سارے رنگ
سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے
صد لفظی کتھا
استثنا
رضوان طاہر مبین
''مسخرہ۔۔۔!''
اَمر زور سے ہنسا۔
''وہ تم جیسا نہیں، اس میں مذاق اڑانے والی کیا بات ہے؟''
ثمر نے پوچھا۔
''ہنسی آجاتی ہے یار۔۔۔'' امر بولا۔
''سوچو تو وہ ایک عجیب کردار ہے!'' 'ثمر نے کہا۔
''وہ کیوں۔۔۔؟'' امر حیران ہوا۔
''ایک دن وقتِ فجر اسے مسجد کی سیڑھیوں کی جھاڑو دیتے دیکھا۔۔۔!
کل بازار میں وہ 'حی الا الفلاح' کی صدا دیے جارہا تھا۔۔۔''
ثمر رکا، پھر بولا:
''دراصل ہم 'امتحان' میں ہیں اور 'مُمتحن' نے اُس سے پرچا لے کر کہا ہے کہ 'جائو، تم پاس۔۔۔!'
اب وہ بے فکر نہ پھرے تو اور کیا کرے۔۔۔!''
۔۔۔
سیاست داں۔۔۔ سیاحت سے 'اجازت' تک!
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل وعیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔ سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔ اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ''اسٹاک ایکسچینج '' میں تبدیل ہوجاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ''لوٹا'' کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ''گندا انڈا'' قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آئو بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ''یوٹرنز'' قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں ، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ 'میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔' عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ''وی'' (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل واڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎
اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
(تصنیف کتنے آدمی تھے؟ سے چنا گیا)
۔۔۔
خانہ پری
کیا آپ نے کبھی یہ سنا ہے۔۔۔؟
آج آپ کی مٹھی میں سماجانے والا 'کمپیوٹر' پہلے پہل پورے کمرے جتنا بڑا ہوتا تھا۔۔۔ پہلے صرف آواز سننے کے واسطے گراموفون ہوتے تھے، جن میں 'ریکارڈ' لگانے کے جھمیلے ہوتے۔۔۔ یہ زیادہ پرانی بات تو نہیں جب عکس بندی کے واسطے بڑے بڑے پردے لگانے کے جتن ہوتے، آج یہ سب سہولتیں ہماری جیبوں میں ہے! اسی طرح پہلے کی فلمیں خاموش ہوتی تھیں، پردے پر صرف ایک منظر چل رہا ہوتا تھا، جب کہ ایک شخص کھڑا ہوکر منظر کی تشریح کرتا جاتا کہ اس میں یہ کردار کون ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد باآواز فلمیں آئیں اور پتا نہیں گزشتہ کچھ عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں، لیکن کیا آپ نے کبھی کسی ماہر کو پرانے طریقوں کی ہتک کرتے دیکھا، کیا کسی نے یہ کہا کہ پہلے کیا فرسودہ کمپیوٹر ہوتا تھا؟ کیلکولیٹر کو استعمال کرنے کے واسطے کتنی مشکل ہوتی تھی، 'ٹائپ رائٹر' کے جھنجٹ کس قدر ہوتے تھے۔۔ ارے یہ 'فوٹو کاپی' تک تو الٹی ہوتی تھی، جسے آئینے میں دیکھ کر پڑھا جاتا تھا۔۔۔ رابطوں کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح خط لکھے جاتے، جو کئی کئی دن بعد ملتے۔۔۔ آج پلک جھپکتے میں دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کیا آج کسی موجد نے ہنسی اڑائی کہ پہلے کی ایجادات کرنے والے کتنے احمق تھے؟
