یہ تھی پی آئی اے اور یہ ہے پی آئی اے
پاکستانیوں کا اگر کسی سرکاری ادارے کے ساتھ کچھ لگاؤ باقی رہ گیا ہے بلکہ اس لگاؤ کو آپ پیار بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔
پاکستانیوں کا اگر کسی سرکاری ادارے کے ساتھ کچھ لگاؤ باقی رہ گیا ہے بلکہ اس لگاؤ کو آپ پیار بھی کہہ سکتے ہیں تو وہ پی آئی اے ہے جب کبھی وہ اس ادارے کے بارے میں کوئی بری خبر سنتے ہیں تو ان کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ قومیں اداروں سے بنتی ہیں اور انھی اداروں کی خوبی اور خرابی کسی قوم کا تعارف بنتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پی آئی اے کے قومی ادارے کو ہمارے بہت اونچے لوگوں نے بنایا سنوارا ہے اور اس طرح کہ اسے پوری دنیا میں باکمال لوگوں کا ادارہ بنا دیا ہے۔
ان لوگوں میں دو نام ہمیشہ سامنے رہیں گے، انھوں نے پہلے تو اپنے شعبے میں کمال کر دکھایا پھر جب پی آئی اے کا ادارہ ان کے سپرد ہوا تو انھوں نے اسے بھی اپنی روایت کے مطابق ایک مثال بنا دیا۔ یہ تھے ایئر مارشل محمد اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان۔ پہلے تو ان دونوں نے اپنا بنیادی کام مکمل کیا۔ دشمن بھارت کے خلاف 1965ء کی جنگ اس کی زندہ مثال ہے جس میں ان کی ایئر فورس نے حیرت انگیز کمالات کر دکھائے اور اپنے سے بڑے دشمن کو حیرت زدہ کر دیا۔
اس حیران کن کارکردگی میں اسلحہ کا کمال نہیں تھا جو دشمن کے پاس ہم سے زیادہ تھا، جنگی سوجھ بوجھ حکمت عملی اور کسی مومن کی دور اندیشی کا کمال تھا جس نے دشمن کی ایئر فورس کو زمین سے اٹھنے کا موقع ہی نہ دیا اور اگر اٹھی بھی تو فضاؤں میں ماری گئی۔ اس طویل داستان کو بادل نخواستہ چھوڑ کر پی آئی اے کا ذکر کرتے ہیں، ہمارے دونوں فضائی سربراہوں نے پاکستان کی اس سول فضائیہ کو دنیا کا ایک نمونہ بنا دیا اور آج کی کئی مشہور فضائی کمپنیاں اس کی سرپرستی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وجود میں آئیں۔ ہمارے ان فضائی جرنیلوں نے نوکری نہیں کی اپنے اس ادارے کے ساتھ محبت کی اور ایک بار تو ایک سربراہ نے اس عشق میں جان تک لڑا دی۔
کراچی ایئر پورٹ پر پی آئی اے کا جہاز اغوا کر لیا گیا، ہائی جیکروں نے اسے قبضہ میں لے لیا۔ نور خان نے یہ قبضہ چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی مکمل کی اور ایئر پورٹ پر موجود ذمے دار لوگوں کے سپرد کر دی۔ اطمینان ہونے کے بعد وہ گھر روانہ ہو گئے لیکن راستے میں ان کا فوجی دماغ پھر گیا کہ یہ کیا ہے کہ میرا جہاز میرے ہی گھر میں اغوا کر لیا گیا اور میں اطمینان کے ساتھ آرام کرنے کو جا رہا ہوں۔
چنانچہ ڈرائیور کو واپسی کا اشارہ کیا اور ایئر پورٹ پہنچ گئے، سیدھے جہاز کی طرف چل دیے، اندھا دھند جہاز میں داخل ہو گئے اور اغواء کرنے والوں سے بھڑ گئے، خود زخمی ہوئے لیکن ان کو قابو کر لیا اور اپنے عملے کے سپرد کر دیا۔اس فضائی جنگ میں جو زمین پر لڑی گئی، ہمارا یہ فوجی کامیاب رہا، اس نے جان لڑا دی تھی لیکن اپنے ادارے کی عزت بچا لی۔ باکمال لوگوں کی لاجواب پرواز کے نعرے کی توقیر بحال رکھی اس طرح پی آئی اے کی تاریخ محض ایک کاروباری ہوائی کمپنی کی تاریخ نہیں یہ جان کی بازی لگانے والوں کے ادارے کی تاریخ ہے اس کی پروازوں میں کسی کا خون اور عزم بھی مہک رہا ہے۔
