نام ہی میں سب رکھا ہے
کسی کا نام بہ طور فرد ہی اس کی شناخت نہیں ہوتا بلکہ اس کی قومیت، مذہب اور جنس کا بھی عکاس ہوتا ہے
کسی کا نام بہ طور فرد ہی اس کی شناخت نہیں ہوتا بلکہ اس کی قومیت، مذہب اور جنس کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ ایک برطانوی خاتون کے ساتھ یہ ستم ہوا ہے کہ ماں باپ نے انھیں ''جان'' (John) جیسا خالص مردانہ نام عطا کردیا۔ یہ نام خاتون کے دادا کا تھا، جن کی محبت میں والدین نے اپنی بیٹی کو بھی یہی نام دے دیا۔ اب خاتون اپنا نام بدلنا چاہتی ہیںِ، لیکن ان کی والدہ نے یہ کہہ کر انھیں نام بدلنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے کہ ''تم اپنے دادا کی یاد بھلادینا چاہتی ہو۔''
صنفی مساوات کا نعرہ اپنی جگہ، لیکن یہ لباس اور شانہ بہ شانہ چلنے تک ٹھیک ہے، جہاں تک نام کا تعلق ہے مردوں پر مردانہ اور خواتین پر زنانہ نام ہی سجتا ہے۔ دوسری صورت غلط فہمی ہی جنم دیتی ہے، جیسے اقبال بانو کے گانے سُن کر ہم سوچا کرتے تھے ان ''صاحب'' نے کیا نسوانی آواز پائی ہے۔ جب ان کے خاتون ہونے کا انکشاف ہوا تو ہم نے یہ کہہ کر خود کو تسلی دی کہ نام بانو ہوگا اور والد کا اقبال، غلط فٹنگ کے نتیجے میں آگے پیچھے ہوگیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ''نسیم'' یا ''شمیم'' کی آفس آمد پر ہم نے جھٹ پٹ منہہ دھویا، کنگھی کی اور سارے کام چھوڑ کر ملنے جاپہنچے، ر پر پہنچ کر یہ دل خراش حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ یہ ملاقاتی تلوار سی مونچھوں والے نسیم جَٹ اور چاند سا سَر لیے شمیم گُجر ہیں۔ اس موقع پر ہم نے خود پر تو لعنت بھیجی ہی اُن والدین سے بھی دل ہی دل میں شکایت کرتے رہے جو بچے کی جنس معلوم ہونے سے پہلے ہی نام رکھ لیتے ہیں۔ اب پتا نہیں وہ خود کنفیوز ہوتے ہیں یا دوسروں کو کنفیوز رکھنے کے لیے یہ حرکت فرماتے ہیں۔
''جان صاحبہ'' کی تو اپنے مردانہ نام سے جان جلتی ہے، لیکن ایسے خواتین وحضرات کی بھی کمی نہیں جو اپنا نام اپنی سماجی حیثیت کے مطابق نہیں پاتے تو اسے انگریزی حروف میں چھپا لیتے ہیں۔ شاعر یہ کام تخلص سے لیتے ہیں۔ شوبز اور ماڈلنگ کے شعبوں کا رُخ کرنے والی خواتین کو اس معاملے میں پوری آزادی حاصل ہے، چناں چہ شبراتن، اللہ رکھی، پھاتاں، نذیراں، جمیلہ، شکیلہ، بانو، ۔۔۔روزی، فیری، سپنا، کاجل، بدلی، جھونکا، مہک، لہک جیسے ناموں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔
بعض والدین بڑی محبت سے اور توقعات کے ساتھ اپنے بچوں کے خوب صورت اور بہت اچھے معنی والے نام رکھتے ہیں، لیکن یہ نام اثر ڈالنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ کئی ''شریف'' نام کے برعکس نظر آئیں گے، بہت سے ''رئیس'' بسوں میں دھکے کھاتے دکھائی دیں گے، کتنے ہی ''نفیس'' میلے کپڑوں میں ملبوس ناک میں انگلی ڈالے ملیں گے۔ ہمارے محلے کے ایک خاندان میں بھائیوں کے نام حَسین، بہادر اور سخی تھے، حَسین آئینہ دیکھنے سے کتراتے اور خواتین انھیں دیکھنے سے گریزاں تھیں، بہادر اس کُتے سے بھی ڈرتے تھے جو اپنی نقاہت کے باعث بِلّی سے بھی خائف رہتا ہے اور سخی کچھ خرچ نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے تھے۔ مگر مجال ہے جو ان میں سے کسی نے اپنا نام بدلنے کا سوچا بھی ہو!
