تجاوزات مہم کی سمت درست ہونی چاہیے
روشنیوں کے شہر کو عالمی معیار کا جدید خوبصورت شہر بنانے کے لیے جامع اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں
ہماری دیگر روایتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی روایت ہے کہ کوئی بھی کام بلا کسی نظام کی تشکیل اور تیاری کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عدم نظام و عدم تیاری کی روایت قیام ِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمیں ورثے میں ملی۔
تحریک ِ پاکستان کے دوران جب بھی پاکستان کے نظام سے متعلق سوال کیا جاتا تو جواب میں 1400سال قبل کے اسلامی نظام کا حوالہ دیکر لاجواب کردیا جاتا رہا ، لیکن عملی طور پر اس کے نفاذ سے متعلق کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی ۔ پھر پاکستان بن گیا ، اور ملک بننے کے ساتھ ہی جب حقیقی معنوں میں نظام کے رائج کرنے کا وقت آیا ،تو سمجھ نہیں آیا کہ اس نوزائیدہ ملک میں بدلے ہوئے زمانے اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق 1400 سال قبل والا نظام کس طرح رائج کیا جائے ؟ وہ وقت اور یہ وقت ، آج تک یہ معمہ حل نہ ہوپایا ہے۔
پھر یہ ہوا کہ اُس وقت موجود برطانوی راج کے نظام کے کچھ قوانین اورکچھ اسلامی قوانین کو ملا کر کام چلایا گیا ۔ پھر 1956، 1965اور 1973میں آئین کی تشکیل بھی انھی دونوں بنیادوں پر ہی رہی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُس پر بھی عملدرآمد سے مسلسل کترایا گیا ہے، جس وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کسی بھی چیز اور قانون کو کب اور کیسے نافذ کیا جائے ،اور خلاف ورزیوں کو کب اور کیسے روکا جائے۔۔!
یہی صورتحال غیر قانونی تجاوزات کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے ۔جب ایشیا کے سب سے خوبصورت شہر کراچی میں پاکستان بھر بلکہ بیرون ِ پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میں آکر یہاں قبضے کررہے تھے تو اُس وقت مقامی آبادی کے ہزارہا خدشات اور احتجاج پر بھی نہ انتظامیہ اور عدلیہ کو یہ قبضے ہوتے نظر آئے، نہ ان 70سالوں میں کراچی کا مزار ِ قائد سے گڈاپ و نوری آباد تک بے ترتیب پھیلاؤ ہی نظر آیا، اور نہ ہی اس تمام عرصہ کے دوران کوئی قانون و قانونی کارروائی ہی سمجھ آئی ۔
اب جب شہر 4لاکھ کی آبادی سے ڈھائی کروڑ کی بے ہنگم آبادی تک پہنچ گیا ہے تو ایک دم ملکی انتظامی مشینری خواب سے جاگی ہے، اور اب وہ اس شہر کو کم از کم 50سال پرانے کراچی کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ چلیں ''دیر آید درست آید'' کے مطابق یہ بھی اچھا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہورہا ہے کہ اس پر بلا کوئی منصوبہ بندی و جامع منصوبہ سازی کے بے ترتیب و بے ہنگم عملدرآمد پر زور دیا جارہا ہے۔
ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیے گئے پرانے و نئے قانونی و غیر قانونی قبضہ جات کی طرف کسی کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہورہی تو دوسری طرف عوام کی لیز شدہ املاک کی دستاویزات کو منسوخ کرکے مسمار کرنے پر زور دیا جارہا ہے ۔ جس کی ایک جھلک ہمیں ماہ ِ نومبر کے دوران مارکیٹوں اور مختلف کالونیوں و محلوں میں نظر آئی ۔
