بدامنی کی ملک گیر تدفین ناگزیر
سندھ حکومت کو کراچی میں امن و امان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ دے دیا ہے، چوہدری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو کراچی میں امن و امان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ دے دیا ہے، کراچی کو ڈھیلے ڈھالے انداز سے نہیں چلایاجا سکتا ، ٹارگٹڈ یا لمیٹڈ ایکشن ، سیاست کو بالائے طاق رکھنا ہو گا ، وفاقی اور صوبائی حکومت کو ملکر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا ، وزیر داخلہ امن و امان کے حوالے سے اہم دورے پر پیر کو کراچی پہنچے جہاں انھوں نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ہمراہ اجلاس کی صدارت کی۔قبل ازیں انھوں نے قائم علی شاہ کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات بھی کی۔
وفاقی وزیر داخلہ کی منی پاکستان آمد کافیصلہ مستحسن ، بروقت اور اہمیت کا حامل ہے ، اس کی ضرورت اس وجہ سے بھی تھی کہ عوام حالات سے مایوس ہیں، قتل وغارت کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بدامنی، دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اورنوگوایریاز کی لعنت شہر قائد پر بلاؤں کی طرح مسلط ہوچکی ہے جس کے باعث پاکستان کے معاشی حب میں زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے ، سماجی اور اقتصادی صورتحال ہولناکی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ملکی خزانے اور صنعتی و تجارتی اداروںکو کھربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے، لوڈشیڈنگ نے معمولات زندگی برباد اور صنعتی ترقی کا پہیہ جام کردیا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر سے سرمایہ اور صنعتی یونٹس منتقل ہورہے ہیں ۔ادارہ جاتی اضمحلال اس درجہ کا ہے کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے عید کی خوشیاں ماند پڑچکی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ منی پاکستان سے پورے ملک کے لاکھوںمحنت کش خاندان معاشی ،سماجی اور کاروباری اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں ،ان کا جینا مرنا اس دھرتی کے ساتھ ہے۔ کراچی میں بدامنی کے اثرات ملک گیر ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کوجس بحران کا سامنا ہے وہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ روشنیوں کے شہر میں اندھیرا اور بازاروںمیں سر شام سناٹا چھا جاتا ہے ، اسٹریٹ کرمنلز افطار کے فوراً بعد سرگرم عمل ہوجاتے ہیں، رہزنی اور لوٹ مارعروج پر ہے ۔
کیا یہ سب کچھ کسی جمہوری حکومت اور ریاستی نظام کی طاقت کو چیلنج کرنے سے کم کوئی مسئلہ ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اپنی میعاد پوری کرگئی مگر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلرز کو ٹھکانے نہیں لگا سکی ۔ مبصرین کی واضح رائے ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کراچی کو اتنی بڑی انارکی ،طوائف الملوکی ، انتظامی ہزیمت اور بدامنی سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کے ذمے دارملک دشمن عناصر کو روکا جائے ورنہ ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی داخلی و عالمی سازشوںسے پاکستان کی سالمیت تک خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔
افسوس ہے کہ ابھی تک ارباب اختیار اس بات کا پتا نہیں چلا سکے کہ دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے عذاب کہاں سے بلاؤں کی صورت کراچی پر نازل ہوگئے ہیں ۔سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس میں تشدد ، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگزکے خاتمے کے لیے اپنا روڈ میپ پہلے ہی دے چکی ہے، اب نئی حکومت نے بھی امن کے لیے اپنا روڈ میپ دے دیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کو کب امن نصیب ہوگا۔ عدالتی فیصلے آچکے ہیں ، بلوچستان کی صورتحال کی سنگینی کے حوالہ سے بھی عدالت عظمیٰ اپنا حکم دے چکی ہے ، اس لیے تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
