قومی کرکٹ ٹیم کا دورۂ جنوبی افریقہ شکستوں اور تنازعات کے داغ لگ گئے
قوم ہر بار سیاستدانوں اور کرکٹرز سے اچھا ہونے کی امید باندھتی ہے لیکن قوم کو خوشی کم، غم زیادہ ملتے ہیں
سیاست کاکھیل اورکرکٹ کا میدان 2 ایسے شعبے ہیں جن کے ساتھ 20 کروڑ سے زائد عوام کی دلی اور جذباتی وابستگی ہے۔
قوم ہر بار سیاستدانوں اور کرکٹرز سے سب اچھا ہونے کی امید باندھتی ہے لیکن افسوس ان کی طرف سے قوم کو خوشی کم، غم زیادہ ملتے ہیں، زیادہ دور جانے کی بات نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ جنوبی افریقہ کے دورے کو ہی دیکھ لیں، ایسے ایسے تنازعات جنم لے رہے ہیں کہ خدا کی پناہ، ہر کوئی ٹینشن میں ہے، کپتان سرفراز احمد جنوبی افریقہ کے آل راؤنڈر اینڈائل فیلکوایو پر ''نسل پرستانہ'' جملہ کسنے پر ڈپریشن میں ہیں تو امام الحق گراؤنڈ میں ہی غیر ضروری اشارہ کرکے بے چینی کا شکار ہیں، چیئرمین پی سی بی احسان مانی سرفرازاحمد پر آئی سی سی کی طرف سے بلا وجہ پابندی عائد کرنے کی وجہ سے دکھ اور کرب میں مبتلا ہیں تو سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو ورلڈکپ کیلئے کپتان کا اعلان نہ ہونے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ان ٹینشنوں نے پوری قوم کو ٹینشن میں مبتلا کر رکھا ہے، چلو مان لیتے ہیں کہ کچھ تو زخم غیروں نے دیئے ہیں جیسا کہ گرین شرٹس کا جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ٹیسٹ کے بعد ایک روزہ سیریز میں بھی شکست سے دو چار ہو جانا، لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ کچھ تنازعات اور مسئلے مسائل تو ایسے ہیں جو خود پی سی بی نے اپنے گلے ڈال رکھے ہیں، بڑے دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی ٹیمیں رواں برس انگلینڈ میں شیڈول ورلڈکپ کی تیاریوں کو آخری شکل دے رہی ہیں، ہم ابھی تک قومی ٹیم کے کپتان کا فیصلہ ہی نہیں کر سکے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کی یہ منطق بھی نرالی ہے کہ کپتان کا اعلان پی ایس ایل کے بعد ہوگا، اس طرح کی پالیسی اپنا کر بورڈ نہ صرف خود کو دھوکا دے رہا ہے بلکہ پاکستان ٹیم کیلئے بھی مسائل پیدا کر رہا ہے، ظاہر ہے جب ٹیم میں غیر یقینی صورتحال ہوگی تو ٹیم میں اچھا ہونے کے بجائے بگاڑ ہی پیدا ہوگا اور ہر کھلاڑی کپتان بننے کیلئے تگ و دو کرے گا اور نتیجہ ٹیم میں دھڑا بندی اور افراتفری کی صورت میں ہی نکلے گا۔
بلاشبہ وسیم اکرم کو دنیائے کرکٹ میں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کی ہمیشہ بڑی اہمیت ملتی ہے، ماضی کے عظیم بولر اب پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، وسیم اکرم کے مطابق ہمیں شارٹ ٹرم نہیں لانگ ٹرم کپتان چاہیے، شعیب ملک ورلڈکپ کے بعد نہیں رہیں گے لہٰذا سرفراز کو ہی کپتان رہنا چاہیے کیونکہ ورلڈکپ سر پر ہے البتہ پی سی بی کو قومی ٹیم کا نائب کپتان مقرر کرنا ہو گا۔ ظہیرعباس سمیت دوسرے کرکٹرز کا بھی یہی خیال ہے کہ ورلڈکپ میں سرفراز احمدہی کپتانی کے اصل مستحق ہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر سرفراز کپتانی نہیں کریں گے تو آپ کے پاس ٹیم کا نیا کپتان بنانے کیلئے کیا آپشن ہے، بلاشبہ شعیب ملک کی کرکٹ میں بڑی خدمات ہیں، ماضی میں بطور کپتان بھی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں، آئی سی سی کے ٹاپ آل راؤنڈرز کی کیٹگری کا بھی حصہ رہ چکے، یہ وقت وقت کی بات ہے اور شاید وہ وقت اب شعیب ملک کے پاس نہیں رہا، جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ سیریز کے چوتھے میچ میں پاکستان ٹیم میچ کیا جیتی،انہیں سر پر اٹھا لیا گیا، بعد میں وہی ٹیم اگلے ہی میچ میں شعیب ملک ہی کی قیادت میں دھڑام سے نیچے بھی آن گری اور سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔
