بُک شیلف

مصنف اعتراف کرتے ہیں کہ اس اہم دستاویز کی تیاری میں ان سے اہم واقعات سے صرف نظر ہوا ہے

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

QUETTA:
پاکستان پیپلزپارٹی کے 50 سال
مصنف: اقبال یوسف
صفحات:352، قیمت:600 روپے
ناشر: اطراف مطبوعات، کراچی

ماہ نامہ 'اطراف' میں 20 اقساط میں شایع ہونے والا سلسلہ ہے، جو نومبر 2016ء میں جاری ہوا تھا۔ مصنف اعتراف کرتے ہیں کہ اس اہم دستاویز کی تیاری میں ان سے اہم واقعات سے صرف نظر ہوا ہے، کیوں کہ ان کی زیادہ تر سرگرمیاں کراچی اور سندھ میں رہیں۔ کہنے کو یہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی تاریخ ہے، لیکن قومی سیاست پر یہ ایک اہم دستاویز ہے، پاکستانیات کے کسی طالب علم کے لیے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس کتاب میں پیپلزپارٹی کی تاریخ کے ساتھ اگر کوئی اور چیز دکھائی دیتی ہے وہ اس شہر کا گریہ ہے، اس لیے اسے صرف 'پیپلزپارٹی کی تاریخ' قرار دینا اسے محدود کرنے کے مترادف ہوگا۔

وہ بہت سے واقعات کو گواہ کے طور پر نقل کرتے ہیں تو کہیں ان کی جانب سے 'پی پی پی' کے موقف کی ترجمانی اور دفاع بھی ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ایسی تفصیلات ہیں جو کسی اور کتاب میں نہیں، یا شاذ ہی کہیں اور پڑھنے کو ملیں۔ بعض جگہوں پر وہ کراچی کی سیاست سے ذاتی دل چسپی اور گہری نظر کی بنیاد پر نتائج بھی اخذ کرتے ہیں اور بہت سے حوالوں کے ساتھ تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں، نئے سوالات بھی اٹھائے ہیں جو بہت سوں کے لیے محض سوال ہوں، لیکن محققین کے لیے ایک مفروضہ ہیں، جس کی بنیاد پر کوئی تحقیقی مقالہ استوار ہو سکتا ہے۔ اس کتاب میں متوسط طبقے کے سیاسی کارکن کی اپنے شہر اور دھرتی سے درد صاف محسوس ہوتا ہے۔ ممتاز صحافی محمود شام کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں کسی سیاسی جماعت کا 50 سال سرگرم رہنا خود ایک واقعہ ہے، ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ بھی اب کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بے شمار تاریخی تصاویر سے آراستہ اس کتاب کو 12 ابواب میں بانٹا گیا ہے۔

پیر سابر متی
مصنف:اندولال جنک
مترجم: محمد ظفر احمد انصاری
ترتیب واہتمام: راشد اشرف
صفحات:649، قیمت:500 روپے
ناشر: بزم تخلیق ادب، پاکستان

یہ اندولال جنک کی کتاب Gandhi As I Know Him کا اردو ترجمہ ہے، جو 1943ء میں دلی سے چھپا۔ اس کتاب میں موہن داس گاندھی کا فلسفۂ زندگی، ان کے بدلتے سیاسی تیور، فرمودات، احکامات اور ان کے محرکات اور ارشادات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے، یوں کہیے کہ مصنف اندور لال جنک نے موہن داس گاندھی سے اپنی ملاقاتوں اور مشاہدات کا احوال سپرد قلم کیا، جس میں ان کے اپنے خیالات بطور تبصرہ بھی شامل ہیں، مندرجات میں تیکھا پن کہیں کہیں انتہائی درشت بھی ہو جاتا ہے، لیکن مصنف نے ساتھ ہی اُن کی خوبیوں کو بھی مذکور کیا ہے۔ ہندوستان بھر میں ان کے دورے، مختلف مسائل پر ان کے ردعمل سے ان کی اسیری اور قید وبند کی کارگزاری بھی شامل ہے۔ کتاب مجموعی طور پر گاندھی جی کے سیاسی سفر کا ایک تنقیدی جائزہ ہے، جس میں جستہ جستہ اُنہی کے اقوال اور باتیں نقل کر کے مافی الضمیر بیان کیا گیا ہے۔ اس ضخیم تاریخی دستاویز کی ایک خوبی اس کا 77 چھوٹے مضامین میں تقسیم ہونا ہے، جس سے عام قاری کو پڑھنے میں سہولت رہتی ہے تو تاریخ کے طالب علم کو متعلقہ مضمون تک پہنچنے میں دشواری نہیں ہوتی۔



