ڈیووس میں بلوچستان
پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ بھی تقریب میں موجود تھے
رواں برس ڈیووس اجلاس کے موقعے پر عالمی منظرنامہ کچھ خاص روشن نظر نہیں آیا۔ آئی ایم ایف کی شرح نمو سے متعلق توقعات کم ہوچکی ہیں اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی اقتصادی نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور تجارتی جنگوں سے بھی عالمی معیشت کو خطرات لاحق ہے۔ اس وسیع تر منظرنامے سے ہٹ کر، ڈیووس میں پاکستان کی سالانہ نمایندگی نے ایک نیا در وا کردیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں صدرِ مملکت یا وزیراعظم پاکستان ڈیووس کے بااثر طبقات کو پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کرتے تھے۔ پاتھ فائنڈرز گروپ کی کاوش سے منعقد ہونے والے پاکستان بریک فاسٹ اور دیگر تقریبات مثلاً پاکستان لنچ، پاکستان ڈنر اور پاکستان پویلین میں گزشتہ چار برسوں سے مارٹن ڈاؤ گروپ نے بھی شمولیت اختیار کرلی ہے۔ یہ اس گروپ کے بانی چیئرمین ایم جاوید اوکھائی کا وژن تھا۔
ڈیووس اجلاس کے ہفتہ بھر جاری رہنے والے اجلاس اور نشستوں میں منگل کو پاکستان ڈنر مشہور ریستوراں شاٹزائپ (Schatzalp) میں منعقد ہوتا ہے جو ڈیوووس کی مشہور ''میجک ماؤنٹین'' کے قریب واقع ہے۔ اس سال مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان تھے۔ یہ امر وہاں موجود کئی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے تک وزیراعلیٰ بلوچستان کا ایک بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی نمایندگی کرنا ناقابل تصور تھا۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا تعارف کرواتے ہوئے وزیراعلیٰ نے پہلے وہ مواقعے بیان کیے جو صوبے میں وسائل کی فراوانی کے سبب دستیاب ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح سی پیک اور دیگر حکومتی منصوبے ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے مزید مواقعے تخلیق کررہے ہیں۔
ان کی فصاحت و بلاغت تقریب کے شرکاء کے لیے واقعی حیرت کا باعث تھی جو عموماً بلوچستان کو ناخواندہ و نااہل عسکریت پسند سرداروں کا صوبہ تصور کرتے ہیں۔ دراصل علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کرنے والے زیادہ تر سردار بھارتی 'را' کی سرپرستی میں بیرون ملک تعیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ بھی تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کی تائید کی۔ انھوں نے شرکاء کو بہتر ہوتی سیکیورٹی صورت حال، نیز افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور بالخصوص تعلیم اور سڑکوں کے شعبے میں پاک فوج کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کے بارے میں مختصر مگر جامع بریفینگ دی۔ وزیر اعلیٰ کے ساتھی سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے بڑی جامعیت کے ساتھ موجودہ صورتحال اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق اظہار خیال کیا اور پاکستان کے سب سے بڑے مگر سب سے پس ماندہ صوبے کے بارے میں امید افزا نکات بیان کیے۔ سوال و جواب کے بھرپور سیشن کے دوران بلوچستان کے بارے میں بہت سے منفی تصورات ختم ہوتے گئے۔
بدھ کو ہوٹل پینوراما میں پاکستان پویلین کا افتتاح وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیا۔ پاکستان پویلین پاتھ فائنڈر گروپ اور مارٹن ڈاؤ گروپ کا مشترکہ آئیڈیا ہے جس کا یہ دوسرا سال تھا۔ اس کے پیچھے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ ڈیووس اجلاس میں شریک ممکنہ سرمایہ کاروں تک پہنچنے کا عزم کارفرما ہے۔ پینوراما ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر واقع ہونے کے سبب ڈیووس کی مرکزی گزرگاہ سے متصل ہے۔ پاکستان سے مخصوص اس پروگرام کے دروازے آنے والوں کے لیے بالکل کھلے ہیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان، لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ اور سینیٹر کاکڑ نے بڑی وضاحت اور خوبی سے سوالات کے جواب دیے۔
