بات سستے گھروں کی اور کراچی

قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر حکومتی جانب سے جو فوری اقدامات کیے گئے تھے

anisbaqar@hotmail.com

جمعرات 24 جنوری کو وزیر خزانہ مسٹر اسد عمر نے جہاں سیکڑوں وضاحتیں فرمائیں، وہاں غریبوں کے لیے ایک خوشخبری بھی سنائی کہ 5 ارب روپے قرض حسنہ بھی سستے گھروں کی مد میں مختص کیے گئے ہیں، مگر اس خبر میں بہت سے ابہام ہیں۔ رقم کی مد تو واضح کی گئی ہے مگر مکانوں کی تعداد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور اسی مد کے دیگر متعلقہ سوالات کی بھی کوئی وضاحت نہیں۔ مثلاً مکان کا رقبہ کیا ہو گا۔ مقام سکونت کا کوئی بیان نہیں، ظاہر ہے صرف اس مد پر ایک پریس کانفرنس کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کی تاریخ میں یہ اہم موضوع ہے۔

قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر حکومتی جانب سے جو فوری اقدامات کیے گئے تھے، ان میں کراچی میں جٹ لائن، جیکب لائن، جہانگیرکوارٹرز، المونیم کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز اور اسی قسم کی تعمیرات تیزی سے کی گئی تھیں پھر جو سستے کوارٹر بنائے گئے یا مکانات کہیے وہ پی آئی بی کالونی تھی، جس میں سڑکوں کا جال پانی ملنے وسائل اور گٹر کی نکاسی اور اسی قسم کے دیگر معاملات تھے۔چونکہ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا تو یہاں پر بھارت سے آنے والوں نے ملیں لگائیں۔ ولیکا ٹیکسٹائل ملز پاکستان کی ایک مایہ ناز ٹیکسٹائل مل تھی جس میں 6 ہزار سے زائد کارکن کام کرتے تھے۔

اس میں کاٹن اور وولن فیبرکس کے الگ الگ شعبہ جات تھے۔ اس مل کے اندر قائد اعظم محمد علی جناح کے دست مبارک سے افتتاح کرنے کی تختی آج بھی نصب ہے۔ گوکہ یہ فیکٹری اب تابندہ نہیں ہے اور سیکڑوں حصوں میں بٹ چکی ہے مگر یہ تختی ماضی کے روح پرور وقت کا احساس دلاتی ہے۔ جب ترقی اور اسپیڈ کا ایک ولولہ پاکستان کے ہر فرد میں دوڑ رہا تھا۔ ہر فرد پاکستان پر قربان ہونا چاہتا تھا نہ کہ آج کے حکمران جو ہم پر حکمرانی کر چکے ہر حاکم ملک سے باہر اپنی جائیداد بنا کر بھاگنے میں لگا ہے۔ اسی لیے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ 5 ارب میں کیا کچھ ممکن ہے۔ یا میں اعداد و شمار اور ریاضی میں کمزور ہوں یا عزت مآب وزیر خزانہ اعداد و شمار کے مرحلے سے بے خیالی میں گزر گئے۔ لہٰذا آئیے! ہم گھروں کی تعداد اور رقبے پر طائرانہ نظر ڈالیں۔

حکومت میں آنے سے قبل جہاں تک مجھے علم ہے کہ 50 لاکھ سستے مکانوں کا تذکرہ کیا گیا تھا مگر 5 ارب کی رقم جس کا تذکرہ وزیر خزانہ نے اپنے تبصرے میں کیا ہے۔ تعداد بہت کم معلوم ہوتی ہے۔ قیاس کے مطابق ہی سب کچھ طے کرنا ہوگا کیونکہ نہ سستے مکانوں کا رقبہ بیان کیا گیا ہے نہ محل وقوع، نہ تعمیراتی تفصیل لہٰذا چند چیزوں کو قیاس کرکے ہی مکانوں کا تخمینہ لگانا ہو گا۔ رقبہ 120 مربع گز تاکہ مرغی خانہ چھوٹا سا اور لائیو اسٹاک میں بکریاں بھی چند رکھی جا سکیں، 3کمرے 2 باتھ روم کم ازکم، چھت کی سیڑھی باؤنڈری وال چھت کی بھی ضروری ہے۔ ایک بات یہ بھی ضروری ہے کہ گھر کی پلنتھ زمین سے کم ازکم ڈھائی یا 3 فٹ بلند چونکہ آج کل سریا کے ریٹ ایک لاکھ اور چند ہزار روپے ٹن ہیں مزدوری 600 یا 700 روپے دیہاڑی اور مستری ایک ہزار روپے یومیہ ہے۔


