صرف ایک ماہ کی ڈائری
پنجاب کے علاقے میلسی میں ایک سیاسی حریف ارسل خان کھچی نے دوسرے سیاسی حریف جہانزیب کھچی سے۔۔۔
پنجاب کے علاقے میلسی میں ایک سیاسی حریف ارسل خان کھچی نے دوسرے سیاسی حریف جہانزیب کھچی سے انتخابی ہار کا انتقام لینے کے لیے باورچی کو پچاس ہزار روپے اور زہر کی بوتل دے دی۔زہریلا کھانا کھانے سے باون لوگوں کی حالت غیر ہوگئی جن میں سے اکثریت جہانزیب کے مزارعوں کی تھی۔ان میں سے بائیس ہلاک ہوگئے۔ارسل خان دوبئی نکل لیا۔چونکہ دونوں فریق بااثر ہیں اس لیے پولیس ضابطے کی کارروائی کررہی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے رکن طاہر سندھو کے بائیس سالہ صاحبزادے نے فورٹریس اسٹیڈیم کے قریب ایک کانسٹیبل کو گاڑی کی چیکنگ کی جرات پر تھپڑ کھینچ مارے۔اگلے دن پولیس نے صاحبزادے کو بغیر ہتھکڑی لگائے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔بیس ہزار روپے کی ضمانت منظور ہوئی اور صاحبزادے ذاتی محافظوں کے گھیرے میں گھر روانہ ہوگئے۔
بلوچستان کے سینئر وزیر سردار ثنا اللہ زہری کے پانچ مسلح محافظوں کو پولیس نے اسمبلی کے احاطے میں داخلے سے روکا۔گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوئی۔وزیرِ اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے زہری صاحب کی تالیفِ قلب کے لیے ایک اعلی پولیس افسر سلیم اللہ سومرو کو معطل کردیا۔پولیس والوں نے اس فیصلے پر احتجاجاً نعرے لگائے۔چیف جسٹں بلوچستان ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور زہری صاحب کے پانچوں محافظوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی۔ کس کی مجال کہ کوئی ثنا اللہ زہری سے بھی کچھ پوچھ لے۔
راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان کچے کے دریائی علاقے میں چھوٹو مزاری گینگ نے نو پولیس والوں کو یرغمال بنا لیا۔پولیس نے کئی دن علاقے کو گھیرے رکھا۔مگر چھوٹو مزاری کے گروہ کو کہیں سے سلیمانی ٹوپیاں مل گئیں اور وہ یرغمالیوں سمیت پولیس گھیرے سے غائب ہوگیا۔ بعدازاں اس نے ازراہِ عنایت نو میں سے آٹھ پولیس والوں کو چھوڑ دیا کیونکہ نواں پہلے ہی زخمی ہو کے جاں بحق ہوگیا تھا۔خادمِ اعلیٰ کی پولیس ان چھوڑے ہوئے یرغمالیوں کو سخت مقابلے میں چھڑوا کر واپس آگئی۔اور پھر حکومت اور چھوٹو مزاری ہنسی خوشی رہنے لگے۔
گوجرانوالہ کے گاؤں لمیاں والی میں بڑے بھائی نے جائیداد کے تنازعے پر چھوٹے بھائی کو پٹرول میں گیلا کرکے آگ لگادی اور فرار ہوگیا۔
کراچی میں رینجرز نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار کے ہلاک کردیا۔جب کہ ایک اور شخص کو گاڑی نا روکنے پر برسٹ مار دیا۔جب کہ ایک اور شخص کو فائرنگ کے شبہے میں تفتیشی مرکز میں لایا گیا اور چند سوالات پوچھنے پر ہی اس نے خود کو پہلے سریے سے مارا۔پھر تیز دھار آلے سے خود کو جسمانی نقصان پہنچایا اور پھر خود ہی باہر جا کر کھلے میں لیٹ گیا۔حالانکہ تفتیش کار ہاتھ جوڑتے رہ گئے کہ برادر ایسے نا کرو ہماری بدنامی ہوگی۔پولیس کہتی ہے کہ اس نے نہیں مارا۔بلکہ وہ رینجرز کی تحویل میں تھا۔رینجرز والے کہتے ہیں کہ ہم نے تو چھوڑ دیا تھا۔بعد میں جانے پولیس نے مار دیا یا وہ اپنی خوشی سے مرگیا۔