پی آئی اے سے عام پاکستانیوں نے بھی محبت کا یہ معیار قائم رکھا ہے۔ لاکھوں پاکستانی ملک سے باہر ہیں اور وطن کے لیے باقاعدہ سفر کرتے رہتے ہیں۔ فیہ خوشحال لوگ ہیں اور کسی بھی ہوائی کمپنی میں مہنگا سفرکر سکتے ہیں لیکن اپنی قومی فضائی کمپنی میں سیٹ حاصل کرنے کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دیار غیر میں مقیم ان پاکستانیوں سے ایک جملہ آپ ضرور سنیں گے کہ جب پی آئی اے کے جہاز میں قدم رکھتے ہیں تو گویا پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، اداسی ختم ہونے لگتی ہے اور گھرکے درودیوار سامنے آ جاتے ہیں۔
پی آئی اے کا عملہ سخت شاکی رہتا ہے کہ یہ لوگ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے بے حد باقاعدہ ہوتے ہیں نظم و ضبط کے پابند لیکن جونہی جہاز میں قدم رکھتے ہیں تو جہاز میں سامان بکھر جاتا ہے، بچے لڑنے لگ جاتے ہیں اور ایک افراتفری کا عالم ہوتا ہے۔ فضائی میزبانوں کی جان پر بن جاتی ہے کہ کس کس کو سنبھالیں ہر کسی کو اچانک پیاس لگ گئی ہے جو سادہ پانی سے ختم نہیں ہو سکتی۔ جب تک جہاز فضا میں بلند نہیں ہو جاتا پاکستانی مسلسل بے چین رہتے ہیں اور جہاز کو گھر کا صحن سمجھ کر اس میں اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ محبت ہے وہ لگاؤ ہے اور وہ جذباتی تعلق ہے جو کسی پاکستانی اور پی آئی اے کے درمیان موجود ہے اور جب وہ اپنے اس ادارے کے بارے میں ناپسندیدہ خبریں سنتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں جیسے ان کا ان کے وطن سے رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔
گزشتہ حکومت میں سونے کی اس کان کو خوب لوٹا گیا اور ایسے ایسے حیران کن حربے اور طریقے استعمال کیے گئے کہ ان لٹیروں کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے۔ ذہانت نہیں بے حیائی کی اور جی چاہتا ہے ان کو ہتھکڑی میں نہیں جکڑنا چاہیے جوتوں کے ہاروں میں لاد لیا جائے اور ساتھ ہی انھی جوتوں سے ان کی مرمت بھی کی جائے۔ کرپشن میں پاکستان کی ناموری دنیا جانتی ہے لیکن پی آئی اے میں اس قدر کرپشن کی گئی کہ اب ہر طرف سے آواز آتی ہے اسے بیچ دو اور رشوت دینے والوں میں اس کے خریدار بھی موجود ہیں۔
ایسے لگتا ہے ان دور اندیش لوگوں نے اس ادارے میں اس کی موت کی حد تک کرپشن پھیلائی اور پھر اس کا تابوت خریدنے پہنچ گئے۔ میں گزشتہ دنوں جب یہ ادارہ رفتہ رفتہ پگھل رہا تھا تو اس کے بارے میں اگر کوئی باخبر مل جاتا تو اس سے حیرت زدہ ہو کر پوچھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور جواب ملتا اگر ادارے کے عہدے اور ملازمتیں بیچی جائیں گی تو پھر یہی ہو گا۔ خریدار پہلے تو اپنی رقم پوری کرے گا پھر منافع پر توجہ دے گا اور اس میں یہ ادارہ دم توڑتا چلا جائے گا۔ کئی مثالوں پر یقین نہیں آتا، ہنسی آتی ہے مثلاً بطور نمونہ ہوا بازوں نے ایک ایسا حکم جاری کرا رکھا ہے کہ وہ جہاز نہ بھی اڑا رہے ہوں تو ان کے سونے اور موج مستی کا وقت بھی اس اڑان میں شامل ہو جائے اور سوتے میں بھی ان کے فلائنگ گھنٹے خود بخود بیٹھے بٹھائے بڑھتے چلے جائیں، مال بنتا جائے۔