کرکٹ کو دیکھیں ابھی چند سو سال پہلے تک اس کی وکٹ میں دو گِلّیاں ہوتی تھیں، تیسری 'گِلّی' کا اضافہ یوں کیا کہ معلوم نہیں چلتا تھا کہ درمیان سے گیند گزری یا نہیں۔۔۔ اور تو اور کرکٹ میچ کو ہی دیکھ لیں، پانچ روز سے ایک روزہ اور ایک روز سے چند گھنٹوں تک سکڑنے کا سفر ہمارے آپ کے سامنے کی بات ہے، اسی طرح صرف بلے بازی کے ریکارڈز کو دیکھ لیں کہ کتنی تیزی سے رنز بنانے کی رفتار بڑھی ہے۔۔۔ لیکن کیا کبھی کسی نے کہا کہ پہلے کیا فضول طریقہ تھا کرکٹ کا؟ کبھی 100 سنچریاں بنانے والے سچن ٹنڈولکر نے آسٹریلیا کے مہان بلے باز ڈان بریڈ مین یا کسی اور پرانے کرکٹر پر بھپتی کسی کہ وہ کتنا سست کھیلتے تھے، میں تو انہیں کچھ نہیں مانتا؟
گزشتہ سال عصر حاضر کے بہت بڑے سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ گزرے، انہوں نے دسیوں انکشافات کر ڈالے، کائنات کے اسرار سے لے کر انسانی مستقبل تک، لیکن کبھی انہوں نے اپنے پیش روئوں کو ٹھکرایا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں تھے؟
یقیناً نہیں۔۔۔! کیوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ آج وہ 'آگے' کا کام تب ہی کر پار ہے ہیں، کیوں کہ اِن سے پہلے والے وہ ارتقائی کام کر گئے، جو ہمیں یہاں تک لایا۔ اگر وہ یہ سب نہ کرتے تو یہ 'بچکانہ' حرکتیں آج ہمیں کرنا پڑتیں۔۔۔ لیکن افسوس ہمارے عہد کے ناول نگار، اردو کے اولین ناولوں میں شمار ہونے والے 'امرائو جان ادا' کو تحقیر آمیز انداز میں 'بچکانہ' کہہ کر اس کو ناول کی حیثیت سے ہی نکال دیتے ہیں۔ یہ 'ادب' کے لوگ پچھلوں کی 'بے ادبی' کر کے یہ نہیں سوچتے کہ اگلا زمانہ پھر ان کا 'ادب' کیسے کرے گا؟ بھئی آپ کو تو مرزا محمد ہادی رسوا کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اگر انیسویں صدی میں وہ یہ 'بچکانہ' ناول نہ لکھتے، تو آج آپ کے ''بڑے'' ناولوں کو کتنا 'بچکانہ' ہونا پڑتا، اور پھر شاید آپ احسان ناشناسی کے اس 'بہائو' میں نہ بہتے!
۔۔۔
میں مرگیا تھا۔۔۔!
محمد تقی احمد
خدا خدا کرکے کرفیو سے جان چھوٹی تو جنت نظیر کشمیر میں ہڑتال ہوگئی۔۔۔ اور اُدھر ڈبل جالی کے پار ڈھونڈھتے تکتے کچھ ستم رسیدہ کشمیری مائیں۔۔۔ اس میں میری اماں بھی تھیں۔۔۔ 'اماں !! کیوں آجاتی ہو بار بار۔۔۔ او بہن کیوں تم بھی بڑی بی کو۔۔۔' ایک رحم دل صورت نے 'صلاح' دی۔
'چلو امی ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ' اس نے ادھ موئی ماں کو سہارا دیا۔
نہیں ملے گا بھائی ہم سے۔
اُسے یاد آیا، ہفتے کا دن تھا اور وہ ورک شاپ میں گاڑیوں کی ٹھکا ٹھک سے رات کو چُھوٹ کر گھر آسکا تھا، تو بہن نسیمہ کو بھی خوب چَڑایا تھا، اماں سے بھی چھیڑ چھاڑ کی، نہا دھوکر کھانا کھا لیا تھا، مگر بھیا ابھی تک گھر نہیں آئے تھے، اکثر ہمارے سونے کے بعد لوٹتے تھے، چناں چہ میں نے بے فکری سے دوستوں میں گپیں ہانکیں، واپس آکر گرمی اور حبس کی وجہ سے چارپائی صحن میں بچھائی، تھکن بہت تھی جلد ہی آنکھ لگ گئی، پھر جانے کیا وقت تھا کہ دسیوں قابض بھارتی فوجی ہمارے چھوٹے سے گھر میں گھسے چلے آئے۔ شور سن کر نسیمہ اور اماں گھبرا کر کمرے سے باہر آگئیں ''کیا ہوا، کون ہو'
سلیم کہاں ہے؟ کدھر ہے وہ ۔۔۔۔کی اولاد! کس بَل میں گھسا ہوا ہے۔۔۔!