خیبر پختون خوا کے شہر کرک میں مقامی مذہبی عمائدین نے عورتوں کے بغیر محرم بازار میں آنے پر پابندی عائد کردی ہے۔پولیس کہتی ہے کہ یہ فیصلہ غیرقانونی اور غیر آئینی ہے۔تاہم دوکانداروں نے اس پابندی کا آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر کے خیرمقدم کیا ہے۔شاپنگ کے لیے خواتین کی بازار میں آمد پر پابندی کا دکانداروں کی جانب سے سراہا جانا اور وہ بھی عید کے موقع پر ؟کون کہتا ہے معجزے بند ہوگئے ہیں۔۔۔۔
ادھر خیبر پختون خوا کے اقلیتی شہری وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے اس بیان پر اب تک بل کھا رہے ہیں کہ حکومت سینٹری ورکرز کی ملازمتیں کسی مسلمان کو نہیں دے گی بلکہ یہ آسامیاں عیسائیوں ، ہندوؤں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے مخصوص ہیں۔حیرت یہ نہیں کہ پرویز خٹک نے ایسا کیوں کہا بلکہ حیرت اس پر ہے کہ اس بے روزگاری کے زمانے میں اقلیتیں جھاڑو لگانے ، کچرا اٹھانے اور گٹر صاف کرنے کے ملازمتی کوٹے کے تحفظ کی یقین دھانی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے الٹا وزیرِ اعلیٰ سے خفا ہوگئیں۔تو کیا یہ لوگ صدر ، وزیرِ اعظم ، گورنر یا چیف منسٹر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ہشت ہشت۔۔۔۔
سندھ میں ہندو پنچایت کے ذرایع نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر ماہ اوسطاً بیس ہندو لڑکیوں کو صوبے کے مختلف علاقوں میں اغوا کرکے جبری مسلمان کیا جارہا ہے۔جب کہ اس مقصد کے لیے کسی ہندو لڑکے کو آج تک اغوا نہیں کیا گیا۔چنانچہ ہندؤوں کی خاموش نقلِ مکانی مسلسل جاری ہے۔کئی علاقوں میں لڑکیوں کو اسکول جانے اور کھیتوں میں کام کرنے سے روک کر گھر بٹھا لیا گیا ہے۔لیکن اس کا بھی توڑ نکال لیا گیا ہے۔پچھلے ایک ماہ کے دوران ایک واقعے میں نگرپارکر کے ایک گاؤں میں پانچ مسلح لوگ ایک ہندو خاندان کے گھر میں کود پڑے اور دو لڑکیوں کو لے گئے۔اب تک ان کے اہلِ خانہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔مقامی ہندو حلقوں کے مطابق اغوا کاروں کا تعلق سابق وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم کے گروپ سے ہے۔ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کے پریس ریلیز کے مطابق ایک اور واقعے میں ایک شخص یاسین لاشاری نے ایک ہندو لڑکی ریکھا سے رکھشا بندھن تہوار پر راکھی بندھوا کر اسے بہن بنا لیا اور پھر ایک دن اسے اغوا کرکے شادی کرلی۔پولیس واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے انکاری ہے۔
یہ واقعات گذشتہ ایک ماہ کے دوران پیش آئے ہیں۔چونکہ سرگودھا کی ایک خاتون سول جج افشاں ایاز پر تین وکلا کا تشدد ، پنڈی کی ایک عدالت سے پرویز مشرف کے فرار ، تحریک ِ انصاف کے ایک رکنِ قومی اسمبلی مجاہد علی خان کی جانب سے بھرے اجلاس میں ممتاز قادری کی رہائی کے مطالبے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے انتخابات کے بعد کراچی کے علاقے کلفٹن کے تین تلوار چوک پر دھرنا دینے والے تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو تلواروں سے ٹکڑے کردینے کی دھمکی اور فیصل آباد میں ایک دس سالہ بچے کو برف کا ٹکڑا اٹھانے کی پاداش میں برف فروش کی جانب سے سوا مار کر ہلاک کرنے جیسی خبریں پرانی ہوچکی ہے لہذا ان واقعات کا تذکرہ تفصیلاً ضروری نہیں۔
