کبھی یہ بھی لاہور تھا
سردیوں کی شدت ختم ہونے سے بوسیدہ ہو کر گم ہوگئے ہیں
BERLIN:
بچپن میں لاہور کے موسم کے بارے میں بہت سنا اور جوانی میں لاہور کا یہ موسم بہت دیکھا بھی اور اب بڑھاپے میں لاہور کے موسم کو بھگت بھی رہا ہوں۔ لاہور سے کوئی تین سو کلو میٹر دور میرے گاؤں کے لوگ لاہور کو حضرت داتا صاحب کے حوالے سے جانتے تھے یا ہائیکورٹ کے حوالے سے۔ جب کوئی فوجی چھٹی آتا اور اس کا لاہور سے گزر ہوتا تو وہ ٹرین سے اتر کر سیدھا داتا دربار حاضری دیتا اور پھر اپنا سفر جاری رکھتا۔ لاہور آنے جانے والے یہ سب لوگ لاہور کی گرمی کا ذکر ضرور کیا کرتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتے کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور اس شہر میں بہنے والا دریا راوی اسے ٹھنڈا رکھتا ہے ۔
حضرت داتا صاحب اور مغلوں کے اس شہر میں یہ دریا مغلوں کی یادگاروں کے بیچ سے گزرتا اور مغلوں کو یاد کرتا ۔ پطرس بخاری نے امریکا سے ایک خط میں اپنے دوست صوفی غلام مصطفیٰ تبسم سے شاید اسی لیے پوچھا تھا کہ کیا راوی آج بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ لاہور پر کئی حکمران گزر گئے مگر مغل یہاں کے چپے چپے پر ایسے نقش رقم کر گئے کہ یہ شہر مغلوں کا شہر لگتا ہے جیسے ان کے سوا کسی نے اس شہر پر حکمرانی کا لطف نہیں اٹھایا۔ راوی مغلوں کی انھی طرب انگیز محفلوں کو یاد کرتا ہے۔ اس کے ایک طرف قلعہ میں مغلوں کے محلات ہیں تو دوسری طرف ان کے شاہوں اور ان کی ملکاؤں کے مقبرے ہیں۔ مغل عشق پیشہ لوگ تھے ان کا ایک عاشق مزاج شہزادہ شیخو اور پھر بادشاہ نورالدین جہانگیر اسی شہر کے ایک عالی شان مقبرے میں سو رہے ہیںتو اس کے برابرایک افسردہ سی عمارت میں اس کی ملکہ عالم نورجہاں خوابیدہ ہے۔
یہ ملکہ لاہور کو دل میں بسائے گزر گئی اور کہتی رہی کہ لاہور کو جان کے بدلے لیا ہے اوریوں جان دے کر جنت خرید لی ہے۔اس شہنشاہ کے بیٹے نے تاج محل بنایا جو بھارت میں دنیا کو حیرت زدہ کرتا رہتا ہے ۔مغلوں کے اس شہر کے موسموں کے ذکر سے راوی کو جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ لاہور کے گرم دنوں اور خشک راتوں کے ذکر سے اس شہر کی سردیاں بھی یاد آتی ہیں جو کئی برسوں سے خواب و خیال ہو گئیں۔ اس سال برسوں بعد کچھ سردی پڑی ہے اور لاہوریوں نے سویٹروں کے اوپر کوٹ بھی پہنے مگر اس شدید سردی میں بھی ان کے ہاتھوں پر دستانے نہیں تھے اور نہ ہی جسم پر اوور کوٹ جو کبھی سردیوں میں ہر لاہوری کے لباس کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن سردیوں کی شدت ختم ہونے سے بوسیدہ ہو کر گم ہوگئے ہیں۔
میں جوانی میں لاہور آیا اور سردیوں کے موسم میں جب رات گئے اخبار کے دفتر سے گھر جانے لگتے تو سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح مسلح ہو کر اونی ٹوپی، گرم جرابیں ، دستانے اوورکوٹ سے ملبوس ہوتے ۔ رات کو راستے میں جگہ جگہ آگ جلتی دکھائی دیتی جس کے گرد چوکیدار بیٹھے ہوتے تھے اور بعض قہوہ خانے رات دیر تک کھلے رہتے جہاں سے گرم چائے پی کر ہم اخباری کارکن گھر کا سفر جاری رکھتے۔ مجھے یاد ہے مال روڈ پر اور لارنس گارڈن کے فٹ پاتھوں اور روشوں پر سردیوں اور خزاں کے موسم میں دو رویہ درختوں کے پتوں کے ڈھیر لگے رہتے تھے جن کے اوپر چلتے ہوئے ان کی چیخیں سننے میں بڑا مزا آتا تھا ۔