دہشت گردی کی ملک گیر تدفین کا وقت آجانا چاہیے۔نو گو ایریاز ختم اور گینگ وار جیسے نا پسندیدہ عمل کا خاتمہ کیجیے ۔ عوام سکون ، دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔اس وقت دردناک حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خاتمہ کے لیے بلند بانگ دعوے تو کیے گئے ، تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ،طالبان کی کراچی میں دخل اندازی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں نے کراچی کو میدان جنگ میں بدل دیا اور یہاں جنگل کا قانون رائج ہوگیا۔وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو مکمل سپورٹ فراہم کرے گی، ڈھیلے ڈھالے انداز میں کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ماحول سازگار ملے تو کراچی میں جلد امن قائم ہو سکتا ہے۔
بالکل درست فرمایا ۔ کریک ڈاؤن کی پالیسی آہنی ہونی چاہیے تاکہ کوئی بچ کر نہ جا سکے۔مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ملنی چاہیے نہ ملی تو پھر قوم بربادی کا کیا صرف تماشا دیکھتی رہے گی جو وہ اب تک دیکھتی آرہی ہے ۔اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔امن کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مکالمہ ہونا چاہیے۔کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا ایک اہم نکتہ کراچی میںامن کا قیام ہونا چاہیے کیونکہ پر تشددکارروائیوں ، مار دھاڑ کی ظالمانہ وارداتوں ،ڈکیتیوں ، اسٹیک ہولڈرز کی باہمی ناچاقیوں، بدگمانیوِںاور سیاسی رقابتوں کی وجہ سے کراچی کا سیاسی چہرہ بری طرح مسخ ہوا ہے ۔ ابھی تک سیاسی جماعتوں میں الزام تراشی اور کشیدگی کا بازار گرم ہے اسے ٹھنڈا ہونے دیں ۔
روداری اور تحمل کا مظاہرہ کیے بغیر کراچی آتش فشاں ہی رہے گا جب کہ امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیاسی شراکت داروں کو کشادہ دلی ، وژن اور دور اندیشی کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی میں سب کا مفاد ہے۔ ن لیگ کے رہنما عابد شیرعلی نے کہا ہے کہ کراچی میں امن کا قیام سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ پیپلزپارٹی اورایم کیو ایم پچھلے 6 سال سے حکومت میںہیں اب یہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں ، ادھر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے کہا ہے کہ عمران خان سندھ کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ ہم نے وزیرداخلہ نثار علی کو کراچی کے حالات پر مکمل بریفنگ دی ہے، وہ ہماری بریفنگ اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مطمئن تھے۔
لیاری سے جانے والے 80 فی صد کچھی واپس آچکے ہیں۔ لیاری میں تیسری طاقت پیرجمانے کی کوشش کررہی ہے، اس کے بارے میں بھی ہم وزیرداخلہ کو بتا دیا ہے ۔ بدقسمتی سے کراچی میں بہت سے فیکٹر موجود ہیں۔ کراچی میں سارے پاکستان کے دہشتگرد موجود ہیں ۔ ایم کیوایم کے رہنما نبیل گبول نے کہا کہ لیاری میں پیسے کی لڑائی ہے ، وفاق کو چاہیے کہ وہ اپنے اداروں کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پولیس کو ایک سو چالیس ملین روپے کی لاگت کا جی ایس ایم لوکیٹر دیا گیا ہے،جس سے مشتبہ موبائل فونز کا سراغ لگایا جاسکے گا۔چوہدری نثار کی گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات اور رینجرز ہیڈکوارٹرز کے دورہ میں ڈی جی رینجرز کی کراچی میں امن و امان کے حوالے سے بریفنگ نتیجہ خیز ہونی چاہیے ۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ چوہدری نثار نے سندھ میں گورنر راج کے امکان کو رد کیا،ان کی طرف سے اظہار حیرت کے بعد اس موضوع پر افواہیں اڑانا مناسب نہیں۔ سندھ میں گورنرراج کی باتیں کون کر رہا ہے، اس راز کو بھی حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کی بھی تردید کرکے اچھا تاثر قائم کیا کہ سندھ کو ایک ماہ کی مہلت دینے کی بات انھوں نے کبھی نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ منی پاکستان مین تشدد کی جڑیں گہری ہوچکی ہیں، جرائم پیشہ عناصر اور نان اسٹیٹ ایکٹرز نے اپنی اپنی متوازی ریاستیںقائم کررکھی ہیں، کچھیون کی حالیہ نقل مکانی میں تیسری قوت کا واویلا کیا جارہا ہے ۔