صندوقچے اور الماری سے لے کر پورے گھر تک، سب چند منٹ میں الٹ پلٹ کر دیا تھا۔۔۔نسیمہ کے جہیز کے واسطے رکھے کانچ کے کچھ نئے برتن بھی ایک چھناکے سے چکنا چور ہوگئے تو امّاں نے ایک ہتھڑ اپنے سینے پر مارا تھا، یہ انہوں نے کپڑے سی سی کر ہی تو جمع کیا تھا۔۔۔ مگر تلاش میں آئے اہل کار ہم پر کئی ٹھڈے اور تھپڑ مار چکے تھے۔۔۔
''بتا کمینے کلیم کہاں ہے؟'' مجھ سے پوچھا جارہا تھا۔ اماں کی دہائیاں جاری تھیں، نسیمہ کی سہمی ہوئی آواز، بھائی جان گھر پر نہیں آئے۔۔۔ میرے بھائی کو مت مارو!
''چپ کر جا۔۔۔ !'' وہ ایک گالی کے ساتھ نسیمہ پر غرایا تو میرا ضبط بھی ٹوٹ گیا اور میں نے اسی آہنگ کے ساتھ اسے تنبیہہ کی: 'تو چپ کر، میں تیری زبان کھینچ لوں گا۔۔۔!' پھر چاروں اُور سے کیا کیا میرے جسم پر پڑا، کچھ پتا نہ چلا، وہ کئی تھے اور میں تنہا، اس لیے جسموں پر غالب انہی کو آنا تھا سو وہ آگئے۔
''او بڑھیا سلیم کو لے آنا اور اسے لے جانا۔۔۔!'' جتنی جلدی آئے گا اتنی ہڈیاں بچ جائیں گی۔ جب تک اس کا اُبال کم کرتے ہیں اس کا، بڑی گرمی ہے نا۔۔۔''
جانے وہ کیسے گھسیٹ رہے تھے۔۔۔ میرے سارے کپڑے پھٹ چکے تھے، اب میری کمر اور پیندے براہ راست تارکول زدہ سڑک کو گھیس رہے تھے۔۔۔ ماں بھی سامنے۔۔۔ میری بہن نسیمہ بھی، قابض بھارتی اہل کار اس سے بے پروا شکاریوں کی طرح ٹھٹھے لگا رہے تھے۔ ارے کون سی چوٹ کیسی چوٹ، سب تکلیف ختم ! روح تار تار ہوئی تھی، میں تو مرگیا تھا۔ کتنی دیر لگی انہیں، گھر سے چند قدم دور موبائل میں جب اٹھاکر پھینکا گیا، تو میرے جسم پر لباس کے نام پر کچھ دھجیاں ہی رہ گئی تھیں، قمیص تو ہاتھا پائی میں فنا ہو چکی تھی، اب پھٹا ہوا بنیان کہیں کہیں اپنے وجود کا پتا دیتا تھا۔
اب خود بتائو بھلا، مردہ انسان کی کیا ملاقات ہونا، بھائی تو آتنگ وادی کہہ کر مار دیے گئے، اب بوڑھی ماں اور جوان بہن کا آخری سہارا میں ہوں، لیکن میں تو اُسی دن سے مردہ ہوں، اب اماں اور نسیمہ، ایک مردہ سے کیوں کر مل پائیں گی!
۔۔۔
سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر!
انتظار حسین
سوچنا چھوڑ دو یا پھر اس شہر کو چھوڑ دو! جس نے سوچا وہ کام سے گیا۔۔۔! ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے، اور ایک وقت کشتیاں بنانے کا۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا، جب ہم سے اگلوں نے ساحل پر اتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اب بپھرتا ہوا سمندر ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔ سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر کی جڑیں نہیں ہوتیں، وہ تو پانی پر تیرتے ہیں! کراچی کا خمیر تو جھگیوں سے اٹھا ہے۔ یہ جو ایرا غیرا اپنے آپ کو کراچی والا بتانے لگتا ہے، ان پر مت جائو۔ اصلی کراچی والا وہ ہے، جس نے جھگی میں بسر کی ہے۔n
(ناول 'آگے سمندر ہے' کے کچھ اقتباسات)
۔۔۔
سورج کے خلاف
بغاوت!
