قومی بجٹ میں پاک فوج کا 80 فیصد حصہ حقیقت یا فسانہ
یہ پروپیگنڈا غیر کریں تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن جب اپنے ہی دانشور اس کا حصہ بن جائیں تو ملکی سالمیت کےلیے زہر قاتل ہے
پروپیگنڈا کے برعکس، قومی بجٹ میں پاک فوج کا حصہ بمشکل تمام 18 فیصد بنتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
پاکستان کا دفاعی بجٹ ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے جس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ اسی لیے اس حوالے سے بہت سی افواہیں زیر گردش رہتی ہیں۔ اگر ایک عوامی سروے کروایا جائے تو لوگوں کی اکثریت کی رائے ہوگی کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ کل پاکستانی بجٹ کا 70 سے 80 فیصد ہوتا ہے۔ کیا یہ دعویٰ درست ہے یا محض افواہ پر مبنی ہے؟
ایک ہوتی ہے حقیقت اور ایک ہوتا ہے فسانہ۔ متضاد معنی ہونے کے باوجود دونوں پر کچھ لوگ یکساں یقین رکھتے ہیں، لیکن دونوں کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت انسان کو شعور کی منزلوں پر لے جاتی ہے جبکہ فسانہ، اندھے اعتقاد کی وجہ سے غلط فہمیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک بنیادی اصول جو کسی بھی چیز کے بارے میں حتمی رائے پیدا کرنے کےلیے استعمال کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کسی بھی دلیل کی حقیقت کے بارے میں تحقیق کرنا اور نہ صرف خود حقائق سے آگاہ ہونا بلکہ دوسروں تک اس حقیقت کو پہچانا، تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔
اب تھوڑی سے فلاسفی کے بعد کچھ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے متعلق حقائق کا۔ آخر حقائق ہیں کیا اور کیوں عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے؟ وہ بھی ایک ایسے ادارے کے بارے میں جو پاکستان کی سرحدوں کا محافظ ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ جاننے کےلیے تاریخی ڈیٹا دیکھنا بہت ضروری ہے۔
مالی سال 2018 تا 2019 کےلیے کل 5932 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ دفاع کےلیے 1100 ارب روپے رکھے گئے، جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح مالی سال 2017 تا 2018 کےلیے کل 50 کھرب 3 ارب روپے کے اعلان کردہ بجٹ میں دفاع کےلیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے، جو اس بجٹ کا 17.35 فیصد بنتا ہے۔
مالی سال 2016 تا 2017 کے بجٹ کا کل حجم 4400 ارب روپے تھا، جبکہ دفاع کےلیے 860 ارب روپے رکھے گئے جو بجٹ کا تقریباً 19.55 فیصد بنتا ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں سال 2016 تا 2015 کے بجٹ پر جس کا تخمینہ تقریباً 4300 ارب روپے تھا۔ اس مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 780 ارب روپے کردیا گیا، جو کل بجٹ کا 18.13 فیصد بنتا ہے۔
وفاقی بجٹ 2014 تا 2015 میں تجاویز کے مطابق اس مالی سال کا دفاعی بجٹ 700 ارب روپے تھا جبکہ اس سال کل 3945 ارب روپے کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ گزشتہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 2015 تا 2016 کی نسبت گیارہ فیصد اضافہ کیا گیا تھا، اس حساب سے دفاعی بجٹ 17.74 فیصد بنتا ہے۔
کچھ لوگ یقیناً اس بجٹ کو بھی زیادہ کہیں گے لیکن پاکستان کی ایک بڑی مجبوری یہ ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم پوزیشن پر ہونے کی وجہ سے ہماری سالمیت کو ہمہ وقت بے شمار چیلنجزدرپیش رہتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ ہمارے کچھ ہمسایوں سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں ہمیں سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود تسلیم نہیں کرسکیں۔ پاکستان کی مثال شیر کے اس بچے کی طرح ہے جو دیگر جانوروں کی نظر میں مستقبل میں جنگل کی بادشاہت کا امیدوار ہوسکتا ہے۔
اسی وجہ سے ایک طرف تو اسے اس کے ہم ذات برداشت نہیں کرتے اور دوسری طرف جنگل کے دوسرے خطرناک جانور بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کب اور کس طرح اس ننھے شیر کے بچے کو مضبوط اور طاقتور شیر بننے سے پہلے ہی ختم کردیں۔
پاکستان کےلیے ایک اور بڑا چیلنج مشرقی سرحد سے درپیش خطرات بھی ہیں اسی وجہ سے پاکستان کے دفاعی اقدامات کا موازنہ بھارت سے کرنا پڑتا ہے۔ گو کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن پاکستان کو طاقت کا توازن برقرار رکھنے کےلیے اپنی افواج اور ہتھیاروں کو مستقل بنیادوں پر اپ ڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی تیاریاں بیرونی اور اندرونی طور پر لاحق خطرات کے پیش نظر ہیں۔ اسی تناظر میں اگر بھارت اور پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو ہوشربا اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔
2017 تا 2018 کےلیے بھارت نے اپنی وزارت دفاع کےلیے 62.8 ارب ڈالر کا اعلان کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا 2018 تا 2017 کےلیے بجٹ کا کل حجم بمشکل 9 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھا۔
اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو 2001 میں بھارت کا دفاعی بجٹ 11.8 ارب ڈالر تھا اور گزشتہ سال بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ کا جو اعلان کیا وہ 53.53 ارب ڈالر بنتا ہے۔ یوں پاکستان کے دفاعی بجٹ کا حجم سترہ برس پہلے کے بھارتی دفاعی بجٹ سے بھی کم ہے۔ اگر دونوں ملکوں کی بری افواج کے بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو بھارتی فوج کا بجٹ، پاک فوج سے کم از کم چھ گنا زیادہ ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی دیگر افواج کے مقابلے میں پاکستان کے ایک فوجی پر سب سے کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ایک پاکستانی سپاہی پر 8077 ڈالر سالانہ صرف ہوتے ہیں۔ بھارت ایک سپاہی پر 17554 ڈالر، یعنی دوگنا سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ترکی ایک فوجی پر 31184 ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ اپنے ایک فوجی پر 4 لاکھ 26 ہزار 8 سو 14 ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔
اب کچھ دیگر حقائق پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
29 مارچ 2018 کو ''دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ'' نے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق بھارت 2013 سے 2017 کے درمیان ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کا کل حصہ 12 فیصد تھا۔ 2008 سے 2017 کے درمیان بھارت کی دفاعی درآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس مقابلے میں 2008 سے 2017 تک پاکستان کی اسلحے کی درآمدات میں 36 فیصد کمی آئی۔
اگر ان سارے حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے عسکری اداروں کے بارے میں کس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا غیر کریں تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن جب اپنے ہی دانشور اور نوجوان اس زہریلے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے نہ صرف دفاعی ادارں کے مورال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ قومی سطح پر فوج کے خلاف منفی جذبات بھی جنم لیتے ہیں جو ملکی سالمیت کےلیے زہر قاتل ہے۔
میری درخواست ہے کہ ان مشکل حالات میں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، اپنی فوج پر غیر ضروری تنقید کے بجائے ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک ہوتی ہے حقیقت اور ایک ہوتا ہے فسانہ۔ متضاد معنی ہونے کے باوجود دونوں پر کچھ لوگ یکساں یقین رکھتے ہیں، لیکن دونوں کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت انسان کو شعور کی منزلوں پر لے جاتی ہے جبکہ فسانہ، اندھے اعتقاد کی وجہ سے غلط فہمیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک بنیادی اصول جو کسی بھی چیز کے بارے میں حتمی رائے پیدا کرنے کےلیے استعمال کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کسی بھی دلیل کی حقیقت کے بارے میں تحقیق کرنا اور نہ صرف خود حقائق سے آگاہ ہونا بلکہ دوسروں تک اس حقیقت کو پہچانا، تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔
اب تھوڑی سے فلاسفی کے بعد کچھ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے متعلق حقائق کا۔ آخر حقائق ہیں کیا اور کیوں عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے؟ وہ بھی ایک ایسے ادارے کے بارے میں جو پاکستان کی سرحدوں کا محافظ ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ جاننے کےلیے تاریخی ڈیٹا دیکھنا بہت ضروری ہے۔
مالی سال 2018 تا 2019 کےلیے کل 5932 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ دفاع کےلیے 1100 ارب روپے رکھے گئے، جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح مالی سال 2017 تا 2018 کےلیے کل 50 کھرب 3 ارب روپے کے اعلان کردہ بجٹ میں دفاع کےلیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے، جو اس بجٹ کا 17.35 فیصد بنتا ہے۔
مالی سال 2016 تا 2017 کے بجٹ کا کل حجم 4400 ارب روپے تھا، جبکہ دفاع کےلیے 860 ارب روپے رکھے گئے جو بجٹ کا تقریباً 19.55 فیصد بنتا ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں سال 2016 تا 2015 کے بجٹ پر جس کا تخمینہ تقریباً 4300 ارب روپے تھا۔ اس مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 780 ارب روپے کردیا گیا، جو کل بجٹ کا 18.13 فیصد بنتا ہے۔
