قومی عجائب گھر وفاقی یا صوبائی ملکیت
حکومت سندھ کا قومی عجائب گھر اور برنس گارڈن پر، جو دراصل بلدیہ عظمی کراچی کی ملکیت ہیں، قبضہ بدستور برقرار ہے
جہاں تک دنیا بھر میں نوادرات جمع کرنے کا تعلق ہے تو یہ کوئی چند صدیوں پہلے کی روایت نہیں بلکہ اس کا آغاز ہزاروں سال پہلے ہوگیا تھا جب لوگوں نے اپنے آبا و اجداد کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کو آنے والی نسلوں کو دکھانے کےلیے جمع کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب مصریوں نے اپنے آبا و اجداد کی تدفین کےلیے ان کی لاشوں کو مسالہ لگا کر محفوظ کرنا شروع کر دیا، جسے آج ہم ''ممی'' کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی زمانے یعنی 5000 سال قبل کے لوگوں نے اپنے اجداد کی نعشوں کو دفنانے کے ساتھ ساتھ ان کے زیر استعمال اشیا کو بھی ساتھ ہی دفن کرنا شروع کردیا تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنے آبا و اجداد کی تہذیب و ثقافت سے آگاہی حاصل ہوسکے۔
جب دنیا بھر میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اس وقت یورپی باشندوں نے افریقہ اور ایشیائی ممالک میں کی جانے والی لوٹ مار کے دوران ملنے والے نوادرات کو محفوظ کرنے کےلیے میوزیم قائم کیے۔ ان ہی میں سے ایک ''برٹش میوزیم'' ہے، جو آج دنیا کے بڑے عجائب گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح سلطنتِ عثمانیہ کے تحت (موجودہ) استنبول کے توپکاپی میوزیم میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کا ذخیرہ کیا گیا، جس کی بنیاد پر اسے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی میوزیم کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
اب جہاں تک دنیا بھر میں عجائب گھروں کی تعداد کا تعلق ہے تو اس وقت دنیا بھر میں 50 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں جہاں اہم اور قیمتی نوادرات کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان میں وفاقی حکومت کی سطح پر 13 جبکہ صوبائی سطح پر 70 سے زائد میوزیم موجود ہیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ریلوے، پاکستان نیوی، پاکستان ایئرفورس، پاکستان آرمی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت مختلف اداروں کے میوزیم موجود ہیں جہاں ان اداروں کے آغاز سے لے کر اب تک کے تمام اہم نوادرات جن میں جہاز، وردیاں، آتشی اسلحہ، توپ اور ٹینک تک موجود ہیں۔ البتہ وفاقی سطح پر جو 13 میوزیم قائم ہیں ان میں نوادرات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ان ہی میں سے ایک ''قومی عجائب گھر کراچی'' بھی ہے جسے پہلے پہل برطانوی دور میں ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ''فریئر ہال'' کی اوپری منزل پر قائم کیا تھا۔ ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری، دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔ اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری ''جنرل لائبریری'' کے نام سے مشہور تھی۔
پھر اچانک اس میوزیم کو موجودہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری آفس میں منتقل کردیا گیا۔ عجائب گھر کی منتقلی کے باوجود اس کے نام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اسے وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ہی جانا اور پہچانا جاتا رہا۔ پھر جب بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کی کاوشوں اور کوششوں سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایک ایسے عجائب گھر کے بارے میں سوچا جانے لگا جسے قومی عجائب گھر کا درجہ دیا جاسکے۔ اور کیونکہ محکمہ آثار قدیمہ قیام پاکستان سے قبل ہی موجود تھا، لہٰذا برنس گارڈن کو (جو قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ بھی تھا) قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی۔
