لورالائی میں دہشت گردی کی بزدلانہ واردات

بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کو دشمن کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے

بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کو دشمن کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

GENEVA:
بلوچستان ایک بار پھر دہشتگردوں کا نشانہ بن گیا، اس بار بھی خود کش حملہ آوروں نے تربیت کے لیے موجود پولیس ریکروٹس سمیت دیگر افراد کی زندگی کے چراغ گل کر دیے۔ان کا حملہ لورالائی میں ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر خودکش حملہ کی شکل میں ظاہر ہوا جس کے نتیجہ میں پولیس اہلکاروں سمیت 10افراد شہید اور21 زخمی ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں ایک دہشت گرد ہلاک جب کہ 2نے خود کو دھماکوں سے اُڑا لیا، 18زخمی ڈسٹرکٹ اسپتال اور سی ایم ایچ لورالائی داخل، تین کو تشویشناک حالت میں سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ دہشتگردی کا یہ واقعہ بزدلانہ حملوں کی انسانیت سوز کارروائی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ موقع پر موجود 800 ریکروٹس کو ٹارگٹ کرنا تھا تاہم سیکیورٹی فورسز کی بروقت جوابی کارروائی سے بیگناہوں کے قتل عام کی گھناؤنی سازش ناکام بنا دی گئی۔ واقعہ کی المناک تفصیل کے مطابق دفتر میں موجود ڈی آئی جی سمیت دیگر افسران کو بحفاظت نکال لیا گیا، اطلاعات کے مطابق منگل کو ڈی آئی جی کے دفتر میں کلاس فور اسٹاف کی بھرتی کے لیے ٹیسٹ و انٹرویوز کا سلسلہ جاری تھا ،800 امیدوار وہاں موجود تھے، 12بجکر 40 منٹ پر3 خودکش بمبار عمارت میں داخل ہوئے،ایک نے دستی بم پھینکا، دیگر فائرنگ کرتے ہوئے کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ دستی بم حملے اور فائرنگ سے9پولیس اہلکار جاوید اقبال، نعمت اﷲ، غلام محمد ناصر، صادق علی، امیر زمان آفریدی، صلاح الدین، محمود نواز، خالق داد اور سلطان جب کہ ایک ٹیسٹ دینے والا امیدوار شہید جب کہ21 افراد زخمی ہوئے جن میں 12 پولیس اہلکار اور9 سویلین امیدوار شامل ہیں۔

تخریب کاری کے دیگر واقعات میں کوئٹہ سے کراچی جانے والی ٹرین کو ٹریک پر بم کی اطلاع پر ڈیڑھ گھنٹے تک روک دیا گیا، جب کہ سوئی میں سوناری مٹ کے علاقے میں ڈسپنسری کی عمارت کے باہر بم دھماکا ہوا جس سے عمارت کو نقصان پہنچا اور سامان و ادویات جل گئیں۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ حساسیت کا حامل ہے، جس میں امن و امان کی صورتحال پہلے سے بہتر تاہم بعض ہمسایہ ملک مفاد پرست قوتوں کو ملکی مفاد کے خلاف ابھارنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ بہرحال بلوچستان میں دیگر عالمی قوتوں کی دلچسپی بھی حکام اور سیکیورٹی فورسز کی فوری توجہ کا مرکز بننی چاہیے، دہشتگردی کے نیٹ ورک اور مختلف سہولت کار ملی بھگت اور انتہا پسندی کے عفریت کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں جسے ناکام بنانے کے لیے بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کو دشمن کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے دہشت گردوں کے حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہے،انھوں نے کہا ہے کہ بزدلانہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے لورالائی میں دہشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدلانہ کارروائی شکست خوردہ ذہنیت کی عکاس ہے، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، پی ٹی آئی بلوچستان کے رہنما یار محمد رند سمیت صوبائی اور مرکزی وزراء و سیاسی رہنماؤںنے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کی، پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، نے لورالائی میں دہشتگردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ دہشتگردوں، ان کے سرپرستوں، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، انھوں نے شہید اہلکاروں کے خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔

دریں اثنا گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے لورالائی میں ڈی آئی جی آفس پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معاشر ے میں خوف و ہراس پھیلانے اور انسانی جانوں واملاک کو نقصان پہنچانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ سیاسی ذرایع کا کہنا ہے کہ لورالائی واقعہ چینی قونصل خانے پر حملے میں ملوث دہشتگردوں کی ہلاکت اور سہولت کاروں کی گرفتاری کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے۔ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ، پشتونخواملی عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنماؤں، عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے لورالائی دہشتگردی کے اندوہناک واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں اور سہولت کاروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں بگڑتے سیاسی و داخلی ڈائنامکس اور انٹرا پارٹیز کشمکش کا سدباب ہو، کیونکہ دشمن کی نظر اگر صوبے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے پر مرکوز ہے تو اس مسئلے کا تدارک مصمم عزم کا متقاضی ہے۔ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی نہیں جا سکے گی۔
Load Next Story