چوہدری نثار کی آمد امن کے لیے وفاق کی ایک کوشش

صدارتی انتخابات کے بعد گورنر سندھ کی تبدیلی کا اعلان

پے درپے واقعات میں رینجرز کی جانب سے شہریوں کی ہلاکت سے ایک بار پھر شہر میں رینجرز کی موجودگی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں فوٹو : فائل

گزشتہ ہفتے شہر قائد میں امن وامان کی خرابی ایک نئی صورت حال اختیار کرگئی۔

پے درپے واقعات میں رینجرز کی جانب سے شہریوں کی ہلاکت سے ایک بار پھر شہر میں رینجرز کی موجودگی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں، جو 1989ء سے کراچی میں موجود ہے۔ پہلا واقعہ گلستان جوہر میں پیش آیا جہاں نہ رکنے کے ''جرم'' میں ٹیکسی ڈرائیور مراد کو موقع پر گولیاں مار دی گئیں۔ مقتول کے ساتھ موجود اس کا معصوم بیٹا معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔ دوسری طرف رینجرزکے ہاتھوں گرفتار ہونے والا ایک ملزم بلال بھی مبینہ طور پر رینجرز کے تشدد سے جان سے گیا۔ ہلاکت کے وقت ملزم پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا، اس لیے اس واقعے کی ذمہ داری پولیس اور رینجرز ایک دوسرے پر عاید کر رہے ہیں۔

شہر کی تاریخ میں ماورائے عدالت قتل اور بے گناہوں کو یوں قتل کیے جانے کے واقعات نئے نہیں۔ اس تمام تر صورت حال کے باوجود حکومت سندھ رینجرز کی موجودگی پر مُصر ہے اور اسے امن کے لیے ضروری خیال کرتی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کہتے ہیں کہ چند اہل کاروں کی ذمہ داری سب پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

نئی حکومت کے قیام کے ڈیڑھ ماہ کے بعد بالآخر وفاقی حکومت کے نمایندے کی حیثیت سے وفاقی زیر داخلہ چوہدری نثار نے شہر قائد کا رخ کر ہی لیا۔ اس موقع پر انہوں نے گورنر اور وزیر اعلا سندھ و دیگر انتظامی اور سیاسی عمائدین سے ملاقات کی اور امن وامان کے حوالے سے بہتری کی امیدیں دلائیں کہ ہم شہر کی حالت پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن کے علاوہ ان کی کراچی آمد کا ایک مقصد صدارتی انتخاب کے لیے فنکشنل لیگ کی حمایت لینا تھا۔ اب یہ تووقت بتائے گا کہ امن کو ترسے شہر کو وزیر داخلہ کا یہ دورہ کب اور کس قدر بہتری دینے میں کام یاب ہوتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو لندن میں پیپلزپارٹی کے نائب صدر، سینیٹر عبدالرحمن ملک کی جانب سے ملاقات میں ایک بار پھر حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے، جب کہ متحدہ پہلے ہی حکومت میں شمولیت کے فیصلے کو عوامی ریفرنڈم کے فیصلے سے نتھی کر چکی ہے، جس کے نتائج ابھی تک التوا کا شکا رہیں۔ اس کے ساتھ لندن میں ہی عمران خان بھی ایک بار پھر متحدہ کے خلاف سیاسی محاذ گرمانے لگے ہیں۔

یوں تو وہ اپنے طبی معائنے کے واسطے وہاں موجود ہیں، لیکن انہوں نے 12 مئی کے واقعات اور اپنی راہ نما زہرہ شاہد کے قتل کی ذمہ دار برطانوی حکومت کو قرار دے کر اپنے عزائم واضح کردیے ہیں، انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت اپنے شہریوں کو پاکستان میں تشددسے روکے۔ متحدہ نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور متحدہ کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے عندیہ دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف پانچ ارب روپے ہرجانے اور معافی کا دعوا داخل کرایا جائے گا۔