اس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک پانچ منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات، جو مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کالج تو کبھی سپریم کورٹ رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، اکٹھے کرکے نیشنل میوزیم کراچی میں منتقل کردیا گیا۔ ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں جن میں قرآنک گیلری اور گندھارا آرٹ گیلری شامل ہیں۔ اس کے بعد قومی عجائب گھر میں لگ بھگ 8 سے زائد گیلریاں قائم کرلی گئیں جو قیام پاکستان کے بعد سے وفاقی حکومت کے زیر اثر رہیں اور محکمہ آثار قدیمہ اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس میوزیم میں سوا لاکھ سے زائد مختلف وقتوں کے اہم نوادرات محفوظ رکھے گئے، جن کی مالیت ایک انشورنس کمپنی نے 43 ارب لگائی تھی۔ قومی عجائب گھر میں سوائے اس کے انتظامی کے دفاتر اور لائبریری کے، کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کے اطراف میں قائم قدیم برنس گارڈن میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل جناح اسپتال، این آئی سی وی ڈی، این آئی سی ایچ، شیخ زید میڈیکل کمپلیکس اور قومی عجائب گھر کو وفاق کی ملکیت قرار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے بعد ان تمام اداروں کو صوبائی حکومتوں کے سپرد کردیا گیا جس کے بعد عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے صوبائی وزیر، وزیر ثقافت اور سیکریٹری ثقافت نے غیر قانونی طور پر میوزیم کی دو منزلیں خالی کروا کر اپنے سیکریٹریٹ قائم کرلیے۔
علاوہ ازیں، اس میوزیم کی سیکیورٹی کےلیے صرف ایک دروازہ رکھا گیا تھا جسے ٹھیک شام 5 بجے پولیس کی موجودگی میں سیل کرنے کا قانون موجود ہے۔ مگر اس قانون کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک اضافی بغلی دروازہ بنا دیا گیا جہاں لوگوں کی آمد و رفت میوزیم بند ہو نے کے بعد بھی جاری رہتی تھی، جس سے عجائب گھرمیں محفوظ قیمتی نوادرات غیر محفوظ ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت کی سر پرستی میں وہ قدیم ریسٹ ہاؤس بھی مسمار کردیا گیا جس میں چند سال قبل تک محکمہ آثار قدیمہ کے ملک بھر سے آنے والے افسران قیام کر تے تھے اور جہاں ایک چوکیدار اور ایک خانساماں کی مدد سے طعام کی سہولت بھی مہیا ہوتی تھی۔ اس تاریخی ریسٹ ہاؤس کو منہدم کرکے غیر قانونی طور پر ڈائریکٹر آرکیالو جی سمیت دیگر دفاتر یہاں قائم کردیئے گئے۔
اور تو اور، اس کے ساتھ ہی پرانے قدیم باغ کو اجاڑ کر سندھ بھر سے آنے والے ادیبوں، شعرائے کرام اور فنکاروں کےلیے ایک کلچرل کمپلیکس بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر سندھ ہائیکورٹ نے اسے روک دیا جس کے بعد سندھ حکو مت نے قومی عجا ئب گھر کے مر کزی دروازے کو خوبصورت بنانے کےلیے شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ سے لائے گئے کچھ آیتوں کے کتبوں سے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک گیٹ تعمیر کیا۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کےلیے ''سندھی ولیج'' کے نام سے لگ بھگ 8 کروڑ روپے کی لا گت سے سندھی گاؤں بنا یا گیا جس کی تکمیل سے قبل ہی اسے بنانے والے من پسند ٹھیکیدار کو سیکیورٹی ڈیپازٹ سمیت ٹھیکے کی تمام رقم ادا کردی گئی۔ اس ٹھیکیدار نے کئی سال کی منت سماجت کے بعد بالآخر سندھی ولیج بنا تو لیا مگر اس وقت کی صوبائی مشیر شرمیلا فاروقی نے محض کاغذوں پر اس کا افتتاح کیا اور اسے عوام کےلیے سرے سے کھو لا ہی نہیں نہ جاسکا۔ اس سبب سے کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا جانے والا شاہجہانی گیٹ اور سندھی ولیج نہ صرف تباہی و بربادی کا شکار ہوگئے بلکہ وہاں میوزیم کے ملازمین نے کوڑا کرکٹ ڈالتے ہوئے اسے کچرے دان میں تبدیل کردیا۔
