سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد آمد
عناصر نے بروئے کار آ کر پاک ، یو اے ای تعلقات پر اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی
اعلان تو سامنے آ گیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ رواں ماہ کے دوسرے ہفتے آپ اسلام آباد میں موجود ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ سعودی ولی عہد، جو دُنیا بھر کے میڈیا میں ''ایم بی ایس'' کے مختصر نام سے بھی پکارے جاتے ہیں، اپنے ملک کے لیے ریفارمر کی حیثیت میںسامنے آئے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو ایک ایسی جدید ریاست کی شکل میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں جو ماڈرن ورلڈ کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر کھڑی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
واقعی معنوں میں وہ ایک متحرک اور جواں ہمت شخصیت ہیں۔ سعودی عرب کے تمام شعبوں میں اُن کا مثبت اور مفید تحرک نظر بھی آ رہا ہے۔ سعودی عرب کو صنعت وحرفت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کے شدید آرزو مند ہیں۔ بِلا مبالغہ شہزادہ محمد بن سلمان عالمِ عرب میں نوجوان قیادت کی سب سے نمایاں اور قوی آواز ہیں۔ اپنے ملک کے لیے اُن کا ''سوشل اینڈ اکنامک ریفارم وژن2030ء'' انقلاب خیز ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرتے ہُوئے دیگر اقتصادی میدان تلاش کیے جائیں۔اِسی وژن کے تحت سعودی ولی عہدکی نگرانی میں چار دن پہلے سعودی اور غیر سعودی سرمایہ کاروں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت اگلے بارہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں 427 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔یہ سرمایہ کاری ملک میںسولہ لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیںفراہم کرے گی۔
ایم بی ایس نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سعودیوں کے خوابوں کا محور بن گئے ہیں۔ چندماہ پہلے (اکتوبر2018ء) سعودی ولی عہد نے ریاض میں جس عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، یہ اُن کے اہداف اور تمناؤں کی ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔ اس کانفرنس میں جدید دُنیا کے سرمایہ کار اور سرمایہ دار اُمنڈ اُمنڈ کر آئے تھے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے چونتیس سالہ لختِ جگر شہزادہ محمد بن سلمان عرب دُنیا کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں بھی قابلِ تحسین کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی کرپٹ مچھلیوں سے جس آہنی ہاتھ سے نمٹے ہیں، اس عمل کو تو پاکستان میں بھی دہرانے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب اور فرمانروایانِ سعودیہ نے ہمیشہ پاکستان کے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے لیے سعودی عرب کا دستِ تعاون بھی ہمیشہ دراز اور فراخ رہا ہے۔ ایک کالم کی تنگنا میں پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات اور عنایات کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔جواباً پاکستان نے بھی ہمیشہ خادم الحرمین الشریفین کا ساتھ نبھانے اورہر آزمائش میں سعودیہ کا ہم دوش بننے کی کوشش کی ہے۔ کئی بدخواہوں اوربد طینتوںنے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کئی بار کوشش کی ہے لیکن دونوں برادر ممالک نے مل کر ایسی ہر کوشش کو ناکام بنا یا ہے۔
جناب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہُوئے تو فوری طور پر سعودی عرب کی طرف سے تہنیتی پیغامات بھی آئے اور سعودی فرمانروا جناب شاہ سلمان کی طرف سے تعاون بھی کیا گیا۔ عمران خان نے سعودی عرب کے دَورے کیے ہیں تو ہر بار انھیں شاندار پروٹوکول سے نوازا گیا ہے۔ اُن کی پوری تکریم کی گئی ہے۔ شنید ہے پچھلے دَورئہ سعودی عرب کے دوران تو شہزادہ محمد بن سلمان نے محبت و اخوت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے وزیر اعظم عمران خان کی گاڑی بھی خود ہی ڈرائیو کی تھی۔ ریاض کی سرمایہ کاری کانفرنس میں بھی عمران خان کو سعودی ولی عہد کی دعوت پر بھرپور انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے مواقعے فراہم کیے گئے۔