ایک منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان کا اس قدر فصیح اور علمی انداز میں پاکستان کی نمایندگی کرنا بلوچستان کے بارے میں اس تاثر کی بالکل نفی کر دیتا ہے کہ یہ صوبہ پاکستان کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں ہے۔ ڈیووس کا میڈیا آسانی سے متوجہ نہیں ہوا کرتا۔ مگر کم از کم میڈیا کی معروف شخصیات نے فوراً انتہائی مثبت ردعمل دیا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع تھا۔ دنیا کے نجی و سرکاری شعبوں کی سب سے امیر اور طاقتور شخصیات کے سب سے مشہور سالانہ اجلاس میں یہ ایک فیصلہ کن مثبت پیش رفت تھی۔
برن، سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی آئے اور صرف پروٹوکول تقاضوں کے تحت نہیں بلکہ پورے عزم کے ساتھ شریک ہوئے۔ شکر ہے کہ جینیوا میں اقوام متحدہ اور عالمی اقتصادی فورم کے لیے پاکستان کے سفیر تشریف نہیں لائے۔
پاکستان کے سفارتی دستے پر اس داغ کا جتنا کم ذکر ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ میرے لیے سب چیزوں سے زیادہ اہم بلوچستان کے وفد کی سادگی تھی۔ یہ وزیراعلیٰ، ان کی اہلیہ اور سینیٹر کاکڑ پر مشتمل تھا۔ کوئی معاون، سیکیورٹی یا سب سے بڑھ کر کوئی پروٹوکول ہمراہ نہیں تھا۔ یہ ڈیووس کے ضابطے کے پیش نظر عملی بھی تھا اور موثر بھی کیونکہ یہاں معاونین کو کم ہی ساتھ رکھا جاتا ہے۔ سیدھے طریقے سے کہا جائے تو خصوصی طور پر یہاں لائے گئے باورچیوں کی جانب سے تیار کی گئی نہاریاں عوام کے پیسے سے نہیں پکائی گئی تھیں۔ زیورک ائیرپورٹ پر آمد کے سوا ہر جگہ پاکستانی سفارت خانہ غائب تھا۔ بلوچستان نے پاکستان کے لیے زبردست مثال قائم کی ہے۔ جسے دیکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ڈیووس آنے والے پاکستانی رہنماء اپنے بنیادی مقصد یعنی پاکستان کی بھلائی پیش نظر رکھیں گے اور عمران خان کے کہے کے مطابق عوامی وسائل کا ضیاع نہیں کریں گے۔
ڈیووس اجلاس کے ہفتہ بھر جاری رہنے والے اجلاس اور نشستوں میں منگل کو پاکستان ڈنر مشہور ریستوراں شاٹزائپ (Schatzalp) میں منعقد ہوتا ہے جو ڈیوووس کی مشہور ''میجک ماؤنٹین'' کے قریب واقع ہے۔ اس سال مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان تھے۔ یہ امر وہاں موجود کئی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے تک وزیراعلیٰ بلوچستان کا ایک بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی نمایندگی کرنا ناقابل تصور تھا۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا تعارف کرواتے ہوئے وزیراعلیٰ نے پہلے وہ مواقعے بیان کیے جو صوبے میں وسائل کی فراوانی کے سبب دستیاب ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح سی پیک اور دیگر حکومتی منصوبے ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے مزید مواقعے تخلیق کررہے ہیں۔