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
یوں تو میں کراچی سے بہت دور رہتا ہوں، لیکن میں نے سماجی ذرایع اِبلاغ پر سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کی والدہ کو گلو گیر اور مضبوط لہجے میں گفتگو کرتے دیکھا، تو سوچا اللہ نے ماں کو بھی کیسا دل دیا ہے کہ وہ اپنا جوان لخت جگر کھو کر ایک کرب میں تو ضرور مبتلا ہے، لیکن مایوس نہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی یاد میں شمعیں جلانے کی تقریب میں جس خوب صورتی اور دل نشین انداز میں اشعار پڑھے، مجھے وہ انقلابی عرب شاعرہ 'نازک الملائکہ' کا پرتو لگیں، جن کی ایک نظم ''سورج کے خلاف بغاوت'' بہت مقبول ہوئی:
خبردار! بھٹکی ہوئی اداسی کو اذنِ باریابی مت دینا
یا پھر میری آنکھوں میں آہ بھرتے
آنسو کو غلط بیانی نہ کرنے دینا
اداسی اور غمگینی میری بغاوت اور میری مزاحمت
کی ایک شکل ہے۔۔۔
رات کی ہتک اور توہین
شانِ خداوند میری گواہی دے!
خبردار! میرے خدوخال پہ اداسی نہ آنے دینا
میرا گورا رنگ یا میرے لرزتے کپکپاتے جذبات
تمہارے سامنے غلط بیانی کرتے ہیں
اگر میری بھٹکاتی ہوئی اور شاعر کے لاوے کی طرح
بہتی ہوئی میری اداسی میرے ماتھے پر جھلملاتی ہوئی نظر آئے
تو یہ صرف اس بات کا احساس ہو گا
کہ میری روح نے درد کا اثر قبول کیا ہے
اور ایک آنسو زندگی کی طاقت سے
خوف زدہ ہے
یہ اسی امر کی پیش گوئی ہو گی!
استثنا
رضوان طاہر مبین
''مسخرہ۔۔۔!''
اَمر زور سے ہنسا۔
''وہ تم جیسا نہیں، اس میں مذاق اڑانے والی کیا بات ہے؟''
ثمر نے پوچھا۔
''ہنسی آجاتی ہے یار۔۔۔'' امر بولا۔
''سوچو تو وہ ایک عجیب کردار ہے!'' 'ثمر نے کہا۔
''وہ کیوں۔۔۔؟'' امر حیران ہوا۔
''ایک دن وقتِ فجر اسے مسجد کی سیڑھیوں کی جھاڑو دیتے دیکھا۔۔۔!
کل بازار میں وہ 'حی الا الفلاح' کی صدا دیے جارہا تھا۔۔۔''
ثمر رکا، پھر بولا:
''دراصل ہم 'امتحان' میں ہیں اور 'مُمتحن' نے اُس سے پرچا لے کر کہا ہے کہ 'جائو، تم پاس۔۔۔!'
اب وہ بے فکر نہ پھرے تو اور کیا کرے۔۔۔!''
۔۔۔
سیاست داں۔۔۔ سیاحت سے 'اجازت' تک!
