ملالہ اور ایک موقع

wabbasi@yahoo.com

پچھلے دنوں ایک پاکستانی مصنف کی ناول پر مبنی ہالی وڈ فلم The Reluctant Fundamentalistریلیز ہوئی۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ لاہور میں رہنے والا ایک عام سا ماڈرن لڑکا امریکا تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے اور پھر نیویارک میں ایک کمپنی میں کام کرنے لگتا ہے۔ کمپنی میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے اسے جلد ہی ترقی مل جاتی ہے لیکن پھر نائن الیون ہوجاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایئرپورٹ سے لے کر عام سڑک تک اس لڑکے کو مسلمان ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستانی لڑکے کے دوست اور ساتھ کام کرنے والے اس سے نظریں بدل لیتے ہیں جس کے بعد وہ پاکستان واپس آکر ایک یونیورسٹی میں پڑھانے لگتا ہے۔

پاکستان میں ایک امریکن جرنلسٹ اس لڑکے کا انٹرویوکر رہا ہے جو یقین رکھتا ہے کہ یہ لڑکا دہشت گرد نہیں ہے لیکن آخر میں ہلکا سا شک ہونے پر وہ گورا فوراً اس لڑکے پرگولی چلادیتا ہے یعنی کہ آج امریکا سمیت دنیا بھر کا یہ خیال ہے کہ پاکستانیوں پر کسی بھی حالت میں بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

کچھ دن سے سوشل ویب سائٹ پر ایک ویڈیو بہت دیکھی جارہی ہے جس میں مہدی حسن نامی ایک برٹش مسلمان سیاستدان آکسفورڈ یونیورسٹی میں کھڑا یہ دلیل دے رہا ہے کہ اسلام امن پسند مذہب ہے۔ وہ حاضرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آج تک اٹھارہ ہزار خودکش حملے کیے گئے ہیں اگر وہ سب مسلمان ہیں تب بھی 1.6 بلین مسلمانوں میں سے وہ .01% فی صد بھی نہیں ہیں اور پوائنٹ صفر اعشاریہ ایک اکثریت نہیں ہوتے۔ ''اکثریت'' باقی مسلمان بناتے ہیں جو امن چاہتے ہیں ساتھ ہی مہدی حسن نے مسلمانوں کے متعلق کئی ایسے حقائق بتائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ایک مثبت سوچ رکھتے ہیں اور ایک بہتر دنیا بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنے اختتامی دلائل میں وہ یہ کہتے ہیں جو گورے یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام ایک فسادی مذہب ہے ان کی سوچ بالکل خودکش حملہ آوروں والی ہے کیوں کہ وہ دونوں یہی سمجھتے ہیں کہ اسلام معصوم لوگوں کی جان لینے کو صحیح سمجھتا ہے۔


مہدی حسن کی ویڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ ٹوئیٹر سے لے کر فیس بک تک تقریباً جس جس مسلمان نے یہ ویڈیو دیکھی اسے لائیک اور شیئر کیا اس بات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ جو کچھ مہدی حسن نے کہا مسلمان ہوکر وہ سب ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں تو پھر کیوں ہم اس کو دیکھتے ہیں شیئر کرنے کی ضرورت کرتے ہیں، وجہ ہے ہمارا اس پیغام کو پھیلانے کی ضرورت محسوس کرنا۔

امریکا انگلینڈ میں رہنے والے مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ چاہے ہم اپنے کو جتنا بھی پروگریسیو کیوں نہ پیش کریں کہیں نہ کہیں دوسری قوموں کے لوگوں کے دلوں میں یہ ضرور رہتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں جن پر وہ پوری طرح اعتبار نہیں کرسکتے۔ جو کچھ ہالی وڈ کی فلم میں دکھایا گیا اور جو کچھ مہدی حسن نے کہا وہ دونوں سچ ہیں فرق اتنا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں والی بات کو پچھلے بارہ سال میں انٹرنیشنل میڈیا نے کچھ اس قدر اچھالا ہے کہ مہدی حسن یا کسی بھی اور مسلمان کی دلیلیں ان کے آگے کہیں کھو سی جاتی ہیں۔

