کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ
صحافت کے شعبے سے ہی وابستہ میرے ایک نوجوان دوست ہیں، جن سے اگر ایک ماہ کے بعد ملاقات ہو تو۔۔۔
صحافت کے شعبے سے ہی وابستہ میرے ایک نوجوان دوست ہیں، جن سے اگر ایک ماہ کے بعد ملاقات ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی عمر میں ایک سال کا اضافہ ہوچکا ہے۔ میں نے کہا ''یار ! اگر تمہارے یہی ''لچھن'' رہے تو تم بہت جلد ہم جیسے بزرگوں کے بھی بزرگ ہوجاؤ گے۔ تم اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ بزرگی کا منصب کیوں حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اور دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس بزرگی کے جلد حصول کا فارمولا یا نسخہ آخر ہے کیا؟'' انھوں نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا ''ویگن میں صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے... عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔
بھائی میں جس روٹ کی ویگن میں سفر کر کے آفس آتا ہوں اور آفس سے گھر واپس جاتا ہوں اگر تم اس ویگن میں ایک سال سفر کرلو، تو انشاء اﷲ دو برس کے بعد ہی ہم تمہاری پہلی برسی ''سیلیبریٹ'' کررہے ہوں گے۔ ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کا یکطرفہ سفر ہے اور مجھ جیسے چھ فٹے نوجوان کے لیے تو دوہرا عذاب ہے۔ ڈیڑھ مسافر کی سیٹ پر وہ پورے دو عدد مسافر بٹھاتے ہیں۔ اگر کھڑے ہوکر سفرکروں تو دل بے اختیار یہ چاہتا ہے کہ کاش ویگن کی چھت میں اتنا بڑا سوراخ موجود ہوتا کہ گردن تو باہر نکال سکتا۔
بیٹھ جاؤں تو کھڑے ہونے کو دل چاہتا ہے اور کھڑا ہوجاؤں تو بیٹھنے کی خواہش دل میں کروٹیں لینے لگتی ہے،جیسے تیسے یہ ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت برداشت کرتا ہوں اور گھر پہنچ کر یہ حالت ہوتی ہے کہ ویگن سے اترنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے، جیسے اب بھی ویگن میں موجود ہوں، گویا میں اور ویگن ایک دوسرے میں سمائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا گھر پہنچتے ہی نہ بیٹھتا ہوں اور نہ کھڑا ہوتا ہوں بلکہ لیٹ جاتا ہوں اور پھر لیٹا ہی رہ جاتا ہوں۔
لیکن صبح جب آفس آتا ہوں تو یہاں یہ سہولت میسر نہیں ہے (لیٹنے کی) بلکہ حالات اور معاملات اس بات سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ میں ویگن میں مرغے کی طرح سفر کرکے اور اپنی عمر میں اضافہ کرکے آفس پہنچا ہے، آتے ہی گدھے کی طرح کام میں جت جاتا ہوں۔ اب اگر ان حالات میں تیزی کے ساتھ مائل بہ بزرگی نہ ہوا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ گویا میں تو بزرگ بننا نہیں چاہتا، لیکن بزرگی ہے کہ ویگن کی رفتار سے دگنی رفتار کے ساتھ میرے پیچھے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے۔''
جلد سے جلد بزرگ بننے کا اس قدر آسان لیکن تکلیف دہ فارمولا بیان کرنے کے بعد انھوں نے ایسا برا سا منہ بنایا جیسے بادام کھاتے ہوئے اچانک کوئی کڑوا بادام دانتوں تلے آکر بے خیالی میں کچل گیا ہو اور آدھی کرسی خالی چھوڑ کر، بقیہ آدھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ آدھی کرسی پر بیٹھنے کے اس لاشعوری عمل سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کس قدر ''ویگن گزیدہ'' ہوچکا ہے۔ اس کے اس قدر مفصل جواب نے میری تحقیقاتی رگ کو پھڑکا دیا اور میرے ذہن میں بیک وقت کئی سوالات سانپ کی طرح سرسرانے لگے، مثلاً کراچی میں پبلک سروس گاڑیاں اس قدر سست رفتاری سے سفر کیوں کرتی ہیں؟ کنڈیکٹر مسافروں کو بسوں اور منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح کیوں ٹھونستے ہیں؟ سست چلنے والی گاڑیاں اچانک تیز رفتاری کے ریکارڈ ریس لگاتے ہوئے کیوں توڑنے لگتی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ...