ایسی یکطرفہ کارروائی پر عوام نے بڑے پیمانے پر شور بھی مچایا ۔ پھر عوام کی شدید برہمی اور مزاحمت کی بناء پر وقتی طور پر آپریشن روک دیا گیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت ِ عظمیٰ سے نظر ثانی کی درخواست کی گئی ۔ لیکن گذشتہ ہفتے عدالت نے پھر حکم جاری کیا ہے کہ ہر حال میں تجاوزات ہٹائی جائیں ۔ جب کہ سندھ حکومت کو سختی سے ہدایات جاری کیں کہ کراچی کو 1950کے اصل ماسٹر پلان کے مطابق بحال کیا جائے ، اہم شاہراہوں سے شادی ہال و دیگر کمرشل سرگرمیوں سمیت شہر بھر میں مختلف زمینوں سے کمرشل سرگرمیاں بھی ختم کی جائیں ، اور ملیر ندی کو بھی قبضوں سے واگذار کروایا جائے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مندرجہ بالا احکامات کے ساتھ ساتھ شہر بھر میں موجود رفاحی و فلاحی پلاٹوں سے بھی قبضے ہٹاکر انھیں عوامی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات ، شاہراہ فیصل سمیت دیگر اہم شاہراہوں سے تمام شادی ہال اور دیگر کمرشل عمارات کو ہٹانے ، محمود آباد کے واٹر بورڈ ٹریٹمنٹ پلانٹ نمبر 2-کے ارد گرد کے تجاوزات اور کینٹونمنٹ علاقوں سے سینما و دیگر کمرشل عمارتوں کو بھی ہٹانے کے احکامات جاری کیے ہیں ۔ عدالت نے جہاں دیگر تمام اُمور میں فیصلے دیے ہیں وہیں ڈی ایچ اے کے تیزی سے بڑھتے قدموں پر بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ۔
حالانکہ بہتر ہوتا کہ اس سے متعلق بھی کوئی نتیجہ کُن حکم دیا جاتا ، تاکہ کوئی کارروائی ہوتی اور کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کارروائی ایسے ہی کسی بڑے طبقے ، اداروں اور سرکاری سرپرستی کی حامل تجاوزات کو ہٹانے سے ہو، جوکہ اس معاملے کا مؤثر حل بھی ہے ، کیونکہ جب بھی احتساب و کارروائی اوپر سے نیچے کی طرف جاتی ہے تو اس کے اثرات معاشرے میں بہتری اور تعمیر کی جانب محسوس کیے جاتے ہیں جب کہ نیچے سے اوپر جانے والا احتساب یا کارروائی معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے ۔
ویسے بھی اس ملک کا ماضی گواہ ہے کہ یہاں کبھی بھی حکمراں اور بااثر افراد و اداروں کو ہمیشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور تمام تر کارروائیاں عوام اور نچلے طبقے کے خلاف کرکے خانہ پوری کی جاتی رہی ہے ۔ کیونکہ2سال قبل اسی طرح کے امور پر مبنی نیب کی جانب سے جاری کردہ278صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق کراچی بھر میں موجود ڈھائی ہزار ایکڑ پر موجود 50کھرب مالیت کے رفاحی و فلاحی پلاٹوں پر مشتمل زمین پربھی ریاستی و سرکاری سرپرستی میں قبضے کیے گئے ہیں ۔
جہاں نہ صرف لینڈ مافیا و قبضہ مافیا ان فلاحی پلاٹوں پر قابض ہیں بلکہ ان پلاٹوں پرکئی سیاسی تنظیموں اور کالعدم انتہاپسند تنظیموں کے دفاتر بھی قائم ہیں تو پانی و ہوائی جہازوں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ افغان اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارتخانے بھی قائم ہیں ۔ اور تو اور کے پی ٹی ، سول ایوی ایشن اور واٹر بورڈ جیسے اداروں کے پلاٹس بھی غیر قانونی طریقوں سے الاٹ کیے جاتے رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ شہر میں رعایتی قیمتوں پر الاٹ کیے گئے صنعتی پلاٹوں کو بھی کمرشل کرکے بیچا گیا ہے ۔ جن کی غیر قانونی طور پر سرکاری الاٹمنٹ بھی کی گئی ہے لیکن تجاوزات کے پہلے مرحلے میں بھی ان کے خلاف کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو شادی ہال و دیگر کمرشل عمارتیں ہٹانے سے متعلق لائحہ عمل کے لیے محض دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے ، جوکہ بہت کم ہے کیونکہ شہر بھر کے شادی ہال غیر قانونی نہیں بلکہ اُن میں بہت سوں کو لیز ، ملکیتی اسناد اور قانونی رجسٹریشن حاصل ہے جن کی اسکروٹنی کے بغیر کارروائی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگی ۔ اور یہی بات شہر بھر کی رہائشی عمارات، کالونیوں ، سوسائٹیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ جنھیں لیز ، رجسٹریشن ، بجلی اور گیس و دیگر سہولیات سے متعلق اداراتی NOCاور رجسٹریشن حاصل ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ کے وزیر بلدیات کی جانب سے رہائشی تجاوزات ہٹانے کی کارروائی سے انکار بھی سامنے آیا ہے ۔ اُن کے مطابق'' عدالت میں نظرثانی کی اپیل کی جائے گی اور اگر دباؤ بڑھا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے لیکن یہ کارروائی نہیں کریں گے'' ۔ ان کا موقف ہے کہ'' اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے گھر نہیں کرسکتے ، اس سے ایک انسانی المیہ کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ''۔دیکھا جائے تو یہ ٹھیک بھی ہے ۔
کیونکہ اس ملک میں آدھے سے زیادہ شہریوں کو ویسے ہی سائبان کی سہولت میسر نہیں جوکہ ریاست و حکومت کا فرض ہے ۔ فرائض سرانجام نہ دے سکنے والی سرکار یا ریاست الٹا لوگوں سے ذاتی کوششوں سے بنائے گئے سائبان بھی چھین لے تو یہ زیادتی ہوگی، وزیر بلدیات کا یہ بھی موقف ہے کہ ''ماضی میں سٹی حکومت نے 26شاہراہوں کو کمرشل کرنے کا بل پاس کیا جسے عدالتی توثیق بھی حاصل ہے۔ اب وہاں موجود شادی ہالوں اور کمرشل عمارتوں کو کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے ؟ اور لاکھوں لوگوں کو کس طرح بے گھر کیا جاسکتا ہے ''۔لیکن اس بے ترتیب و بے ہنگم شہر کو ماحول وانسان دوست جدید و مثالی شہر بنانے کے لیے کچھ سخت اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاملات کس طرح اور کون سرانجام دے سکتا ہے ۔ اس تمام تر مسئلے کا حل یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی نگرانی و سربراہی ہی موزوں ہوگی ۔اس کے لیے عدالت پانی کمیشن کی طرز پر ایک عملدرآمدی کمیشن تشکیل دے جوکہ اتنی بااختیار ہو کہ وہ بلا امتیاز تمام اداروں کی تجاوزات اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کی صلاحیت و حیثیت کی حامل ہو۔ اس کی نگرانی میں شہر بھر کے ماسٹرپلان کے مطابق منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو متبادل قانونی رہائشی سہولیات کی فراہمی کی بنیاد پر کارروائی کرے اور ہر پلاٹ ، کالونی اور سوسائٹی کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے کر مؤثر احکامات جاری کرے ۔
اگر غور کیا جائے تو اس کام کی شروعات کے 2اہم مورچے ہیں ۔ سب سے پہلا قدم شہر سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے شہر میں موجود 80لاکھ غیر قانونی لوگوں کو ڈی پورٹ کرنے اور آئندہ کے لیے ان کی روک تھام سے متعلق قانون سازی کرنے کے احکامات و انتظامات سے کیا جاسکتا ہے ، جس سے شہر پر آبادی کا بوجھ قدرے کم ہوگا اور کارروائی کو آگے بڑھانے میں سہولت اور ماسٹر پلان کی تشکیل بھی آسان ہوگی ۔ جب کہ دوسرا اہم قدم ہائی ویز تک پھیلنے والی تمام اسکیموں کو مسترد کرکے عوام کو سستے اور معیاری گھروں کی فراہمی کی اسکیم پر غور و فکر کرنا چاہیے ، جوکہ رہائشی تجاوزات آپریشن کے متاثرین اور شہر میں موجود کم آمدن والے بے گھر مقامی افراد کو ایڈجسٹ کرنے میں معاون ہو کیونکہ بالآخر یہ ریاست و حکومت کی ذمے داری ہے ۔
دیکھا جائے تو کراچی کی ساحلی پٹی اور سمندری کنارے پر قائم وفاقی اداروں کی تعمیرات بھی تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں ، جوکہ کہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام پر ، کہیں پورٹ قاسم کے نام پر ۔ تمام ادارے اپنی اسٹریٹجک تنصیبات و دفاتر کے علاوہ یہاں بڑے پیمانے پر رہائشی اسکیمیں بناچکے ہیں ۔ اب تو ساحل کی حد تک کا تعین نہیں رہا ۔ماضی کی گذری و سلطان آباد (مائی کلاچی روڈ )کریک کو تو انھوں نے مٹی ڈال کر ختم کردیا ہے اور اس پر تعمیرات کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