میرا بیٹا پی آئی اے میں ملازم ہے، میں خاموش رہا کہ میری وجہ سے اس کی نوکری میں گڑ بڑ نہ ہو جائے لیکن اب اس کی نوکری کا کچھ بھی بنے خاموشی قومی جرم ہے۔ میں نے مصدقہ معلومات حاصل کرنی شروع کر دی ہیں اور ان کو بیان کر کے آپ کو حیرت زدہ کرتا رہوں گا اور میاں صاحب سے عرض کرتا رہوں گا کہ پی آئی اے کو بچانا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔
ان لوگوں میں دو نام ہمیشہ سامنے رہیں گے، انھوں نے پہلے تو اپنے شعبے میں کمال کر دکھایا پھر جب پی آئی اے کا ادارہ ان کے سپرد ہوا تو انھوں نے اسے بھی اپنی روایت کے مطابق ایک مثال بنا دیا۔ یہ تھے ایئر مارشل محمد اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان۔ پہلے تو ان دونوں نے اپنا بنیادی کام مکمل کیا۔ دشمن بھارت کے خلاف 1965ء کی جنگ اس کی زندہ مثال ہے جس میں ان کی ایئر فورس نے حیرت انگیز کمالات کر دکھائے اور اپنے سے بڑے دشمن کو حیرت زدہ کر دیا۔
اس حیران کن کارکردگی میں اسلحہ کا کمال نہیں تھا جو دشمن کے پاس ہم سے زیادہ تھا، جنگی سوجھ بوجھ حکمت عملی اور کسی مومن کی دور اندیشی کا کمال تھا جس نے دشمن کی ایئر فورس کو زمین سے اٹھنے کا موقع ہی نہ دیا اور اگر اٹھی بھی تو فضاؤں میں ماری گئی۔ اس طویل داستان کو بادل نخواستہ چھوڑ کر پی آئی اے کا ذکر کرتے ہیں، ہمارے دونوں فضائی سربراہوں نے پاکستان کی اس سول فضائیہ کو دنیا کا ایک نمونہ بنا دیا اور آج کی کئی مشہور فضائی کمپنیاں اس کی سرپرستی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وجود میں آئیں۔ ہمارے ان فضائی جرنیلوں نے نوکری نہیں کی اپنے اس ادارے کے ساتھ محبت کی اور ایک بار تو ایک سربراہ نے اس عشق میں جان تک لڑا دی۔
کراچی ایئر پورٹ پر پی آئی اے کا جہاز اغوا کر لیا گیا، ہائی جیکروں نے اسے قبضہ میں لے لیا۔ نور خان نے یہ قبضہ چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی مکمل کی اور ایئر پورٹ پر موجود ذمے دار لوگوں کے سپرد کر دی۔ اطمینان ہونے کے بعد وہ گھر روانہ ہو گئے لیکن راستے میں ان کا فوجی دماغ پھر گیا کہ یہ کیا ہے کہ میرا جہاز میرے ہی گھر میں اغوا کر لیا گیا اور میں اطمینان کے ساتھ آرام کرنے کو جا رہا ہوں۔
چنانچہ ڈرائیور کو واپسی کا اشارہ کیا اور ایئر پورٹ پہنچ گئے، سیدھے جہاز کی طرف چل دیے، اندھا دھند جہاز میں داخل ہو گئے اور اغواء کرنے والوں سے بھڑ گئے، خود زخمی ہوئے لیکن ان کو قابو کر لیا اور اپنے عملے کے سپرد کر دیا۔اس فضائی جنگ میں جو زمین پر لڑی گئی، ہمارا یہ فوجی کامیاب رہا، اس نے جان لڑا دی تھی لیکن اپنے ادارے کی عزت بچا لی۔ باکمال لوگوں کی لاجواب پرواز کے نعرے کی توقیر بحال رکھی اس طرح پی آئی اے کی تاریخ محض ایک کاروباری ہوائی کمپنی کی تاریخ نہیں یہ جان کی بازی لگانے والوں کے ادارے کی تاریخ ہے اس کی پروازوں میں کسی کا خون اور عزم بھی مہک رہا ہے۔
پی آئی اے سے عام پاکستانیوں نے بھی محبت کا یہ معیار قائم رکھا ہے۔ لاکھوں پاکستانی ملک سے باہر ہیں اور وطن کے لیے باقاعدہ سفر کرتے رہتے ہیں۔ فیہ خوشحال لوگ ہیں اور کسی بھی ہوائی کمپنی میں مہنگا سفرکر سکتے ہیں لیکن اپنی قومی فضائی کمپنی میں سیٹ حاصل کرنے کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دیار غیر میں مقیم ان پاکستانیوں سے ایک جملہ آپ ضرور سنیں گے کہ جب پی آئی اے کے جہاز میں قدم رکھتے ہیں تو گویا پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، اداسی ختم ہونے لگتی ہے اور گھرکے درودیوار سامنے آ جاتے ہیں۔