دوسری طرف رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے لندن میں جاری تفتیش کے حوالے سے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں۔ اس حوالے سے اگر عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تو متحدہ خندہ پیشانی سے عدالتوں کا سامنا کرے گی۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم محض ایک ہفتے کے اعلان پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ 1979ء کا بلدیاتی نظام آئین سے متصادم ہے۔ اس لیے ہم اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔

رابطہ کمیٹی کے رکن واسع جلیل نے کراچی ائیرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی بی سی کی رپورٹ پر قانونی ٹیم جائزہ لے رہی ہے، اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے رضا ہارون اور ان کی اہلیہ بشریٰ رضا اور ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ عمران کی پولیس حراست کی خبروں کی سختی سے تردید کی۔

لیاری کی صورت حال دیکھی جائے تو کچھی برادری کی نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اگرچہ نئی پیش رفت کے مطابق جسقم کے راہ نما ڈاکٹر نیاز کالانی نے لیاری میںکچھی رابطہ کمیٹی اور پیپلزامن کمیٹی میں ایک بار پھر مفاہمت کرائی ہے۔ اس کے ساتھ لیاری کے مسئلے پر جیے سندھ محاذ کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو، سابق اسپیکر سندھ اسمبلی عبداللہ حسین ہارون، سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی جلال محمود شاہ، جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو، ڈاکٹر صفدر سرکی، مہتاب اکبر راشدی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

شرکا کا کہنا تھا کہ کچھی عوام کا قتل عام کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ لیاری میں رہایش پذیر قدیم کچھی سندھیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور فوری طور پر بے گھر افراد کی آباد کاری کے لیے اقدام کیے جائیں۔

صدراتی انتخاب کے لیے نواز لیگی امیدوار کے حوالے سے قیاس آرائیاں تقریباً ختم ہوچکی ہیں اور اب سابق گورنر سندھ ممنون حسین کا نام تقریباً حتمی ہو چکا ہے، جس کا باضابطہ اعلان ہونا باقی ہے۔ امیدواروں کی آخری دوڑ میں پہلے ممتازبھٹو اور غوث علی شاہ کے نام باہر ہوئے اور اس کے بعد جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی، ممنون حسین اور سرتاج عزیز کے ناموں میں سے ممنون حسین کا نام کام یابی کے مراحل طے کر رہا ہے۔

جسٹس (ر) سعید الزماں 2008ء کے صدارتی انتخاب میں نواز لیگ کے امیدوار تھے، تاہم اس وقت پیپلزپارٹی منتخب ایوانوں میں اکثریت کے بل پر اپنا صدر لانے میں کام یاب ہوچکی تھی اور اب تقریباً یہی صورت حال نواز لیگ کی ہے، تاہم ممنون حسین کے انتخاب کے حوالے سے شہری سندھ کے حلقے خوش گوار حیرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا اہم معاملہ اب گورنر سندھ کا ہے۔ رواں ہفتے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت سے ملاقات ضروری کی، لیکن اسی دوران نواز لیگ سندھ کے جنرل سیکریٹری سلیم ضیا نے واضح کر دیا کہ صدارتی انتخابات کے بعد اگر گورنر سندھ مستعفی نہ ہوئے تو ہم خود انہیں ہٹا دیں گے۔

اگر ممنون حسین صدر مملکت بن جاتے ہیں تو پھر ظاہر ہے گورنر کے عہدے کے لیے ممتازبھٹو اور غوث علی شاہ کے نام زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ سندھ میں موجود روایت کے مطابق گورنر یا وزیراعلا میں سے ایک عہدہ سندھی جب کہ ایک مہاجر کے پاس ہوتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اس اصول کے تحت گورنر کے لیے اردو بولنے والی شخصیت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ممنون حسین اس حوالے سے مضبوط امیدوار تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گورنر سندھ کے بہ جائے صدرمملکت کاعہدہ مہاجر شخصیت کو دے کر شہری سندھ کے حلقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔
Load Next Story