ترکی سرمایہ داری کے بھنور میں
ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں سے امیر ترین 20 فیصد لوگ نصف سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔۔۔
MUMBAI:
ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں سے امیر ترین 20 فیصد لوگ نصف سے زیادہ دولت کے مالک ہیں جب کہ غریب ترین 20 فیصد کے پاس صرف 6 فیصد دولت ہے۔ ٹیکس کا غیرمنصفانہ نظام کا سارا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں پہ ڈال دیا جاتا ہے۔نابرابری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ٹریڈ یونینز جبرکا شکار ہیں اور حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ امیر اور غریب، حاکم اور محکوم کے درمیان ایک گہری خلیج حائل ہے۔ اردگان نے ترکی کو شام کے خلاف جنگ کے بہت قریب لا کھڑا کیا ہے جو غیر مقبول عمل ہے۔
سرکاری اثاثوں کی نجکاری کی گئی اور ترکی پر بہت زیادہ بیرونی قرض چڑھ چکا ہے اور شرح نمو تقریباً جامد ہے۔ معیار زندگی میں گراوٹ آرہی ہے۔ یونان، قبرص اور ترکی کے محنت کشوں اور یورپ، مصر اور ساری دنیا کے محنت کشوں کے مسائل سانجھے ہیں اور ان کی لڑائی بھی ایک ہی دشمن کے خلاف ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ محنت کش عوام ایک مشترکہ بین الاقوامی جدوجہد میں متحد ہوکر سرمائے کی آمریت کے خلاف لڑیں جو تمام انسانی ترقی کے راستے میں بنیادی رکاوٹ ہے۔ ترکی کی 2012 میں شرح نمو کی تیز گراوٹ کے بعد خود سرمایہ دار ماہرین معیشت ترکی کی معیشت کو ''رفتہ رفتہ سکڑتا ہوا غبارہ '' قرار دے رہے ہیں۔
اس غبارے میں خاص طور پر 2008 کے بعد سے قرضوں کے ذریعے بڑی تیزی سے ہوا بھری گئی تھی۔ ترکی کی ''معاشی ترقی'' کے قصیدے پڑھنے والے سرمایہ دارانہ معیشت کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ 2008 کے معاشی بحران کے بعد بیشتر یورپی معیشتوں کی تباہی اسی قسم کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، 2010 میں 46.8 ارب ڈالر اور 2011 میں 77.2ارب ڈالر تھا جب کہ 2000 تک ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم و بیش صفر رہا ہے۔ 2008 میں ترکی کا جی ڈی پی 742.1 ارب ڈالر جب کہ کل بیرونی قرضہ 340 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ترکی کو آئی ایم ایف سے آزادی دلوانے کے حوالے سے طیب اردگان کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن بنیادوں پر آئی ایم ایف کا قرضہ واپس کیا گیا۔
طیب اردگان کی حکومت جب 2003 میں برسراقتدار آئی تو ترکی کے ذمے آئی ایم ایف کے 23.5 ارب ڈالر واجب الادا تھے جوکہ مئی 2013 میں ادا کردیے گئے ۔ لیکن2003 سے 2012 تک ترکی کے بیرونی قرضے میں 210 ارب ڈالر یعنی 162 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس وقت ترکی کے بیرونی قرضے کا دو تہائی نجی شعبے میں جب کہ ایک تہائی حکومت کے ذمے واجب الادا ہے۔ ترکی کا نجی شعبہ دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے قرضے لے رہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اپنی گرفت انتہائی ڈھیلی کر رکھی ہے۔ آسان الفاظ میں اردگان حکومت نے قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لینے کی پالیسی اپنائی ہے۔ جس طرح ابھی حال ہی میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 5.3 بلین ڈالر کا قرض لیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں موجودہ ترکی حکومت نے ماضی کی تمام حکومتوں کے مجموعی قرضے سے بھی زیادہ قرض لیا ہے۔
اردگان حکومت میں 2003 سے 2009 تک 36.4 ارب ڈالر کی نجکاری کی گئی۔ نجکاری کی رفتار میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے، 2013 میں20 ارب ڈالر کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مزید نجکاری کے لیے جو ادارے ہٹ لسٹ پر ہیں ان میں حکومتی آئل اینڈ گیس کمپنی، محکمہ ڈاک، زراعت سے وابستہ حکومت کا سب سے بڑا ادارہ اور چائے کی پتی بنانے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی شامل ہیں۔ یہ ایسے ادارے ہیں جنھیں نجی ملکیت میں دیتے ہوئے امریکا جیوی نیو لبرل معیشت کی علمبردار ریاستیں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ٹیکس کا نظام بھی انتہائی غیر منصفانہ ہے اور ٹیکسوں کی کل آمدن کا دو تہائی حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال اس وقت پاکستان کی ہے۔ ریلوے، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، اور دیگر اہم سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ داروں کے ہاتھوں کوڑیوں کے داموں فروخت کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے عوض عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ترکی میں اس وقت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل 30 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ غربت کی شرح 16.00 فیصد ہے لیکن 2009 میں یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2008 میں غربت کی شرح 17.79 فیصد تھی جو 2011 میں 18.08 فیصد تک پہنچ گئی۔ درحقیقت عوام مہنگائی، بے روزگاری، جبر اور بربریت سے تنگ آکر میدان میں نکل آئے ہیں۔ جس کی قیادت کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ ٹینٹس اور سوشلسٹ پارٹی کر رہی ہے۔ ترکی میں کامیاب تحریک نے یورپ کے ساتھ ساتھ مصر اور تیونس پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مصر میں بھی آئی ایم ایف سے اخوان المسلمون کی حکومت نے 2.2 بلین ڈالر کا قرض لیے جس کے نتیجے میں عوام پر ٹیکس عائد کرنے پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
جس پر عوام نے ملین مارچ کیا، تحریر اسکوائر پر جمع ہوئے تو فوج نے سرمایہ داری کو تحفظ دینے کی خاطر پہلے سے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کرلیا اور چیف جسٹس کو ملک کا سربراہ بنادیا ورنہ عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے جارہے تھے۔مصر کی مرسی حکومت نے اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ برقرار رکھا ہوا تھا او ر اسرائل کو سستے داموں میں گیس کی فراہمی بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ برازیل، انڈونیشیا، مصر، تیونس اور ایران وغیرہ میں حکومتیں بدل رہی ہیں لیکن نظام وہی ''سرمایہ داری'' ہے۔ ریاست خود سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی کرتی ہے۔ مگر عوام سرمایہ داری، ریاست اور اقتدار کو للکار رہے ہیں۔ وہ بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں مگر ابھی تک کیفیتی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یعنی کہ پانی گرم ہوجاتا ہے لیکن بھاپ نہیں بن پا رہا ہے۔
جس دن یہ گرم پانی بھاپ بن جائے گا اس دن یہ پتہ نہیں چلے گا کہ یہ بھاپ برازیل کا ہے، پرتگال کا ہے یا انڈونیشیا کا۔ انھیں کوششوں کی ایک جزوی کوشش ترکی میں بھی ہورہی ہے۔ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی عوام کی رہنمائی کر رہی ہے بشرطیکہ وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کے ساتھ ساتھ اختیار اور اقتدار کے زعم میں مدہوش ہوکر پھر سے ریاست کی خدمتگار نہ بن جائیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ ترکی عالمی انقلاب کا حصہ بن کر امداد باہمی کا معاشرہ تشکیل دے گا۔
ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں سے امیر ترین 20 فیصد لوگ نصف سے زیادہ دولت کے مالک ہیں جب کہ غریب ترین 20 فیصد کے پاس صرف 6 فیصد دولت ہے۔ ٹیکس کا غیرمنصفانہ نظام کا سارا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں پہ ڈال دیا جاتا ہے۔نابرابری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ٹریڈ یونینز جبرکا شکار ہیں اور حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ امیر اور غریب، حاکم اور محکوم کے درمیان ایک گہری خلیج حائل ہے۔ اردگان نے ترکی کو شام کے خلاف جنگ کے بہت قریب لا کھڑا کیا ہے جو غیر مقبول عمل ہے۔
سرکاری اثاثوں کی نجکاری کی گئی اور ترکی پر بہت زیادہ بیرونی قرض چڑھ چکا ہے اور شرح نمو تقریباً جامد ہے۔ معیار زندگی میں گراوٹ آرہی ہے۔ یونان، قبرص اور ترکی کے محنت کشوں اور یورپ، مصر اور ساری دنیا کے محنت کشوں کے مسائل سانجھے ہیں اور ان کی لڑائی بھی ایک ہی دشمن کے خلاف ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ محنت کش عوام ایک مشترکہ بین الاقوامی جدوجہد میں متحد ہوکر سرمائے کی آمریت کے خلاف لڑیں جو تمام انسانی ترقی کے راستے میں بنیادی رکاوٹ ہے۔ ترکی کی 2012 میں شرح نمو کی تیز گراوٹ کے بعد خود سرمایہ دار ماہرین معیشت ترکی کی معیشت کو ''رفتہ رفتہ سکڑتا ہوا غبارہ '' قرار دے رہے ہیں۔
اس غبارے میں خاص طور پر 2008 کے بعد سے قرضوں کے ذریعے بڑی تیزی سے ہوا بھری گئی تھی۔ ترکی کی ''معاشی ترقی'' کے قصیدے پڑھنے والے سرمایہ دارانہ معیشت کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ 2008 کے معاشی بحران کے بعد بیشتر یورپی معیشتوں کی تباہی اسی قسم کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، 2010 میں 46.8 ارب ڈالر اور 2011 میں 77.2ارب ڈالر تھا جب کہ 2000 تک ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم و بیش صفر رہا ہے۔ 2008 میں ترکی کا جی ڈی پی 742.1 ارب ڈالر جب کہ کل بیرونی قرضہ 340 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ترکی کو آئی ایم ایف سے آزادی دلوانے کے حوالے سے طیب اردگان کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن بنیادوں پر آئی ایم ایف کا قرضہ واپس کیا گیا۔