بظاہر آپ کو یہ تمام واقعات مختلف اور بلا ترتیب محسوس ہورہے ہوں گے۔ مگر سب کے سب ایک لڑی میں اس لیے پرونے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ اس وقت ریاست ، ریاست میں رہنے والوں اور ان رہنے والوں میں بھی نسبتاً باشعور افراد کا نفسیاتی ، سماجی ، قانونی ، اخلاقی اور مذہبی زوال عروج کی کون سی بلندیوں کو چھو چکا ہے۔ مجھے واقعی نہیں معلوم کہ ان حالات میں ناکام ریاست اور سماج کی کیا جامع تعریف و تشریح ممکن ہے۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
پنجاب اسمبلی کے رکن طاہر سندھو کے بائیس سالہ صاحبزادے نے فورٹریس اسٹیڈیم کے قریب ایک کانسٹیبل کو گاڑی کی چیکنگ کی جرات پر تھپڑ کھینچ مارے۔اگلے دن پولیس نے صاحبزادے کو بغیر ہتھکڑی لگائے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔بیس ہزار روپے کی ضمانت منظور ہوئی اور صاحبزادے ذاتی محافظوں کے گھیرے میں گھر روانہ ہوگئے۔
بلوچستان کے سینئر وزیر سردار ثنا اللہ زہری کے پانچ مسلح محافظوں کو پولیس نے اسمبلی کے احاطے میں داخلے سے روکا۔گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوئی۔وزیرِ اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے زہری صاحب کی تالیفِ قلب کے لیے ایک اعلی پولیس افسر سلیم اللہ سومرو کو معطل کردیا۔پولیس والوں نے اس فیصلے پر احتجاجاً نعرے لگائے۔چیف جسٹں بلوچستان ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور زہری صاحب کے پانچوں محافظوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی۔ کس کی مجال کہ کوئی ثنا اللہ زہری سے بھی کچھ پوچھ لے۔
راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان کچے کے دریائی علاقے میں چھوٹو مزاری گینگ نے نو پولیس والوں کو یرغمال بنا لیا۔پولیس نے کئی دن علاقے کو گھیرے رکھا۔مگر چھوٹو مزاری کے گروہ کو کہیں سے سلیمانی ٹوپیاں مل گئیں اور وہ یرغمالیوں سمیت پولیس گھیرے سے غائب ہوگیا۔ بعدازاں اس نے ازراہِ عنایت نو میں سے آٹھ پولیس والوں کو چھوڑ دیا کیونکہ نواں پہلے ہی زخمی ہو کے جاں بحق ہوگیا تھا۔خادمِ اعلیٰ کی پولیس ان چھوڑے ہوئے یرغمالیوں کو سخت مقابلے میں چھڑوا کر واپس آگئی۔اور پھر حکومت اور چھوٹو مزاری ہنسی خوشی رہنے لگے۔
گوجرانوالہ کے گاؤں لمیاں والی میں بڑے بھائی نے جائیداد کے تنازعے پر چھوٹے بھائی کو پٹرول میں گیلا کرکے آگ لگادی اور فرار ہوگیا۔
کراچی میں رینجرز نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار کے ہلاک کردیا۔جب کہ ایک اور شخص کو گاڑی نا روکنے پر برسٹ مار دیا۔جب کہ ایک اور شخص کو فائرنگ کے شبہے میں تفتیشی مرکز میں لایا گیا اور چند سوالات پوچھنے پر ہی اس نے خود کو پہلے سریے سے مارا۔پھر تیز دھار آلے سے خود کو جسمانی نقصان پہنچایا اور پھر خود ہی باہر جا کر کھلے میں لیٹ گیا۔حالانکہ تفتیش کار ہاتھ جوڑتے رہ گئے کہ برادر ایسے نا کرو ہماری بدنامی ہوگی۔پولیس کہتی ہے کہ اس نے نہیں مارا۔بلکہ وہ رینجرز کی تحویل میں تھا۔رینجرز والے کہتے ہیں کہ ہم نے تو چھوڑ دیا تھا۔بعد میں جانے پولیس نے مار دیا یا وہ اپنی خوشی سے مرگیا۔
خیبر پختون خوا کے شہر کرک میں مقامی مذہبی عمائدین نے عورتوں کے بغیر محرم بازار میں آنے پر پابندی عائد کردی ہے۔پولیس کہتی ہے کہ یہ فیصلہ غیرقانونی اور غیر آئینی ہے۔تاہم دوکانداروں نے اس پابندی کا آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر کے خیرمقدم کیا ہے۔شاپنگ کے لیے خواتین کی بازار میں آمد پر پابندی کا دکانداروں کی جانب سے سراہا جانا اور وہ بھی عید کے موقع پر ؟کون کہتا ہے معجزے بند ہوگئے ہیں۔۔۔۔
