انگریزی سے ثقافت کا زوال

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ جناب راج ناتھ سنگھ نے پچھلے دنوں ایک عجیب بیان دے ڈالا۔ آپ نے کہا کہ...

shaikhjabir@gmail.com

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ جناب راج ناتھ سنگھ نے پچھلے دنوں ایک عجیب بیان دے ڈالا۔ آپ نے کہا کہ ''انگریزی نے ہمارے ملک اور ہماری ثقافت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔'' بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ اس جماعت کے سربراہ کا انگریزی کے بارے میں بیان اہمیت کا حامل ہے۔ اس بیان کے اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جماعت ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ یہ اپنی تہذیب کے بقا اور تحفظ پر یقین رکھتے ہیں۔ بھارت ایک قدیم معاشرتی اور تہذیبی ورثے کا حامل ملک ہے۔ گزشتہ صرف 50 برس میں بھارت کی روایتی تہذیب و ثقافت کو جتنا نقصان ہوا ہے، اتنا شاید گزشتہ 500 برس میں نہ ہوا ہو۔ ''آر ایس ایس'' کے سربراہ موہن بھگوت نے ہفتے کو بیان دیا کہ ''یہ دھوکا ہے کہ انگریزی ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔ بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے اکثر معاملات میں ایسے ہی پڑھے لکھے ملوث پائے جاتے ہیں۔'' راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ''ہم اپنی زبان کو بھولتے جا رہے ہیں۔ آج سنسکرت بولنے والا ڈھونڈے نہیں ملتا۔'' یہ وہ احساس ہے جو صرف راج ناتھ سنگھ ہی کو نہیں بھارت کے ہر اُس سوچنے سمجھنے والے کو ہے جو غلامانہ سوچ سے آزاد ہو کر کھلے دل دماغ سے سوچتا ہو۔ بغیر کسی تاثر اور تعصب کے۔

واقعہ یہ ہے کہ گورا راج سے قبل بھارت انسانی تاریخ کا امیر ترین ملک اور خوش حال ترین خطہ تھا۔ وادی مہران، موئن جو دڑو، ہڑپہ کی قدیم ترین تہذیبیں ہوں، یا گنگا جمنا کی تہذیب یہ خطہ تمام تاریخی ادوار میں ایسا رہا ہے کہ اسے بجا طور پر ''سونے کی چڑیا'' سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ معروف معاشی تاریخ دان ''اینگس میڈیسن'' اپنی کتاب ''دی ورلڈ اکانمی: اے ملینیل پرسپیکٹیو'' میں لکھتا ہے ''بھارت دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ یہ بی سی ای سے 1000 بی سی ای کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی معیشت رہا۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ تاریخ میں بار ہا ایسا بھی ہوا کہ چین معاشی طور پر بھارت سے آگے نکل گیا، لیکن بہ ہر حال بھارت اُس وقت بھی دنیا کی دوسری بڑی معیشت تو رہا ہی۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ گورا راج مسلط ہو گیا۔ بس وہاں سے بھارت کو تاراج کرنے کا جو سلسہ شروع ہوا ہے تو آج تک جاری ہے۔ مغلوں کے دور میں بھی بھارت اتنی بڑی معیشت تھا کہ تاجِ برطانیہ اس کے سامنے صرف ایک ریاست کے مانند تھی۔

جن حضرات کو دل چسپی ہو وہ تاریخی اعداد و شمار دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ مغرب کی سائنسی اور صنعتی ترقی کے پیچھے بھارت سے لُوٹی گئی دولت کار فرما ہے۔ اگر ''ایسٹ انڈیا کمپنی'' اور تاجِ برطانیہ بھارت سے وافر مقدار میں سونا اور دیگر ذخائر نہ لے کر جاتے تو آج تمام تر سائنس اور صنعت و حرفت صرف پڑھنے پڑھانے تک محدود ہوتی۔ واللہ اعلم۔ جب انگریز یہاں سے گیا تو امریکی ڈالر ایک روپے کا تھا۔ آج ڈالر کے ریٹ دیکھ لیں۔ بھارت کو دیکھ لیں۔ غربت، افلاس، بدعنوانی، تعفن، بھوک، حسرت، ہوس، ماحولیاتی بربادی، اخلاقی بدحالی، اقدار کی پائمالی غرض کون سی پستی ہے جو وہاں دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کون ہو گا جس کا دل بھر نہ آتا ہو۔ کیا بھر پور تہذیب تھی، کیا اعلا اقدار کی حامل اب تو سوائے سرمائے کی ڈنڈوت کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ کیسی زبان اور کہاں کی زبان۔ سنگھ صاحب صرف سنسکرت کو رو رہے ہیں بھارت سے تو اور بھی کئی زبانیں ختم ہو گئی ہیں۔