جنوبی افریقہ میں پاکستان ٹیم کی ٹیسٹ اور ایک روزہ سیریز کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ٹیم کے بیشتر کھلاڑی انفرادی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہیں، ہر پلیئر کی یہی کوشش ہے کہ اتنے رنز یا وکٹیں لے لے کہ ٹیم میں اگلے دو، تین میچوں میں جگہ پکی رہے، یہ وہی کھیل ہے جو ٹیم میں موجود کھلاڑی عرصہ دراز سے کھیلتے آ رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی ٹیم کی فتح کے لئے نہیں کھیل رہا، بلاشبہ امام الحق نے ایک روزہ سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنائے، ان کی کارکردگی بھی ساتھی بیٹسمینوں کے برعکس بہت جاندار اور شاندار رہی لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ سنچری بنانے کے بعد گراؤنڈ میں ہی کھڑے ہو کر اشارے کرنے کی بجائے کچھ ایسا کر جاتے کہ ساتھی اور آنے والے پلیئرز کیلئے مثال بن جاتے۔ عمراکمل کرکٹ کا ایک ایسا ستارہ تھا جو آتے ہی چھا گیا۔
7اگست 2009 کو اپنے کیریئر کے تیسرے ہی ایک روزہ میچ میں انہوں نے کولمبو میں سری لنکا کے خلاف 102 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی توان کا موازنہ بھارت ویرات کوہلی کے ساتھ کیا جانے لگا، بلاشبہ عمر میں دنیا کا ممتاز بیٹسمین بننے کی تمام خوبیاں موجود تھیں تاہم مڈل آرڈر بیٹسمین نے بھی اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی بجائے غیر ضروری امور کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کردی اور آج وہی عمر اکمل 2سال سے قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن پارہا، پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کی طرف سے ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے بھی صرف اپنی ذات کیلئے کھیلنے کی روش نہ بدلی تو ان کا حال بھی عمراکمل جیسا ہوسکتا ہے۔
تاریخ شاید ہے کہ وہ کھلاڑی جنہوں نے اپنی ذات کی بجائے ٹیم کی مجموعی کارکردگی کو ترجیح دی، ان کے نام تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے، جاوید میانداد کا بھارتی چیتن شرما کو شارجہ کپ کے فائنل میں لگایا ہوا چھکا شائقین کوآج 32 سال بعد بھی یاد ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق کی ورلڈکپ 1992ء کے سیمی فائنل اور فائنل مقابلوں میں یادگار اننگز کو کرکٹ فین ابھی تک نہیں بھولے، شاہد آفریدی کی 37 گیندوں پر تیز ترین سینچری اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2009 کے سیمی فائنل میں عمدہ بیٹنگ، عبدالرزاق کی جنوبی افریقہ کے خلاف یو اے ای میں فتح گر اننگز کے کرکٹ کے دیوانوں میں آج بھی چرچے ہیں۔ ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی اسی نظریئے کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے کہ وہ ایسی کارکردگی دکھائیں جس میں ان کی ذات کے بجائے پاکستان ٹیم کا فائدہ ہو۔