ادھر خیبر پختون خوا کے اقلیتی شہری وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے اس بیان پر اب تک بل کھا رہے ہیں کہ حکومت سینٹری ورکرز کی ملازمتیں کسی مسلمان کو نہیں دے گی بلکہ یہ آسامیاں عیسائیوں ، ہندوؤں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے مخصوص ہیں۔حیرت یہ نہیں کہ پرویز خٹک نے ایسا کیوں کہا بلکہ حیرت اس پر ہے کہ اس بے روزگاری کے زمانے میں اقلیتیں جھاڑو لگانے ، کچرا اٹھانے اور گٹر صاف کرنے کے ملازمتی کوٹے کے تحفظ کی یقین دھانی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے الٹا وزیرِ اعلیٰ سے خفا ہوگئیں۔تو کیا یہ لوگ صدر ، وزیرِ اعظم ، گورنر یا چیف منسٹر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ہشت ہشت۔۔۔۔
سندھ میں ہندو پنچایت کے ذرایع نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر ماہ اوسطاً بیس ہندو لڑکیوں کو صوبے کے مختلف علاقوں میں اغوا کرکے جبری مسلمان کیا جارہا ہے۔جب کہ اس مقصد کے لیے کسی ہندو لڑکے کو آج تک اغوا نہیں کیا گیا۔چنانچہ ہندؤوں کی خاموش نقلِ مکانی مسلسل جاری ہے۔کئی علاقوں میں لڑکیوں کو اسکول جانے اور کھیتوں میں کام کرنے سے روک کر گھر بٹھا لیا گیا ہے۔لیکن اس کا بھی توڑ نکال لیا گیا ہے۔پچھلے ایک ماہ کے دوران ایک واقعے میں نگرپارکر کے ایک گاؤں میں پانچ مسلح لوگ ایک ہندو خاندان کے گھر میں کود پڑے اور دو لڑکیوں کو لے گئے۔اب تک ان کے اہلِ خانہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔مقامی ہندو حلقوں کے مطابق اغوا کاروں کا تعلق سابق وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم کے گروپ سے ہے۔ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کے پریس ریلیز کے مطابق ایک اور واقعے میں ایک شخص یاسین لاشاری نے ایک ہندو لڑکی ریکھا سے رکھشا بندھن تہوار پر راکھی بندھوا کر اسے بہن بنا لیا اور پھر ایک دن اسے اغوا کرکے شادی کرلی۔پولیس واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے انکاری ہے۔
یہ واقعات گذشتہ ایک ماہ کے دوران پیش آئے ہیں۔چونکہ سرگودھا کی ایک خاتون سول جج افشاں ایاز پر تین وکلا کا تشدد ، پنڈی کی ایک عدالت سے پرویز مشرف کے فرار ، تحریک ِ انصاف کے ایک رکنِ قومی اسمبلی مجاہد علی خان کی جانب سے بھرے اجلاس میں ممتاز قادری کی رہائی کے مطالبے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے انتخابات کے بعد کراچی کے علاقے کلفٹن کے تین تلوار چوک پر دھرنا دینے والے تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو تلواروں سے ٹکڑے کردینے کی دھمکی اور فیصل آباد میں ایک دس سالہ بچے کو برف کا ٹکڑا اٹھانے کی پاداش میں برف فروش کی جانب سے سوا مار کر ہلاک کرنے جیسی خبریں پرانی ہوچکی ہے لہذا ان واقعات کا تذکرہ تفصیلاً ضروری نہیں۔
بظاہر آپ کو یہ تمام واقعات مختلف اور بلا ترتیب محسوس ہورہے ہوں گے۔ مگر سب کے سب ایک لڑی میں اس لیے پرونے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ اس وقت ریاست ، ریاست میں رہنے والوں اور ان رہنے والوں میں بھی نسبتاً باشعور افراد کا نفسیاتی ، سماجی ، قانونی ، اخلاقی اور مذہبی زوال عروج کی کون سی بلندیوں کو چھو چکا ہے۔ مجھے واقعی نہیں معلوم کہ ان حالات میں ناکام ریاست اور سماج کی کیا جامع تعریف و تشریح ممکن ہے۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )