی ضروریات زندگی کا تدارک اپنی بہترین منصوبہ بندی، محنت، لگن اور ملی جذبے کے ساتھ ہی تو کیا جب ہی ان کی عوام خوشحال ہے اور عوام کی خوشحالی سے ملک خوشحال ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے خوب سے خوب تر کی تلاش میں ملک و قوم کو بلند معیار تک لے جانے کے لیے دن رات محنت کی۔ اپنے ملک و قوم کی ساکھ کو دنیا میں منوانے کے لیے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔
خالی خولی جمہوریت، جمہوریت کے نعروں سے عوام کا معیار زندگی کہیں بلند ہوا کرتا ہے۔ جان کی بازی لگانا ہوتی ہے۔ سکھ چین سب بالائے طاق رکھ کر۔کام،کام اورکام کو اپنا شعار بنانا ہوتا ہے جب ہی تو قوم اور ملک کا وقار بلند ہوگا۔یہاں تو بس ہوس اقتدار رہتی ہے۔ کسی طریقے سے جائزوناجائز کا خیال کیے بغیر اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل اور اس کے بعد سیاستدانوں کا جو رویہ ہوتا ہے اس سے کون واقف نہیں، لیکن افسوس کہ66 سالہ دور گزر جانے کے بعد بھی نہ حکمرانوں کو نہ ہی عوام کو ہوش نہ آیا۔ اور ملک اس نازک دوراہے پر پہنچ گیا۔اللہ تعالیٰ ہی بہتری پیدا کرسکتا ہے۔ دیکھا آپ نے یہ ہے ہماری قوم، ہمارے حکمرانوں اور ہمارے ملک کا ''مزاج''۔مزاج پرسی تو اسی وقت کی جاتی ہے جب مزاج خراب ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں تو مزاج خراب ہی نہیں ہوا بلکہ بدل گیا ہے۔ملی یکجہتی، ذہنی ہم آہنگی اور انسانی بھائی چارے کا فقدان ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انسان، انسان کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے۔ اشیائے خورونوش تو ارزاں قیمت پر دستیاب نہیں ہے لیکن انسانی زندگی نہایت آسان ہوگئی ہے جب چاہو ہتھیار اٹھاؤ بلاکسی امتیاز بلا کسی جھجھک کے انسان کی جان لے لو۔ عجب تماشا ہے کہ نہ مارنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے اور نہ مرنے والے کو معلوم کے اسے کیوں مارا گیا۔
یہ ہے ہماری قوم کا ''مزاج''۔ چوہدری صاحب نے عنوان دیا ہے ''سوئز مزاج'' لیکن میری طبیعت یا غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ عنوان ''پاکستانی مزاج'' دے سکوں۔ بھائی فطرت سے مجبور ہے انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تو تنکا بھی نظر آجاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا۔ دوسروں کی خوبیاں بہت قابل الذکر ہوتی ہیں لیکن اپنی بدیوں پر کوئی زباں نہیں کھلتی۔ جب کہ ان کی پردہ پوشی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہی بدیوں کا جال پھیل جاتا ہے۔ نیکی اور بدی کا فرق محسوس نہیں ہوتا۔ قوم کا مزاج بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ تعلیمی معیار کی شرح بلند رکھنے کے لیے۔ تعلیمی اخراجات کی شرح میں بھی اضافہ ضروری ہے۔
مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی قومی بجٹ بنائے جاتے ہیں تو تعلیم کے شعبے کو کم اہمیت دی جاتی ہے اور تعلیم کے لیے مختص فنڈز کی شرح 3 سے 2 فیصد سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس طرح ملک کے ہونہاروں کو تعلیم کے زیور سے کس طرح آراستہ کیا جاسکتا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے اور اس کی زندگی کا معیار بدلنے کے لیے پہلے عدل و انصاف کا نظام اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کا نظام فوقیت کا حامل ہوتا۔ جس ملک اور قوم کے باشندوں میں تعلیم نہیں ہوگی تو وہ کیسے دوسروں کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے۔ چوہدری صاحب نے جو سوئٹزرلینڈ کے باشندوں اور حکومت کا احوال بیان کیا ہے (بلکہ منظرکشی کی ہے) وہ ہماری قوم اور حکمرانوں کے لیے سبق ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کی نظر سے ایسے معلوماتی اور سبق سیکھنے والے مضامین نہیں گزرتے ہوں گے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ملک و قوم کا مزاج بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔
یہاں پر ایک غیر ملکی مبصر کا وہ تبصرہ دہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہوا یوں کہ 76-77 کے دوران ایک غیر ملکی تجارتی وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا ان میں سے ایک مبصر نے یہ تاثر دیا کہ ''سنا تھا کہ پاکستان بہت غریب ملک ہے۔ لیکن میں یہ سبھی دیکھ رہا ہوں کہ جو ملک قرضوں پر چل رہا ہے تو اس ملک کا یہ حال ہے کہ دنیا کے موٹر گاڑیوں کے نئے نئے ماڈل تیار ہونے کے بعد اس ماڈل کی گاڑی سب سے پہلے پاکستان میں آتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں میں قیمتی قیمتی اور نئی ماڈل کی گاڑیوں کی ریل پیل دیکھ رہا ہوں''۔ ایک غیرملکی مبصر کی زبان سے ایسے تاثرات سن کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ''ہمارا مزاج'' کس نوعیت کا ہے۔ کیا یہ سوئز مزاج کے برعکس نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنادیں گے۔ ہم اسے پیرس بنادیں گے۔ کیا یہ سارے خواب ہمارے مزاج میں تبدیلی کے بغیر حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ بالکل نہیں! ہمیں اپنا ''مزاج عاشقانہ'' تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ خواب خواب ہی رہیں گے۔
کہنے کو تو ہم ایک ایٹمی طاقت والے ملک کے باشندے ہیں لیکن کیا غربت، مہنگائی، بیروزگاری، مخدوش بلکہ گرتی ہوئی معیشت کے حامل ملک نے اپنے ایٹمی پروگرام سے کوئی فائدہ اٹھایا ہے۔ کیا ایٹمی اہمیت کے حامل ممالک اسی طرح کے عوامی مسائل سے دوچار ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو توانائی حاصل کرنے اور دیگر انرجی پاور منصوبوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ماشاء اللہ بہترین دماغ ہیں جو ملک کی ترقی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے غیرملکی ماہرین پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ حالات اتنے دگرگوں ہوجاتے ہیں کہ ہمارے تجارتی طبقے کو اپنی برآمدات میں تناسب برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ہماری کرنسی کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے۔ دیکھا نہیں آپ نے آج ہمارے روپے کی قیمت ایک ڈالر کے مقابلے میں 101 روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔ جس کا اثر ہماری تجارت پر ہی نہیں بلکہ دیگر طبقات پر بھی اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی ، پانی، کھاد، زراعتی آلات، مشنری ہی نہیں یہاں تک کہ روزمرہ کی اشیائے خوردونوش بھی اس صورت حال سے متاثر ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو ملک میں بدامنی کا راج نہیں ہوگا تو کیا یہاں کا مزاج سوئز مزاج جیسا ہوگا۔
محض سوئز مزاج پر نظریں نہ ڈالو بلکہ اس سوئز مزاج کے نتائج پر نظر ڈالو اور اسی کی روشنی میں اپنا مزاج بدل لو۔ یہی ایک راستہ ہے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا۔اس لیے اٹھو جاگو! اور اپنا مزاج بدلو، ورنہ اور کوئی نہ بدلنے آجائے۔