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل وعیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔ سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔ اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ''اسٹاک ایکسچینج '' میں تبدیل ہوجاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ''لوٹا'' کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ''گندا انڈا'' قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آئو بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ''یوٹرنز'' قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں ، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ 'میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔' عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ''وی'' (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل واڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎
اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
(تصنیف کتنے آدمی تھے؟ سے چنا گیا)
۔۔۔
خانہ پری
کیا آپ نے کبھی یہ سنا ہے۔۔۔؟
آج آپ کی مٹھی میں سماجانے والا 'کمپیوٹر' پہلے پہل پورے کمرے جتنا بڑا ہوتا تھا۔۔۔ پہلے صرف آواز سننے کے واسطے گراموفون ہوتے تھے، جن میں 'ریکارڈ' لگانے کے جھمیلے ہوتے۔۔۔ یہ زیادہ پرانی بات تو نہیں جب عکس بندی کے واسطے بڑے بڑے پردے لگانے کے جتن ہوتے، آج یہ سب سہولتیں ہماری جیبوں میں ہے! اسی طرح پہلے کی فلمیں خاموش ہوتی تھیں، پردے پر صرف ایک منظر چل رہا ہوتا تھا، جب کہ ایک شخص کھڑا ہوکر منظر کی تشریح کرتا جاتا کہ اس میں یہ کردار کون ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد باآواز فلمیں آئیں اور پتا نہیں گزشتہ کچھ عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں، لیکن کیا آپ نے کبھی کسی ماہر کو پرانے طریقوں کی ہتک کرتے دیکھا، کیا کسی نے یہ کہا کہ پہلے کیا فرسودہ کمپیوٹر ہوتا تھا؟ کیلکولیٹر کو استعمال کرنے کے واسطے کتنی مشکل ہوتی تھی، 'ٹائپ رائٹر' کے جھنجٹ کس قدر ہوتے تھے۔۔ ارے یہ 'فوٹو کاپی' تک تو الٹی ہوتی تھی، جسے آئینے میں دیکھ کر پڑھا جاتا تھا۔۔۔ رابطوں کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح خط لکھے جاتے، جو کئی کئی دن بعد ملتے۔۔۔ آج پلک جھپکتے میں دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کیا آج کسی موجد نے ہنسی اڑائی کہ پہلے کی ایجادات کرنے والے کتنے احمق تھے؟
کرکٹ کو دیکھیں ابھی چند سو سال پہلے تک اس کی وکٹ میں دو گِلّیاں ہوتی تھیں، تیسری 'گِلّی' کا اضافہ یوں کیا کہ معلوم نہیں چلتا تھا کہ درمیان سے گیند گزری یا نہیں۔۔۔ اور تو اور کرکٹ میچ کو ہی دیکھ لیں، پانچ روز سے ایک روزہ اور ایک روز سے چند گھنٹوں تک سکڑنے کا سفر ہمارے آپ کے سامنے کی بات ہے، اسی طرح صرف بلے بازی کے ریکارڈز کو دیکھ لیں کہ کتنی تیزی سے رنز بنانے کی رفتار بڑھی ہے۔۔۔ لیکن کیا کبھی کسی نے کہا کہ پہلے کیا فضول طریقہ تھا کرکٹ کا؟ کبھی 100 سنچریاں بنانے والے سچن ٹنڈولکر نے آسٹریلیا کے مہان بلے باز ڈان بریڈ مین یا کسی اور پرانے کرکٹر پر بھپتی کسی کہ وہ کتنا سست کھیلتے تھے، میں تو انہیں کچھ نہیں مانتا؟
گزشتہ سال عصر حاضر کے بہت بڑے سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ گزرے، انہوں نے دسیوں انکشافات کر ڈالے، کائنات کے اسرار سے لے کر انسانی مستقبل تک، لیکن کبھی انہوں نے اپنے پیش روئوں کو ٹھکرایا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں تھے؟
یقیناً نہیں۔۔۔! کیوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ آج وہ 'آگے' کا کام تب ہی کر پار ہے ہیں، کیوں کہ اِن سے پہلے والے وہ ارتقائی کام کر گئے، جو ہمیں یہاں تک لایا۔ اگر وہ یہ سب نہ کرتے تو یہ 'بچکانہ' حرکتیں آج ہمیں کرنا پڑتیں۔۔۔ لیکن افسوس ہمارے عہد کے ناول نگار، اردو کے اولین ناولوں میں شمار ہونے والے 'امرائو جان ادا' کو تحقیر آمیز انداز میں 'بچکانہ' کہہ کر اس کو ناول کی حیثیت سے ہی نکال دیتے ہیں۔ یہ 'ادب' کے لوگ پچھلوں کی 'بے ادبی' کر کے یہ نہیں سوچتے کہ اگلا زمانہ پھر ان کا 'ادب' کیسے کرے گا؟ بھئی آپ کو تو مرزا محمد ہادی رسوا کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اگر انیسویں صدی میں وہ یہ 'بچکانہ' ناول نہ لکھتے، تو آج آپ کے ''بڑے'' ناولوں کو کتنا 'بچکانہ' ہونا پڑتا، اور پھر شاید آپ احسان ناشناسی کے اس 'بہائو' میں نہ بہتے!
