چین اور بھارت کے ساتھ تجارت اپنا معیار بہتر بنانے کی ضرورت
پاکستان میں توانائی کےبحران اورتیل کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤسےپیداہونےوالی مہنگائی نےصنعتی پیداوارکوشدیدمتاثرکیاہے۔
ISLAMABAD:
پاکستان میں توانائی کے بحران اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے صنعتی پیداوار کو شدید متاثرکیا ہے۔ بعض صنعتکار اپنی مصنوعات بروقت تیار نہ کر سکنے پر بیرون ملک سے ملنے والے آرڈرز سے ہاتھ دھو بیٹھے پھر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیداواری لاگت میں اضافے نے بھی صنعت کار کے لیے پریشانیاں پیدا کیں' نتیجتاً پاکستانی برآمدات' درآمدات کے مقابل کم ہونے سے تجارتی عدم توازن مسلسل برقرار ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2012-13 کے دوران پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا امپورٹر امریکا رہا جس نے 3.878 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں تاہم امریکی مصنوعات کی پاکستان میں درآمد 1.019 ارب ڈالر رہی۔ امریکا کے بعد چین پاکستانی مصنوعات کی دوسری بڑی منڈی بن چکا ہے۔ چین کو 2.697 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد جب کہ 4.761 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات درآمد کی گئیں اس طرح پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی خسارہ برقرار چلا آ رہا ہے۔
کاروباری حلقوں کے مطابق چینی مصنوعات کی پاکستانی منڈیوں تک رسائی مذکورہ اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے مشترکہ سرحدی علاقوں کے ذریعے چینی مصنوعات کی بڑی کھیپ بالخصوص الیکٹرانک مصنوعات کی اسمگلنگ سے تجارتی عدم توازن کو تقویت مل رہی ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ساتھ بھی ہونے والی تجارت میں خسارہ مسلسل چلا رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستانی مصنوعات چینی اور بھارتی مصنوعات کے مقابل مہنگی ہیں دوسری جانب چین ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان سے کہیں آگے ہے لہٰذا چینی مصنوعات کا معیار پاکستانی مصنوعات کے مقابل کہیں بہتر ہے۔
پاکستان کو اپنی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مشینی نظام سے استفادہ کرنا ہو گا۔ پرانے مشینی نظام سے عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا علاوہ ازیں توانائی کی مسلسل اور سستی فراہمی سے پیداواری لاگت کم ہوگی تو پاکستانی مصنوعات کی بیرون ملک طلب میں اضافہ ہو گا جس کی واضح مثال چینی مصنوعات کی ہے جو معیاری اور سستی ہونے کے باعث امریکی اور یورپی منڈی میں بھی غلبہ حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ کاروباری بددیانتی سے بھی پاکستانی درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق میکسیکو کسٹمز حکام نے پاکستانی چاولوں کو فنگس زدہ قرار دیتے ہوئے تین ہزار ٹن چاول کی کنسائنمنٹ روک لی ہے اس طرح چاول کے 780 کنٹینرز کی برآمد خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پاکستان کو قدرت نے وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ صرف کھجور کی سالانہ پیداوار 60 لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئی ہے۔ دنیا کی اعلیٰ قسم کی کھجور سندھ میں پیدا ہوتی ہے۔ اعلیٰ قسم کے پاکستانی چاول' گندم' آم اور دیگر مصنوعات کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔ معاشی نظام کو بہتر بنا کر پاکستان پوری دنیا میںنمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ سرکاری اداروں میں موجود کرپشن کا بلا امتیاز خاتمہ کیا جائے۔
پاکستان میں توانائی کے بحران اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے صنعتی پیداوار کو شدید متاثرکیا ہے۔ بعض صنعتکار اپنی مصنوعات بروقت تیار نہ کر سکنے پر بیرون ملک سے ملنے والے آرڈرز سے ہاتھ دھو بیٹھے پھر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیداواری لاگت میں اضافے نے بھی صنعت کار کے لیے پریشانیاں پیدا کیں' نتیجتاً پاکستانی برآمدات' درآمدات کے مقابل کم ہونے سے تجارتی عدم توازن مسلسل برقرار ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2012-13 کے دوران پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا امپورٹر امریکا رہا جس نے 3.878 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں تاہم امریکی مصنوعات کی پاکستان میں درآمد 1.019 ارب ڈالر رہی۔ امریکا کے بعد چین پاکستانی مصنوعات کی دوسری بڑی منڈی بن چکا ہے۔ چین کو 2.697 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد جب کہ 4.761 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات درآمد کی گئیں اس طرح پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی خسارہ برقرار چلا آ رہا ہے۔
کاروباری حلقوں کے مطابق چینی مصنوعات کی پاکستانی منڈیوں تک رسائی مذکورہ اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے مشترکہ سرحدی علاقوں کے ذریعے چینی مصنوعات کی بڑی کھیپ بالخصوص الیکٹرانک مصنوعات کی اسمگلنگ سے تجارتی عدم توازن کو تقویت مل رہی ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ساتھ بھی ہونے والی تجارت میں خسارہ مسلسل چلا رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستانی مصنوعات چینی اور بھارتی مصنوعات کے مقابل مہنگی ہیں دوسری جانب چین ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان سے کہیں آگے ہے لہٰذا چینی مصنوعات کا معیار پاکستانی مصنوعات کے مقابل کہیں بہتر ہے۔
پاکستان کو اپنی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مشینی نظام سے استفادہ کرنا ہو گا۔ پرانے مشینی نظام سے عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا علاوہ ازیں توانائی کی مسلسل اور سستی فراہمی سے پیداواری لاگت کم ہوگی تو پاکستانی مصنوعات کی بیرون ملک طلب میں اضافہ ہو گا جس کی واضح مثال چینی مصنوعات کی ہے جو معیاری اور سستی ہونے کے باعث امریکی اور یورپی منڈی میں بھی غلبہ حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ کاروباری بددیانتی سے بھی پاکستانی درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق میکسیکو کسٹمز حکام نے پاکستانی چاولوں کو فنگس زدہ قرار دیتے ہوئے تین ہزار ٹن چاول کی کنسائنمنٹ روک لی ہے اس طرح چاول کے 780 کنٹینرز کی برآمد خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پاکستان کو قدرت نے وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ صرف کھجور کی سالانہ پیداوار 60 لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئی ہے۔ دنیا کی اعلیٰ قسم کی کھجور سندھ میں پیدا ہوتی ہے۔ اعلیٰ قسم کے پاکستانی چاول' گندم' آم اور دیگر مصنوعات کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔ معاشی نظام کو بہتر بنا کر پاکستان پوری دنیا میںنمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ سرکاری اداروں میں موجود کرپشن کا بلا امتیاز خاتمہ کیا جائے۔