اعلیٰ ترین سعودی شاہی قیادت سے عمران خان کے بھرپور مذاکرات بھی ہُوئے ہیں اوران کے ثمرات بھی نہائت حوصلہ افزا نکلے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے لیے سعودی عرب کی طرف سے تین ارب ڈالر کی فوری اور نقد فراہمی۔ اگلے دو برسوں کے لیے اربوں ڈالر کا ادھار تیل اس کے علاوہ بڑی مہربانی ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشی بحرانوں میں گھرے پاکستان کے لیے یہ مالی دستگیری سعودی عرب کی طرف سے ایک عظیم احسان ہے۔ اس احسان کو عملی اور مادّی شکل دینے میں لاریب شہزادہ محمد بن سلمان نے بنیادی کر دار اداکیا ہے ۔کیا ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو اگر سعودی عرب کی جانب سے بھی ''جواب'' مل جاتا تو پاکستان کی معاشی مشکلات کیا شکل اختیار کر سکتی تھیں؟ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام میں بھی سعودی محبت و تعاون کے یہ مناظر نظر نواز ہوتے رہیں گے۔
شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے پاکستان کے لیے حالیہ امدادو اعانت کے بعد برادر سعودی عرب خاموش نہیں رہا۔ شنید ہے کہ اب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں پندرہ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی جانے والی ہے۔ اس کے لیے ابتدائی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ زمین ہموار اور تیار ہے۔ زیادہ تر سرمایہ کاری گوادر کے آس پاس مرکزی حیثیت حاصل کرے گی۔ اِسی سرمایہ کاری کو باقاعدہ اور عملی شکل دینے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وہ اس دَورے میں پاکستانی قوم سے بھی خطاب فرمائیں گے۔چند دن قبل سعودی عرب کے ایک ممتاز و معروف تھنک ٹینک کے سربراہ، ڈاکٹر محمد السلیمی،بھی پاکستان کے دَورے پر تھے۔
انھوں نے بھی کہا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان دَورئہ پاکستان میں کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ثبت فرمائیں گے۔یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ ایم بی ایس کی پاکستان میں موجودگی کے دوران پاکستان اور سعودیہ کے مابین ایک ''اسٹرٹیجک ڈائیلاگ فورم'' کی بنیاد بھی رکھی جائے گی۔ دعا کرنی چاہیے کہ اُن کی آمد تک پاکستان میں کوئی ایسا واقعہ رُونما نہ ہو جو اس دَورے کو متاثر کر سکے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسے شرارتی اور مفسد عناصر کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی وقت، کوئی بھی شرارت کرسکتے ہیں۔ ایسے شرانگیز عناصر نے ماضی قریب میں پاکستان کے سفارتی تعلقات پر کئی بار منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات کے ایک معزز شہزادے نے پاکستان کا دَورہ کیا، تب بھی انھی عناصر نے بروئے کار آ کر پاک ، یو اے ای تعلقات پر اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی۔
بعض ایسے گروہ بہرحال موجود ہیں جو سعودی عرب کے داخلی معاملات کو موضوعِ بحث بنا کر معاملات کو بگاڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ ہمارا شریفانہ اور غیر جانبدارانہ رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم بحثیتِ مجموعی سعودی عرب کے اندرونی معاملات سے لا تعلق رہیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو بقیہ معاملات پر ترجیح دینے کا اسلوب اختیار کرنا چاہیے ۔ کئی مغربی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔یہ ممالک سعودی عرب کے داخلی اور اندرونی مسائل سے الگ رہ کر اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر مملکتِ سعودیہ اور سعودی عوام سے شاندار اور پائدار تعلقات استوار کیے ہُوئے ہیں۔ پچھلے دنوں سعودی عرب نے کینیڈا کو داخلی معاملات میں دخیل ہونے کی اساس پر سخت لہجے میں جواب دیا تو پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت نے سعودی عرب کے اس اقدام کا ساتھ دیا تھا۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملات کیا تھے اور ترکی میں یہ سانحہ کیوں اور کیونکر رُونما ہُوا، یہ بھی سعودیہ کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر تبصرہ آرا ہونے کے لیے ہمارے ہاتھوں میں کھجلی نہیں ہونی چاہیے۔ جمال خاشقجی کے مبینہ قتل پر امریکی خفیہ ایجنسیاں جس شدت سے تڑپی ہیں، اس منظر نے خاشقجی کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ سعودی عرب کے ایران ، قطر اور یمن سے جیسے بھی تعلقات ہیں، ہمیں اس میں بھی غیر متعلق ہونا چاہیے کہ یہ تینوں معاملات بھی سعودی عرب کے خالصتاً نجی، ذاتی اور داخلی معاملات ہیں۔ وہ خود اپنے معاملات سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام سعودی عرب کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔اُمید یہی کی جاتی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان تشریف آوری پاکستان کے لیے مسعود، مبارک اور مفید ثابت ہوگی۔