یہی نہیں بلکہ کورنگی کریک کی جانب ساحل پر دو دریا ، سی ویو وغیرہ کے مقام پر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں کبھی سمندر تھا ہی نہیں ۔چوںکہ یہ سمندر میں مٹی ڈال کر کی گئی تجاوزات ہیں اور آئین کی آرٹیکل (2) 172 کے مطابق 200ناٹیکل میل سمندری حدود اور اُس کے وسائل صوبائی ملکیت ہے ۔ اس لیے ساحلی پٹی اور سمندرمیں ہونے والی تعمیرات و وسائل پر مکمل طور پر صوبہ کو اختیار دیتے ہوئے سندھ کی صوبائی حکومت کو وہاں بھی کارروائی کا اختیار بذریعہ کمیشن دیا جائے ، اور تمام تر شہر کو بلدیاتی و صوبائی نظام کے ماتحت کیا جائے ۔ کیونکہ یہاں تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹیکس معاملات سے پولیس معاملات تک سب کے سب سندھ حکومت اور سندھ پولیس سے علیحدہ ہیں۔
اس لیے اس تمام کام کی سرانجامی کے لیے عدالتی کمیشن ہی مؤثر پلیٹ فارم ہوگا۔ کمیشن اس بات کے لیے بھی بااختیار ہو کہ وفاقی و دیگر اداروں کو اپنی سرگرمیاں ریاستی و سرکاری اُمور کی سرانجام دہی تک محدود رکھنے کا پابند بناسکے اور کمرشل سرگرمیوں سے باز رکھنے کی بھی مجاز ہو تاکہ کسی بھی نام پر بڑے پیمانے پر ریئل اسٹیٹ اور دیگر کمرشل کاموں میں شامل ہوکر استثنیٰ کی بنیاد پر شہر کی حالت ِ زار کرنے سے اداروں کو بھی روکا جاسکے ۔ اس لیے اب اگرتجاوزات کے خلاف یہ مہم پرائیویٹ اداروںو دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے قائم کردہ تجاوزات ہٹانے سے دوبارہ شروع کی جاتی ہے تو شاید یہ مہم کامیاب ہوجائے اور پھر اس پر عوام کا رد عمل بھی شاید اتنا سخت نہ ہو۔ لیکن اگر یہ آپریشن ماضی کی طرح صرف عوامی املاک کو مسمار کرنے کے لیے ہوگا تو پھر یہ کامیاب بھی نہیں ہوسکے گا اور عوام کا شدید رد عمل بھی سامنے آنے کا امکان ہے ۔
اس تمام کارروائی کے دوران مقامی طور پر صدیوں سے آباد لوگوں کے حقوق اور انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھی سامنے رکھا جانا ضروری امر ہے ۔ کیونکہ ضلع ملیر و شرقی کراچی کے مقامی لوگ تمام بلڈروں کے خلاف نہ صرف سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے ہیں بلکہ انھی عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے رہے ہیں ۔ پھر دیکھا جائے تو اگر یہ تمام تر کام شہر میں ماحولیاتی خرابی کو دور کرکے پُر فضا شہر بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں تو اس کے لیے شہر میں مقامی ماحول دوست (نیم وپیپل)اور ساحلی (مینگروز) درخت لگانے اور بڑے پیمانے پر موجود ماحول دشمن درختوں (کانوکارپس) کو جڑ سے اُکھاڑنے کے بھی عدالتی کمیشن سے احکامات جاری کیے جائیں ۔
پھر عرصہ دراز سے جاری اس پبلک پرائیوٹ اداراتی قبضہ جات میں ملکی و ریاستی اداروں ، مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سرکاری ریوینیو و بلدیاتی اداروں خصوصاً بڑے بڑے عملداروں کے اس کالے دھندے میں ملوث ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں ۔ اس لیے کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے کہ ماضی میں بالخصوص گذشتہ 30سالوں میں کس طرح جعلی دستاویزات اور لیز و این او سیز دی گئی ہیں اور ان تمام کاموں میں ملوث عملداروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔
خصوصاً تجاوزات کی زمینوں پر بجلی ، گیس و دیگر سہولیات کی فراہمی میں ملوث اداروں اورعملداروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ عوام کو یوں نہ لگے کہ یہ کارروائی محض اُن کے خلاف ہورہی ہے بلکہ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی کوشش ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ انتظامیہ اور ریاست تک سب ہی مفاد ِ عامہ ( Public Interest)کے لیے ہی کام کرنے کے پابند ہیں تو سب کو اپنے اس بنیادی فرض کی سرانجامی کے لیے کام کرتے ہوئے شہر قائد کو ماضی کے خوشبوؤں اور روشنیوں کے شہر کو عالمی معیار کا جدید خوبصورت شہر بنانے کے لیے جامع اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