پاکستان ٹیم کے جنوبی افریقہ کے دورے کے حوالے سے باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پروٹیز کے دیس میں گرین شرٹس کی یادیں زیادہ خوشگوار نہیں، ماسوائے مصباح الحق کی ٹیم کے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے سیریزجیتنے میں کامیاب رہی ، اگر غور کیا جائے تو مصباح الیون کی نسبت موجودہ ٹیم میں بیٹنگ کی بھی ورائٹی تھی اور بولنگ آپشن میں بھی بہت تنوع تھا، ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی بنیادی مشکلات بیٹنگ سے متعلق رہی تھیں تاہم شعیب ملک اور محمد حفیظ کے آنے کے بعد بیٹنگ بھی ضرور مضبوط ہوئی تھی۔ ابتدائی میچ میں کامیابی کے بعد گرین شرٹس کا ون ڈے سیریز میں پلڑا بھاری بھی دکھائی دیا لیکن سرفراز کا ایک جملہ خود ان کیلئے گھاؤ بن گیا، تیسرے میچ میں بارش نہ ہوتی تو میچ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکل سکتا تھا لیکن خراب موسم نے پاکستانی امیدوں پر پانی پھیر دیا، چوتھے میچ میں شعیب ملک کی قیادت میں ٹیم یکطرفہ میچ جیتی تو سیریز جیتنے کی امید ضرور پیدا ہوئی لیکن اگلے ہی میچ میں ناکامی نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کا پہلا ٹوئنٹی20 میچ میں بڑا جاندار اور سنسنی خیز رہا تاہم حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو میچ کے دوران شعیب ملک سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں جس کی وجہ سے پاکستان ٹیم مختصر طرز کی کرکٹ میں فتوحات کی درجن مکمل نہ کر سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ٹیم کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ابھی سے ورلڈکپ کی تیاریوں کیلئے حکمت عملی تیار کی جائے اور مزید وقت ضائع کئے بغیر قومی ٹیم کے کپتان کا اعلان کر دیا جائے ۔
قوم ہر بار سیاستدانوں اور کرکٹرز سے سب اچھا ہونے کی امید باندھتی ہے لیکن افسوس ان کی طرف سے قوم کو خوشی کم، غم زیادہ ملتے ہیں، زیادہ دور جانے کی بات نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ جنوبی افریقہ کے دورے کو ہی دیکھ لیں، ایسے ایسے تنازعات جنم لے رہے ہیں کہ خدا کی پناہ، ہر کوئی ٹینشن میں ہے، کپتان سرفراز احمد جنوبی افریقہ کے آل راؤنڈر اینڈائل فیلکوایو پر ''نسل پرستانہ'' جملہ کسنے پر ڈپریشن میں ہیں تو امام الحق گراؤنڈ میں ہی غیر ضروری اشارہ کرکے بے چینی کا شکار ہیں، چیئرمین پی سی بی احسان مانی سرفرازاحمد پر آئی سی سی کی طرف سے بلا وجہ پابندی عائد کرنے کی وجہ سے دکھ اور کرب میں مبتلا ہیں تو سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو ورلڈکپ کیلئے کپتان کا اعلان نہ ہونے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ان ٹینشنوں نے پوری قوم کو ٹینشن میں مبتلا کر رکھا ہے، چلو مان لیتے ہیں کہ کچھ تو زخم غیروں نے دیئے ہیں جیسا کہ گرین شرٹس کا جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ٹیسٹ کے بعد ایک روزہ سیریز میں بھی شکست سے دو چار ہو جانا، لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ کچھ تنازعات اور مسئلے مسائل تو ایسے ہیں جو خود پی سی بی نے اپنے گلے ڈال رکھے ہیں، بڑے دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی ٹیمیں رواں برس انگلینڈ میں شیڈول ورلڈکپ کی تیاریوں کو آخری شکل