جب میں نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے معلومات حاصل کیں تو کئی نئے انکشافات سامنے آئے اور مسافروں کو پہنچنے والی ان تکالیف کا سبب بننے والے عناصر وہ لوگ نکلے جو بالکل پس منظر میں رہتے ہیں اور مسافروں کی گالیوں کا ہدف بننے والے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بالکل معصوم ثابت ہوئے۔ کسی بھی خرابی کو اگر درست کرنا ہو تو خرابی ہمیشہ وہاں سے درست کی جاتی ہے، جہاں سے یہ شروع ہوتی ہے لیکن زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ہم ٹرانسپورٹ سسٹم کی خرابی کو بھی درمیان ہی سے درست کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔
میری تحقیق کے مطابق کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی خرابی کی شروعات کسی بھی روٹ کے بس اڈے یا آخری اسٹاپ سے ہوتی ہے، جہاں کسی اڈے کے مالک کا خاص ملازم جسے ٹائم کیپر کہا جاتا ہے، ایک مخصوص وقفے کے بعد سیٹی بجا کر بس یا منی بس کو روٹ پر روانہ کرتا ہے۔ ٹائم کیپر کے سیٹی بجاتے ہی بس کا ڈرائیور آندھی اور طوفان کی طرح بس لے کر روانہ ہوجاتا ہے اور اس کی منزل وہ مقام ہوتا ہے، جہاں اسی روٹ کی اگلی گاڑی کھڑی اپنی پچھلی گاڑی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ گاڑیاں روانہ کرنے کا یہ عمل ہر چند منٹ کے وقفے سے جاری رہتا ہے اور ہرگاڑی اسی وقفے کے دوران بس اسٹاپس پر پہنچنے والے مسافروں کو اٹھاتی ہے۔
فرض کریں گاڑیوں کی روانگی کا درمیانی وقفہ 4 منٹ ہے اور ہر اسٹاپ پر مسافروں کی آمد 2 مسافر فی منٹ کی اوسط سے ہورہی ہے تو ہر منی بس کے حصے میں فی اسٹاپ 8 مسافر آئیں گے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ڈرائیور حضرات زیادہ مسافر اٹھانے کے لیے اور اس وقفے کو بڑھانے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ رفتار جتنی سست ہوسکے، وہ کی جائے تاکہ اگلی گاڑی گزرنے کے بعد جو وقفہ یا گیپ بنا ہے اس گیپ میں زیادہ سے زیادہ مسافر بس اسٹاپس پر اس مخصوص بس کے لیے منتظر کھڑے ہوئے مل جائیں اور انتظار سے بور ہو کر خود ہی لپک کر گاڑی میں سوار ہوجائیں، یہی وجہ ہے کہ اگر وہ گاڑی کی رفتار اتنی زیادہ سست کردیں کہ پچھلی گاڑی آن پہنچے تو دونوں گاڑیوں میں اس گیپ کے حصول کے لیے ریس شروع ہوجاتی ہے۔ زیادہ مسافروں کا مطلب ہوتا ہے کہ زیادہ کیش۔ اور زیادہ کیش ہی ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی نوکری کو برقرار رکھتا ہے، ورنہ مالک فوراً چھٹی کرا دیتا ہے۔
جو سب سے بڑا لرزہ خیز انکشاف ہوا وہ یہ کہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر روزانہ 14 سے 16 گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور ان کا معاوضہ یا دیہاڑی وہی ہے جو آٹھ گھنٹے کام کرنے والے کسی بھی فیلڈ کے کاریگر کو ملتی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے میں ڈرائیور آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ وہاں دوسری شفٹ ہوتی ہے یا پھر اوور ٹائم ادا کیا جاتا ہے لیکن ہماری سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ وہ مظلوم لوگ چلا رہے ہیں جن کی نیند ہی پوری نہیں ہوپاتی اور یہی بیشتر ایکسیڈنٹ کی بنیادی وجہ ہے۔ کنڈیکٹر روزانہ اپنی ہی بس میں کئی کلومیٹرز پیدل سفر کرلیتا ہے۔ ڈرائیور دن بھر کئی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے مثلاً پچھلی گاڑی نہ سر پر آپہنچے، ٹریفک سارجنٹ کے چالان سے بچنا، پریشر ہارن اور ٹیپ ریکارڈر کو بجانا، اپنی نوکری محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مسافروں کو گاڑی میں بھرنا، رکشہ اور موٹر سائیکل والے پر نظر رکھنا کیونکہ حادثے کی صورت میں ہمارے ہاں قصور وار ہمیشہ بڑی گاڑی والے کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ کوئی مسافر گیٹ سے گر نہ جائے ورنہ گاڑی کو مالک ضمانت بھی نہیں کرواتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان ٹرانسپورٹ مزدوروں کی دو شفٹوں میں ملازمت کے لیے قانون سازی کرے اور انھیں وہی معاوضہ دیا جائے جو 14 گھنٹے کی ڈیوٹی میں انھیں اب مل رہا ہے۔ یہ مزدور طبقہ لمبی ڈیوٹی کے باعث اپنی سماجی زندگی سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور اسے آرام کا وقت بالکل نہیں ملتا، کم سے کم ڈرائیور کو صبح اسٹیئرنگ پر بیٹھتے وقت بالکل فریش مائنڈ ہونا چاہیے۔ ذہنی اور جسمانی تھکن کی وجہ سے یہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دن بھر مسافروں کے ساتھ چڑچڑے پن اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس پیشے کا سب سے منافع بخش شعبہ کسی اڈے یا روٹ کا مالک ہوتا ہے۔
ہر گاڑی روٹ کا پہلا ٹرپ لگاتے ہی تقریباً دو سو روپے ٹائم کیپر کو ادا کرتی ہے جو مالک کو پہنچ جاتا ہے۔ اگر دو سو بسیں روٹ پر چل رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے چالیس ہزار روزانہ اڈا مالک کی جیب میں جا رہا ہے، جس کا نہ کوئی آڈٹ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ سٹی گورنمنٹ اگر سروے کرے تو اڈوں کی آمدنی پر ٹیکس لگا کر اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی اس سسٹم کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جو کبھی سامنے نہیں لائے گئے۔ لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آجاتی ہے۔
صحافی دوست خاطر جمع رکھے، کیونکہ ویگن کا ڈرائیور اس کی طرح ویگن میں تین گھنٹے نہیں بلکہ سولہ گھنٹے گزار رہا ہے اور بہت زیادہ تیزی سے اپنی صحت اور جوانی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ اس سست رفتاری میں ٹریفک پولیس کی نااہلی اور عوام کا روڈ سینس سے واقف نہ ہونا بھی بنیادی عناصر ہیں۔
بھائی میں جس روٹ کی ویگن میں سفر کر کے آفس آتا ہوں اور آفس سے گھر واپس جاتا ہوں اگر تم اس ویگن میں ایک سال سفر کرلو، تو انشاء اﷲ دو برس کے بعد ہی ہم تمہاری پہلی برسی ''سیلیبریٹ'' کررہے ہوں گے۔ ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کا یکطرفہ سفر ہے اور مجھ جیسے چھ فٹے نوجوان کے لیے تو دوہرا عذاب ہے۔ ڈیڑھ مسافر کی سیٹ پر وہ پورے دو عدد مسافر بٹھاتے ہیں۔ اگر کھڑے ہوکر سفرکروں تو دل بے اختیار یہ چاہتا ہے کہ کاش ویگن کی چھت میں اتنا بڑا سوراخ موجود ہوتا کہ گردن تو باہر نکال سکتا۔
بیٹھ جاؤں تو کھڑے ہونے کو دل چاہتا ہے اور کھڑا ہوجاؤں تو بیٹھنے کی خواہش دل میں کروٹیں لینے لگتی ہے،جیسے تیسے یہ ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت برداشت کرتا ہوں اور گھر پہنچ کر یہ حالت ہوتی ہے کہ ویگن سے اترنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے، جیسے اب بھی ویگن میں موجود ہوں، گویا میں اور ویگن ایک دوسرے میں سمائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا گھر پہنچتے ہی نہ بیٹھتا ہوں اور نہ کھڑا ہوتا ہوں بلکہ لیٹ جاتا ہوں اور پھر لیٹا ہی رہ جاتا ہوں۔