تحریک ِ پاکستان کے دوران جب بھی پاکستان کے نظام سے متعلق سوال کیا جاتا تو جواب میں 1400سال قبل کے اسلامی نظام کا حوالہ دیکر لاجواب کردیا جاتا رہا ، لیکن عملی طور پر اس کے نفاذ سے متعلق کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی ۔ پھر پاکستان بن گیا ، اور ملک بننے کے ساتھ ہی جب حقیقی معنوں میں نظام کے رائج کرنے کا وقت آیا ،تو سمجھ نہیں آیا کہ اس نوزائیدہ ملک میں بدلے ہوئے زمانے اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق 1400 سال قبل والا نظام کس طرح رائج کیا جائے ؟ وہ وقت اور یہ وقت ، آج تک یہ معمہ حل نہ ہوپایا ہے۔
پھر یہ ہوا کہ اُس وقت موجود برطانوی راج کے نظام کے کچھ قوانین اورکچھ اسلامی قوانین کو ملا کر کام چلایا گیا ۔ پھر 1956، 1965اور 1973میں آئین کی تشکیل بھی انھی دونوں بنیادوں پر ہی رہی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُس پر بھی عملدرآمد سے مسلسل کترایا گیا ہے، جس وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کسی بھی چیز اور قانون کو کب اور کیسے نافذ کیا جائے ،اور خلاف ورزیوں کو کب اور کیسے روکا جائے۔۔!
یہی صورتحال غیر قانونی تجاوزات کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے ۔جب ایشیا کے سب سے خوبصورت شہر کراچی میں پاکستان بھر بلکہ بیرون ِ پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میں آکر یہاں قبضے کررہے تھے تو اُس وقت مقامی آبادی کے ہزارہا خدشات اور احتجاج پر بھی نہ انتظامیہ اور عدلیہ کو یہ قبضے ہوتے نظر آئے، نہ ان 70سالوں میں کراچی کا مزار ِ قائد سے گڈاپ و نوری آباد تک بے ترتیب پھیلاؤ ہی نظر آیا، اور نہ ہی اس تمام عرصہ کے دوران کوئی قانون و قانونی کارروائی ہی سمجھ آئی ۔
اب جب شہر 4لاکھ کی آبادی سے ڈھائی کروڑ کی بے ہنگم آبادی تک پہنچ گیا ہے تو ایک دم ملکی انتظامی مشینری خواب سے جاگی ہے، اور اب وہ اس شہر کو کم از کم 50سال پرانے کراچی کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ چلیں ''دیر آید درست آید'' کے مطابق یہ بھی اچھا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہورہا ہے کہ اس پر بلا کوئی منصوبہ بندی و جامع منصوبہ سازی کے بے ترتیب و بے ہنگم عملدرآمد پر زور دیا جارہا ہے۔
ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیے گئے پرانے و نئے قانونی و غیر قانونی قبضہ جات کی طرف کسی کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہورہی تو دوسری طرف عوام کی لیز شدہ املاک کی دستاویزات کو منسوخ کرکے مسمار کرنے پر زور دیا جارہا ہے ۔ جس کی ایک جھلک ہمیں ماہ ِ نومبر کے دوران مارکیٹوں اور مختلف کالونیوں و محلوں میں نظر آئی ۔
ایسی یکطرفہ کارروائی پر عوام نے بڑے پیمانے پر شور بھی مچایا ۔ پھر عوام کی شدید برہمی اور مزاحمت کی بناء پر وقتی طور پر آپریشن روک دیا گیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت ِ عظمیٰ سے نظر ثانی کی درخواست کی گئی ۔ لیکن گذشتہ ہفتے عدالت نے پھر حکم جاری کیا ہے کہ ہر حال میں تجاوزات ہٹائی جائیں ۔ جب کہ سندھ حکومت کو سختی سے ہدایات جاری کیں کہ کراچی کو 1950کے اصل ماسٹر پلان کے مطابق بحال کیا جائے ، اہم شاہراہوں سے شادی ہال و دیگر کمرشل سرگرمیوں سمیت شہر بھر میں مختلف زمینوں سے کمرشل سرگرمیاں بھی ختم کی جائیں ، اور ملیر ندی کو بھی قبضوں سے واگذار کروایا جائے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مندرجہ بالا احکامات کے ساتھ ساتھ شہر بھر میں موجود رفاحی و فلاحی پلاٹوں سے بھی قبضے ہٹاکر انھیں عوامی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات ، شاہراہ فیصل سمیت دیگر اہم شاہراہوں سے تمام شادی ہال اور دیگر کمرشل عمارات کو ہٹانے ، محمود آباد کے واٹر بورڈ ٹریٹمنٹ پلانٹ نمبر 2-کے ارد گرد کے تجاوزات اور کینٹونمنٹ علاقوں سے سینما و دیگر کمرشل عمارتوں کو بھی ہٹانے کے احکامات جاری کیے ہیں ۔ عدالت نے جہاں دیگر تمام اُمور میں فیصلے دیے ہیں وہیں ڈی ایچ اے کے تیزی سے بڑھتے قدموں پر بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ۔
حالانکہ بہتر ہوتا کہ اس سے متعلق بھی کوئی نتیجہ کُن حکم دیا جاتا ، تاکہ کوئی کارروائی ہوتی اور کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کارروائی ایسے ہی کسی بڑے طبقے ، اداروں اور سرکاری سرپرستی کی حامل تجاوزات کو ہٹانے سے ہو، جوکہ اس معاملے کا مؤثر حل بھی ہے ، کیونکہ جب بھی احتساب و کارروائی اوپر سے نیچے کی طرف جاتی ہے تو اس کے اثرات معاشرے میں بہتری اور تعمیر کی جانب محسوس کیے جاتے ہیں جب کہ نیچے سے اوپر جانے والا احتساب یا کارروائی معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے ۔
ویسے بھی اس ملک کا ماضی گواہ ہے کہ یہاں کبھی بھی حکمراں اور بااثر افراد و اداروں کو ہمیشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور تمام تر کارروائیاں عوام اور نچلے طبقے کے خلاف کرکے خانہ پوری کی جاتی رہی ہے ۔ کیونکہ2سال قبل اسی طرح کے امور پر مبنی نیب کی جانب سے جاری کردہ278صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق کراچی بھر میں موجود ڈھائی ہزار ایکڑ پر موجود 50کھرب مالیت کے رفاحی و فلاحی پلاٹوں پر مشتمل زمین پربھی ریاستی و سرکاری سرپرستی میں قبضے کیے گئے ہیں ۔
جہاں نہ صرف لینڈ مافیا و قبضہ مافیا ان فلاحی پلاٹوں پر قابض ہیں بلکہ ان پلاٹوں پرکئی سیاسی تنظیموں اور کالعدم انتہاپسند تنظیموں کے دفاتر بھی قائم ہیں تو پانی و ہوائی جہازوں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ افغان اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارتخانے بھی قائم ہیں ۔ اور تو اور کے پی ٹی ، سول ایوی ایشن اور واٹر بورڈ جیسے اداروں کے پلاٹس بھی غیر قانونی طریقوں سے الاٹ کیے جاتے رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ شہر میں رعایتی قیمتوں پر الاٹ کیے گئے صنعتی پلاٹوں کو بھی کمرشل کرکے بیچا گیا ہے ۔ جن کی غیر قانونی طور پر سرکاری الاٹمنٹ بھی کی گئی ہے لیکن تجاوزات کے پہلے مرحلے میں بھی ان کے خلاف کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو شادی ہال و دیگر کمرشل عمارتیں ہٹانے سے متعلق لائحہ عمل کے لیے محض دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے ، جوکہ بہت کم ہے کیونکہ شہر بھر کے شادی ہال غیر قانونی نہیں بلکہ اُن میں بہت سوں کو لیز ، ملکیتی اسناد اور قانونی رجسٹریشن حاصل ہے جن کی اسکروٹنی کے بغیر کارروائی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگی ۔ اور یہی بات شہر بھر کی رہائشی عمارات، کالونیوں ، سوسائٹیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ جنھیں لیز ، رجسٹریشن ، بجلی اور گیس و دیگر سہولیات سے متعلق اداراتی NOCاور رجسٹریشن حاصل ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ کے وزیر بلدیات کی جانب سے رہائشی تجاوزات ہٹانے کی کارروائی سے انکار بھی سامنے آیا ہے ۔ اُن کے مطابق'' عدالت میں نظرثانی کی اپیل کی جائے گی اور اگر دباؤ بڑھا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے لیکن یہ کارروائی نہیں کریں گے'' ۔ ان کا موقف ہے کہ'' اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے گھر نہیں کرسکتے ، اس سے ایک انسانی المیہ کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ''۔دیکھا جائے تو یہ ٹھیک بھی ہے ۔