'دھندلے سائے' اور
'بستی بستی روشن تھی'
مصنف:ایم اے عثمانی
ترتیب واہتمام:راشد اشرف
صفحات:428، قیمت:500 روپے
ناشر:بزم تخلیق ادب، پاکستان

اگرچہ یہ دونوں کتب لگ بھگ تین عشرے قبل ہی شایع ہوئیں، لیکن ان کے نایاب ہونے کے سبب انہیں آج کے قارئین تک پہنچانے کے لیے یک جا کر کے دوبارہ شایع کیا گیا ہے۔ پہلی کتاب 'دھندلے سائے' میں کچھ خیالی اور کچھ نیم خیالی خاکے ہیں، جو 'نوائے وقت' اور ماہ نامہ قومی ڈائجسٹ میں اشاعت پذیر ہوئے۔ مصنف کہتے ہیں کہ 'یہ کردار فرشتے نہیں، انسان تھے اس لیے میں نے انہیں انسان ہی رکھا ہے۔' ان کے 'نیم خیالی' ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ ہم ان 'خاکوں' کے حامل افراد کو اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی کسی 'اسم معرفہ' کے بہ جائے نواب صاحب، پیر صاحب، شیخ صاحب، بھائی صاحب وغیرہ جیسے 'اسم نکرہ' یہ احساس دلاتے ہیں کہ یہ ہمارے سماج اور ہمارے ساتھ ہی زندگی کرنے والے افراد ہیں۔

البتہ گزرے زمانے کے اِن کرداروں کے بیان میں بیتے ہوئے وقت کی بازگشت ملتی ہے، وہیں یہ احساس بھی بہت شدت سے ہوتا ہے کہ وقت کی تیز رفتاری اور بدلاؤ میں، اب گئے زمانے کے یہ کردار بھی 'فنا' کے گھاٹ اترتے جا رہے ہیں، بھئی دیکھیے نا کہاں مصنف میں 1857ء کے 'غدر' کے زمانے کے المیے اور ورثے پہنچے اور کہاں اب 'غدر ثانی' (1947ء) کے گواہ بھی ہم سے اٹھتے جاتے ہیں۔۔۔! 'دھندلے سائے' کے 15 'کرداروں' کا بیان مکمل ہونے کے بعد دوسری کتاب 'بستی بستی روشن تھی' شروع ہوتی ہے، جس میں نو مضامین استوار ہیں۔ دونوں کتب کی مشترکہ اشاعت میں ایم اے عثمانی پر بھی دو خاکے شامل کیے گئے ہیں، جو قارئین کے لیے اس کتاب کی ایک اضافی خصوصیت ہے۔

سحر ہونے تک
مصنف: آغا جانی کشمیری
ترتیب واہتمام: راشد اشرف
صفحات:241، قیمت:450 روپے
ناشر:بزم تخلیق ادب پاکستان


یہ کتاب 1966ء میں ہندوستان میں شایع ہوئی، اب یہ زہیر کشمیری کے تعاون سے قارئین تک پہنچ رہی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ کتاب صرف اس لیے لکھی ہے تاکہ دوسروں کو ان ٹھوکروں سے بچا سکیں، جو انہوں نے کھائی ہیں۔ وہ اپنی اس خودنوشت میں قارئین کو ان کرداروں سے متعارف بھی کراتے ہیں، جنہیں انہوں نے دیکھا یا جن سے ان کا واسطہ پڑا۔ جستہ جستہ دیکھے اور خود پر بیتے واقعات بھی رقم کرتے چلے جاتے ہیں اور شاید بہت سے ایسے پہلو جن سے اکثر آپ بیتی لکھنے والے سرسری سے گزر جاتے ہیں، انہوں نے اپنی بات کہی ہے۔ یہی بات راجندر سنگھ بیدی نے بھی لکھی ہے کہ ''جس ایمان دار اور ہمت سے اپنے خاندان کے پس منظر کی نقاشی کرتے ہوئے وہ سی باتیں کہہ گئے ہیں جو ہمارے افسانے میں تو آئی ہیں، لیکن سوانح میں کبھی نہیں آئیں۔'' فاقوں کے زمانے میں جب مصنف کی خدمات کراچی میں مانگی جاتی ہیں، تو وہ تو شریک حیات کے دباؤ پر نہیں جاتے، لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ ہندو رائٹر اور ڈائریکٹر تو بہ آسانی پاکستان ہو آئے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ ہندو جائے، تو آزاد خیال اور مسلمان جائے تو پاکستانی قرار دیا جائے۔ بٹوارے سے قبل جب ہندو مسلم ہم آہنگی پر مشتمل فلم 'تحفہ' ڈائریکٹ کی، تو انہیں کہا گیا کہ فلمی دنیا کے ابوالکلام آزاد کہلاؤ گے، مگر تقسیم کے بعد ہندوؤں نے اسے اتروادیا، دوسری طرف مسلمانوں نے جواباً کراچی لاہور میں بھی یہی فعل کیا۔ خود نوشت میں سفرنامے کے بھی پورے رنگ دکھائی دیتے ہیں، بحری راستے بیرون ملک سفر کرتے سمے انہیں کراچی میں اپنا یار دکھائی دے جاتا ہے، اور ہجرت کا قصہ چل نکلتا ہے، اس طرح کے بے شمار قصے پوری کتاب میں شروع سے آخر تک دراز ہیں، جنہیں بغیر کسی عنوان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹا ہوا ہے، کہنے کو یہ ایک فلم نگر کے راہی کی بپتا ہے، لیکن اس میں سیاست وسماج سے لے کر سفر اور تاریخ تک کے بہت سے حوالے مل جائیں گے۔