لہٰذا ایک تخمینے کے لحاظ سے کم ازکم 12 لاکھ روپے ایک گھرکی لاگت ہو گی اس لیے پورے پانچ ہزار سے بھی کم مکانات پانچ ارب میں تیار ہوں گے جب کہ وہ عام کوارٹر نما مکان ہوں گے اور ان میں لائیو اسٹاک کی چھوٹی نسل بھی پالی جا سکے گی، رہ گیا پچاس ہزار مکانات کی بات تو یہ ایک کہانی ہو گی۔ البتہ یہ سوچنا کہ غریبوں کے سر چھپانے کا خیال آنا بھی ایک اچھا خیال ہے کہ 50 ہزار بے خانماں لوگوں کو تو چین نصیب ہو گا۔ سرمایہ داری کے اس دور میں لوگوں کا خیال آنا ایک اچھی جستجو ہے مگر ایک اہم بات کہ وزارت خزانہ نے مکانوں کے تذکرے میں اتنی بے اعتنائی سے کیوں کام لیا کہ نہ تعداد کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی رقبے کا محض 5 ارب کی رقم کی بات ہے۔

جس میں صرف پانچ ہزار مکانات یا اگر رقبہ 60 گز کر دیا جائے گا جو چھوٹے موٹے لائیو اسٹاک کی جگہ ہو اور 120 گز کا رقبہ ہو تو پانچ ہزار مکانات ہوں۔ اس کی تفصیل سے حکومت نظرانداز کرکے آگے کیوں بڑھ گئی جب کہ وزارت خزانہ کے سربراہ ماہر معاشیات ہیں اور اس موضوع کی ابتدا کا بھی کوئی اشارہ نہیں۔ خیر یہ موضوع گفتگو کے اعتبار سے کافی ہو چکا مگر یہ مکان اس وقت تک بے معنی ہوں گے اگر ان مکینوں کے لیے روزگار کے نئے دروازے نہ کھل سکیں گے اس کا نتیجہ پھر یہی ہو گا کہ کراچی روانگی کا ایک اور روایتی سفر چند ماہ بعد شروع ہو گا کیونکہ جنوبی پنجاب میں روزگار کے ذرایع محدود ہیں جیساکہ گزشتہ مضامین میں وضاحت کی گئی ہے نظام میں جو نہ ہو جائے تھوڑا ہے۔

دنیا کے 100 امیر لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے، جتنی آدھی دنیا کے پاس ہے۔ اس کا رونا فضول ہے نبی اور دنیا کے اصلاح پسندوں نے قربانیاں دیں مگر رد انقلاب نے پھر رفتہ رفتہ نظام کو پلٹ دیا۔ خیر یہ الگ بحث ہے البتہ پاکستانی وزیر خارجہ نے بھی اپنے دورہ قطر میں کچھ سمجھوتے کیے ہیں۔ اس طرح امریکا پاکستان میں اپنا اثرورسوخ اپنے ہمدردوں کے ہمراہ بڑھا رہا ہے مگر سرمایہ کاری اور صنعت کاری کا زور شور نہیں اور نہ ہی پاکستان کے اندرونی علاقوں میں ترقی کے آثار نمایاں ہیں، البتہ کراچی کے علاقوں میں حکومت کو جگہیں درکار نظر آتی ہیں،وسیع توڑ پھوڑ کے پیچھے کوئی تو ہے جس کی پردہ داری ہے کراچی کے کھلے سمندر میں ای این آئی اٹلی اور امریکی کمپنی ایگزون سرگرم عمل ہیں اگر کراچی میں کامیابی ہوئی اور تیل نکل آیا تو کراچی کی آبادی جو ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے جو سیاسی مصلحت سے کم نظر آتی ہے اس کی آبادی میں بے حد اضافے کا امکان ہے تو آنے والے وقت میں سبز انقلاب کی راہ پر چلنا ہی ہو گا کیونکہ کثیر آبادی والے ملک کو تمام ضرورتوں کے پورا ہونے سے اول پیٹ کی ضرورت ہے۔

صنعت وزراعت لازم و ملزوم ہیں،اس بات کا امکان بعید از قیاس نہیں کہ آنے والے اوقات میں کراچی ڈاؤن ٹاؤن میں لوگ 50/70 کلومیٹر سے ملازمت یا کاروبار کرنے آئیں اور رش سے بچنے کے لیے لوگ رہائش گاہ کو کھلی آب و ہوا میں رکھیں۔ موجودہ توڑ پھوڑ کے خلاف کراچی کے لوگ مزاحمت سے گریزاں ہیں کیونکہ عام آبادی پریشان حال ہے۔ بیروزگاری میں جان دینا مشکل نظر آ رہا ہے۔ مگر کراچی کی یہ تاریخ نہیں کبھی بھی ماضی کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ لہٰذا کراچی کے بے زمین اور مکان لوگوں کی جانب بھی حکومت کو نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس بات کا خطرہ موجود ہے جو سڑکوں کو صاف اور فٹ پاتھوں کو کھلا رکھنے کی مہم جاری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں ممبئی کی طرح 2 کروڑ لوگ سڑکوں، فٹ پاتھ اور فلائی اوور کے نیچے نہ خیمہ زن ہو جائیں۔ بہر حال ہاؤسنگ اسکیم میں تعاون کی غرض سے 5 کروڑ80 لاکھ ڈالر مدد کی غرض سے پاکستان کو دیے ہیں، دیکھیں کہ پاکستان میں بے گھر مکینوں کی قسمت کب جاگتی ہے؟
Load Next Story