ایشیا میں بھارت ایسا ملک ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 400 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے کی رپورٹ میں جو زبانیں ابھی تک معلوم ہو سکیں ان کی تعداد360 ہے جن میں سے گیارہ کے قریب زبانیں مر چکی ہیں اور دیگر زبانوں کے مرنے کے بھی امکانات ہیں۔ اس ملک میں زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب کو کچلنے کا عمل تاریخ کے ہر دور میں ملتا ہے۔ جب آریہ حملہ آور قدیم سندھی تہذیب اور اس کی زبان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا سبب بنے، پھر جب شمالی ہند میں یہ حملہ آور داخل ہوئے تو مقامی آبادی کو جنوب میں دھکیلا اور وہاں کی زبانوں کو نیچ جان کر حوصلہ شکنی کی۔ بدھ مت کو طاقت کے بل پر مٹانے کے بعد انھوں نے ان کی قدیم زبان پالی کو کچلا اور سنسکرت کو دوبارہ رائج کیا۔ یہی رویہ جین دھرم اور اس کی پراکرت زبان کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں اب تک گیارہ زبانیں معدوم ہوئیں۔


بھارت کی گیارہ معدوم زبانوں میں سے نو کا تعلق جزائر ِاندمان سے ہے جب کہ دو زبانیں بھارتی سر زمین سے تعلق رکھتی ہیں۔ پالی زبان جو معدوم ہو چکی ہے اس کا سبب مذہبی دہشت گردی تھا۔ اس زبان میں بدھ مذہب کی مقدس کتابیں اور احکامات تھے لہذا برہمنیت نے اس زبان سے عناد برتا اور جب بودھ لوگوں کا نسلی قتلِ عام ہوا تو یہ لوگ بھارت کے اطراف کے ملکوں میں منتقل ہو گئے یوں یہ زبان فنا ہو گئی۔ آج سری لنکا اور برما (موجودہ میانمار) میں بودھ بھکشو یہ زبان صرف دینی تعلیم کی غرض سے سیکھتے ہیں۔ تائی اَہُم بھارت کی مشرقی ریاست آسام اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی تھی لیکن آج یہ ختم ہو چکی ہے۔ جزائر اندمان کی زبانیں جو ختم ہو گئیں ان کے نام یہ ہیں: اکابیا، اکابو، اکاکاری، اکاجیرو، اکاکیدے، اکاکول، اکاکورا، اکربالے، اوراوکو جو وائے۔

سنسکرت زبان بھی فنا ہو گئی تھی لیکن مذہبی ضروریات اور تفاخر نے اسے پھر سے زندہ کر دیا۔ یہ زبان جو کبھی دھرم شالائوں اور جوگی سنیاسیوں تک محدود ہو گئی تھی بڑی محنتوں کے بعد اس کے بولنے والوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا تھا۔ لیکن اب سنگھ صاحب کا فرمانا ہے کہ انگریزی اور مغربیت سنسکرت کو ہڑپ کرنے لگی ہیں۔ بھارت دیس میں آج بھی ہندو استعمار اپنے عروج پر ہے جس کے تحت وہاں کی تمام زبانوں کو سنسکرت کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے، اور زبانیں اپنی انفرادیت کھوتی جا رہی ہیں۔ ہندو استعمار کے تحت سنسکرت نے اردو اور دیگر زبانوں کے استحصال کی کوشش کی۔ مغربی استعمار نے سنسکرت کو نہیں بخشا۔

سنسکرت چاہنے والوں کی اولاد آج بہ خوشی مغربیت اپنا رہی ہیں۔ انگریزی زبان ہی نہیں پہناوے، کھانے، رہن سہن سب ہی مغرب زدہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ تنقید کرنے والے راج ناتھ سنگھ کے اپنے گھر کا حال بھی مختلف نہیں۔ روزنامہ ''دکن کرانیکل'' اپنی 21 جولائی اتوار کی اشاعت میں ''راج ناتھ سنگھ کے بچے انگلش و نگلش'' کے زیرِ عنوان خبر دیتا ہے کہ راج ناتھ سنگھ نے اپنے چھوٹے بیٹے ''نیراج'' کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سات سمندر پار بھیج رکھا ہے، ان کی صاحب زادی ''انامیکا'' امریکا میں کام کرتی ہیں۔ سنگھ کے بڑے صاحب زادے پنکج جو 2014کے انتخابات میں حصہ لیں گے روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔ یہ ہے سنگھ صاحب کے گھر کا حال اور وہ تنقید کرتے ہیں انگریزی بولنے والوں پر۔

زبانیں صرف مرتی ہی نہیں ماری بھی جاتی ہیں، قتل بھی ہو جاتی ہیں، انھیں مٹا دیا جاتا ہے لیکن اگر زبان بولنے والوں کو اپنی زبان سے محبت ہو تو اسے صفحۂ ہستی سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ عبرانی زبان کے مٹنے اور مٹانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ لیکن اسے زندہ کرنے کی بھی ایک سنہری تاریخ ہے جو مٹنے والی زبان بولنے والوں کو ماتم کرنے اور گریاں کناں ہونے کے بجائے حوصلے اور ہمت کی نئی کہانی سناتی ہے۔ کسی قوم اور ملت کے فرد میں اپنی زبان سے محبت کی ایک ننھی سی چنگاری بھی زندہ ہے تو یہ چنگاری کبھی بھی شعلہ بن سکتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ نام نہاد ترقی اور آزادی کی دوڑ میںہم سب اس تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ اپنی زمین، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اور اپنی زبان سے محبت کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
Load Next Story