۔۔۔
میں مرگیا تھا۔۔۔!
محمد تقی احمد
خدا خدا کرکے کرفیو سے جان چھوٹی تو جنت نظیر کشمیر میں ہڑتال ہوگئی۔۔۔ اور اُدھر ڈبل جالی کے پار ڈھونڈھتے تکتے کچھ ستم رسیدہ کشمیری مائیں۔۔۔ اس میں میری اماں بھی تھیں۔۔۔ 'اماں !! کیوں آجاتی ہو بار بار۔۔۔ او بہن کیوں تم بھی بڑی بی کو۔۔۔' ایک رحم دل صورت نے 'صلاح' دی۔
'چلو امی ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ' اس نے ادھ موئی ماں کو سہارا دیا۔
نہیں ملے گا بھائی ہم سے۔
اُسے یاد آیا، ہفتے کا دن تھا اور وہ ورک شاپ میں گاڑیوں کی ٹھکا ٹھک سے رات کو چُھوٹ کر گھر آسکا تھا، تو بہن نسیمہ کو بھی خوب چَڑایا تھا، اماں سے بھی چھیڑ چھاڑ کی، نہا دھوکر کھانا کھا لیا تھا، مگر بھیا ابھی تک گھر نہیں آئے تھے، اکثر ہمارے سونے کے بعد لوٹتے تھے، چناں چہ میں نے بے فکری سے دوستوں میں گپیں ہانکیں، واپس آکر گرمی اور حبس کی وجہ سے چارپائی صحن میں بچھائی، تھکن بہت تھی جلد ہی آنکھ لگ گئی، پھر جانے کیا وقت تھا کہ دسیوں قابض بھارتی فوجی ہمارے چھوٹے سے گھر میں گھسے چلے آئے۔ شور سن کر نسیمہ اور اماں گھبرا کر کمرے سے باہر آگئیں ''کیا ہوا، کون ہو'
سلیم کہاں ہے؟ کدھر ہے وہ ۔۔۔۔کی اولاد! کس بَل میں گھسا ہوا ہے۔۔۔!
صندوقچے اور الماری سے لے کر پورے گھر تک، سب چند منٹ میں الٹ پلٹ کر دیا تھا۔۔۔نسیمہ کے جہیز کے واسطے رکھے کانچ کے کچھ نئے برتن بھی ایک چھناکے سے چکنا چور ہوگئے تو امّاں نے ایک ہتھڑ اپنے سینے پر مارا تھا، یہ انہوں نے کپڑے سی سی کر ہی تو جمع کیا تھا۔۔۔ مگر تلاش میں آئے اہل کار ہم پر کئی ٹھڈے اور تھپڑ مار چکے تھے۔۔۔
''بتا کمینے کلیم کہاں ہے؟'' مجھ سے پوچھا جارہا تھا۔ اماں کی دہائیاں جاری تھیں، نسیمہ کی سہمی ہوئی آواز، بھائی جان گھر پر نہیں آئے۔۔۔ میرے بھائی کو مت مارو!