سندھ حکومت کی غیر قانو نی کارروائیوں کی تفصیلات یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ قومی عجا ئب گھر میں مزید 4 گیلریوں کی توسیع کےلیے بھی صوبائی مشیر کے دور میں تعمیرات سے قبل ہی ٹھیکیداروں کو پورے پورے پیسوں کی ادائیگی کردی گئی جس کی بنیاد پر آج بھی گیلریوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ ثقافت کی طرف سے قومی عجائب گھر کے احاطے میں، جہاں عجائب گھر کی حفاظت کے پیش نظر کسی قسم کی تجارتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، محکمہ ثقافت کے ڈائریکٹر آرکیالوجی کے ڈائریکٹر کو بائی پاس کرتے ہوئے، سیر و تفریح کےلیے آنے والوں کےلیے کینٹین والی جگہ پر ایک معاہدے کے تحت ''کیفے سندھ'' بنا کر اس شرط پر ایک ٹھیکیدار کے سپرد کیا گیا کہ وہ 3 ماہ بعد 40 ہزار روپے ماہانہ کرائے کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی بھی کرے گا۔ مگر اس کے با وجود اس کیفے کے مالک نے با اثر افسران سے رابطوں کی بنیاد پر کرایوں کی ادائیگی تو دور کی بات، گیس، بجلی اور پانی کے بلوں کا بوجھ بھی قومی عجائب گھر پر ڈال رکھا ہے؛ اور باوجود انتظامیہ کی جانب سے کرایوں، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کےلیے نوٹسز جاری کیے گئے، اس نے کسی قسم کی ادائیگی نہ کرتے ہوئے اپنا کاروبار جاری رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر بھر سے سندھی کھانوں، مشروبات اور چائے کے شوقین نہ صرف اس ''کیفے'' کو رونق بخشتے ہیں بلکہ رات گئے تک قومی عجائب گھر میں، جہاں سیکیورٹی سخت ہونی چاہیے، لوگ آزادانہ طور پر گھوم رہے ہو تے ہیں۔
حالانکہ سندھ ہائیکورٹ نے ایک فیصلے کے تحت اس ریسٹورنٹ کو، شہر کے 17 پارکوں میں قائم تجاوزات کی طرح، ختم کر نے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر کیفے سندھ کے کرتا دھرتا نے سندھ ہائیکورٹ ہی سے ایک حکم امتناعی حاصل کرلیا ہے جس کی بدولت اسے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اس کا ریسٹورنٹ مسمار نہیں کیا جائے گا۔ مگر اس کے بر خلاف وہ کھلے عام محکمہ ثقافت کے افسران کی سرپرستی میں ریسٹورنٹ چلا رہا ہے۔ یہ تمام غیر قانونی اقدامات سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بالکل خلاف ہیں جس میں اس قومی عجا ئب گھر کو وفاق کی ملکیت قرار دیا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی یونہی جاری ہے۔ سندھ حکو مت نے اپنی غیر قانونی کارروائیوں کو جاری رکھنے کےلیے تقریباً ایک سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں اس نے دعوی کیا تھا کہ قومی عجائب گھر وفاق کی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کی ملکیت ہے۔ یہ مقدمہ لگ بھگ ایک سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا۔
مقدمے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مقدمے کا فیصلہ نہ ہونے تک قومی عجائب گھر یا اس کے احاطے میں کسی قسم کی تعمیرات، تبدیلیاں نہ کی جائیں اور عجائب گھر سے نوادرات منتقلی پر بھی پابندی عائد کردی۔ مگر سندھ حکومت نے عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے سندھ حکومت نے کھانے پکانے اور کھانے کمانے کے سارے غیرقانونی اقدامات بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے اپنے آخری فیصلے میں قومی عجائب گھر سمیت جناح ہسپتال و دیگر اداروں کو وفاق کی ملکیت قرار دیا اورصوبائی حکومتوں کو 90 روز کی مہلت دی کہ وہ ان تمام اداروں کو وفاقی حکومت کے سپرد کردیں؛ اور یہ کہ اگر انہیں اس سلسلے میں مزید وقت چاہیے تو وہ رجوع کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد سندھ حکومت نے نچلے بیٹھنے کے بجائے ایک بار پھر فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کےلیے قانونی ماہرین سے مشاورت کرلی ہے جس کے تحت ان کی جانب سے ایک بار پھر اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کا امکان ہے۔
