بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد
قانون کی عملداری موثر بنا دی جائے تو تاریخ اس میں کردار ادا کرنے والوں کے دورکو سنہرے حروف سے لکھے گی
حدیث نبویﷺ ہے کہ وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں ، جو قانون کا نفاذ صرف کمزوروں پرکرتی ہیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ حضرت علیؓ کا یہ قول بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ معاشرے کفر سے نہیں، ناانصافی اور ظلم سے تباہ ہوتے ہیں۔
پھر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کے طاقتور عناصر ملک کے آئین اور قانون سے بالاتر ہوں اور ان کا اطلاق صرف معاشرے کے کمزور طبقات تک محدود رہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے محروم اور مظلوم طبقے بے اطمینانی کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں بر آمد ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ قانون کی بالادستی کی ضرورت ہی ہے، قانون توڑنے والوں کے بلا امتیاز احتساب کی بھی اشد ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر شفاف عدالتی فیصلہ آج کی اولین ضرورت کے حوالے سے سر اٹھائے یا سر جھکائے کھڑا ہے جس کا سر فخر سے اونچا کرنا انصاف اور قانون مرتب کرنے والوں کا ہی فرض ہے۔
ہمارے ہاں نظام انصاف کی سب سے زیادہ خرابی کی پہلی بڑی وجہ عدل وانصاف کے قوانین کا غیر موثر اور فرسودہ ہونا ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام انصاف آج اکیسویں صدی میں بھی 1861 میں تشکیل پانے والے مجموعہ تعزیرات پر قائم ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص ماتحت عدالتوں میں سالہا سال تک مقدمہ چلنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ سائیلین عدالتوں میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہمارا پولیس ایکٹ 1861 بھی عصر حاضرکے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پولیس کو ''فورس'' کی بجائے ''خدمت گار'' بنانے پر خاص توجہ متقاضی ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان گوکہ عوامی مفاد میں کچھ فیصلوں کے باعث مسیحا ضرور تصورکیے گئے لیکن انھیں اپنے زیادہ تر متنازعہ فیصلوں اور ریمارکس بالخصوص از خود نوٹس کے باعث یاد رکھا جائے گا ۔ انھوں نے کچھ مقبول فیصلے ضرورکیے، اس قسم کے فیصلوں کے دوررس نتائج اس لیے بہتر نہیں ہوتے کہ پھر ادارے عملی طور پر اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے کسی اور طاقت کے اشارے کے منتظر بلکہ دست نگر ہوکر رہ جاتے ہیں۔
قانون کے حوالے سے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب ایک جج یہ سمجھنا شروع کردے کہ وہ ملک کے تمام مسائل حل کرسکتا ہے تو وہ ہر چھوٹی بڑی بات کا نوٹس لینا شروع کردیتا ہے اور اسی سے اختیارات کے غلط استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اور اسی سے جڑی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ریاستیں استحکام، مضبوطی، ترقی اور خوشحالی حاصل کرتی ہیں جن کے سپریم ادارے مضبوط و مستحکم ہوں اور وہ آئین کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
یہی وہ راہ ہے جس پر ہمیں یا ہمارے ارباب اختیار کو چلنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک بحرانوں پر قابو پاکر ایک مضبوط و مستحکم ریاست بن سکے۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ چار سالوں میں ریکارڈ 11 ہزار فوجداری مقدمات نمٹائے۔ اپنے تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 55 ہزار کیسزکا فیصلہ کیا۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں ۔
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بڑی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ فیصلہ محفوظ کرنے کی بجائے اسے عدالت میں فوری سناتے ہیں اور وہ خود کم اور ان کے فیصلے زیادہ بولتے ہیں جس کا ثبوت ان کے متوازن فیصلے ہیں جس کا پرتو ان کی فل کورٹ ریفرنس میں کی جانے والی تقریر ہے جو پاکستان کے کم و بیش تمام مسائل کا احاطہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کے حل کی موثر تجویز سے بھی مزین ہے۔ یہ تقریر عدلیہ کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے جس سے یہ امید بے جا نہیں کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آئین اور قانون کی بنیاد پر ایک نئے سماج کی تشکیل میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں گے۔
حکومت کو ان کی تجویز پر بغیرکسی حیل و حجت کے عمل پیرا ہونا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے خاص طور پر چارٹر آف گورننس کی تشکیل وطن عزیزکے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی استحکام میں خشت اول ثابت ہوسکتی ہے، اس ضمن میں جس قدر جلد عملی اقدامات شروع کردیے جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
نئے چیف جسٹس کو ریکارڈ 19 لاکھ زیر التوا مقدمات کا سامنا ہوگا جن میں کرپشن میں ملوث بڑے بڑے لوگوں کو بلاامتیازکیفرکردار تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کیس، پرویز مشرف غداری کیس، اصغر خان کیس، ماڈل ٹاؤن کیس، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس، راؤ انوار، عزیر بلوچ، آیان علی یہ سب کے سب مقدمات ہمارے نئے چیف جسٹس کے فیصلوں کے منتظر ہیں اور بالخصوص لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بھی انھیں نوٹس لینا چاہیے۔
اس امر پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایسا کوئی قانون تشکیل دیا جائے کہ چھوٹے مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ اور بڑے مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر ہو اور بڑے سے بڑے مجرم کرپشن یا کھلے فراڈ میں ضمانت کا بوسیدہ قانون یکسر ختم کرکے اس کی کم سے کم 5 سال قید سخت سزا لازمی قرار پانی چاہیے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر اپنی کتاب میں کیا خوبصورت اور طاقتور بات کہتے ہیں کہ ''جب میں کسی ٹرائل بینچ پر بیٹھتا ہوں تو میرا اپنا ٹرائل ساتھ چل رہا ہوتا ہے'' ہماری دانست میں کسی بھی جسٹس کے فیصلے اور مقدمات ان کے ٹرائل ہی ہیں اور پوری قوم کو عدلیہ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ آئین پاکستان کی کئی دہائیوں سے درگت بن رہی ہے۔ اگر آئین پاکستان کو اس کی اصلی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے، قانون کی عملداری موثر بنا دی جائے تو تاریخ اس میں کردار ادا کرنے والوں کے دورکو سنہرے حروف سے لکھے گی۔
پھر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کے طاقتور عناصر ملک کے آئین اور قانون سے بالاتر ہوں اور ان کا اطلاق صرف معاشرے کے کمزور طبقات تک محدود رہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے محروم اور مظلوم طبقے بے اطمینانی کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں بر آمد ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ قانون کی بالادستی کی ضرورت ہی ہے، قانون توڑنے والوں کے بلا امتیاز احتساب کی بھی اشد ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر شفاف عدالتی فیصلہ آج کی اولین ضرورت کے حوالے سے سر اٹھائے یا سر جھکائے کھڑا ہے جس کا سر فخر سے اونچا کرنا انصاف اور قانون مرتب کرنے والوں کا ہی فرض ہے۔
ہمارے ہاں نظام انصاف کی سب سے زیادہ خرابی کی پہلی بڑی وجہ عدل وانصاف کے قوانین کا غیر موثر اور فرسودہ ہونا ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام انصاف آج اکیسویں صدی میں بھی 1861 میں تشکیل پانے والے مجموعہ تعزیرات پر قائم ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص ماتحت عدالتوں میں سالہا سال تک مقدمہ چلنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ سائیلین عدالتوں میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہمارا پولیس ایکٹ 1861 بھی عصر حاضرکے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پولیس کو ''فورس'' کی بجائے ''خدمت گار'' بنانے پر خاص توجہ متقاضی ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان گوکہ عوامی مفاد میں کچھ فیصلوں کے باعث مسیحا ضرور تصورکیے گئے لیکن انھیں اپنے زیادہ تر متنازعہ فیصلوں اور ریمارکس بالخصوص از خود نوٹس کے باعث یاد رکھا جائے گا ۔ انھوں نے کچھ مقبول فیصلے ضرورکیے، اس قسم کے فیصلوں کے دوررس نتائج اس لیے بہتر نہیں ہوتے کہ پھر ادارے عملی طور پر اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے کسی اور طاقت کے اشارے کے منتظر بلکہ دست نگر ہوکر رہ جاتے ہیں۔
قانون کے حوالے سے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب ایک جج یہ سمجھنا شروع کردے کہ وہ ملک کے تمام مسائل حل کرسکتا ہے تو وہ ہر چھوٹی بڑی بات کا نوٹس لینا شروع کردیتا ہے اور اسی سے اختیارات کے غلط استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اور اسی سے جڑی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ریاستیں استحکام، مضبوطی، ترقی اور خوشحالی حاصل کرتی ہیں جن کے سپریم ادارے مضبوط و مستحکم ہوں اور وہ آئین کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
یہی وہ راہ ہے جس پر ہمیں یا ہمارے ارباب اختیار کو چلنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک بحرانوں پر قابو پاکر ایک مضبوط و مستحکم ریاست بن سکے۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ چار سالوں میں ریکارڈ 11 ہزار فوجداری مقدمات نمٹائے۔ اپنے تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 55 ہزار کیسزکا فیصلہ کیا۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں ۔
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بڑی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ فیصلہ محفوظ کرنے کی بجائے اسے عدالت میں فوری سناتے ہیں اور وہ خود کم اور ان کے فیصلے زیادہ بولتے ہیں جس کا ثبوت ان کے متوازن فیصلے ہیں جس کا پرتو ان کی فل کورٹ ریفرنس میں کی جانے والی تقریر ہے جو پاکستان کے کم و بیش تمام مسائل کا احاطہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کے حل کی موثر تجویز سے بھی مزین ہے۔ یہ تقریر عدلیہ کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے جس سے یہ امید بے جا نہیں کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آئین اور قانون کی بنیاد پر ایک نئے سماج کی تشکیل میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں گے۔
حکومت کو ان کی تجویز پر بغیرکسی حیل و حجت کے عمل پیرا ہونا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے خاص طور پر چارٹر آف گورننس کی تشکیل وطن عزیزکے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی استحکام میں خشت اول ثابت ہوسکتی ہے، اس ضمن میں جس قدر جلد عملی اقدامات شروع کردیے جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
نئے چیف جسٹس کو ریکارڈ 19 لاکھ زیر التوا مقدمات کا سامنا ہوگا جن میں کرپشن میں ملوث بڑے بڑے لوگوں کو بلاامتیازکیفرکردار تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کیس، پرویز مشرف غداری کیس، اصغر خان کیس، ماڈل ٹاؤن کیس، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس، راؤ انوار، عزیر بلوچ، آیان علی یہ سب کے سب مقدمات ہمارے نئے چیف جسٹس کے فیصلوں کے منتظر ہیں اور بالخصوص لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بھی انھیں نوٹس لینا چاہیے۔
اس امر پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ ایسا کوئی قانون تشکیل دیا جائے کہ چھوٹے مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ اور بڑے مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر ہو اور بڑے سے بڑے مجرم کرپشن یا کھلے فراڈ میں ضمانت کا بوسیدہ قانون یکسر ختم کرکے اس کی کم سے کم 5 سال قید سخت سزا لازمی قرار پانی چاہیے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر اپنی کتاب میں کیا خوبصورت اور طاقتور بات کہتے ہیں کہ ''جب میں کسی ٹرائل بینچ پر بیٹھتا ہوں تو میرا اپنا ٹرائل ساتھ چل رہا ہوتا ہے'' ہماری دانست میں کسی بھی جسٹس کے فیصلے اور مقدمات ان کے ٹرائل ہی ہیں اور پوری قوم کو عدلیہ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ آئین پاکستان کی کئی دہائیوں سے درگت بن رہی ہے۔ اگر آئین پاکستان کو اس کی اصلی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے، قانون کی عملداری موثر بنا دی جائے تو تاریخ اس میں کردار ادا کرنے والوں کے دورکو سنہرے حروف سے لکھے گی۔