بہ ہر حال بات شروع ہوئی تھی ''جان'' صاحبہ سے، ان کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ اپنا نام اردو اور پاکستانی لب ولہجے میں لینا شروع کردیں تو ان کا مسئلہ چٹکی بجاتے میں حل ہوجائے گا، اور اگر وہ پاکستان آجاتی ہیں تب تو اپنے نام پر فخر محسوس کرنے لگیں گی، کیوں کہ یہاں وہ خود کو ایک بار ''جان'' کہہ کر متعارف کرائیں گی، اور سُننے والا سو بار انھیں جان کہہ کر مخاطب کرے گا۔
صنفی مساوات کا نعرہ اپنی جگہ، لیکن یہ لباس اور شانہ بہ شانہ چلنے تک ٹھیک ہے، جہاں تک نام کا تعلق ہے مردوں پر مردانہ اور خواتین پر زنانہ نام ہی سجتا ہے۔ دوسری صورت غلط فہمی ہی جنم دیتی ہے، جیسے اقبال بانو کے گانے سُن کر ہم سوچا کرتے تھے ان ''صاحب'' نے کیا نسوانی آواز پائی ہے۔ جب ان کے خاتون ہونے کا انکشاف ہوا تو ہم نے یہ کہہ کر خود کو تسلی دی کہ نام بانو ہوگا اور والد کا اقبال، غلط فٹنگ کے نتیجے میں آگے پیچھے ہوگیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ''نسیم'' یا ''شمیم'' کی آفس آمد پر ہم نے جھٹ پٹ منہہ دھویا، کنگھی کی اور سارے کام چھوڑ کر ملنے جاپہنچے، ر پر پہنچ کر یہ دل خراش حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ یہ ملاقاتی تلوار سی مونچھوں والے نسیم جَٹ اور چاند سا سَر لیے شمیم گُجر ہیں۔ اس موقع پر ہم نے خود پر تو لعنت بھیجی ہی اُن والدین سے بھی دل ہی دل میں شکایت کرتے رہے جو بچے کی جنس معلوم ہونے سے پہلے ہی نام رکھ لیتے ہیں۔ اب پتا نہیں وہ خود کنفیوز ہوتے ہیں یا دوسروں کو کنفیوز رکھنے کے لیے یہ حرکت فرماتے ہیں۔
''جان صاحبہ'' کی تو اپنے مردانہ نام سے جان جلتی ہے، لیکن ایسے خواتین وحضرات کی بھی کمی نہیں جو اپنا نام اپنی سماجی حیثیت کے مطابق نہیں پاتے تو اسے انگریزی حروف میں چھپا لیتے ہیں۔ شاعر یہ کام تخلص سے لیتے ہیں۔ شوبز اور ماڈلنگ کے شعبوں کا رُخ کرنے والی خواتین کو اس معاملے میں پوری آزادی حاصل ہے، چناں چہ شبراتن، اللہ رکھی، پھاتاں، نذیراں، جمیلہ، شکیلہ، بانو، ۔۔۔روزی، فیری، سپنا، کاجل، بدلی، جھونکا، مہک، لہک جیسے ناموں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔
بعض والدین بڑی محبت سے اور توقعات کے ساتھ اپنے بچوں کے خوب صورت اور بہت اچھے معنی والے نام رکھتے ہیں، لیکن یہ نام اثر ڈالنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ کئی ''شریف'' نام کے برعکس نظر آئیں گے، بہت سے ''رئیس'' بسوں میں دھکے کھاتے دکھائی دیں گے، کتنے ہی ''نفیس'' میلے کپڑوں میں ملبوس ناک میں انگلی ڈالے ملیں گے۔ ہمارے محلے کے ایک خاندان میں بھائیوں کے نام حَسین، بہادر اور سخی تھے، حَسین آئینہ دیکھنے سے کتراتے اور خواتین انھیں دیکھنے سے گریزاں تھیں، بہادر اس کُتے سے بھی ڈرتے تھے جو اپنی نقاہت کے باعث بِلّی سے بھی خائف رہتا ہے اور سخی کچھ خرچ نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے تھے۔ مگر مجال ہے جو ان میں سے کسی نے اپنا نام بدلنے کا سوچا بھی ہو!
بہ ہر حال بات شروع ہوئی تھی ''جان'' صاحبہ سے، ان کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ اپنا نام اردو اور پاکستانی لب ولہجے میں لینا شروع کردیں تو ان کا مسئلہ چٹکی بجاتے میں حل ہوجائے گا، اور اگر وہ پاکستان آجاتی ہیں تب تو اپنے نام پر فخر محسوس کرنے لگیں گی، کیوں کہ یہاں وہ خود کو ایک بار ''جان'' کہہ کر متعارف کرائیں گی، اور سُننے والا سو بار انھیں جان کہہ کر مخاطب کرے گا۔