جب ہر روز یوم انتخاب ہو…
ریاست میں حصول اقتدار اور انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت کو سب سے بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں حکمران عوامی رائے...
لاہور:
ریاست میں حصول اقتدار اور انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت کو سب سے بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں حکمران عوامی رائے کے ذریعے ایک مخصوص مدت کے لیے ریاستی معاملات میں اختیارات حاصل کر لیتے ہیں۔ مختلف ممالک میں مختلف قسم کے جمہوری نظام رائج ہیں، کہیں یہ پارلیمانی نظام کہلاتا ہے، تو کہیں صدارتی نظام، جب کہ کہیں اس میں رہبر اعلیٰ اور شورائیت کو بھی عمل دخل حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی مدت حکومت بھی کہیں پانچ سال ہے، تو کہیں 4 سال۔ اس انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں کے لیے عام انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس دن کامیابی ہر سیاست دان کا خواب ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کی اکثر حکمت عملیوں کا مرکز و محور چنائو کا دن ہوتا ہے، جسے بعض لوگ سیاست دانوں کا یوم حساب بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس روز اقتدار میں رہنے والوں کو اپنے دور کا حساب، جب کہ اقتدار کے خواہش مندوں کو لوگوں کے اعتماد حاصل کرنے کا ایک موقع ملتا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جمہوری نظام نہایت کمزور رہا ہے اور یہاں فوجی مداخلتوں کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ اس لیے بعض اوقات جمہوری نمایندوں پر تنقید کا مطلب جمہوریت دشمنی نکال لیا جاتا ہے۔ چاہے منتخب نمایندے انتخاب جیتنے کے ساتھ ہی اپنے حلقے اور عوام کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھیں کہ اس نے کس منشور پر ووٹ لیے۔ اب اگر وہ منتخب ہو گیا ہے تو کم سے کم اپنی زبان سے تو نہ پھر ے، لیکن عوام کو اکثر یہی شکایت رہی ہے کہ یہاں سیاست دان اقتدار ملتے ہی سارے وعدے بھول جاتے ہیں، بلکہ اپنے منشور کے نکات تک میں اگر، مگر سے کام لینے لگتے ہیں اور عوام سے جمہوریت کے نام پر مزید صبر اور قربانیوں کی بات کرتے ہیں۔ ستم یہ کہ عوام کو فراموش کرنے کے باوجود منتخب نمایندوں کے ایوان کو عوامی نمایندگی سے ہی تعبیر کیا جاتا رہا اور یہ کہا جاتا رہا کہ ہمیں اختیار ہے، ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی حاکمیت کا کیا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر پانچ یا چار سال میں عوام سے جیسے تیسے ووٹ لے لیے جائیں اور پھر ان کی منشا اور مرضی کو بالائے طاق رکھ کر من مانے فیصلے کر لیے جائیں، پھر جوں ہی دوبارہ عام انتخابات قریب آئیں تو پھر نئے وعدے اور سپنے لے کر عوام کی دہلیز پر پیشانی جھکا دی جائے اور پھر وہی نہ ختم ہونے والا سلسلہ! جمہوریت کے نام پر جمہور سے منہ موڑنے سے بڑا ظلم بھلا اور کیا ہو گا۔ پانچ سال بھی بڑی مدت ہوتی ہے اور انتخابات میں ''لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا'' کا سا معاملہ ہوتا ہے۔ عوام بھی آزمائے ہوئے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں اور الفاظ کے الٹ پھیر میں آ کر بھول جاتے ہیں کہ ان کے اقتدار کے پہلے کے وعدے کس طرح فراموش کیے گئے تھے۔ نتیجتاً وہی لوگ دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں اور عوام گویا سادہ لفظوں میں بے وقوف بن جاتے ہیں۔ چنائو کے لیے اچھے امیدوار کا فیصلہ کرتے ہوئے بھی اکثر لوگوں کا ووٹ کسی اچھے کو تلاش کرنے میں ناکامی پر دستیاب امیدواروں میں ہی سب سے ''کم برے'' کو پڑتا ہے کہ چلو کم سے کم یہ ''بہتر'' ہے، پھر بہتر کے چکر میں بہت جلد اس ''کم برے'' سے بھی مایوسی ہو جاتی ہے اور پھر پورے پانچ سال کے لیے پچھتاوا مقدر بن جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام میں اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ جس کے ذریعے ارکان پارلیمان ہر وقت اور ہر لمحہ کسی بھی طرح اپنے حلقے کے لوگوں کی بات کو رد نہ کر سکیں۔ نا کہ عام انتخابات کا انتظار کیا جائے، جس میں بھی ووٹ لینے کے لیے سودے بازی کی جاتی ہے۔ عوام ووٹ دینے کے لیے وقتی طور پر اپنی کچھ باتیں منوا لیتے ہیں اور امیدوار صرف ووٹ کی خاطر ان کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے اور ووٹ لینے کے بعد ''تو کون اور میں کون'' والا سا معاملہ ہو جاتا ہے۔
منتخب ایوان میں جانے والے ایسے نمایندوں کو ہر لمحہ عوام کی رضا و رغبت سے جوڑے رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ جب ہر روز یوم انتخاب ہو۔۔۔! یعنی عوام کو ہر وقت اپنے نمایندے چننے کا اختیار حاصل ہو جائے۔ کوئی ایسا نظام بنایا جائے، جس میں ہر نمایندے کی نمایندگی تغیر پذیر رہے۔ جس میں عوام کا ووٹ ہر لمحہ زندہ اور متحرک رہے۔ بالفرض ایک حلقے میں 4 امیدوار موجود ہیں۔ امیدوار نمبر ایک اکثریت کا اعتماد حاصل کر کے مقننّہ میں پہنچ جاتا ہے، لیکن وہ عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا تو اس کا خمیازہ اسے اسی وقت عوامی نمایندگی سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا اور عوام کسی بھی وقت اپنا ووٹ بدل کر اپنے حلقے کے کسی دوسرے امیدوار کے حق میں کر دیں گے۔ یوں حلقے میں نامزد کوئی دوسرا امیدوار منتخب ہو جائے گا، اس طرح سے کم سے کم جمہوریت کے نام پر دھوکوں کا سلسلہ تھم سکے گا اور صحیح معنوں میں عوام کی حاکمیت کا آغاز ہوگا۔
اس نظام میں عوام بذریعہ موبائل، ای میل یا مختلف انتخابی مراکز کے ذریعے اپنے متحرک ووٹ کو بدل سکیں گے۔ جوں ہی وہ ان کی خواہشات کے خلاف جانے لگے وہ اسی وقت یہ اختیار رکھیں گے کہ اپنا ووٹ کسی دوسرے نمایندے کے حق میں کر دیں۔ اس طرح منتخب نمایندے ہر قدم پر اپنے حلقے کے عوام کو ذہن میں رکھیں گے۔ اس نظام کے ذریعے عوام ہر پانچ برس بعد انتخاب اور پھر وعدے پورے نہ کیے جانے پر پھر پانچ سال کے انتظار کی کوفت سے دور ہو جائیں گے۔ یہی نظام ہی حقیقی جمہوریت ثابت ہو گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 71 فیصد پاکستانیوں کے پاس موبائل کی سہولت موجود ہے۔ لہٰذا اسے موبائل سے منسلک کرنے پر بہت بڑی تعداد بذریعہ موبائل فوری طور پر حق رائے دہی استعمال کر سکے گی۔ تاہم اب بھی بہت سے رائے دہندگان کے پاس موبائل کی سہولت نہیں ہو گی، اس لیے فی الوقت اس کا متبادل دوسرا طریقہ بھی ہونا چاہیے، جس کے ذریعے بہت آسانی سے کوئی بھی شہری کسی بھی لمحے اپنے امیدوار کے لیے اپنی رائے تبدیل کر سکے۔
متحرک ووٹوں کے نظام سے عوام پانچ سال کے بجائے ہر روز ہی اپنے حکمرانوں کے چنائو کا انقلابی اختیار حاصل کر لیں گے۔ پارلیمان ہر لمحہ عوامی امنگوں کے آگے سرنگوں رہے گی اور ہر پانچ سال بعد سبز خواب دکھا کر دھوکا دینے کا سلسلہ بھی تمام ہو گا۔ جبر اور جوڑ توڑ کے ذریعے پارلیمان اور اقتدار تک رسائی حاصل کرنے والے سیاست دان قطعی نہیں چاہیں گے کہ عوام اتنے با اختیار ہوں۔ صرف عوام کے لیے سوچنے والا کوئی رہنما یا جماعت ہی اس طریقہ انتخاب کے لیے صدا بلند کر سکتی ہے۔ متحرک ووٹ کے ذریعے جب لوگ کسی بھی وقت اپنا ووٹ تبدیل کر رہے ہوں۔ ایسے میں کوئی مخصوص مدت متعین کی جا سکتی ہے، جیسے مسلسل ایک، دو یا تین ماہ تک مسلسل عوامی اعتماد سے محرومی کے بعد اس امیدوار کی رکنیت ختم ہو جائے اور اکثریت کا حامل امیدوار اس کی جگہ لے۔