لیکن صبح جب آفس آتا ہوں تو یہاں یہ سہولت میسر نہیں ہے (لیٹنے کی) بلکہ حالات اور معاملات اس بات سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ میں ویگن میں مرغے کی طرح سفر کرکے اور اپنی عمر میں اضافہ کرکے آفس پہنچا ہے، آتے ہی گدھے کی طرح کام میں جت جاتا ہوں۔ اب اگر ان حالات میں تیزی کے ساتھ مائل بہ بزرگی نہ ہوا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ گویا میں تو بزرگ بننا نہیں چاہتا، لیکن بزرگی ہے کہ ویگن کی رفتار سے دگنی رفتار کے ساتھ میرے پیچھے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے۔''
جلد سے جلد بزرگ بننے کا اس قدر آسان لیکن تکلیف دہ فارمولا بیان کرنے کے بعد انھوں نے ایسا برا سا منہ بنایا جیسے بادام کھاتے ہوئے اچانک کوئی کڑوا بادام دانتوں تلے آکر بے خیالی میں کچل گیا ہو اور آدھی کرسی خالی چھوڑ کر، بقیہ آدھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ آدھی کرسی پر بیٹھنے کے اس لاشعوری عمل سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کس قدر ''ویگن گزیدہ'' ہوچکا ہے۔ اس کے اس قدر مفصل جواب نے میری تحقیقاتی رگ کو پھڑکا دیا اور میرے ذہن میں بیک وقت کئی سوالات سانپ کی طرح سرسرانے لگے، مثلاً کراچی میں پبلک سروس گاڑیاں اس قدر سست رفتاری سے سفر کیوں کرتی ہیں؟ کنڈیکٹر مسافروں کو بسوں اور منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح کیوں ٹھونستے ہیں؟ سست چلنے والی گاڑیاں اچانک تیز رفتاری کے ریکارڈ ریس لگاتے ہوئے کیوں توڑنے لگتی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ...
جب میں نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے معلومات حاصل کیں تو کئی نئے انکشافات سامنے آئے اور مسافروں کو پہنچنے والی ان تکالیف کا سبب بننے والے عناصر وہ لوگ نکلے جو بالکل پس منظر میں رہتے ہیں اور مسافروں کی گالیوں کا ہدف بننے والے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بالکل معصوم ثابت ہوئے۔ کسی بھی خرابی کو اگر درست کرنا ہو تو خرابی ہمیشہ وہاں سے درست کی جاتی ہے، جہاں سے یہ شروع ہوتی ہے لیکن زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ہم ٹرانسپورٹ سسٹم کی خرابی کو بھی درمیان ہی سے درست کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔
میری تحقیق کے مطابق کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی خرابی کی شروعات کسی بھی روٹ کے بس اڈے یا آخری اسٹاپ سے ہوتی ہے، جہاں کسی اڈے کے مالک کا خاص ملازم جسے ٹائم کیپر کہا جاتا ہے، ایک مخصوص وقفے کے بعد سیٹی بجا کر بس یا منی بس کو روٹ پر روانہ کرتا ہے۔ ٹائم کیپر کے سیٹی بجاتے ہی بس کا ڈرائیور آندھی اور طوفان کی طرح بس لے کر روانہ ہوجاتا ہے اور اس کی منزل وہ مقام ہوتا ہے، جہاں اسی روٹ کی اگلی گاڑی کھڑی اپنی پچھلی گاڑی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ گاڑیاں روانہ کرنے کا یہ عمل ہر چند منٹ کے وقفے سے جاری رہتا ہے اور ہرگاڑی اسی وقفے کے دوران بس اسٹاپس پر پہنچنے والے مسافروں کو اٹھاتی ہے۔
فرض کریں گاڑیوں کی روانگی کا درمیانی وقفہ 4 منٹ ہے اور ہر اسٹاپ پر مسافروں کی آمد 2 مسافر فی منٹ کی اوسط سے ہورہی ہے تو ہر منی بس کے حصے میں فی اسٹاپ 8 مسافر آئیں گے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ڈرائیور حضرات زیادہ مسافر اٹھانے کے لیے اور اس وقفے کو بڑھانے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ رفتار جتنی سست ہوسکے، وہ کی جائے تاکہ اگلی گاڑی گزرنے کے بعد جو وقفہ یا گیپ بنا ہے اس گیپ میں زیادہ سے زیادہ مسافر بس اسٹاپس پر اس مخصوص بس کے لیے منتظر کھڑے ہوئے مل جائیں اور انتظار سے بور ہو کر خود ہی لپک کر گاڑی میں سوار ہوجائیں، یہی وجہ ہے کہ اگر وہ گاڑی کی رفتار اتنی زیادہ سست کردیں کہ پچھلی گاڑی آن پہنچے تو دونوں گاڑیوں میں اس گیپ کے حصول کے لیے ریس شروع ہوجاتی ہے۔ زیادہ مسافروں کا مطلب ہوتا ہے کہ زیادہ کیش۔ اور زیادہ کیش ہی ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی نوکری کو برقرار رکھتا ہے، ورنہ مالک فوراً چھٹی کرا دیتا ہے۔