کیونکہ اس ملک میں آدھے سے زیادہ شہریوں کو ویسے ہی سائبان کی سہولت میسر نہیں جوکہ ریاست و حکومت کا فرض ہے ۔ فرائض سرانجام نہ دے سکنے والی سرکار یا ریاست الٹا لوگوں سے ذاتی کوششوں سے بنائے گئے سائبان بھی چھین لے تو یہ زیادتی ہوگی، وزیر بلدیات کا یہ بھی موقف ہے کہ ''ماضی میں سٹی حکومت نے 26شاہراہوں کو کمرشل کرنے کا بل پاس کیا جسے عدالتی توثیق بھی حاصل ہے۔ اب وہاں موجود شادی ہالوں اور کمرشل عمارتوں کو کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے ؟ اور لاکھوں لوگوں کو کس طرح بے گھر کیا جاسکتا ہے ''۔لیکن اس بے ترتیب و بے ہنگم شہر کو ماحول وانسان دوست جدید و مثالی شہر بنانے کے لیے کچھ سخت اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاملات کس طرح اور کون سرانجام دے سکتا ہے ۔ اس تمام تر مسئلے کا حل یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی نگرانی و سربراہی ہی موزوں ہوگی ۔اس کے لیے عدالت پانی کمیشن کی طرز پر ایک عملدرآمدی کمیشن تشکیل دے جوکہ اتنی بااختیار ہو کہ وہ بلا امتیاز تمام اداروں کی تجاوزات اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کی صلاحیت و حیثیت کی حامل ہو۔ اس کی نگرانی میں شہر بھر کے ماسٹرپلان کے مطابق منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو متبادل قانونی رہائشی سہولیات کی فراہمی کی بنیاد پر کارروائی کرے اور ہر پلاٹ ، کالونی اور سوسائٹی کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے کر مؤثر احکامات جاری کرے ۔
اگر غور کیا جائے تو اس کام کی شروعات کے 2اہم مورچے ہیں ۔ سب سے پہلا قدم شہر سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے شہر میں موجود 80لاکھ غیر قانونی لوگوں کو ڈی پورٹ کرنے اور آئندہ کے لیے ان کی روک تھام سے متعلق قانون سازی کرنے کے احکامات و انتظامات سے کیا جاسکتا ہے ، جس سے شہر پر آبادی کا بوجھ قدرے کم ہوگا اور کارروائی کو آگے بڑھانے میں سہولت اور ماسٹر پلان کی تشکیل بھی آسان ہوگی ۔ جب کہ دوسرا اہم قدم ہائی ویز تک پھیلنے والی تمام اسکیموں کو مسترد کرکے عوام کو سستے اور معیاری گھروں کی فراہمی کی اسکیم پر غور و فکر کرنا چاہیے ، جوکہ رہائشی تجاوزات آپریشن کے متاثرین اور شہر میں موجود کم آمدن والے بے گھر مقامی افراد کو ایڈجسٹ کرنے میں معاون ہو کیونکہ بالآخر یہ ریاست و حکومت کی ذمے داری ہے ۔
دیکھا جائے تو کراچی کی ساحلی پٹی اور سمندری کنارے پر قائم وفاقی اداروں کی تعمیرات بھی تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں ، جوکہ کہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام پر ، کہیں پورٹ قاسم کے نام پر ۔ تمام ادارے اپنی اسٹریٹجک تنصیبات و دفاتر کے علاوہ یہاں بڑے پیمانے پر رہائشی اسکیمیں بناچکے ہیں ۔ اب تو ساحل کی حد تک کا تعین نہیں رہا ۔ماضی کی گذری و سلطان آباد (مائی کلاچی روڈ )کریک کو تو انھوں نے مٹی ڈال کر ختم کردیا ہے اور اس پر تعمیرات کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