واقعی معنوں میں وہ ایک متحرک اور جواں ہمت شخصیت ہیں۔ سعودی عرب کے تمام شعبوں میں اُن کا مثبت اور مفید تحرک نظر بھی آ رہا ہے۔ سعودی عرب کو صنعت وحرفت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کے شدید آرزو مند ہیں۔ بِلا مبالغہ شہزادہ محمد بن سلمان عالمِ عرب میں نوجوان قیادت کی سب سے نمایاں اور قوی آواز ہیں۔ اپنے ملک کے لیے اُن کا ''سوشل اینڈ اکنامک ریفارم وژن2030ء'' انقلاب خیز ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرتے ہُوئے دیگر اقتصادی میدان تلاش کیے جائیں۔اِسی وژن کے تحت سعودی ولی عہدکی نگرانی میں چار دن پہلے سعودی اور غیر سعودی سرمایہ کاروں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت اگلے بارہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں 427 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔یہ سرمایہ کاری ملک میںسولہ لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیںفراہم کرے گی۔
ایم بی ایس نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سعودیوں کے خوابوں کا محور بن گئے ہیں۔ چندماہ پہلے (اکتوبر2018ء) سعودی ولی عہد نے ریاض میں جس عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، یہ اُن کے اہداف اور تمناؤں کی ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔ اس کانفرنس میں جدید دُنیا کے سرمایہ کار اور سرمایہ دار اُمنڈ اُمنڈ کر آئے تھے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے چونتیس سالہ لختِ جگر شہزادہ محمد بن سلمان عرب دُنیا کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں بھی قابلِ تحسین کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی کرپٹ مچھلیوں سے جس آہنی ہاتھ سے نمٹے ہیں، اس عمل کو تو پاکستان میں بھی دہرانے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب اور فرمانروایانِ سعودیہ نے ہمیشہ پاکستان کے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے لیے سعودی عرب کا دستِ تعاون بھی ہمیشہ دراز اور فراخ رہا ہے۔ ایک کالم کی تنگنا میں پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات اور عنایات کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔جواباً پاکستان نے بھی ہمیشہ خادم الحرمین الشریفین کا ساتھ نبھانے اورہر آزمائش میں سعودیہ کا ہم دوش بننے کی کوشش کی ہے۔ کئی بدخواہوں اوربد طینتوںنے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کئی بار کوشش کی ہے لیکن دونوں برادر ممالک نے مل کر ایسی ہر کوشش کو ناکام بنا یا ہے۔
جناب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہُوئے تو فوری طور پر سعودی عرب کی طرف سے تہنیتی پیغامات بھی آئے اور سعودی فرمانروا جناب شاہ سلمان کی طرف سے تعاون بھی کیا گیا۔ عمران خان نے سعودی عرب کے دَورے کیے ہیں تو ہر بار انھیں شاندار پروٹوکول سے نوازا گیا ہے۔ اُن کی پوری تکریم کی گئی ہے۔ شنید ہے پچھلے دَورئہ سعودی عرب کے دوران تو شہزادہ محمد بن سلمان نے محبت و اخوت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے وزیر اعظم عمران خان کی گاڑی بھی خود ہی ڈرائیو کی تھی۔ ریاض کی سرمایہ کاری کانفرنس میں بھی عمران خان کو سعودی ولی عہد کی دعوت پر بھرپور انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے مواقعے فراہم کیے گئے۔
اعلیٰ ترین سعودی شاہی قیادت سے عمران خان کے بھرپور مذاکرات بھی ہُوئے ہیں اوران کے ثمرات بھی نہائت حوصلہ افزا نکلے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے لیے سعودی عرب کی طرف سے تین ارب ڈالر کی فوری اور نقد فراہمی۔ اگلے دو برسوں کے لیے اربوں ڈالر کا ادھار تیل اس کے علاوہ بڑی مہربانی ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشی بحرانوں میں گھرے پاکستان کے لیے یہ مالی دستگیری سعودی عرب کی طرف سے ایک عظیم احسان ہے۔ اس احسان کو عملی اور مادّی شکل دینے میں لاریب شہزادہ محمد بن سلمان نے بنیادی کر دار اداکیا ہے ۔کیا ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو اگر سعودی عرب کی جانب سے بھی ''جواب'' مل جاتا تو پاکستان کی معاشی مشکلات کیا شکل اختیار کر سکتی تھیں؟ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام میں بھی سعودی محبت و تعاون کے یہ مناظر نظر نواز ہوتے رہیں گے۔
شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے پاکستان کے لیے حالیہ امدادو اعانت کے بعد برادر سعودی عرب خاموش نہیں رہا۔ شنید ہے کہ اب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں پندرہ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی جانے والی ہے۔ اس کے لیے ابتدائی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ زمین ہموار اور تیار ہے۔ زیادہ تر سرمایہ کاری گوادر کے آس پاس مرکزی حیثیت حاصل کرے گی۔ اِسی سرمایہ کاری کو باقاعدہ اور عملی شکل دینے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وہ اس دَورے میں پاکستانی قوم سے بھی خطاب فرمائیں گے۔چند دن قبل سعودی عرب کے ایک ممتاز و معروف تھنک ٹینک کے سربراہ، ڈاکٹر محمد السلیمی،بھی پاکستان کے دَورے پر تھے۔
انھوں نے بھی کہا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان دَورئہ پاکستان میں کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ثبت فرمائیں گے۔یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ ایم بی ایس کی پاکستان میں موجودگی کے دوران پاکستان اور سعودیہ کے مابین ایک ''اسٹرٹیجک ڈائیلاگ فورم'' کی بنیاد بھی رکھی جائے گی۔ دعا کرنی چاہیے کہ اُن کی آمد تک پاکستان میں کوئی ایسا واقعہ رُونما نہ ہو جو اس دَورے کو متاثر کر سکے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسے شرارتی اور مفسد عناصر کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی وقت، کوئی بھی شرارت کرسکتے ہیں۔ ایسے شرانگیز عناصر نے ماضی قریب میں پاکستان کے سفارتی تعلقات پر کئی بار منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات کے ایک معزز شہزادے نے پاکستان کا دَورہ کیا، تب بھی انھی عناصر نے بروئے کار آ کر پاک ، یو اے ای تعلقات پر اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی۔
بعض ایسے گروہ بہرحال موجود ہیں جو سعودی عرب کے داخلی معاملات کو موضوعِ بحث بنا کر معاملات کو بگاڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ ہمارا شریفانہ اور غیر جانبدارانہ رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم بحثیتِ مجموعی سعودی عرب کے اندرونی معاملات سے لا تعلق رہیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو بقیہ معاملات پر ترجیح دینے کا اسلوب اختیار کرنا چاہیے ۔ کئی مغربی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔یہ ممالک سعودی عرب کے داخلی اور اندرونی مسائل سے الگ رہ کر اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر مملکتِ سعودیہ اور سعودی عوام سے شاندار اور پائدار تعلقات استوار کیے ہُوئے ہیں۔ پچھلے دنوں سعودی عرب نے کینیڈا کو داخلی معاملات میں دخیل ہونے کی اساس پر سخت لہجے میں جواب دیا تو پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت نے سعودی عرب کے اس اقدام کا ساتھ دیا تھا۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملات کیا تھے اور ترکی میں یہ سانحہ کیوں اور کیونکر رُونما ہُوا، یہ بھی سعودیہ کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر تبصرہ آرا ہونے کے لیے ہمارے ہاتھوں میں کھجلی نہیں ہونی چاہیے۔ جمال خاشقجی کے مبینہ قتل پر امریکی خفیہ ایجنسیاں جس شدت سے تڑپی ہیں، اس منظر نے خاشقجی کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ سعودی عرب کے ایران ، قطر اور یمن سے جیسے بھی تعلقات ہیں، ہمیں اس میں بھی غیر متعلق ہونا چاہیے کہ یہ تینوں معاملات بھی سعودی عرب کے خالصتاً نجی، ذاتی اور داخلی معاملات ہیں۔ وہ خود اپنے معاملات سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام سعودی عرب کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔اُمید یہی کی جاتی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان تشریف آوری پاکستان کے لیے مسعود، مبارک اور مفید ثابت ہوگی۔