نئے دور نے ماحول میں جو گندگی پھیلا دی ہے اور فضاؤں کو جس طرح دھوئیں سے بھر دیا ہے اس میں سردیوں کا صاف ستھرا موسم گم ہو گیا ہے ۔ ایک بار جب میں فیض صاحب کی زیر ادارت ایک ہفت روزہ میں کام کرتا تھا تو اسٹاف میٹنگ میں کہا کہ سردیوں میں لکھنے اور کام کرنے کا بہت موقع ملتا ہے ۔ فیض صاحب نے سگریٹ جھاڑتے ہوئے کہا سردیاں تو سیر سپاٹے کے لیے ہوتی ہیں کام تو گرمیوں میں کیا جاتا ہے۔ جوان ہو گھوما پھرا کرو ایسے موسم بار بار نہیں آتے اور یہی بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے لاہور میں سردیوں کا موسم گم ہونا شروع ہوا اور شہریوں کے لباس صرف سویٹر یاکوٹ تک محدود ہو گئے ۔
جیسا کہ عرض کیا ہے برسوں بعد اس دفعہ سردی محسوس ہوئی لیکن ہم اس سردی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہے۔ گاڑی میں ہیٹر، گھر میں ہیٹر اور قہوہ خانے گرم۔ یاد آیا سردیاں تو تب تھیں جب راتوں کو سائیکلوں پر سفر ہوتا تھا اور گھر میں صرف گرم بستر میں ہی پناہ ملتی تھی اور صبح پانی کے نل سے گرم پانی نہیں آتا تھا گرم پانی کی بالٹی ملتی تھی ۔ یہی وہ صحت مند زندگی تھی اور اسی زندگی میں راحت تھی ۔ زندگی کا یہ لطف نئے دور کی خوشحالی میں نہیں مل سکا ۔ اب نہ لاہور میں راوی بہتا ہے نہ سرد ہوائیں چلتی ہیں اور نہ جسم کی ہڈیوں تک سردی سرایت کرتی ہے ۔ بس ایک مصنوعی زندگی ہے جو جاری ہے ۔نہ اندر کا موسم دلکش نہ باہر کا موسم طرب انگیز۔ مغلوں کی پرانی عمارتوں کی طرح گم صم زندگی یادوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے گزر رہی ہے۔
بچپن میں لاہور کے موسم کے بارے میں بہت سنا اور جوانی میں لاہور کا یہ موسم بہت دیکھا بھی اور اب بڑھاپے میں لاہور کے موسم کو بھگت بھی رہا ہوں۔ لاہور سے کوئی تین سو کلو میٹر دور میرے گاؤں کے لوگ لاہور کو حضرت داتا صاحب کے حوالے سے جانتے تھے یا ہائیکورٹ کے حوالے سے۔ جب کوئی فوجی چھٹی آتا اور اس کا لاہور سے گزر ہوتا تو وہ ٹرین سے اتر کر سیدھا داتا دربار حاضری دیتا اور پھر اپنا سفر جاری رکھتا۔ لاہور آنے جانے والے یہ سب لوگ لاہور کی گرمی کا ذکر ضرور کیا کرتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتے کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور اس شہر میں بہنے والا دریا راوی اسے ٹھنڈا رکھتا ہے ۔
حضرت داتا صاحب اور مغلوں کے اس شہر میں یہ دریا مغلوں کی یادگاروں کے بیچ سے گزرتا اور مغلوں کو یاد کرتا ۔ پطرس بخاری نے امریکا سے ایک خط میں اپنے دوست صوفی غلام مصطفیٰ تبسم سے شاید اسی لیے پوچھا تھا کہ کیا راوی آج بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ لاہور پر کئی حکمران گزر گئے مگر مغل یہاں کے چپے چپے پر ایسے نقش رقم کر گئے کہ یہ شہر مغلوں کا شہر لگتا ہے جیسے ان کے سوا کسی نے اس شہر پر حکمرانی کا لطف نہیں اٹھایا۔ راوی مغلوں کی انھی طرب انگیز محفلوں کو یاد کرتا ہے۔ اس کے ایک طرف قلعہ میں مغلوں کے محلات ہیں تو دوسری طرف ان کے شاہوں اور ان کی ملکاؤں کے مقبرے ہیں۔ مغل عشق پیشہ لوگ تھے ان کا ایک عاشق مزاج شہزادہ شیخو اور پھر بادشاہ نورالدین جہانگیر اسی شہر کے ایک عالی شان مقبرے میں سو رہے ہیںتو اس کے برابرایک افسردہ سی عمارت میں اس کی ملکہ عالم نورجہاں خوابیدہ ہے۔
یہ ملکہ لاہور کو دل میں بسائے گزر گئی اور کہتی رہی کہ لاہور کو جان کے بدلے لیا ہے اوریوں جان دے کر جنت خرید لی ہے۔اس شہنشاہ کے بیٹے نے تاج محل بنایا جو بھارت میں دنیا کو حیرت زدہ کرتا رہتا ہے ۔مغلوں کے اس شہر کے موسموں کے ذکر سے راوی کو جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ لاہور کے گرم دنوں اور خشک راتوں کے ذکر سے اس شہر کی سردیاں بھی یاد آتی ہیں جو کئی برسوں سے خواب و خیال ہو گئیں۔ اس سال برسوں بعد کچھ سردی پڑی ہے اور لاہوریوں نے سویٹروں کے اوپر کوٹ بھی پہنے مگر اس شدید سردی میں بھی ان کے ہاتھوں پر دستانے نہیں تھے اور نہ ہی جسم پر اوور کوٹ جو کبھی سردیوں میں ہر لاہوری کے لباس کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن سردیوں کی شدت ختم ہونے سے بوسیدہ ہو کر گم ہوگئے ہیں۔
میں جوانی میں لاہور آیا اور سردیوں کے موسم میں جب رات گئے اخبار کے دفتر سے گھر جانے لگتے تو سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح مسلح ہو کر اونی ٹوپی، گرم جرابیں ، دستانے اوورکوٹ سے ملبوس ہوتے ۔ رات کو راستے میں جگہ جگہ آگ جلتی دکھائی دیتی جس کے گرد چوکیدار بیٹھے ہوتے تھے اور بعض قہوہ خانے رات دیر تک کھلے رہتے جہاں سے گرم چائے پی کر ہم اخباری کارکن گھر کا سفر جاری رکھتے۔ مجھے یاد ہے مال روڈ پر اور لارنس گارڈن کے فٹ پاتھوں اور روشوں پر سردیوں اور خزاں کے موسم میں دو رویہ درختوں کے پتوں کے ڈھیر لگے رہتے تھے جن کے اوپر چلتے ہوئے ان کی چیخیں سننے میں بڑا مزا آتا تھا ۔
نئے دور نے ماحول میں جو گندگی پھیلا دی ہے اور فضاؤں کو جس طرح دھوئیں سے بھر دیا ہے اس میں سردیوں کا صاف ستھرا موسم گم ہو گیا ہے ۔ ایک بار جب میں فیض صاحب کی زیر ادارت ایک ہفت روزہ میں کام کرتا تھا تو اسٹاف میٹنگ میں کہا کہ سردیوں میں لکھنے اور کام کرنے کا بہت موقع ملتا ہے ۔ فیض صاحب نے سگریٹ جھاڑتے ہوئے کہا سردیاں تو سیر سپاٹے کے لیے ہوتی ہیں کام تو گرمیوں میں کیا جاتا ہے۔ جوان ہو گھوما پھرا کرو ایسے موسم بار بار نہیں آتے اور یہی بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے لاہور میں سردیوں کا موسم گم ہونا شروع ہوا اور شہریوں کے لباس صرف سویٹر یاکوٹ تک محدود ہو گئے ۔
جیسا کہ عرض کیا ہے برسوں بعد اس دفعہ سردی محسوس ہوئی لیکن ہم اس سردی سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہے۔ گاڑی میں ہیٹر، گھر میں ہیٹر اور قہوہ خانے گرم۔ یاد آیا سردیاں تو تب تھیں جب راتوں کو سائیکلوں پر سفر ہوتا تھا اور گھر میں صرف گرم بستر میں ہی پناہ ملتی تھی اور صبح پانی کے نل سے گرم پانی نہیں آتا تھا گرم پانی کی بالٹی ملتی تھی ۔ یہی وہ صحت مند زندگی تھی اور اسی زندگی میں راحت تھی ۔ زندگی کا یہ لطف نئے دور کی خوشحالی میں نہیں مل سکا ۔ اب نہ لاہور میں راوی بہتا ہے نہ سرد ہوائیں چلتی ہیں اور نہ جسم کی ہڈیوں تک سردی سرایت کرتی ہے ۔ بس ایک مصنوعی زندگی ہے جو جاری ہے ۔نہ اندر کا موسم دلکش نہ باہر کا موسم طرب انگیز۔ مغلوں کی پرانی عمارتوں کی طرح گم صم زندگی یادوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے گزر رہی ہے۔