ریاست میں حصول اقتدار اور انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت کو سب سے بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں حکمران عوامی رائے کے ذریعے ایک مخصوص مدت کے لیے ریاستی معاملات میں اختیارات حاصل کر لیتے ہیں۔ مختلف ممالک میں مختلف قسم کے جمہوری نظام رائج ہیں، کہیں یہ پارلیمانی نظام کہلاتا ہے، تو کہیں صدارتی نظام، جب کہ کہیں اس میں رہبر اعلیٰ اور شورائیت کو بھی عمل دخل حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی مدت حکومت بھی کہیں پانچ سال ہے، تو کہیں 4 سال۔ اس انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں کے لیے عام انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس دن کامیابی ہر سیاست دان کا خواب ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کی اکثر حکمت عملیوں کا مرکز و محور چنائو کا دن ہوتا ہے، جسے بعض لوگ سیاست دانوں کا یوم حساب بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس روز اقتدار میں رہنے والوں کو اپنے دور کا حساب، جب کہ اقتدار کے خواہش مندوں کو لوگوں کے اعتماد حاصل کرنے کا ایک موقع ملتا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جمہوری نظام نہایت کمزور رہا ہے اور یہاں فوجی مداخلتوں کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ اس لیے بعض اوقات جمہوری نمایندوں پر تنقید کا مطلب جمہوریت دشمنی نکال لیا جاتا ہے۔ چاہے منتخب نمایندے انتخاب جیتنے کے ساتھ ہی اپنے حلقے اور عوام کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھیں کہ اس نے کس منشور پر ووٹ لیے۔ اب اگر وہ منتخب ہو گیا ہے تو کم سے کم اپنی زبان سے تو نہ پھر ے، لیکن عوام کو اکثر یہی شکایت رہی ہے کہ یہاں سیاست دان اقتدار ملتے ہی سارے وعدے بھول جاتے ہیں، بلکہ اپنے منشور کے نکات تک میں اگر، مگر سے کام لینے لگتے ہیں اور عوام سے جمہوریت کے نام پر مزید صبر اور قربانیوں کی بات کرتے ہیں۔ ستم یہ کہ عوام کو فراموش کرنے کے باوجود منتخب نمایندوں کے ایوان کو عوامی نمایندگی سے ہی تعبیر کیا جاتا رہا اور یہ کہا جاتا رہا کہ ہمیں اختیار ہے، ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی حاکمیت کا کیا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر پانچ یا چار سال میں عوام سے جیسے تیسے ووٹ لے لیے جائیں اور پھر ان کی منشا اور مرضی کو بالائے طاق رکھ کر من مانے فیصلے کر لیے جائیں، پھر جوں ہی دوبارہ عام انتخابات قریب آئیں تو پھر نئے وعدے اور سپنے لے کر عوام کی دہلیز پر پیشانی جھکا دی جائے اور پھر وہی نہ ختم ہونے والا سلسلہ! جمہوریت کے نام پر جمہور سے منہ موڑنے سے بڑا ظلم بھلا اور کیا ہو گا۔ پانچ سال بھی بڑی مدت ہوتی ہے اور انتخابات میں ''لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا'' کا سا معاملہ ہوتا ہے۔ عوام بھی آزمائے ہوئے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں اور الفاظ کے الٹ پھیر میں آ کر بھول جاتے ہیں کہ ان کے اقتدار کے پہلے کے وعدے کس طرح فراموش کیے گئے تھے۔ نتیجتاً وہی لوگ دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں اور عوام گویا سادہ لفظوں میں بے وقوف بن جاتے ہیں۔ چنائو کے لیے اچھے امیدوار کا فیصلہ کرتے ہوئے بھی اکثر لوگوں کا ووٹ کسی اچھے کو تلاش کرنے میں ناکامی پر دستیاب امیدواروں میں ہی سب سے ''کم برے'' کو پڑتا ہے کہ چلو کم سے کم یہ ''بہتر'' ہے، پھر بہتر کے چکر میں بہت جلد اس ''کم برے'' سے بھی مایوسی ہو جاتی ہے اور پھر پورے پانچ سال کے لیے پچھتاوا مقدر بن جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام میں اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ جس کے ذریعے ارکان پارلیمان ہر وقت اور ہر لمحہ کسی بھی طرح اپنے حلقے کے لوگوں کی بات کو رد نہ کر سکیں۔ نا کہ عام انتخابات کا انتظار کیا جائے، جس میں بھی ووٹ لینے کے لیے سودے بازی کی جاتی ہے۔ عوام ووٹ دینے کے لیے وقتی طور پر اپنی کچھ باتیں منوا لیتے ہیں اور امیدوار صرف ووٹ کی خاطر ان کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے اور ووٹ لینے کے بعد ''تو کون اور میں کون'' والا سا معاملہ ہو جاتا ہے۔
منتخب ایوان میں جانے والے ایسے نمایندوں کو ہر لمحہ عوام کی رضا و رغبت سے جوڑے رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ جب ہر روز یوم انتخاب ہو۔۔۔! یعنی عوام کو ہر وقت اپنے نمایندے چننے کا اختیار حاصل ہو جائے۔ کوئی ایسا نظام بنایا جائے، جس میں ہر نمایندے کی نمایندگی تغیر پذیر رہے۔ جس میں عوام کا ووٹ ہر لمحہ زندہ اور متحرک رہے۔ بالفرض ایک حلقے میں 4 امیدوار موجود ہیں۔ امیدوار نمبر ایک اکثریت کا اعتماد حاصل کر کے مقننّہ میں پہنچ جاتا ہے، لیکن وہ عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا تو اس کا خمیازہ اسے اسی وقت عوامی نمایندگی سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا اور عوام کسی بھی وقت اپنا ووٹ بدل کر اپنے حلقے کے کسی دوسرے امیدوار کے حق میں کر دیں گے۔ یوں حلقے میں نامزد کوئی دوسرا امیدوار منتخب ہو جائے گا، اس طرح سے کم سے کم جمہوریت کے نام پر دھوکوں کا سلسلہ تھم سکے گا اور صحیح معنوں میں عوام کی حاکمیت کا آغاز ہوگا۔
اس نظام میں عوام بذریعہ موبائل، ای میل یا مختلف انتخابی مراکز کے ذریعے اپنے متحرک ووٹ کو بدل سکیں گے۔ جوں ہی وہ ان کی خواہشات کے خلاف جانے لگے وہ اسی وقت یہ اختیار رکھیں گے کہ اپنا ووٹ کسی دوسرے نمایندے کے حق میں کر دیں۔ اس طرح منتخب نمایندے ہر قدم پر اپنے حلقے کے عوام کو ذہن میں رکھیں گے۔ اس نظام کے ذریعے عوام ہر پانچ برس بعد انتخاب اور پھر وعدے پورے نہ کیے جانے پر پھر پانچ سال کے انتظار کی کوفت سے دور ہو جائیں گے۔ یہی نظام ہی حقیقی جمہوریت ثابت ہو گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 71 فیصد پاکستانیوں کے پاس موبائل کی سہولت موجود ہے۔ لہٰذا اسے موبائل سے منسلک کرنے پر بہت بڑی تعداد بذریعہ موبائل فوری طور پر حق رائے دہی استعمال کر سکے گی۔ تاہم اب بھی بہت سے رائے دہندگان کے پاس موبائل کی سہولت نہیں ہو گی، اس لیے فی الوقت اس کا متبادل دوسرا طریقہ بھی ہونا چاہیے، جس کے ذریعے بہت آسانی سے کوئی بھی شہری کسی بھی لمحے اپنے امیدوار کے لیے اپنی رائے تبدیل کر سکے۔
متحرک ووٹوں کے نظام سے عوام پانچ سال کے بجائے ہر روز ہی اپنے حکمرانوں کے چنائو کا انقلابی اختیار حاصل کر لیں گے۔ پارلیمان ہر لمحہ عوامی امنگوں کے آگے سرنگوں رہے گی اور ہر پانچ سال بعد سبز خواب دکھا کر دھوکا دینے کا سلسلہ بھی تمام ہو گا۔ جبر اور جوڑ توڑ کے ذریعے پارلیمان اور اقتدار تک رسائی حاصل کرنے والے سیاست دان قطعی نہیں چاہیں گے کہ عوام اتنے با اختیار ہوں۔ صرف عوام کے لیے سوچنے والا کوئی رہنما یا جماعت ہی اس طریقہ انتخاب کے لیے صدا بلند کر سکتی ہے۔ متحرک ووٹ کے ذریعے جب لوگ کسی بھی وقت اپنا ووٹ تبدیل کر رہے ہوں۔ ایسے میں کوئی مخصوص مدت متعین کی جا سکتی ہے، جیسے مسلسل ایک، دو یا تین ماہ تک مسلسل عوامی اعتماد سے محرومی کے بعد اس امیدوار کی رکنیت ختم ہو جائے اور اکثریت کا حامل امیدوار اس کی جگہ لے۔