مالا60کی دہائی میں اردو فلموں کی معروف ترین گلوکارہ رہیں
1939 میں پیداہوئیں،جی اے چشتی نے پنجابی فلم ’’آبرو‘‘ میں متعارف کرایا
پاکستان کی فلمی گائیکی میں جن آوازوں نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے ان میں ایک سریلی آوازگلوکارہ مالا کی ہے جو ساٹھ کے عشرے میں اردو فلموں کی سب سے مقبول اور مصروف ترین پس پردہ گلوکارہ تھی جس نے بہت بڑی تعداد میں سپرہٹ گیت گائے تھے۔
مالا کا اصل نام نسیم بیگم تھا لیکن جب اسے پہلی بار 1961ء میں ایک پنجابی فلم ''آبرو'' میں موسیقار بابا جی اے چشتی نے متعارف کرایا تھا تو اس کا فلمی نام مالا رکھ دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت اس نام کی گلوکارہ نسیم بیگم بام عروج پر تھی جب کہ اسی دور میں ملکہ ترنم نورجہاں بھی اداکاری ترک کرکے پس پردہ گلوکاری کی طرف آچکی تھیں۔ دیگر گلوکاراؤں میں ناہید نیازی ، نذیر بیگم اور آئرن پروین مقبول عام نام تھے۔اس وقت تک پچاس کے عشرے کی مقبول اور مصروف ترین آوازیں زبیدہ خانم ، کوثر پروین ، منور سلطانہ اور اقبال بانو کا فلمی کیرئیر ختم ہوچکا تھا ۔ مالا موسیقی کے تمام اسراروموز سے واقف تھی کیونکہ اس کو اپنے گھر ہی میں گانے بجانے کا ماحول ملا تھا ۔
اس کی والدہ مسوبائی امرتسر کی ایک مشہور مغنیہ تھی جو تقسیم کے بعد لائل پور یا موجودہ فیصل آباد میں آباد ہوگئی تھیں ۔ مالا کی پیدائش 1939ء کی بتائی جاتی ہے اور اس کی ایک بہن شمیم نازلی کو پاکستان کی پہلی خاتون موسیقارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جس نے تین فلموں بہاریں پھر بھی آئینگی (1969)ء ،نائٹ کلب(1971)، اور بن بادل برسات (1975)کی موسیقی دی تھی لیکن اس شعبے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔ ان میں پہلی فلم کی فلمساز بھی مالا ہی تھی ۔ مالا کے عروج کا دور 1964ء سے 1971ء تک ہے اور یہی پاکستان کی اردو فلموں کے انتہائی عروج کا دور بھی تھا جس میں مالا نے بڑی تعداد میں بڑے بڑے اعلی پائے کے گیت گائے تھے ۔
مالا کو احمد رشدی کے ساتھ سو سے زائد دو گانے گانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے جب کہ اس نے مسعود رانا کے ساتھ بھی ساتھ سے زائد گیت گائے تھے ۔ مالا نے عاشق بھٹی نامی شخص سے شادی کی تھی جس سے اس کی اکلوتی بیٹی تھی جس کانام بھی اس نے اپنی سب سے بڑی نغماتی فلم ''نائیلہ'' کے نام پر رکھا تھا ۔مالا نے ''دل دیتا ہے رو رو دہائی '' ، ''جارے جا بے دردی تونے '' ، ''چنی کیسری '' ، ''چھڈ چلی بابلا '' سمیت دیگر ان گنت یادگار گیت ان کے کریڈٹ پر ہیں۔مالا کا زوال رونا لیلی کے عروج سے شروع ہوا اور ناہید اختر اور مہناز کی آمد سے مکمل ہوگیا تھا ۔ موت سے قبل کافی عرصہ تک بیمار رہی تھیں اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں 6مارچ 1990ء میں انتقال کرگئیں ۔
مالا کا اصل نام نسیم بیگم تھا لیکن جب اسے پہلی بار 1961ء میں ایک پنجابی فلم ''آبرو'' میں موسیقار بابا جی اے چشتی نے متعارف کرایا تھا تو اس کا فلمی نام مالا رکھ دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت اس نام کی گلوکارہ نسیم بیگم بام عروج پر تھی جب کہ اسی دور میں ملکہ ترنم نورجہاں بھی اداکاری ترک کرکے پس پردہ گلوکاری کی طرف آچکی تھیں۔ دیگر گلوکاراؤں میں ناہید نیازی ، نذیر بیگم اور آئرن پروین مقبول عام نام تھے۔اس وقت تک پچاس کے عشرے کی مقبول اور مصروف ترین آوازیں زبیدہ خانم ، کوثر پروین ، منور سلطانہ اور اقبال بانو کا فلمی کیرئیر ختم ہوچکا تھا ۔ مالا موسیقی کے تمام اسراروموز سے واقف تھی کیونکہ اس کو اپنے گھر ہی میں گانے بجانے کا ماحول ملا تھا ۔
اس کی والدہ مسوبائی امرتسر کی ایک مشہور مغنیہ تھی جو تقسیم کے بعد لائل پور یا موجودہ فیصل آباد میں آباد ہوگئی تھیں ۔ مالا کی پیدائش 1939ء کی بتائی جاتی ہے اور اس کی ایک بہن شمیم نازلی کو پاکستان کی پہلی خاتون موسیقارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جس نے تین فلموں بہاریں پھر بھی آئینگی (1969)ء ،نائٹ کلب(1971)، اور بن بادل برسات (1975)کی موسیقی دی تھی لیکن اس شعبے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔ ان میں پہلی فلم کی فلمساز بھی مالا ہی تھی ۔ مالا کے عروج کا دور 1964ء سے 1971ء تک ہے اور یہی پاکستان کی اردو فلموں کے انتہائی عروج کا دور بھی تھا جس میں مالا نے بڑی تعداد میں بڑے بڑے اعلی پائے کے گیت گائے تھے ۔
مالا کو احمد رشدی کے ساتھ سو سے زائد دو گانے گانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے جب کہ اس نے مسعود رانا کے ساتھ بھی ساتھ سے زائد گیت گائے تھے ۔ مالا نے عاشق بھٹی نامی شخص سے شادی کی تھی جس سے اس کی اکلوتی بیٹی تھی جس کانام بھی اس نے اپنی سب سے بڑی نغماتی فلم ''نائیلہ'' کے نام پر رکھا تھا ۔مالا نے ''دل دیتا ہے رو رو دہائی '' ، ''جارے جا بے دردی تونے '' ، ''چنی کیسری '' ، ''چھڈ چلی بابلا '' سمیت دیگر ان گنت یادگار گیت ان کے کریڈٹ پر ہیں۔مالا کا زوال رونا لیلی کے عروج سے شروع ہوا اور ناہید اختر اور مہناز کی آمد سے مکمل ہوگیا تھا ۔ موت سے قبل کافی عرصہ تک بیمار رہی تھیں اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں 6مارچ 1990ء میں انتقال کرگئیں ۔