طیب اردگان کی حکومت جب 2003 میں برسراقتدار آئی تو ترکی کے ذمے آئی ایم ایف کے 23.5 ارب ڈالر واجب الادا تھے جوکہ مئی 2013 میں ادا کردیے گئے ۔ لیکن2003 سے 2012 تک ترکی کے بیرونی قرضے میں 210 ارب ڈالر یعنی 162 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس وقت ترکی کے بیرونی قرضے کا دو تہائی نجی شعبے میں جب کہ ایک تہائی حکومت کے ذمے واجب الادا ہے۔ ترکی کا نجی شعبہ دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے قرضے لے رہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اپنی گرفت انتہائی ڈھیلی کر رکھی ہے۔ آسان الفاظ میں اردگان حکومت نے قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لینے کی پالیسی اپنائی ہے۔ جس طرح ابھی حال ہی میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 5.3 بلین ڈالر کا قرض لیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں موجودہ ترکی حکومت نے ماضی کی تمام حکومتوں کے مجموعی قرضے سے بھی زیادہ قرض لیا ہے۔
اردگان حکومت میں 2003 سے 2009 تک 36.4 ارب ڈالر کی نجکاری کی گئی۔ نجکاری کی رفتار میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے، 2013 میں20 ارب ڈالر کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مزید نجکاری کے لیے جو ادارے ہٹ لسٹ پر ہیں ان میں حکومتی آئل اینڈ گیس کمپنی، محکمہ ڈاک، زراعت سے وابستہ حکومت کا سب سے بڑا ادارہ اور چائے کی پتی بنانے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی شامل ہیں۔ یہ ایسے ادارے ہیں جنھیں نجی ملکیت میں دیتے ہوئے امریکا جیوی نیو لبرل معیشت کی علمبردار ریاستیں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ٹیکس کا نظام بھی انتہائی غیر منصفانہ ہے اور ٹیکسوں کی کل آمدن کا دو تہائی حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال اس وقت پاکستان کی ہے۔ ریلوے، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، اور دیگر اہم سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ داروں کے ہاتھوں کوڑیوں کے داموں فروخت کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے عوض عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ترکی میں اس وقت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل 30 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ غربت کی شرح 16.00 فیصد ہے لیکن 2009 میں یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2008 میں غربت کی شرح 17.79 فیصد تھی جو 2011 میں 18.08 فیصد تک پہنچ گئی۔ درحقیقت عوام مہنگائی، بے روزگاری، جبر اور بربریت سے تنگ آکر میدان میں نکل آئے ہیں۔ جس کی قیادت کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ ٹینٹس اور سوشلسٹ پارٹی کر رہی ہے۔ ترکی میں کامیاب تحریک نے یورپ کے ساتھ ساتھ مصر اور تیونس پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مصر میں بھی آئی ایم ایف سے اخوان المسلمون کی حکومت نے 2.2 بلین ڈالر کا قرض لیے جس کے نتیجے میں عوام پر ٹیکس عائد کرنے پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
جس پر عوام نے ملین مارچ کیا، تحریر اسکوائر پر جمع ہوئے تو فوج نے سرمایہ داری کو تحفظ دینے کی خاطر پہلے سے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کرلیا اور چیف جسٹس کو ملک کا سربراہ بنادیا ورنہ عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے جارہے تھے۔مصر کی مرسی حکومت نے اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ برقرار رکھا ہوا تھا او ر اسرائل کو سستے داموں میں گیس کی فراہمی بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ برازیل، انڈونیشیا، مصر، تیونس اور ایران وغیرہ میں حکومتیں بدل رہی ہیں لیکن نظام وہی ''سرمایہ داری'' ہے۔ ریاست خود سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی کرتی ہے۔ مگر عوام سرمایہ داری، ریاست اور اقتدار کو للکار رہے ہیں۔ وہ بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں مگر ابھی تک کیفیتی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یعنی کہ پانی گرم ہوجاتا ہے لیکن بھاپ نہیں بن پا رہا ہے۔
جس دن یہ گرم پانی بھاپ بن جائے گا اس دن یہ پتہ نہیں چلے گا کہ یہ بھاپ برازیل کا ہے، پرتگال کا ہے یا انڈونیشیا کا۔ انھیں کوششوں کی ایک جزوی کوشش ترکی میں بھی ہورہی ہے۔ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی عوام کی رہنمائی کر رہی ہے بشرطیکہ وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کے ساتھ ساتھ اختیار اور اقتدار کے زعم میں مدہوش ہوکر پھر سے ریاست کی خدمتگار نہ بن جائیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ ترکی عالمی انقلاب کا حصہ بن کر امداد باہمی کا معاشرہ تشکیل دے گا۔