ملالہ کا نام آج بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوچکا ہے۔ پچھلے سال ستمبر سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا تھا وہ انٹرنیٹ پر لاکھوں لوگوں کی طرح صرف ایک بلاگ لکھتی تھی لیکن اس کی تعلیم کے فروغ کی کوشش روکنے کے لیے اس پر حملہ کیا گیا جس کے بعد راتوں رات اس کا نام ہیڈلائنز میں آگیا۔ میڈیا کا ایک سیکشن یہ بھی مانتا ہے کہ ملالہ پر حملہ ''کچا حملہ'' تھا یعنی یہ کہ صرف پبلسٹی اسٹنٹ تھا ورنہ صرف تین فٹ کی دوری سے ایک پیشہ ور قاتل کا نشانہ کیسے چوکا؟ میڈیا کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی برین سرجری ہوئی ہی نہیں کیونکہ ایسی کوئی سرجری سر کے بال ہٹائے بغیر نہیں ہوتی لیکن ملالہ کے سر کے بال کبھی بھی نہیں ہٹائے گئے۔ ملالہ کی تیز رفتار صحت یابی پر بھی لوگ سوال اٹھاتے ہیں۔

ملالہ پر حملہ کچا تھا یا پکا اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو یہ کہ ملالہ کے موجود ہونے سے ہمیں ایک بہت بڑا موقع مل رہا ہے جو پچھلے بارہ سال میں نہیں ملا تھا۔ مہدی حسن کی تقریروں جیسی کئی ویڈیوز آئیں اور پرانی ہوگئیں۔ ہم نے جتنا ہوسکتا تھا پہلے ایک دوسرے کو ای میل کرکے اور پھر فیس بک پر share کرکے وہ ویڈیوز دکھائیں لیکن انٹرنیشنل میڈیا نے ہمیں وہی فلم والا لڑکا بناکر رکھا جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ملالہ وہ امید کی کرن ہے جس سے پاکستان اور وہاں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کچھ مثبت باتیں انٹرنیشنل میڈیا کی سرخیوں میں آئیں۔

کچھ دن پہلے اپنی سولہویں سالگرہ پر ملالہ نے یواین او میں تقریر کی وہ تقریر جو ہمارے مستقبل کو بہتر بنانے میں بہت کام آسکتی ہے تقریر میں انھوں نے کہا ''اسلام ایک امن پسند ملک ہے، جن لوگوں نے مجھ پر حملہ کیا وہ پاکستان یا مسلمان کی نمایندگی نہیں کرتے، مجھے ان لوگوں سے کوئی بدلہ نہیں لینا، اگر حملہ کرنے والا شخص میرے سامنے بھی آجائے اور میرے ہاتھ میں بندوق ہو تو میں اس پر حملہ نہیں کروں گی کیوں کہ ایسا کرنا میرے مذہب کے خلاف ہے۔ایک طالب علم، ایک ٹیچر، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا بدل سکتا ہے۔ دنیا کے ہر بچے کو تعلیم ملنی چاہیے یہ میرا یقین ہے اور میں زندگی بھر اس چیز کے لیے کام کرتی رہوں گی۔'' یہ تھیں ملالہ کی تقریر کی کچھ باتیں۔ یو این او نے اعلان کیا ہے کہ ملالہ کی سالگرہ پر ہر سال ''ملالہ ڈے'' منایا جائے گا۔ انٹرنیشنل میڈیا ملالہ کے بارے میں اچھی باتیں بتارہا ہے انھیں ایک آئیڈیل رول ماڈل لڑکی کی طرح پیش کیا جارہا ہے جو پاکستان کے لیے اس وقت بہت ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے جتنا ہوسکتا ہے ملالہ اور اس کے cause کو سپورٹ کریں اور اسے ایک ایسا موقع سمجھیں جس کو ہم اپنی امیج بلڈنگ میں کام لاسکتے ہیں۔ کیونکہ ملالہ جیسی سوچ ہر پاکستانی کی ہے وہ سوچ جو ہم پچھلے بارہ سال سے دنیا تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
Load Next Story