جو سب سے بڑا لرزہ خیز انکشاف ہوا وہ یہ کہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر روزانہ 14 سے 16 گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور ان کا معاوضہ یا دیہاڑی وہی ہے جو آٹھ گھنٹے کام کرنے والے کسی بھی فیلڈ کے کاریگر کو ملتی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے میں ڈرائیور آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ وہاں دوسری شفٹ ہوتی ہے یا پھر اوور ٹائم ادا کیا جاتا ہے لیکن ہماری سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ وہ مظلوم لوگ چلا رہے ہیں جن کی نیند ہی پوری نہیں ہوپاتی اور یہی بیشتر ایکسیڈنٹ کی بنیادی وجہ ہے۔ کنڈیکٹر روزانہ اپنی ہی بس میں کئی کلومیٹرز پیدل سفر کرلیتا ہے۔ ڈرائیور دن بھر کئی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے مثلاً پچھلی گاڑی نہ سر پر آپہنچے، ٹریفک سارجنٹ کے چالان سے بچنا، پریشر ہارن اور ٹیپ ریکارڈر کو بجانا، اپنی نوکری محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مسافروں کو گاڑی میں بھرنا، رکشہ اور موٹر سائیکل والے پر نظر رکھنا کیونکہ حادثے کی صورت میں ہمارے ہاں قصور وار ہمیشہ بڑی گاڑی والے کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ کوئی مسافر گیٹ سے گر نہ جائے ورنہ گاڑی کو مالک ضمانت بھی نہیں کرواتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان ٹرانسپورٹ مزدوروں کی دو شفٹوں میں ملازمت کے لیے قانون سازی کرے اور انھیں وہی معاوضہ دیا جائے جو 14 گھنٹے کی ڈیوٹی میں انھیں اب مل رہا ہے۔ یہ مزدور طبقہ لمبی ڈیوٹی کے باعث اپنی سماجی زندگی سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور اسے آرام کا وقت بالکل نہیں ملتا، کم سے کم ڈرائیور کو صبح اسٹیئرنگ پر بیٹھتے وقت بالکل فریش مائنڈ ہونا چاہیے۔ ذہنی اور جسمانی تھکن کی وجہ سے یہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دن بھر مسافروں کے ساتھ چڑچڑے پن اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس پیشے کا سب سے منافع بخش شعبہ کسی اڈے یا روٹ کا مالک ہوتا ہے۔
ہر گاڑی روٹ کا پہلا ٹرپ لگاتے ہی تقریباً دو سو روپے ٹائم کیپر کو ادا کرتی ہے جو مالک کو پہنچ جاتا ہے۔ اگر دو سو بسیں روٹ پر چل رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے چالیس ہزار روزانہ اڈا مالک کی جیب میں جا رہا ہے، جس کا نہ کوئی آڈٹ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ سٹی گورنمنٹ اگر سروے کرے تو اڈوں کی آمدنی پر ٹیکس لگا کر اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی اس سسٹم کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جو کبھی سامنے نہیں لائے گئے۔ لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آجاتی ہے۔
صحافی دوست خاطر جمع رکھے، کیونکہ ویگن کا ڈرائیور اس کی طرح ویگن میں تین گھنٹے نہیں بلکہ سولہ گھنٹے گزار رہا ہے اور بہت زیادہ تیزی سے اپنی صحت اور جوانی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ اس سست رفتاری میں ٹریفک پولیس کی نااہلی اور عوام کا روڈ سینس سے واقف نہ ہونا بھی بنیادی عناصر ہیں۔