پی آئی اے کا عملہ سخت شاکی رہتا ہے کہ یہ لوگ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے بے حد باقاعدہ ہوتے ہیں نظم و ضبط کے پابند لیکن جونہی جہاز میں قدم رکھتے ہیں تو جہاز میں سامان بکھر جاتا ہے، بچے لڑنے لگ جاتے ہیں اور ایک افراتفری کا عالم ہوتا ہے۔ فضائی میزبانوں کی جان پر بن جاتی ہے کہ کس کس کو سنبھالیں ہر کسی کو اچانک پیاس لگ گئی ہے جو سادہ پانی سے ختم نہیں ہو سکتی۔ جب تک جہاز فضا میں بلند نہیں ہو جاتا پاکستانی مسلسل بے چین رہتے ہیں اور جہاز کو گھر کا صحن سمجھ کر اس میں اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ محبت ہے وہ لگاؤ ہے اور وہ جذباتی تعلق ہے جو کسی پاکستانی اور پی آئی اے کے درمیان موجود ہے اور جب وہ اپنے اس ادارے کے بارے میں ناپسندیدہ خبریں سنتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں جیسے ان کا ان کے وطن سے رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔
گزشتہ حکومت میں سونے کی اس کان کو خوب لوٹا گیا اور ایسے ایسے حیران کن حربے اور طریقے استعمال کیے گئے کہ ان لٹیروں کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے۔ ذہانت نہیں بے حیائی کی اور جی چاہتا ہے ان کو ہتھکڑی میں نہیں جکڑنا چاہیے جوتوں کے ہاروں میں لاد لیا جائے اور ساتھ ہی انھی جوتوں سے ان کی مرمت بھی کی جائے۔ کرپشن میں پاکستان کی ناموری دنیا جانتی ہے لیکن پی آئی اے میں اس قدر کرپشن کی گئی کہ اب ہر طرف سے آواز آتی ہے اسے بیچ دو اور رشوت دینے والوں میں اس کے خریدار بھی موجود ہیں۔
ایسے لگتا ہے ان دور اندیش لوگوں نے اس ادارے میں اس کی موت کی حد تک کرپشن پھیلائی اور پھر اس کا تابوت خریدنے پہنچ گئے۔ میں گزشتہ دنوں جب یہ ادارہ رفتہ رفتہ پگھل رہا تھا تو اس کے بارے میں اگر کوئی باخبر مل جاتا تو اس سے حیرت زدہ ہو کر پوچھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور جواب ملتا اگر ادارے کے عہدے اور ملازمتیں بیچی جائیں گی تو پھر یہی ہو گا۔ خریدار پہلے تو اپنی رقم پوری کرے گا پھر منافع پر توجہ دے گا اور اس میں یہ ادارہ دم توڑتا چلا جائے گا۔ کئی مثالوں پر یقین نہیں آتا، ہنسی آتی ہے مثلاً بطور نمونہ ہوا بازوں نے ایک ایسا حکم جاری کرا رکھا ہے کہ وہ جہاز نہ بھی اڑا رہے ہوں تو ان کے سونے اور موج مستی کا وقت بھی اس اڑان میں شامل ہو جائے اور سوتے میں بھی ان کے فلائنگ گھنٹے خود بخود بیٹھے بٹھائے بڑھتے چلے جائیں، مال بنتا جائے۔
میرا بیٹا پی آئی اے میں ملازم ہے، میں خاموش رہا کہ میری وجہ سے اس کی نوکری میں گڑ بڑ نہ ہو جائے لیکن اب اس کی نوکری کا کچھ بھی بنے خاموشی قومی جرم ہے۔ میں نے مصدقہ معلومات حاصل کرنی شروع کر دی ہیں اور ان کو بیان کر کے آپ کو حیرت زدہ کرتا رہوں گا اور میاں صاحب سے عرض کرتا رہوں گا کہ پی آئی اے کو بچانا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