وفاقی بجٹ 2014 تا 2015 میں تجاویز کے مطابق اس مالی سال کا دفاعی بجٹ 700 ارب روپے تھا جبکہ اس سال کل 3945 ارب روپے کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ گزشتہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 2015 تا 2016 کی نسبت گیارہ فیصد اضافہ کیا گیا تھا، اس حساب سے دفاعی بجٹ 17.74 فیصد بنتا ہے۔
کچھ لوگ یقیناً اس بجٹ کو بھی زیادہ کہیں گے لیکن پاکستان کی ایک بڑی مجبوری یہ ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم پوزیشن پر ہونے کی وجہ سے ہماری سالمیت کو ہمہ وقت بے شمار چیلنجزدرپیش رہتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ ہمارے کچھ ہمسایوں سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں ہمیں سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود تسلیم نہیں کرسکیں۔ پاکستان کی مثال شیر کے اس بچے کی طرح ہے جو دیگر جانوروں کی نظر میں مستقبل میں جنگل کی بادشاہت کا امیدوار ہوسکتا ہے۔
اسی وجہ سے ایک طرف تو اسے اس کے ہم ذات برداشت نہیں کرتے اور دوسری طرف جنگل کے دوسرے خطرناک جانور بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کب اور کس طرح اس ننھے شیر کے بچے کو مضبوط اور طاقتور شیر بننے سے پہلے ہی ختم کردیں۔
پاکستان کےلیے ایک اور بڑا چیلنج مشرقی سرحد سے درپیش خطرات بھی ہیں اسی وجہ سے پاکستان کے دفاعی اقدامات کا موازنہ بھارت سے کرنا پڑتا ہے۔ گو کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن پاکستان کو طاقت کا توازن برقرار رکھنے کےلیے اپنی افواج اور ہتھیاروں کو مستقل بنیادوں پر اپ ڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی تیاریاں بیرونی اور اندرونی طور پر لاحق خطرات کے پیش نظر ہیں۔ اسی تناظر میں اگر بھارت اور پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو ہوشربا اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔
2017 تا 2018 کےلیے بھارت نے اپنی وزارت دفاع کےلیے 62.8 ارب ڈالر کا اعلان کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا 2018 تا 2017 کےلیے بجٹ کا کل حجم بمشکل 9 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھا۔
اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو 2001 میں بھارت کا دفاعی بجٹ 11.8 ارب ڈالر تھا اور گزشتہ سال بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ کا جو اعلان کیا وہ 53.53 ارب ڈالر بنتا ہے۔ یوں پاکستان کے دفاعی بجٹ کا حجم سترہ برس پہلے کے بھارتی دفاعی بجٹ سے بھی کم ہے۔ اگر دونوں ملکوں کی بری افواج کے بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو بھارتی فوج کا بجٹ، پاک فوج سے کم از کم چھ گنا زیادہ ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی دیگر افواج کے مقابلے میں پاکستان کے ایک فوجی پر سب سے کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ایک پاکستانی سپاہی پر 8077 ڈالر سالانہ صرف ہوتے ہیں۔ بھارت ایک سپاہی پر 17554 ڈالر، یعنی دوگنا سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ترکی ایک فوجی پر 31184 ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ اپنے ایک فوجی پر 4 لاکھ 26 ہزار 8 سو 14 ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔
اب کچھ دیگر حقائق پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
29 مارچ 2018 کو ''دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ'' نے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق بھارت 2013 سے 2017 کے درمیان ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کا کل حصہ 12 فیصد تھا۔ 2008 سے 2017 کے درمیان بھارت کی دفاعی درآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس مقابلے میں 2008 سے 2017 تک پاکستان کی اسلحے کی درآمدات میں 36 فیصد کمی آئی۔
اگر ان سارے حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے عسکری اداروں کے بارے میں کس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا غیر کریں تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن جب اپنے ہی دانشور اور نوجوان اس زہریلے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے نہ صرف دفاعی ادارں کے مورال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ قومی سطح پر فوج کے خلاف منفی جذبات بھی جنم لیتے ہیں جو ملکی سالمیت کےلیے زہر قاتل ہے۔
میری درخواست ہے کہ ان مشکل حالات میں جب ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، اپنی فوج پر غیر ضروری تنقید کے بجائے ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