ضرورت ایک مشترکہ اور مربوط کریک ڈاؤن کی ہے جسے کسی قسم کی سیاسی مصلحت اورامتیاز کے بغیر شروع کیا جائے۔پھر دیکھیے امن قائم ہوتا ہے یا نہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کی منی پاکستان آمد کافیصلہ مستحسن ، بروقت اور اہمیت کا حامل ہے ، اس کی ضرورت اس وجہ سے بھی تھی کہ عوام حالات سے مایوس ہیں، قتل وغارت کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بدامنی، دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اورنوگوایریاز کی لعنت شہر قائد پر بلاؤں کی طرح مسلط ہوچکی ہے جس کے باعث پاکستان کے معاشی حب میں زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے ، سماجی اور اقتصادی صورتحال ہولناکی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ملکی خزانے اور صنعتی و تجارتی اداروںکو کھربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے، لوڈشیڈنگ نے معمولات زندگی برباد اور صنعتی ترقی کا پہیہ جام کردیا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر سے سرمایہ اور صنعتی یونٹس منتقل ہورہے ہیں ۔ادارہ جاتی اضمحلال اس درجہ کا ہے کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے عید کی خوشیاں ماند پڑچکی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ منی پاکستان سے پورے ملک کے لاکھوںمحنت کش خاندان معاشی ،سماجی اور کاروباری اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں ،ان کا جینا مرنا اس دھرتی کے ساتھ ہے۔ کراچی میں بدامنی کے اثرات ملک گیر ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کوجس بحران کا سامنا ہے وہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ روشنیوں کے شہر میں اندھیرا اور بازاروںمیں سر شام سناٹا چھا جاتا ہے ، اسٹریٹ کرمنلز افطار کے فوراً بعد سرگرم عمل ہوجاتے ہیں، رہزنی اور لوٹ مارعروج پر ہے ۔
کیا یہ سب کچھ کسی جمہوری حکومت اور ریاستی نظام کی طاقت کو چیلنج کرنے سے کم کوئی مسئلہ ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اپنی میعاد پوری کرگئی مگر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلرز کو ٹھکانے نہیں لگا سکی ۔ مبصرین کی واضح رائے ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کراچی کو اتنی بڑی انارکی ،طوائف الملوکی ، انتظامی ہزیمت اور بدامنی سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کے ذمے دارملک دشمن عناصر کو روکا جائے ورنہ ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی داخلی و عالمی سازشوںسے پاکستان کی سالمیت تک خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔
افسوس ہے کہ ابھی تک ارباب اختیار اس بات کا پتا نہیں چلا سکے کہ دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے عذاب کہاں سے بلاؤں کی صورت کراچی پر نازل ہوگئے ہیں ۔سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس میں تشدد ، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگزکے خاتمے کے لیے اپنا روڈ میپ پہلے ہی دے چکی ہے، اب نئی حکومت نے بھی امن کے لیے اپنا روڈ میپ دے دیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کو کب امن نصیب ہوگا۔ عدالتی فیصلے آچکے ہیں ، بلوچستان کی صورتحال کی سنگینی کے حوالہ سے بھی عدالت عظمیٰ اپنا حکم دے چکی ہے ، اس لیے تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔
دہشت گردی کی ملک گیر تدفین کا وقت آجانا چاہیے۔نو گو ایریاز ختم اور گینگ وار جیسے نا پسندیدہ عمل کا خاتمہ کیجیے ۔ عوام سکون ، دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔اس وقت دردناک حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خاتمہ کے لیے بلند بانگ دعوے تو کیے گئے ، تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ،طالبان کی کراچی میں دخل اندازی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں نے کراچی کو میدان جنگ میں بدل دیا اور یہاں جنگل کا قانون رائج ہوگیا۔وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو مکمل سپورٹ فراہم کرے گی، ڈھیلے ڈھالے انداز میں کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ماحول سازگار ملے تو کراچی میں جلد امن قائم ہو سکتا ہے۔
بالکل درست فرمایا ۔ کریک ڈاؤن کی پالیسی آہنی ہونی چاہیے تاکہ کوئی بچ کر نہ جا سکے۔مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ملنی چاہیے نہ ملی تو پھر قوم بربادی کا کیا صرف تماشا دیکھتی رہے گی جو وہ اب تک دیکھتی آرہی ہے ۔اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔امن کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مکالمہ ہونا چاہیے۔کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا ایک اہم نکتہ کراچی میںامن کا قیام ہونا چاہیے کیونکہ پر تشددکارروائیوں ، مار دھاڑ کی ظالمانہ وارداتوں ،ڈکیتیوں ، اسٹیک ہولڈرز کی باہمی ناچاقیوں، بدگمانیوِںاور سیاسی رقابتوں کی وجہ سے کراچی کا سیاسی چہرہ بری طرح مسخ ہوا ہے ۔ ابھی تک سیاسی جماعتوں میں الزام تراشی اور کشیدگی کا بازار گرم ہے اسے ٹھنڈا ہونے دیں ۔
روداری اور تحمل کا مظاہرہ کیے بغیر کراچی آتش فشاں ہی رہے گا جب کہ امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیاسی شراکت داروں کو کشادہ دلی ، وژن اور دور اندیشی کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی میں سب کا مفاد ہے۔ ن لیگ کے رہنما عابد شیرعلی نے کہا ہے کہ کراچی میں امن کا قیام سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ پیپلزپارٹی اورایم کیو ایم پچھلے 6 سال سے حکومت میںہیں اب یہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں ، ادھر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے کہا ہے کہ عمران خان سندھ کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ ہم نے وزیرداخلہ نثار علی کو کراچی کے حالات پر مکمل بریفنگ دی ہے، وہ ہماری بریفنگ اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مطمئن تھے۔
لیاری سے جانے والے 80 فی صد کچھی واپس آچکے ہیں۔ لیاری میں تیسری طاقت پیرجمانے کی کوشش کررہی ہے، اس کے بارے میں بھی ہم وزیرداخلہ کو بتا دیا ہے ۔ بدقسمتی سے کراچی میں بہت سے فیکٹر موجود ہیں۔ کراچی میں سارے پاکستان کے دہشتگرد موجود ہیں ۔ ایم کیوایم کے رہنما نبیل گبول نے کہا کہ لیاری میں پیسے کی لڑائی ہے ، وفاق کو چاہیے کہ وہ اپنے اداروں کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پولیس کو ایک سو چالیس ملین روپے کی لاگت کا جی ایس ایم لوکیٹر دیا گیا ہے،جس سے مشتبہ موبائل فونز کا سراغ لگایا جاسکے گا۔چوہدری نثار کی گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات اور رینجرز ہیڈکوارٹرز کے دورہ میں ڈی جی رینجرز کی کراچی میں امن و امان کے حوالے سے بریفنگ نتیجہ خیز ہونی چاہیے ۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ چوہدری نثار نے سندھ میں گورنر راج کے امکان کو رد کیا،ان کی طرف سے اظہار حیرت کے بعد اس موضوع پر افواہیں اڑانا مناسب نہیں۔ سندھ میں گورنرراج کی باتیں کون کر رہا ہے، اس راز کو بھی حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کی بھی تردید کرکے اچھا تاثر قائم کیا کہ سندھ کو ایک ماہ کی مہلت دینے کی بات انھوں نے کبھی نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ منی پاکستان مین تشدد کی جڑیں گہری ہوچکی ہیں، جرائم پیشہ عناصر اور نان اسٹیٹ ایکٹرز نے اپنی اپنی متوازی ریاستیںقائم کررکھی ہیں، کچھیون کی حالیہ نقل مکانی میں تیسری قوت کا واویلا کیا جارہا ہے ۔ضرورت ایک مشترکہ اور مربوط کریک ڈاؤن کی ہے جسے کسی قسم کی سیاسی مصلحت اورامتیاز کے بغیر شروع کیا جائے۔پھر دیکھیے امن قائم ہوتا ہے یا نہیں۔