دے رہی ہیں، ہم ابھی تک قومی ٹیم کے کپتان کا فیصلہ ہی نہیں کر سکے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کی یہ منطق بھی نرالی ہے کہ کپتان کا اعلان پی ایس ایل کے بعد ہوگا، اس طرح کی پالیسی اپنا کر بورڈ نہ صرف خود کو دھوکا دے رہا ہے بلکہ پاکستان ٹیم کیلئے بھی مسائل پیدا کر رہا ہے، ظاہر ہے جب ٹیم میں غیر یقینی صورتحال ہوگی تو ٹیم میں اچھا ہونے کے بجائے بگاڑ ہی پیدا ہوگا اور ہر کھلاڑی کپتان بننے کیلئے تگ و دو کرے گا اور نتیجہ ٹیم میں دھڑا بندی اور افراتفری کی صورت میں ہی نکلے گا۔
بلاشبہ وسیم اکرم کو دنیائے کرکٹ میں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کی ہمیشہ بڑی اہمیت ملتی ہے، ماضی کے عظیم بولر اب پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، وسیم اکرم کے مطابق ہمیں شارٹ ٹرم نہیں لانگ ٹرم کپتان چاہیے، شعیب ملک ورلڈکپ کے بعد نہیں رہیں گے لہٰذا سرفراز کو ہی کپتان رہنا چاہیے کیونکہ ورلڈکپ سر پر ہے البتہ پی سی بی کو قومی ٹیم کا نائب کپتان مقرر کرنا ہو گا۔ ظہیرعباس سمیت دوسرے کرکٹرز کا بھی یہی خیال ہے کہ ورلڈکپ میں سرفراز احمدہی کپتانی کے اصل مستحق ہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر سرفراز کپتانی نہیں کریں گے تو آپ کے پاس ٹیم کا نیا کپتان بنانے کیلئے کیا آپشن ہے، بلاشبہ شعیب ملک کی کرکٹ میں بڑی خدمات ہیں، ماضی میں بطور کپتان بھی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں، آئی سی سی کے ٹاپ آل راؤنڈرز کی کیٹگری کا بھی حصہ رہ چکے، یہ وقت وقت کی بات ہے اور شاید وہ وقت اب شعیب ملک کے پاس نہیں رہا، جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ سیریز کے چوتھے میچ میں پاکستان ٹیم میچ کیا جیتی،انہیں سر پر اٹھا لیا گیا، بعد میں وہی ٹیم اگلے ہی میچ میں شعیب ملک ہی کی قیادت میں دھڑام سے نیچے بھی آن گری اور سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔
جنوبی افریقہ میں پاکستان ٹیم کی ٹیسٹ اور ایک روزہ سیریز کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ٹیم کے بیشتر کھلاڑی انفرادی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہیں، ہر پلیئر کی یہی کوشش ہے کہ اتنے رنز یا وکٹیں لے لے کہ ٹیم میں اگلے دو، تین میچوں میں جگہ پکی رہے، یہ وہی کھیل ہے جو ٹیم میں موجود کھلاڑی عرصہ دراز سے کھیلتے آ رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی ٹیم کی فتح کے لئے نہیں کھیل رہا، بلاشبہ امام الحق نے ایک روزہ سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنائے، ان کی کارکردگی بھی ساتھی بیٹسمینوں کے برعکس بہت جاندار اور شاندار رہی لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ سنچری بنانے کے بعد گراؤنڈ میں ہی کھڑے ہو کر اشارے کرنے کی بجائے کچھ ایسا کر جاتے کہ ساتھی اور آنے والے پلیئرز کیلئے مثال بن جاتے۔ عمراکمل کرکٹ کا ایک ایسا ستارہ تھا جو آتے ہی چھا گیا۔