یہی نہیں بلکہ کورنگی کریک کی جانب ساحل پر دو دریا ، سی ویو وغیرہ کے مقام پر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں کبھی سمندر تھا ہی نہیں ۔چوںکہ یہ سمندر میں مٹی ڈال کر کی گئی تجاوزات ہیں اور آئین کی آرٹیکل (2) 172 کے مطابق 200ناٹیکل میل سمندری حدود اور اُس کے وسائل صوبائی ملکیت ہے ۔ اس لیے ساحلی پٹی اور سمندرمیں ہونے والی تعمیرات و وسائل پر مکمل طور پر صوبہ کو اختیار دیتے ہوئے سندھ کی صوبائی حکومت کو وہاں بھی کارروائی کا اختیار بذریعہ کمیشن دیا جائے ، اور تمام تر شہر کو بلدیاتی و صوبائی نظام کے ماتحت کیا جائے ۔ کیونکہ یہاں تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹیکس معاملات سے پولیس معاملات تک سب کے سب سندھ حکومت اور سندھ پولیس سے علیحدہ ہیں۔
اس لیے اس تمام کام کی سرانجامی کے لیے عدالتی کمیشن ہی مؤثر پلیٹ فارم ہوگا۔ کمیشن اس بات کے لیے بھی بااختیار ہو کہ وفاقی و دیگر اداروں کو اپنی سرگرمیاں ریاستی و سرکاری اُمور کی سرانجام دہی تک محدود رکھنے کا پابند بناسکے اور کمرشل سرگرمیوں سے باز رکھنے کی بھی مجاز ہو تاکہ کسی بھی نام پر بڑے پیمانے پر ریئل اسٹیٹ اور دیگر کمرشل کاموں میں شامل ہوکر استثنیٰ کی بنیاد پر شہر کی حالت ِ زار کرنے سے اداروں کو بھی روکا جاسکے ۔ اس لیے اب اگرتجاوزات کے خلاف یہ مہم پرائیویٹ اداروںو دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے قائم کردہ تجاوزات ہٹانے سے دوبارہ شروع کی جاتی ہے تو شاید یہ مہم کامیاب ہوجائے اور پھر اس پر عوام کا رد عمل بھی شاید اتنا سخت نہ ہو۔ لیکن اگر یہ آپریشن ماضی کی طرح صرف عوامی املاک کو مسمار کرنے کے لیے ہوگا تو پھر یہ کامیاب بھی نہیں ہوسکے گا اور عوام کا شدید رد عمل بھی سامنے آنے کا امکان ہے ۔
اس تمام کارروائی کے دوران مقامی طور پر صدیوں سے آباد لوگوں کے حقوق اور انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھی سامنے رکھا جانا ضروری امر ہے ۔ کیونکہ ضلع ملیر و شرقی کراچی کے مقامی لوگ تمام بلڈروں کے خلاف نہ صرف سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے ہیں بلکہ انھی عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے رہے ہیں ۔ پھر دیکھا جائے تو اگر یہ تمام تر کام شہر میں ماحولیاتی خرابی کو دور کرکے پُر فضا شہر بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں تو اس کے لیے شہر میں مقامی ماحول دوست (نیم وپیپل)اور ساحلی (مینگروز) درخت لگانے اور بڑے پیمانے پر موجود ماحول دشمن درختوں (کانوکارپس) کو جڑ سے اُکھاڑنے کے بھی عدالتی کمیشن سے احکامات جاری کیے جائیں ۔
پھر عرصہ دراز سے جاری اس پبلک پرائیوٹ اداراتی قبضہ جات میں ملکی و ریاستی اداروں ، مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سرکاری ریوینیو و بلدیاتی اداروں خصوصاً بڑے بڑے عملداروں کے اس کالے دھندے میں ملوث ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں ۔ اس لیے کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے کہ ماضی میں بالخصوص گذشتہ 30سالوں میں کس طرح جعلی دستاویزات اور لیز و این او سیز دی گئی ہیں اور ان تمام کاموں میں ملوث عملداروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔
خصوصاً تجاوزات کی زمینوں پر بجلی ، گیس و دیگر سہولیات کی فراہمی میں ملوث اداروں اورعملداروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ عوام کو یوں نہ لگے کہ یہ کارروائی محض اُن کے خلاف ہورہی ہے بلکہ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی کوشش ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ انتظامیہ اور ریاست تک سب ہی مفاد ِ عامہ ( Public Interest)کے لیے ہی کام کرنے کے پابند ہیں تو سب کو اپنے اس بنیادی فرض کی سرانجامی کے لیے کام کرتے ہوئے شہر قائد کو ماضی کے خوشبوؤں اور روشنیوں کے شہر کو عالمی معیار کا جدید خوبصورت شہر بنانے کے لیے جامع اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