ان کی فصاحت و بلاغت تقریب کے شرکاء کے لیے واقعی حیرت کا باعث تھی جو عموماً بلوچستان کو ناخواندہ و نااہل عسکریت پسند سرداروں کا صوبہ تصور کرتے ہیں۔ دراصل علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کرنے والے زیادہ تر سردار بھارتی 'را' کی سرپرستی میں بیرون ملک تعیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ بھی تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کی تائید کی۔ انھوں نے شرکاء کو بہتر ہوتی سیکیورٹی صورت حال، نیز افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور بالخصوص تعلیم اور سڑکوں کے شعبے میں پاک فوج کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کے بارے میں مختصر مگر جامع بریفینگ دی۔ وزیر اعلیٰ کے ساتھی سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے بڑی جامعیت کے ساتھ موجودہ صورتحال اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق اظہار خیال کیا اور پاکستان کے سب سے بڑے مگر سب سے پس ماندہ صوبے کے بارے میں امید افزا نکات بیان کیے۔ سوال و جواب کے بھرپور سیشن کے دوران بلوچستان کے بارے میں بہت سے منفی تصورات ختم ہوتے گئے۔
بدھ کو ہوٹل پینوراما میں پاکستان پویلین کا افتتاح وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیا۔ پاکستان پویلین پاتھ فائنڈر گروپ اور مارٹن ڈاؤ گروپ کا مشترکہ آئیڈیا ہے جس کا یہ دوسرا سال تھا۔ اس کے پیچھے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ ڈیووس اجلاس میں شریک ممکنہ سرمایہ کاروں تک پہنچنے کا عزم کارفرما ہے۔ پینوراما ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر واقع ہونے کے سبب ڈیووس کی مرکزی گزرگاہ سے متصل ہے۔ پاکستان سے مخصوص اس پروگرام کے دروازے آنے والوں کے لیے بالکل کھلے ہیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان، لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ اور سینیٹر کاکڑ نے بڑی وضاحت اور خوبی سے سوالات کے جواب دیے۔
ایک منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان کا اس قدر فصیح اور علمی انداز میں پاکستان کی نمایندگی کرنا بلوچستان کے بارے میں اس تاثر کی بالکل نفی کر دیتا ہے کہ یہ صوبہ پاکستان کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں ہے۔ ڈیووس کا میڈیا آسانی سے متوجہ نہیں ہوا کرتا۔ مگر کم از کم میڈیا کی معروف شخصیات نے فوراً انتہائی مثبت ردعمل دیا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع تھا۔ دنیا کے نجی و سرکاری شعبوں کی سب سے امیر اور طاقتور شخصیات کے سب سے مشہور سالانہ اجلاس میں یہ ایک فیصلہ کن مثبت پیش رفت تھی۔
برن، سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی آئے اور صرف پروٹوکول تقاضوں کے تحت نہیں بلکہ پورے عزم کے ساتھ شریک ہوئے۔ شکر ہے کہ جینیوا میں اقوام متحدہ اور عالمی اقتصادی فورم کے لیے پاکستان کے سفیر تشریف نہیں لائے۔
پاکستان کے سفارتی دستے پر اس داغ کا جتنا کم ذکر ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ میرے لیے سب چیزوں سے زیادہ اہم بلوچستان کے وفد کی سادگی تھی۔ یہ وزیراعلیٰ، ان کی اہلیہ اور سینیٹر کاکڑ پر مشتمل تھا۔ کوئی معاون، سیکیورٹی یا سب سے بڑھ کر کوئی پروٹوکول ہمراہ نہیں تھا۔ یہ ڈیووس کے ضابطے کے پیش نظر عملی بھی تھا اور موثر بھی کیونکہ یہاں معاونین کو کم ہی ساتھ رکھا جاتا ہے۔ سیدھے طریقے سے کہا جائے تو خصوصی طور پر یہاں لائے گئے باورچیوں کی جانب سے تیار کی گئی نہاریاں عوام کے پیسے سے نہیں پکائی گئی تھیں۔ زیورک ائیرپورٹ پر آمد کے سوا ہر جگہ پاکستانی سفارت خانہ غائب تھا۔ بلوچستان نے پاکستان کے لیے زبردست مثال قائم کی ہے۔ جسے دیکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ڈیووس آنے والے پاکستانی رہنماء اپنے بنیادی مقصد یعنی پاکستان کی بھلائی پیش نظر رکھیں گے اور عمران خان کے کہے کے مطابق عوامی وسائل کا ضیاع نہیں کریں گے۔