اس ضمن میں ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ، قومی عجا ئب گھر کو وفاق کا حصہ قرار دے چکی ہے لہذا سندھ حکومت فوری طور پر قومی عجائب گھر میں قائم صوبائی وزیر اور سیکریٹری کے دفاتر کو ختم کرے اور نوادرات کے ریکارڈ قبضے میں لے کر نوادرات کی حفاظت کےلیے سیکیورٹی تعینات کی جائے ورنہ دو حکومتوں کے درمیان ہونے والی اس لڑائی سے میوزیم میں موجود اہم اور قیمتی نوادرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی، دونوں حکومتوں میں سے کسی نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ حکومت سندھ کا قومی عجائب گھر اور برنس گارڈن پر، جو دراصل بلدیہ عظمی کراچی کی ملکیت ہے، قبضہ بدستور برقرار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب دنیا بھر میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اس وقت یورپی باشندوں نے افریقہ اور ایشیائی ممالک میں کی جانے والی لوٹ مار کے دوران ملنے والے نوادرات کو محفوظ کرنے کےلیے میوزیم قائم کیے۔ ان ہی میں سے ایک ''برٹش میوزیم'' ہے، جو آج دنیا کے بڑے عجائب گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح سلطنتِ عثمانیہ کے تحت (موجودہ) استنبول کے توپکاپی میوزیم میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زیر استعمال رہنے والی چیزوں کا ذخیرہ کیا گیا، جس کی بنیاد پر اسے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی میوزیم کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
اب جہاں تک دنیا بھر میں عجائب گھروں کی تعداد کا تعلق ہے تو اس وقت دنیا بھر میں 50 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں جہاں اہم اور قیمتی نوادرات کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان میں وفاقی حکومت کی سطح پر 13 جبکہ صوبائی سطح پر 70 سے زائد میوزیم موجود ہیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ریلوے، پاکستان نیوی، پاکستان ایئرفورس، پاکستان آرمی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت مختلف اداروں کے میوزیم موجود ہیں جہاں ان اداروں کے آغاز سے لے کر اب تک کے تمام اہم نوادرات جن میں جہاز، وردیاں، آتشی اسلحہ، توپ اور ٹینک تک موجود ہیں۔ البتہ وفاقی سطح پر جو 13 میوزیم قائم ہیں ان میں نوادرات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ان ہی میں سے ایک ''قومی عجائب گھر کراچی'' بھی ہے جسے پہلے پہل برطانوی دور میں ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ''فریئر ہال'' کی اوپری منزل پر قائم کیا تھا۔ ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری، دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔ اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری ''جنرل لائبریری'' کے نام سے مشہور تھی۔
پھر اچانک اس میوزیم کو موجودہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری آفس میں منتقل کردیا گیا۔ عجائب گھر کی منتقلی کے باوجود اس کے نام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اسے وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ہی جانا اور پہچانا جاتا رہا۔ پھر جب بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کی کاوشوں اور کوششوں سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایک ایسے عجائب گھر کے بارے میں سوچا جانے لگا جسے قومی عجائب گھر کا درجہ دیا جاسکے۔ اور کیونکہ محکمہ آثار قدیمہ قیام پاکستان سے قبل ہی موجود تھا، لہٰذا برنس گارڈن کو (جو قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ بھی تھا) قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی۔