''چپ کر جا۔۔۔ !'' وہ ایک گالی کے ساتھ نسیمہ پر غرایا تو میرا ضبط بھی ٹوٹ گیا اور میں نے اسی آہنگ کے ساتھ اسے تنبیہہ کی: 'تو چپ کر، میں تیری زبان کھینچ لوں گا۔۔۔!' پھر چاروں اُور سے کیا کیا میرے جسم پر پڑا، کچھ پتا نہ چلا، وہ کئی تھے اور میں تنہا، اس لیے جسموں پر غالب انہی کو آنا تھا سو وہ آگئے۔
''او بڑھیا سلیم کو لے آنا اور اسے لے جانا۔۔۔!'' جتنی جلدی آئے گا اتنی ہڈیاں بچ جائیں گی۔ جب تک اس کا اُبال کم کرتے ہیں اس کا، بڑی گرمی ہے نا۔۔۔''
جانے وہ کیسے گھسیٹ رہے تھے۔۔۔ میرے سارے کپڑے پھٹ چکے تھے، اب میری کمر اور پیندے براہ راست تارکول زدہ سڑک کو گھیس رہے تھے۔۔۔ ماں بھی سامنے۔۔۔ میری بہن نسیمہ بھی، قابض بھارتی اہل کار اس سے بے پروا شکاریوں کی طرح ٹھٹھے لگا رہے تھے۔ ارے کون سی چوٹ کیسی چوٹ، سب تکلیف ختم ! روح تار تار ہوئی تھی، میں تو مرگیا تھا۔ کتنی دیر لگی انہیں، گھر سے چند قدم دور موبائل میں جب اٹھاکر پھینکا گیا، تو میرے جسم پر لباس کے نام پر کچھ دھجیاں ہی رہ گئی تھیں، قمیص تو ہاتھا پائی میں فنا ہو چکی تھی، اب پھٹا ہوا بنیان کہیں کہیں اپنے وجود کا پتا دیتا تھا۔
اب خود بتائو بھلا، مردہ انسان کی کیا ملاقات ہونا، بھائی تو آتنگ وادی کہہ کر مار دیے گئے، اب بوڑھی ماں اور جوان بہن کا آخری سہارا میں ہوں، لیکن میں تو اُسی دن سے مردہ ہوں، اب اماں اور نسیمہ، ایک مردہ سے کیوں کر مل پائیں گی!
۔۔۔
سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر!
انتظار حسین
سوچنا چھوڑ دو یا پھر اس شہر کو چھوڑ دو! جس نے سوچا وہ کام سے گیا۔۔۔! ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے، اور ایک وقت کشتیاں بنانے کا۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا، جب ہم سے اگلوں نے ساحل پر اتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اب بپھرتا ہوا سمندر ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔ سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر کی جڑیں نہیں ہوتیں، وہ تو پانی پر تیرتے ہیں! کراچی کا خمیر تو جھگیوں سے اٹھا ہے۔ یہ جو ایرا غیرا اپنے آپ کو کراچی والا بتانے لگتا ہے، ان پر مت جائو۔ اصلی کراچی والا وہ ہے، جس نے جھگی میں بسر کی ہے۔n
(ناول 'آگے سمندر ہے' کے کچھ اقتباسات)
۔۔۔
سورج کے خلاف
بغاوت!
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
یوں تو میں کراچی سے بہت دور رہتا ہوں، لیکن میں نے سماجی ذرایع اِبلاغ پر سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کی والدہ کو گلو گیر اور مضبوط لہجے میں گفتگو کرتے دیکھا، تو سوچا اللہ نے ماں کو بھی کیسا دل دیا ہے کہ وہ اپنا جوان لخت جگر کھو کر ایک کرب میں تو ضرور مبتلا ہے، لیکن مایوس نہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی یاد میں شمعیں جلانے کی تقریب میں جس خوب صورتی اور دل نشین انداز میں اشعار پڑھے، مجھے وہ انقلابی عرب شاعرہ 'نازک الملائکہ' کا پرتو لگیں، جن کی ایک نظم ''سورج کے خلاف بغاوت'' بہت مقبول ہوئی:
خبردار! بھٹکی ہوئی اداسی کو اذنِ باریابی مت دینا
یا پھر میری آنکھوں میں آہ بھرتے
آنسو کو غلط بیانی نہ کرنے دینا
اداسی اور غمگینی میری بغاوت اور میری مزاحمت
کی ایک شکل ہے۔۔۔
رات کی ہتک اور توہین
شانِ خداوند میری گواہی دے!
خبردار! میرے خدوخال پہ اداسی نہ آنے دینا
میرا گورا رنگ یا میرے لرزتے کپکپاتے جذبات
تمہارے سامنے غلط بیانی کرتے ہیں
اگر میری بھٹکاتی ہوئی اور شاعر کے لاوے کی طرح
بہتی ہوئی میری اداسی میرے ماتھے پر جھلملاتی ہوئی نظر آئے
تو یہ صرف اس بات کا احساس ہو گا
کہ میری روح نے درد کا اثر قبول کیا ہے
اور ایک آنسو زندگی کی طاقت سے
خوف زدہ ہے
یہ اسی امر کی پیش گوئی ہو گی!