علامہ راشد الخیری اور ان کے خاندان کی ادبی خدمات کا تحقیقی جائزہ
مصنف: ڈاکٹر داؤد عثمانی
صفحات:528، قیمت:660 روپے
ناشر:انجمن ترقی اردو، کراچی

اردو ادب میں علامہ راشد الخیری کا خاندان، میر انیس، الطاف حسین حالی، سجاد حیدر یلدرم اور محمد حسین آزاد کے خانوادوں کی طرح ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ شاہ جہاں کے عہد میں عرب سے یہاں آنے والا یہ خاندان اردو کی اتنی خدمت کرے گا، یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا، دوسرا دل چسپ اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اس خاندان کا شجرہ عکرمہؓ بن ابوجہل سے جا ملتا ہے۔

اب تک راشد الخیری کی حیات وخدمات اور ان کے ناولوں کے حوالے تو تحقیق کی گئی تھی، لیکن پورے خاندان کو تو ہندوستان میں بھی کہیں دائرۂ تحقیق میں نہیں لایا گیا، تاہم اب اس حوالے سے تشنگی دور ہو گئی ہے۔ محقق نے پی ایچ ڈی کے اس مقالے میں راشد الخیری کے پھیلے ہوئے خاندان کے سارے افراد کو کسی نہ کسی طرح مذکور کر دیا ہے۔ آنے والے وقت میں اس موضوع کا کوئی بھی محقق اس سے ضرور استفادہ کرے گا۔ راشد الخیری کے خانوادے پر لکھا گیا یہ پہلا تحقیقی مقالہ لکھنے پر محقق داؤد عثمانی کا نام سب سے پہلے درج ہوگیا۔ ابوالخیر کشفی کے زیر نگرانی شروع ہونے والی یہ تحقیق ڈاکٹر ظفر اقبال کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ کتاب کے آخر میں 'کتابیات' کے ساتھ ذکر کی گئی شخصیات اور کتب ورسائل کا اشاریہ بھی موجود ہے۔

معمارانِ جلیس
مصنف: جلیس سلاسل
صفحات:320، قیمت:500 روپے
ناشر:الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروس

اس کتاب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، آغا شورش کاشمیری، عبدالکریم عابد، میجر جنرل غلام عمر، شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ، علامہ عبدالقدوس ہاشمی، سلیم احمد، نسیم حجازی اور پروفیسر ڈاکٹر مسکین حجازی پر تفصیلی مضامین شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب وزیراعظم عمران خان کی نذر کرتے ہوئے انہیں 'انٹرنیشنل پاکستانی کلب تھنکر فورم' کا مکمل تعاون پیش کیا ہے۔ مصنف نے تمام شخصیات کے نہ صرف تمام عہدوں کو بھی جلی حرف میں جگہ دی ہے، بلکہ ان کے حوالے سے دیگر مشاہیر کی آرا کو بھی باقاعدہ سرخیاں جما کر درج کیا ہے۔ وہ بہ قلم خود لکھتے ہیں کہ میں تو انہیں خاکے کہتا ہوں، آپ انہیں ادب یا صحافت میں کسی صنف کا درجہ دے سکتے ہیں، کتاب کی وجہ عنوان مذکور کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ ہوں دراصل انہی کی محبتوں اور شفقتوں کے نتیجے میں ہوں۔ خواجہ رضی حیدر 'پیش لفظ' میں لکھتے ہیں کہ ''ان تحریروں میں ان تمام نظریاتی، معاشرتی اور معاشی سوالات کے جوابات ہیں، جو فی زمانہ زبان زد خاص وعام ہیں۔'' کتاب کے آخری 29 صفحات میں مصنف کے بارے میں مختلف نمایاں شخصیات کی آرا بھی شایع کی گئی ہے۔