اس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک پانچ منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات، جو مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کالج تو کبھی سپریم کورٹ رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، اکٹھے کرکے نیشنل میوزیم کراچی میں منتقل کردیا گیا۔ ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں جن میں قرآنک گیلری اور گندھارا آرٹ گیلری شامل ہیں۔ اس کے بعد قومی عجائب گھر میں لگ بھگ 8 سے زائد گیلریاں قائم کرلی گئیں جو قیام پاکستان کے بعد سے وفاقی حکومت کے زیر اثر رہیں اور محکمہ آثار قدیمہ اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس میوزیم میں سوا لاکھ سے زائد مختلف وقتوں کے اہم نوادرات محفوظ رکھے گئے، جن کی مالیت ایک انشورنس کمپنی نے 43 ارب لگائی تھی۔ قومی عجائب گھر میں سوائے اس کے انتظامی کے دفاتر اور لائبریری کے، کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کے اطراف میں قائم قدیم برنس گارڈن میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل جناح اسپتال، این آئی سی وی ڈی، این آئی سی ایچ، شیخ زید میڈیکل کمپلیکس اور قومی عجائب گھر کو وفاق کی ملکیت قرار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے بعد ان تمام اداروں کو صوبائی حکومتوں کے سپرد کردیا گیا جس کے بعد عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے صوبائی وزیر، وزیر ثقافت اور سیکریٹری ثقافت نے غیر قانونی طور پر میوزیم کی دو منزلیں خالی کروا کر اپنے سیکریٹریٹ قائم کرلیے۔
علاوہ ازیں، اس میوزیم کی سیکیورٹی کےلیے صرف ایک دروازہ رکھا گیا تھا جسے ٹھیک شام 5 بجے پولیس کی موجودگی میں سیل کرنے کا قانون موجود ہے۔ مگر اس قانون کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک اضافی بغلی دروازہ بنا دیا گیا جہاں لوگوں کی آمد و رفت میوزیم بند ہو نے کے بعد بھی جاری رہتی تھی، جس سے عجائب گھرمیں محفوظ قیمتی نوادرات غیر محفوظ ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت کی سر پرستی میں وہ قدیم ریسٹ ہاؤس بھی مسمار کردیا گیا جس میں چند سال قبل تک محکمہ آثار قدیمہ کے ملک بھر سے آنے والے افسران قیام کر تے تھے اور جہاں ایک چوکیدار اور ایک خانساماں کی مدد سے طعام کی سہولت بھی مہیا ہوتی تھی۔ اس تاریخی ریسٹ ہاؤس کو منہدم کرکے غیر قانونی طور پر ڈائریکٹر آرکیالو جی سمیت دیگر دفاتر یہاں قائم کردیئے گئے۔
اور تو اور، اس کے ساتھ ہی پرانے قدیم باغ کو اجاڑ کر سندھ بھر سے آنے والے ادیبوں، شعرائے کرام اور فنکاروں کےلیے ایک کلچرل کمپلیکس بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر سندھ ہائیکورٹ نے اسے روک دیا جس کے بعد سندھ حکو مت نے قومی عجا ئب گھر کے مر کزی دروازے کو خوبصورت بنانے کےلیے شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ سے لائے گئے کچھ آیتوں کے کتبوں سے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک گیٹ تعمیر کیا۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کےلیے ''سندھی ولیج'' کے نام سے لگ بھگ 8 کروڑ روپے کی لا گت سے سندھی گاؤں بنا یا گیا جس کی تکمیل سے قبل ہی اسے بنانے والے من پسند ٹھیکیدار کو سیکیورٹی ڈیپازٹ سمیت ٹھیکے کی تمام رقم ادا کردی گئی۔ اس ٹھیکیدار نے کئی سال کی منت سماجت کے بعد بالآخر سندھی ولیج بنا تو لیا مگر اس وقت کی صوبائی مشیر شرمیلا فاروقی نے محض کاغذوں پر اس کا افتتاح کیا اور اسے عوام کےلیے سرے سے کھو لا ہی نہیں نہ جاسکا۔ اس سبب سے کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا جانے والا شاہجہانی گیٹ اور سندھی ولیج نہ صرف تباہی و بربادی کا شکار ہوگئے بلکہ وہاں میوزیم کے ملازمین نے کوڑا کرکٹ ڈالتے ہوئے اسے کچرے دان میں تبدیل کردیا۔
سندھ حکومت کی غیر قانو نی کارروائیوں کی تفصیلات یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ قومی عجا ئب گھر میں مزید 4 گیلریوں کی توسیع کےلیے بھی صوبائی مشیر کے دور میں تعمیرات سے قبل ہی ٹھیکیداروں کو پورے پورے پیسوں کی ادائیگی کردی گئی جس کی بنیاد پر آج بھی گیلریوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ ثقافت کی طرف سے قومی عجائب گھر کے احاطے میں، جہاں عجائب گھر کی حفاظت کے پیش نظر کسی قسم کی تجارتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، محکمہ ثقافت کے ڈائریکٹر آرکیالوجی کے ڈائریکٹر کو بائی پاس کرتے ہوئے، سیر و تفریح کےلیے آنے والوں کےلیے کینٹین والی جگہ پر ایک معاہدے کے تحت ''کیفے سندھ'' بنا کر اس شرط پر ایک ٹھیکیدار کے سپرد کیا گیا کہ وہ 3 ماہ بعد 40 ہزار روپے ماہانہ کرائے کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی بھی کرے گا۔ مگر اس کے با وجود اس کیفے کے مالک نے با اثر افسران سے رابطوں کی بنیاد پر کرایوں کی ادائیگی تو دور کی بات، گیس، بجلی اور پانی کے بلوں کا بوجھ بھی قومی عجائب گھر پر ڈال رکھا ہے؛ اور باوجود انتظامیہ کی جانب سے کرایوں، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کےلیے نوٹسز جاری کیے گئے، اس نے کسی قسم کی ادائیگی نہ کرتے ہوئے اپنا کاروبار جاری رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر بھر سے سندھی کھانوں، مشروبات اور چائے کے شوقین نہ صرف اس ''کیفے'' کو رونق بخشتے ہیں بلکہ رات گئے تک قومی عجائب گھر میں، جہاں سیکیورٹی سخت ہونی چاہیے، لوگ آزادانہ طور پر گھوم رہے ہو تے ہیں۔
حالانکہ سندھ ہائیکورٹ نے ایک فیصلے کے تحت اس ریسٹورنٹ کو، شہر کے 17 پارکوں میں قائم تجاوزات کی طرح، ختم کر نے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر کیفے سندھ کے کرتا دھرتا نے سندھ ہائیکورٹ ہی سے ایک حکم امتناعی حاصل کرلیا ہے جس کی بدولت اسے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اس کا ریسٹورنٹ مسمار نہیں کیا جائے گا۔ مگر اس کے بر خلاف وہ کھلے عام محکمہ ثقافت کے افسران کی سرپرستی میں ریسٹورنٹ چلا رہا ہے۔ یہ تمام غیر قانونی اقدامات سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بالکل خلاف ہیں جس میں اس قومی عجا ئب گھر کو وفاق کی ملکیت قرار دیا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی یونہی جاری ہے۔ سندھ حکو مت نے اپنی غیر قانونی کارروائیوں کو جاری رکھنے کےلیے تقریباً ایک سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں اس نے دعوی کیا تھا کہ قومی عجائب گھر وفاق کی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کی ملکیت ہے۔ یہ مقدمہ لگ بھگ ایک سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا۔
مقدمے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مقدمے کا فیصلہ نہ ہونے تک قومی عجائب گھر یا اس کے احاطے میں کسی قسم کی تعمیرات، تبدیلیاں نہ کی جائیں اور عجائب گھر سے نوادرات منتقلی پر بھی پابندی عائد کردی۔ مگر سندھ حکومت نے عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے سندھ حکومت نے کھانے پکانے اور کھانے کمانے کے سارے غیرقانونی اقدامات بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے اپنے آخری فیصلے میں قومی عجائب گھر سمیت جناح ہسپتال و دیگر اداروں کو وفاق کی ملکیت قرار دیا اورصوبائی حکومتوں کو 90 روز کی مہلت دی کہ وہ ان تمام اداروں کو وفاقی حکومت کے سپرد کردیں؛ اور یہ کہ اگر انہیں اس سلسلے میں مزید وقت چاہیے تو وہ رجوع کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد سندھ حکومت نے نچلے بیٹھنے کے بجائے ایک بار پھر فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کےلیے قانونی ماہرین سے مشاورت کرلی ہے جس کے تحت ان کی جانب سے ایک بار پھر اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کا امکان ہے۔
اس ضمن میں ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ، قومی عجا ئب گھر کو وفاق کا حصہ قرار دے چکی ہے لہذا سندھ حکومت فوری طور پر قومی عجائب گھر میں قائم صوبائی وزیر اور سیکریٹری کے دفاتر کو ختم کرے اور نوادرات کے ریکارڈ قبضے میں لے کر نوادرات کی حفاظت کےلیے سیکیورٹی تعینات کی جائے ورنہ دو حکومتوں کے درمیان ہونے والی اس لڑائی سے میوزیم میں موجود اہم اور قیمتی نوادرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی، دونوں حکومتوں میں سے کسی نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ حکومت سندھ کا قومی عجائب گھر اور برنس گارڈن پر، جو دراصل بلدیہ عظمی کراچی کی ملکیت ہے، قبضہ بدستور برقرار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