7اگست 2009 کو اپنے کیریئر کے تیسرے ہی ایک روزہ میچ میں انہوں نے کولمبو میں سری لنکا کے خلاف 102 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی توان کا موازنہ بھارت ویرات کوہلی کے ساتھ کیا جانے لگا، بلاشبہ عمر میں دنیا کا ممتاز بیٹسمین بننے کی تمام خوبیاں موجود تھیں تاہم مڈل آرڈر بیٹسمین نے بھی اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی بجائے غیر ضروری امور کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کردی اور آج وہی عمر اکمل 2سال سے قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن پارہا، پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کی طرف سے ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے بھی صرف اپنی ذات کیلئے کھیلنے کی روش نہ بدلی تو ان کا حال بھی عمراکمل جیسا ہوسکتا ہے۔
تاریخ شاید ہے کہ وہ کھلاڑی جنہوں نے اپنی ذات کی بجائے ٹیم کی مجموعی کارکردگی کو ترجیح دی، ان کے نام تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے، جاوید میانداد کا بھارتی چیتن شرما کو شارجہ کپ کے فائنل میں لگایا ہوا چھکا شائقین کوآج 32 سال بعد بھی یاد ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق کی ورلڈکپ 1992ء کے سیمی فائنل اور فائنل مقابلوں میں یادگار اننگز کو کرکٹ فین ابھی تک نہیں بھولے، شاہد آفریدی کی 37 گیندوں پر تیز ترین سینچری اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2009 کے سیمی فائنل میں عمدہ بیٹنگ، عبدالرزاق کی جنوبی افریقہ کے خلاف یو اے ای میں فتح گر اننگز کے کرکٹ کے دیوانوں میں آج بھی چرچے ہیں۔ ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی اسی نظریئے کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے کہ وہ ایسی کارکردگی دکھائیں جس میں ان کی ذات کے بجائے پاکستان ٹیم کا فائدہ ہو۔
پاکستان ٹیم کے جنوبی افریقہ کے دورے کے حوالے سے باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پروٹیز کے دیس میں گرین شرٹس کی یادیں زیادہ خوشگوار نہیں، ماسوائے مصباح الحق کی ٹیم کے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے سیریزجیتنے میں کامیاب رہی ، اگر غور کیا جائے تو مصباح الیون کی نسبت موجودہ ٹیم میں بیٹنگ کی بھی ورائٹی تھی اور بولنگ آپشن میں بھی بہت تنوع تھا، ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی بنیادی مشکلات بیٹنگ سے متعلق رہی تھیں تاہم شعیب ملک اور محمد حفیظ کے آنے کے بعد بیٹنگ بھی ضرور مضبوط ہوئی تھی۔ ابتدائی میچ میں کامیابی کے بعد گرین شرٹس کا ون ڈے سیریز میں پلڑا بھاری بھی دکھائی دیا لیکن سرفراز کا ایک جملہ خود ان کیلئے گھاؤ بن گیا، تیسرے میچ میں بارش نہ ہوتی تو میچ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکل سکتا تھا لیکن خراب موسم نے پاکستانی امیدوں پر پانی پھیر دیا، چوتھے میچ میں شعیب ملک کی قیادت میں ٹیم یکطرفہ میچ جیتی تو سیریز جیتنے کی امید ضرور پیدا ہوئی لیکن اگلے ہی میچ میں ناکامی نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کا پہلا ٹوئنٹی20 میچ میں بڑا جاندار اور سنسنی خیز رہا تاہم حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو میچ کے دوران شعیب ملک سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں جس کی وجہ سے پاکستان ٹیم مختصر طرز کی کرکٹ میں فتوحات کی درجن مکمل نہ کر سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ٹیم کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ابھی سے ورلڈکپ کی تیاریوں کیلئے حکمت عملی تیار کی جائے اور مزید وقت ضائع کئے بغیر قومی ٹیم کے کپتان کا اعلان کر دیا جائے ۔