بے چین شہر کی پرسکون لڑکی
مصنف:امین صدر الدین بھایانی
صفحات:176، قیمت:400 روپے
ناشر: 'کتاب والا'

اس مجموعے میں مصنف کے 11 افسانے اور چار افسانچے شامل ہیں، جو مختلف رسائل وجرائد میں شایع ہوئے، بہت سوں کے آخر میں جریدے کا نام درج ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ افسانے ادبی رسائل کے ساتھ ڈائجسٹوں کی زینت بھی بنے، جنہیں بہت سے ناقدین 'کمرشل ادب' کہہ کر 'سنجیدہ ادب' سے جدا کر دیتے ہیں، تاہم محمد حمید شاہد کے بقول ''وہ اِدھر اُدھر کے مناظر کاٹ پیٹ کر اور فقط کرداروں کو نگاہ میں رکھ کر ماجرا نہیں کہتے بلکہ اردو کے نمایاں ترین افسانہ نگار غلام عباس کی طرح کھلی آنکھ میں سما جانے والے پورے منظر کے اندر سے رفتہ رفتہ کہانی برآمد کرتے ہیں۔'' کتاب کا عنوان ہونے والے ایک افسانے 'بے چین شہر کی پرسکون لڑکی' میں انہوں نے ایک خاص بیماری کو مرکزی خیال کیا۔ دوسرے افسانے 'ابو نے جھوٹ کیوں بولا؟' کا اَنت بھی قاری کی توقع کے برعکس برآمد ہوتا ہے۔ تاہم کتاب میں ''حادثے کے بارے میں جان کر'' کے بہ جائے '''حادثے بارے جان کر'' جیسی تراکیب اور ''بھتّا وتّا'' کو ''بھتا شتّا'' پڑھنا کچھ گراں سا گزرتا ہے۔

Cricket نامہ
مصنف:سلیم خالق
صفحات:224، قیمت:1000 روپے



فلیپ سے بچن کا آنکھ مچولی آنکھوں میں گھوم گیا کہ راشد لطیف نے بتایا کہ میرا پہلا انٹرویو سلیم خالق نے وہی کیا تھا۔ کتاب کے 'پیش لفظ' کے مطابق مصنف کچھ نیا کرنے میں کام یاب ہوئے کہ اس کتاب میں نہ صرف کرکٹ، بلکہ صحافتی رموز، رویوں سے لے کر جملہ مسائل، اور طور طریقوں کے ساتھ عام قارئین کی دل چسپی کی معلومات موجود ہیں۔

کتاب کا عنوان 'کرکٹ نامہ' ہے، لیکن یہ کتاب سفرنامہ بھی ہے، یہ سلسلہ 1997ء کے پہلے دورۂ عرب امارات سے شروع ہوتا ہے اور کینیڈا، جنوبی افریقا، انگلستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بنگلا دیش، سری لنکا اور بھارت تک دراز ہو جاتا ہے۔ تجربات اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ باری باری ہر ملک کی تاریخ اور معلومات کا احوال ہے۔ کتاب کے مندرجات 78 چھوٹے مضامین میں بٹے ہیں۔ آمدورفت سے مختلف کھلاڑیوں سے اپنے تعلقات کے نشیب وفراز اور مختلف مسائل پر اپنے تجربات ومشاہدات کے ساتھ اپنی رائے کو کہیں حتمی سمجھتے ہیں تو یقین سے کہتے ہیں اور کہیں قیاس یا گمان ہوتا ہے تو اس کی گنجائش بھی چھوڑ دیتے ہیں۔

اس میں 'کرکٹ بورڈ' کی ناراضی کا ذکر ہے کہ جب انہیں صلاح دی گئی کہ اُن کے حق میں کالم لکھ دو تو بات بن سکتی ہے۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ 'میڈیا باکس' میں نہ سہی عام نشستوں سے ہی نامہ نگاری کر لیں گے، لیکن ایسا نہیں کریں گے۔ اسی طرح ایک مرتبہ 'متحدہ عرب امارات' میں ان کے کمرے میں 'کسی اور' کی موجودگی کا پراسرار واقعہ بھی پیش آیا، جسے انہوں نے کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ اسے آپ سلیم خالق کی 23 سالہ صحافتی تجربے کا نچوڑ اور ان کی خود نوشت کے سلسلے کی ایک کڑی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر قاری کو کرکٹ سے زیادہ شوق نہیں اور سفرنامے دل چسپی سے پڑھتے ہیں، تو یہ کتاب آپ کو کسی سفرنامے کا سا لطف دے گی۔ معیاری چکنے کاغذ پر طبع لاتعداد یادگار تصاویر سے آراستہ یہ کتاب سلیم خالق کی پچھلی سات کتابوں سے واقعی مختلف ثابت ہوگی۔n
Load Next Story