ملالہ کا نام نظریاتی تصادم اور فتوحات کیلیے استعمال ہورہا ہے فضل الرحمن
وقت بتائے گاکہ ملالہ پرحملہ کرنیوالے کون تھے،ملک کوآئین کے تحت چلایاجائے
ISLAMABAD:
جمعیت علمائے اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ حکومت آنے والے5 سالوں کے لیے اپنی سمت کا تعین کرے توکوئی مشکل نہیں کہ مسائل پرقابو نہ پایا جاسکے۔
ملک کوجو مسائل درپیش ہیں ان کا حزب اقتداریا حزب اختلاف سے تعلق نہیںبلکہ یہ قومی ایشوز ہیں، ان پرجامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ان پرقومی اتفاق رائے ہوناضروری ہے۔ آن لائن سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات تو امریکانے بھی قطرمیں کیے ہیں۔ اگرہم کریں گے توکون سامسئلہ کھڑا ہو جائیگا۔ طالبان کے ساتھ معاملات سنبھالے نہیں گئے۔ اگرصحیح طریقے سے معاملات ہینڈل کیے جاتے توبہت سی مشکلات حل ہوجاتیں۔
ملالہ سے متعلق سوال کے جواب میں انھوںنے کہاکہ ہمارے کلچرمیں خاتون پرہاتھ نہیںاٹھایا جاتا۔ اس کانام نظریاتی تصادم اورفتوحات کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ مغربی دنیااس خطے پرقبضہ کرناچاہتی ہے اورہم خطے کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ وقت بتائے گاکہ ملالہ پرحملہ کرنے والے کون تھے۔ انھوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کوآئین کے تحت چلایاجائے نہ کہ ماورائے آئین۔ صدارتی الیکشن 6اگست کی بجائے 29جولائی کو ہوجائیں تویہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) سے مشاورت ہوگی۔ صدرچھوٹے صوبے سے ہوگا۔ حکومت سے کہاہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر پارلیمنٹ میںبحث کرائے۔
انھوں نے کہاکہ کرچی میںایم کیوایم کوسیاسی مینڈیٹ ملاہے تاہم الطاف حسین کے ساتھ انصاف ہو اوراس سارے معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پشاور جی ٹی روڈ پراحتجاج کریں۔ ماضی میںپنجاب میںبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج ہوا جوکہ ٹھیک نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ بہت گھمبیر ہوگیا ہے اب وہاں احساس محرومی نہیںبلکہ احساس غلامی ختم کرنا ہوگا۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کوحکومت میںشامل ہونے کی جلدی نہیں،کابینہ کے دوسرے فیزمیں شامل ہوں گے۔
جمعیت علمائے اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ حکومت آنے والے5 سالوں کے لیے اپنی سمت کا تعین کرے توکوئی مشکل نہیں کہ مسائل پرقابو نہ پایا جاسکے۔
ملک کوجو مسائل درپیش ہیں ان کا حزب اقتداریا حزب اختلاف سے تعلق نہیںبلکہ یہ قومی ایشوز ہیں، ان پرجامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ان پرقومی اتفاق رائے ہوناضروری ہے۔ آن لائن سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات تو امریکانے بھی قطرمیں کیے ہیں۔ اگرہم کریں گے توکون سامسئلہ کھڑا ہو جائیگا۔ طالبان کے ساتھ معاملات سنبھالے نہیں گئے۔ اگرصحیح طریقے سے معاملات ہینڈل کیے جاتے توبہت سی مشکلات حل ہوجاتیں۔
ملالہ سے متعلق سوال کے جواب میں انھوںنے کہاکہ ہمارے کلچرمیں خاتون پرہاتھ نہیںاٹھایا جاتا۔ اس کانام نظریاتی تصادم اورفتوحات کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ مغربی دنیااس خطے پرقبضہ کرناچاہتی ہے اورہم خطے کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ وقت بتائے گاکہ ملالہ پرحملہ کرنے والے کون تھے۔ انھوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کوآئین کے تحت چلایاجائے نہ کہ ماورائے آئین۔ صدارتی الیکشن 6اگست کی بجائے 29جولائی کو ہوجائیں تویہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) سے مشاورت ہوگی۔ صدرچھوٹے صوبے سے ہوگا۔ حکومت سے کہاہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر پارلیمنٹ میںبحث کرائے۔
انھوں نے کہاکہ کرچی میںایم کیوایم کوسیاسی مینڈیٹ ملاہے تاہم الطاف حسین کے ساتھ انصاف ہو اوراس سارے معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پشاور جی ٹی روڈ پراحتجاج کریں۔ ماضی میںپنجاب میںبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج ہوا جوکہ ٹھیک نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ بہت گھمبیر ہوگیا ہے اب وہاں احساس محرومی نہیںبلکہ احساس غلامی ختم کرنا ہوگا۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) کوحکومت میںشامل ہونے کی جلدی نہیں،کابینہ کے دوسرے فیزمیں شامل ہوں گے۔