ملک میں 10سال سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کیا جاسکا
پاکستان میں کسی بھی بیماری اورمریضوں کاکوئی درست ریکارڈ موجود نہیں ہے
پاکستان میں10سال سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کیا گیا اور بیماریوں سے متعلق اعداد و شمارپرانے ہی جاری کیے جاتے ہیں.
2006 کے بعد سے کوئی ہیلتھ سروے نہیں کیا جا سکا، یہ سروے عالمی اداروںکی مدد سے کرائے جاتے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان اپناکوئی نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کرتی، حکومت پاکستان کا سروے ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے نام سے کیا جاتا ہے جو یو ایس ایڈ، یونیسف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے اشتراک سے کرایا جاتا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ آتے ہیں جس کے اخراجات عالمی ادارے برداشت کرتے ہیں، کیے جانیوالے سروے میں عالمی ادارے بھی اپنا طے شدہ سروے خاموشی سے کرالیتے ہیں.
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کے پاس سروے کرنیوالا کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی سروے کیلیے ماہرین مقرر ہیں تاہم یہ سروے مختلف بین الاقوامی اداروںکے ماہرین مشترکہ طور پر کرتے ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں کسی بھی بیماری اوربیماریوں کے بوجھ کاکوئی درست ریکارڈ اور اعداد و شمار نہیں، دوسری جانب ماہرین طب کاکہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف بیماریوںکے بوجھ میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے پاکستان میں کسی بھی بیماری کاکوئی موثرسروے نہیں کیا جاتا ہے۔
2006 کے بعد سے کوئی ہیلتھ سروے نہیں کیا جا سکا، یہ سروے عالمی اداروںکی مدد سے کرائے جاتے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان اپناکوئی نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کرتی، حکومت پاکستان کا سروے ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے نام سے کیا جاتا ہے جو یو ایس ایڈ، یونیسف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے اشتراک سے کرایا جاتا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ آتے ہیں جس کے اخراجات عالمی ادارے برداشت کرتے ہیں، کیے جانیوالے سروے میں عالمی ادارے بھی اپنا طے شدہ سروے خاموشی سے کرالیتے ہیں.
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کے پاس سروے کرنیوالا کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی سروے کیلیے ماہرین مقرر ہیں تاہم یہ سروے مختلف بین الاقوامی اداروںکے ماہرین مشترکہ طور پر کرتے ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں کسی بھی بیماری اوربیماریوں کے بوجھ کاکوئی درست ریکارڈ اور اعداد و شمار نہیں، دوسری جانب ماہرین طب کاکہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف بیماریوںکے بوجھ میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے پاکستان میں کسی بھی بیماری کاکوئی موثرسروے نہیں کیا جاتا ہے۔